خبرنامہ
(اہم عالمی خبروں کا خلاصہ)
٭…اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اتفاق رائے سے ایک نئی قرارداد کی منظوری کے حق میں ووٹ دیا جا جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کی جانب سے ویٹو پاور کے استعمال کرنے پر انہیں جوابدہ بنانے کی جانب پہلا قدم سمجھا جا رہا ہے۔اس نئی قرارداد کے تحت 10 روز کے اندر جنرل اسمبلی میں اس صورت حال پر بحث کرنے کی ضرورت ہو گی کہ آخر کسی قرارداد کو روکنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور ویٹو پاور کا استعمال کرنے والے ملک کو اس کی وضاحت کرنی ہو گی۔ اس قرار داد کی حمایت میں متفقہ طور جنرل اسمبلی کے سبھی 193 ارکان نے ووٹ کیا اور تالیوں کی گونج کے ساتھ اسے منظور کر لیا گیا۔
واضح رہے کہ روس نے یوکرین میں اپنے خصوصی فوجی آپریشن کے حوالے سے قراردادوں کو ویٹو کر دیا تھا اور جہاں تک یوکرین پر روسی حملے کی بات ہے تواس حوالے سے مستقبل میں بھی ویٹو کے خطرات نے اقوام متحدہ کے سب سے طاقتور ادارے کو تقریباً مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ سنہ 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کے قیام سے اب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 200 سے زیادہ قراردادوں کو ویٹو کیا جا چکا ہے۔ ویٹو کی گئی قراردادوں میں کوریا کی جنگ، اسرائیل-فلسطین تنازعہ، موسمیاتی تبدیلی، ہتھیاروں سے متعلق رپورٹس اور بحر ہند کے ملک کوموروس کے ایک حصے کی حکومت جیسے بہت سے امور شامل ہیں۔
٭…میانمار میں ایک عدالت نے جمہوریت نواز اور اقتدار سے برطرف رہنما آنگ سان سوچی کو بدعنوانی کے الزامات میں بدھ کے روز قصور وار قرار دیا اور انہیں پانچ برس قید کی سزا سنائی۔ تازہ فیصلے کے بعد مشترکہ زیادہ سے زیادہ سزا کے طور پرانہیں دہائیوں تک جیل میں رہنا پڑ سکتا ہے۔ فوجی حکمرانی والے ملک کی عدالتیں جمہوریت نواز رہنما سوچی کو پہلے ہی چھ برس قید کی سزا سنا چکی ہیں۔ دیگر عدالتوں کی جانب سے اب تک سنائی گئی سزاوں کے ساتھ ملا کر قید کی سزائیں گیارہ برس ہوگئی ہے۔گزشتہ برس فروری میں ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے ہی میانمار میں افراتفری کا ماحول ہے۔ فوجی بغاوت کے نتیجے میں سوچی کو ان کے اقتدار سے ہٹادیا گیا تھا اور ان کی حکومت کو برطرف کرنے کے بعد انہیں ان کے گھر میں نظر بند کردیا گیا لیکن قصور وار قرار دیے جانے کے بعد انہیں کسی نامعلوم مقام پر قید میں رکھا گیا ہے۔ ان کے حامی مظاہرین فوجی حکومت اور فوجی کارروائیوں کی مخالفت کررہے ہیں جبکہ ان مظاہروں میں اب تک 1700سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
٭…یوکرینی سرحدی محافظین نے بحیرۂ اسود میں بہتی بارودی سرنگوں کی وجہ سے دریائے ڈینیوب کے دہانے پر کئی تجارتی بحری جہازوں کا راستہ بند کر تے ہوئے کہا کہ روس پانی میں تیرتی بارودی سرنگوں کا جال بچھا رہا ہے۔ روسی حملے کے باعث بندرگاہوں کی بندش کے بعد گزشتہ ہفتے ایزمیل اور رینی کی یوکرائنی ڈینیوب بندرگاہیں یوکرائنی اناج کی برآمدات کے لیے واحد ذریعہ تھیں۔لیکن روس کے حملے کے بعد سے یہ ٹرین کے ذریعے برآمدات کرنے پر مجبور ہیں۔ یوکرین اس سے قبل روسی فیڈریشن پر الزام لگا چکا ہے کہ وہ بحیرۂ اسود میں جہاز رانی کے راستوں پر بارودی سرنگوں کا جال بچھا رہا ہے جس کی وجہ سے بحیرۂ اسود کے شمال مغربی حصے سے بحری جہازوں کا گزرنا ناممکن ہو گیا ہے۔
