کم عمری میں روزہ رکھنا
روزہ اسلامی عبادات کا اہم رکن ہے۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں نفس کی تہذیب، اس کی اصلاح اور قوت برداشت کی تربیت مدنظر ہوتی ہے۔ صومکے لغوی معنی رُکنے اور کوئی کام نہ کرنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں طلوع فجر صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک عبادت کی نیت سے کھانے پینے اور جماع سے رُکے رہنے کا نام صوم یا روزہ ہے۔( فقہ احمدیہ عبادات صفحہ نمبر 267)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے رمضان کے روزے ہر مسلمان عاقل وبالغ مرد و عورت پر فرض قرار دیے ہیں۔ سوائے اگر کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ ان روزوں کی گنتی دوسرے ایام میں پوری کرے کیونکہ ہمارا اللہ بہت غفور اور رحیم ہے وہ ہمارے لیے آسانیاں چاہتا ہے تنگی نہیں چاہتا۔
روزہ کا اصل مقصد تو قرب الٰہی اور تقویٰ ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ آیت نمبر 114 میں فرمایا:’’ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! تم پر روزے اسی طرح فرض کردئیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔‘‘
اس لیے ہم سب کو رمضان المبارک کے روزے ضرور رکھنے چاہئیں اور اپنی عبادات کو پہلے سے بڑھا دینا چاہیے۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ بچوں کو کم عمری میں زبردستی روزہ رکھوانا ایک غلط بات ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ جو بچے ابھی بلوغت کی عمر کے قریب بھی نہ پہنچے ہوں ان کو روزے رکھانا جبکہ انہیں ابھی صحیح معنوں میں روزوں کا مفہوم بھی معلوم نہ ہو مناسب نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’بارہ سال سے کم عمر کے بچے سے روزہ رکھوانا تو میرے نزدیک جرم ہے اور بارہ سال سے پندرہ سال کی عمر کے بچے کو اگر کوئی روزہ رکھواتاہے تو غلطی کرتا ہے۔ پندرہ سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور اٹھارہ سال کی عمر میں روزے فرض سمجھنے چاہئیں۔ …
…جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روزہ رکھنے کا شوق ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے اور بجائے اس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی بھی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر روزہ کا رعب ڈالتے تھے۔‘‘ (الفضل 11؍اپریل 1925ءصفحہ7 بحوالہ فقہ المسیح صفحہ 212-213)
حضور ؓکی اس بات سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو عبادات کے بارے میں بتائیں۔ انہیں روزوں کا مفہوم اور مقصد سمجھائیں نہ کہ کم عمری میں ان کو بھوکا پیاسا رکھ کر اُن کی جانوں پر ظلم کریں۔ بچوں کو نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ نوافل ادا کرنے اور قرآن پاک کی تلاوت اور اس کے احکامات پر عمل کرنا سکھائیں۔ جب بچے بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں تو بے شک روزے پورے رکھیں۔
بچوں کو کس عمر میں روزہ رکھنا چاہیے؟ حضرت مصلح موعوؓد تفسیر کبیر میں اس حوالے سے فرماتے ہیں:’’یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرور کرانی چاہئے۔ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بے وقوف چھ سات سال کے بچوں سے روزے رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہوگا ۔یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمر نشوونما کی ہوتی ہے۔ ہاں ایک عمرو ہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اور روزہ فرض ہونے والا ہی ہوتاہے اس وقت ان کو روزہ کی ضرور مشق کرنی چاہئے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ یا تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہئے اور ہر سال چند روزے رکھوانے چاہئیں یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہوجائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمر ہے۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی تھی۔ اس عمر میں تو صرف شوق ہوتا ہے۔ اس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگر یہ ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمر ایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہئے کہ بچوں کو جرأت دلائیں کہ وہ کچھ روزے ضرور رکھیں اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں۔ اور دیکھنے والوں کو بھی اس پر اعتراض نہ کرنا چاہئے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا تو آئندہ نہیں رکھ سکے گا۔ اسی طرح بعض بچے خلقی لحاظ سے کمزور ہو تے ہیں۔
مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں۔مَیں سمجھتا ہوں ایسے بچے روزہ کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اس کےمقابلہ میں ایک مضبوط بچہ غالبا ًپندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہو سکتا ہے لیکن اگر وہ میرے ان الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پر ظلم کرے گا اور نہ خدا تعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پر آپ ظلم کرے گا۔ اسی طرح اگر کوئی چھوٹی عمر کا بچہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ اس پر طعن کریں تو وہ اپنی جان پر ظلم کریں گے۔‘‘( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ385)
کم عمری میں روزہ رکھنے کی ممانعت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے روزے کا اصل مقصد تزکیہ نفس فرمایا ہے نہ کہ بھوکا پیاسا رہنا۔ حضور علیہ السلام بچیوں کو کم عمری میں روزہ رکھنے کی ممانعت فرماتے۔ اس ضمن میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ تحریر فرماتی ہیں:
’’قبل بلوغت کم عمری میں آپؑ روزہ رکھوانا پسند نہیں کرتے تھے۔بس ایک آدھ رکھ لیا کافی ہے۔ حضرت اماں جانؓ نے میرا پہلا روزہ رکھوا یا تو بڑی دعوت افطار دی تھی۔ یعنی جو خواتین جماعت تھیں سب کو بلایا تھا۔ اس رمضان کے بعد دوسرے یا تیسرے رمضان میں مَیں نے روزہ رکھ لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا کہ آج میرا روزہ پھرہے۔ آپؑ حجرہ میں تشریف رکھتے تھے۔ پاس سٹول پر دو پان لگے رکھے تھے۔ غالباً حضرت اماں جان ؓ بنا کر رکھ گئی ہوں گی۔ آپؑ نے ایک پان اٹھا کر مجھے دیا کہ لو یہ پان کھا لو۔ تم کمزور ہو، ابھی روزہ نہیں رکھنا۔ توڑ ڈالو روزہ۔ میں نے پان تو کھا لیا مگر آپؑ سے کہا کہ صالحہ ( یعنی ممانی جان مرحومہ چھوٹے ماموں جان کی اہلیہ محترمہ )نے بھی رکھا ہے۔ اُن کا بھی تُڑوا دیں۔ فرمایا بلاؤ اس کو ابھی۔ میں بلالائی۔ وہ آئیں تو ان کو بھی دوسرا پان اٹھا کر دیا اور فرمایا لو یہ کھا لو۔ تمہارا روزہ نہیں ہے۔ میری عمر دس سال کی ہوگی غالباً۔‘‘(تحریرات مبارکہ صفحہ 227تا228)
ان واقعات اور ارشادات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ والدین خود روزہ رکھیں اور اللہ ربّ العزت کی عبادت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور رمضان المبارک کی برکات سے فیضیاب ہوں اور بچوں کے دلوں میں رمضان المبارک میں دوسری عبادتوں کو بجالانے کی طرف توجہ دلائیں۔
اگربچے روزہ رکھنے کی ضد بھی کریں تو انہیں پیار محبت سے سمجھائیں اوران کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت، قرآن پاک کی تلاوت، نماز میں باقاعدگی، خلیفۂ وقت کی اطاعت، ان کے خطبات سننے اور ان سے محبت کرنے کا درس دیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں سے فیض یاب کرے اور ہمیں صحیح رنگ میں اپنی عبادت کرنے والا بنائے، آمین۔
٭…٭…٭