٭…پولینڈ اور بلغاریہ کے حکام کا کہنا ہے کہ ایک روسی کمپنی نے آج سے ہی گیس کی سپلائی بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ روس گیس کی ادائیگی روبل میں چاہتا ہے ورنہ سپلائی روک دینے کی بات کہی تھی۔ پولینڈ کے وزیر اعظم میٹیوز موراویکی نےبرلن میں جرمن چانسلر اولاف شولس سے ملاقات کے بعد کہا کہ روس کی سرکاری ملکیت والی توانائی کمپنی گیزپروم کی جانب سے گیس کی ترسیل روکنے کے منصوبے کا پولینڈ کو ایک نوٹس موصول ہوا ہے۔ ہمیں گیزپروم کی طرف سے دھمکیاں موصول ہوئی ہیں کہ وہ گیس کی ترسیل بند کر دے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ روس پولینڈ کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، تاہم انہوں نے بتایا کہ پولینڈ اپنے توانائی کے ذرائع کو متنوع بنا کر تیاری کر چکا ہے اور گیس ذخیرہ کرنے کی سہولیات 76 فیصد تک بھری ہوئی ہیں۔
منگل کے روز ہی بلغاریہ کی وزارت توانائی نے بھی کہا کہ روس کی سرکاری کمپنی گیز پروم نے اسے بھی گیس کی معطلی کا نوٹس بھیجا ہے۔ وزارت نے کہا کہ وہ گیس کی فراہمی کے متبادل ذرائع کی جانب قدم اٹھائے گی۔ تاہم اس وقت گیس کی کھپت کو محدود کرنا ضروری نہیں ہے۔واضح رہے کہ بلغاریہ گیس کی اپنی سالانہ کھپت کے لیے تقریباً پوری طرح روس پر انحصار کرتا ہے۔ ملکی توانائی کمپنی بلغار گاز کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی ذمہ داریوں کو مکمل طور پر پورا کیا ہے اور موجودہ معاہدے کے تحت درکار اپنی تمام ادائیگیاں وقت پر، پابندی کے ساتھ اور اپنی شرائط کے مطابق کر دی ہیں۔
٭…جرمن چانسلر اولاف شولس کی حکومت کو داخلی اور بیرونی سطح پر اس دباؤ کا سامنا تھا کہ وہ یوکرین کو بھاری ہتھیاروں کی فراہمی شروع کرے۔ اب جرمن حکومت نے تصدیق کر دی ہے کہ وہ یوکرین کو گیپارڈ نامی ٹینک فراہم کرے گا جن پر طیارہ شکن میزائل بھی نصب ہیں۔ یوکرین جنگ کے تناظر میں جرمنی ابھی تک تنازعے کے شکار خطوں میں ہتھیار نہ بھیجنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھا۔ اس پیشرفت کواولاف شولس نے جرمن پالیسی کے لیے ایک موڑ قرار دیا ہے۔
٭…پاکستان کے شہر کراچی کی جامعہ کراچی میں منگل کے روز ایک خاتون خود کش حملہ آور کے ذریعے ایک وین پر کیے جانے والے خود کش حملے کے نتیجے میں تین چینی باشندوں سمیت چار افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں چینی زبان سکھانے والے ادارے کے ڈائریکٹر بھی شامل ہیں۔ حکام نے ہلاکتیں بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ حکام کے مطابق ایک بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ یونیورسٹی کے ترجمان کے مطابق اس حملے کے نتیجے میں ایک اور چینی شہری اور ان کے ساتھ موجود ان کا سکیورٹی گارڈ بھی زخمی ہوئے ہیں ۔کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ ایک خود کش حملہ تھا۔ کلوز سرکٹ ٹیلی وژن فوٹیج میں چادر میں ملبوس ایک خاتون کو وین کا انتظار کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، جس کے بعد ایک فوری دھماکا ہوا۔ یاد رہے کہ پاکستان اقتصادی راہداری پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی شہریوں پر اس سے قبل بھی بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب حملے کیے جا چکے ہیں۔
٭…بھارت کی سو سے زیادہ سرکردہ شخصیات، سابق اعلیٰ عہدیداروں اور نوکرشاہوں کے ایک گروپ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو تین صفحات پر مشتمل ایک کھلے خط میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں اقلیتی برادریوں، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف تشدد میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے زیر انتظام حکومتیں زور و شور سے نفرت کی سیاست کو ہوا دے رہی ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس بہت بڑے معاشرتی خطرے پر آپ کی خاموشی سب کو بہرا کر رہی ہے۔ ہماری آپ کے ضمیر سے اپیل ہے کہ آپ نے سب کا ساتھ، سب کی ترقی اور سب کے اعتماد کا جو وعدہ کیا ہے اس پر صمیم قلب سے غور کریں۔
٭…ایسے وقت جب کہ بھارتی حکومت ماسکو اور مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن کرنے کی کوشش میں ہے، یورپی کمیشن کی سربراہ ارزولا فان ڈیئر لائن نے پیر کے روز بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ خود کو یورپی یونین سے قریب کرنے کی کوشش کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین اور روس کی شراکت داری میں کوئی حد نہیں اور یہ بھارت اور یورپ کے لیے خطرہ ہے۔بھارت اور یورپی یونین فطری شراکت دار ہیں جو مشترکہ اصولوں اور منصفانہ مسابقت کی دنیا میں ترقی کے راستے پر گامزن ہیں۔یورپی کمیشن کی سربراہ بھارت کو روس سے دور کرنے کی کوشش کرنے والی مغرب کی تازہ ترین شخصیت ہیں۔ انہوں نے اپنے دورۂ بھارت کے دوران تجارت، آب و ہوا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔ ان کا یہ دورہ اس وسیع تر مغربی کوشش کا ایک حصہ ہے جس کا مقصد یوکرین پر روسی حملے کے تناظر میں نئی دہلی کو ماسکو کے ساتھ تعلقات کو کم کرنے کی ترغیب دینا ہے۔واضح رہے کہ مغربی ممالک نے روس پر بہت سی پابندیاں عائد کی ہیں اور ان کا اس بات پر بھی زور ہے کہ بھارت روس سے تیل نہ خریدے، تاہم اس میں کمی کے بجائے نئی دہلی نے روس سے سستے داموں پر تیل کی خرید میں اضافہ کر دیا ہے۔ سرد جنگ کے دوران بھارت روس کا اتحادی تھا تاہم مغربی ممالک سے بھی اس کے رشتے استوار رہے ہیں۔
٭…بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے وفاقی دارالحکومت دہلی میں جاری رائے سینا ڈائیلاگ میں منگل کے روز یورپی کمیشن کی سربراہ اُرزولا فان ڈیئر لائن، لکسمبرگ کے وزیر اعظم اور دیگر یورپی رہنماؤں کی جانب سے یوکرین پر روسی فوجی حملے کے حوالے سے بھارت کے موقف کے تناظر میں کیے گئے سوالات کا سخت جواب دیا۔بھارتی وزیر خارجہ نے چین کا نام نہ لیتے ہوئے کہا، اگر میں ان چیلنجز اور اصولوں کے حوالے سے بات کروں، جب ایشیا میں (چین کے جارحانہ رویے کی وجہ سے) ایسا ہی ایک چیلنج ہمارے سامنے تھا تو ہمیں یورپ سے یہ مشورہ ملا تھا کہ (چین کے ساتھ) تجارت میں اضافہ کرو۔ کم سے کم ہم آپ کو ایسا مشورہ تو نہیں دے رہے ہیں اور افغانستان کے تناظر میں مجھے بتایا جائے کہ آخر کس طرح کے اصولوں پر مبنی ضابطوں کو دنیا نے وہاں نافذ کیا؟آپ یوکرین کے بارے میں بات کررہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک برس سے بھی کم عرصہ پہلے افغانستان میں کیا ہوا تھا، جہاں کے شہریوں کو دنیا (کی بڑی طاقتوں) نے ایک اور بحران میں دھکیل دیا۔
٭…بورس جانسن نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ وفد کی سطح پر ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ بھارت کو مدنظر رکھتے ہوئے اوپن جنرل ایکسپورٹ لائسنس تیار کرنے پر کام کررہا ہے جس سے دفاعی ہتھیاروں کے حصول میں لگنے والا وقت کم ہوجائے گا اور بیورو کریسی کی رکاوٹوں میں کمی آئے گی۔ دونوں ممالک ایک نئے اور وسیع تر دفاعی اور سکیورٹی پارٹنرشپ پر متفق ہوگئے۔ اس سال دیوالی تک ایک نیا آزاد تجارتی معاہدہ نافذ ہوجانے کی امید ہے۔انہوں نے بھارت کو روس پر انحصار کم کرنے میں مدد کرنے کے لیے اقتصادی اور دفاعی تعاون کو مزید وسعت دینے کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ بھارت کو امریکہ اور یورپی یونین کے برابرمقام دینے کے لیے تیار ہے۔ وزیر اعظم مودی نے بورس جانسن کے بھارت دورے کو تاریخی قرار دیا۔ برطانیہ کے وزیر اعظم کی حیثیت سے بورس جانسن کا بھارت کا یہ پہلا دورہ ہے۔
بورس جانسن دارالحکومت دہلی کے بجائے21 اپریل جمعرات کی صبح گجرات کی ریاست احمد آباد میں اترے جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ ہوٹل پہنچنے کے بعد انہوں نے سابرمتی میں واقع مہاتما گاندھی کے آشرم کا دورہ کیا اور وہاں چرخہ کاتنے کی بھی کوشش کی۔ اس موقع پر برطانوی وزیر اعظم نے گاندھی جی کی تعریف میں کہا،اس غیر معمولی آدمی کے آشرم میں آنا، اور یہ سمجھنا کہ اس شخص نے سچائی اور عدم تشدد کے اتنے سادہ اصولوں کو دنیا کو بہتر بنانے کے لیے کیسے استعمال کیا، واقعی ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