پچھلے سالوں کے جو روزے رہ گئے ہیں وہ معاف نہیں ہو سکتے
بلوغت کے زمانہ کے بعد کے جتنے روزے رہ گئے ہوں وہ بڑھاپے سے پہلے پہلے پورے کرنے چاہییں
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
مسلمانوں کے عام رسم و رواج کے مطابق آج جمعۃ الوداع ہے جو لوگوں کی بدعملیوں اور گناہوں کے دھونے کے لیے آتا ہے۔ انہوں نے اپنی کمزوریٔ ایمان کی وجہ سے یہ عقیدہ بنا لیا ہے کہ سارا سال کوئی نماز پڑھے یا نہ پڑھے یہ جمعہ پڑھ لے تو اس کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں مگر یہ درست نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر جمعہ ہی ہمارے لیے برکتیں لے کر آتا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں ہر جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگا جائے وہ اُسے مل جاتا ہے لیکن یہ ساعت بڑی لمبی ہوتی ہے۔ جمعہ کا وقت اشراق سے شروع ہوتا ہے اور عصر تک چلا جاتا ہے اس لیے اس گھڑی کا پکڑنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ سوائے اس کے کہ کوئی ہر وقت دعا میں لگا رہے اور اس کی توجہ اِدھر اُدھر نہ ہو اور اس کے خیالات بھی پراگندہ نہ ہوں۔ لیکن اتنی محنت کون کرتا ہے اور کون اتنی دیر دعا میں مشغول رہ سکتا ہے۔ سوائے اس کے جسے خدا تعالیٰ خاص طور پر توفیق دے۔ رمضان کے بعد کچھ ایسے لوگ ہوں گے جن سے اگر کچھ روزے رہ گئے ہوں تو وہ انہیں پورا کریں گے اور کچھ ایسے ہوں گے جنہیں رمضان کے پورے روزے رکھنے کی توفیق ملی ہے اور وہ نفلی روزے رکھیں گے جو حدیثوں سے ثابت ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی بدقسمت ہوں گے جنہیں رمضان کے پورے روزے رکھنے کی توفیق نہیں ملی اور وہ انہیں پورا کرنے کی بھی کوشش نہیں کریں گے لیکن یہ وہی لوگ ہوں گے جو رمضان کی عظمت پر یقین نہیں رکھتے اور جو اسلام کی عظمت پر یقین نہیں رکھتے۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں بھی ایک ایسا طبقہ ہے جن میں رمضان کی زیادہ قدر نہیں۔ اگر وہ ایسی جگہ ہوں جہاں روزے رکھے جاتے ہیں تو وہ بھی شرم کے مارے روزے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اگر کچھ روزے رہ جائیں تو ان کو پورا کرنے کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ بعض ایسے نوجوان بھی ہیں جو بہانہ کر دیتے ہیں کہ روزہ رکھنے سے انہیں پیچش لگ جاتی ہے۔ بیماری کے نتیجے میں اگر کوئی روزہ نہ رکھ سکے تو قرآن کریم نے یہ حکم دیا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے لیکن اُس وقت جب اس کا نفس بھی سمجھتا ہو کہ وہ بیمار ہے اور پھر اس کا فرض ہے کہ یہ روزے رمضان کے بعد رکھے۔
۔۔۔۔بے شک یہ قرآنی حکم ہے کہ سفر کی حالت میں اور اسی طرح بیماری کی حالت میں روزے نہیں رکھنے چاہییں اور ہم اس پر زور دیتے ہیں تا قرآنی حکم کی ہتک نہ ہو۔ مگر اس بہانہ سے فائدہ اٹھا کر جو لوگ روزہ رکھ سکتے ہیں اور پھر وہ روزہ نہیں رکھتے یا ان سے کچھ روزے رہ گئے ہوں اور وہ کوشش کرتے تو انہیں پورا کر سکتے تھے لیکن وہ ان کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو وہ ایسے ہی گنہگار ہیں جس طرح وہ شخص گنہگار ہے جو بِلاعذر رمضان کے روزے نہیں رکھتا۔ اس لیے ہر احمدی کو چاہیے کہ جتنے روزے اس نے کسی غفلت یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے نہیں رکھے وہ انہیں بعد میں پورا کرے۔ یا اگر اس کے کچھ روزے غفلت یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے پانچ چھ سال سے رہ گئے ہوں تو وہ انہیں بھی پورا کرے تاعذاب سے بچ جائے۔ یہ کوئی بڑی قربانی نہیں۔ بلوغت کے زمانہ کے بعد کے جتنے روزے رہ گئے ہوں وہ بڑھاپے سے پہلے پہلے پورے کرنے چاہییں۔ محض اس قرضہ کے زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ انہیں نظر انداز نہیں کر سکتا اور نہ پچھلے روزے معاف ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ بعض لوگ دو دو، تین تین سال تک چندہ نہیں دیتے اور جب ان سے مانگا جاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں اچھا پچھلے سالوں کا چندہ معاف کر دو پھر چندہ دیں گے۔ اس طرح پچھلے سالوں کے جو روزے رہ گئے ہیں وہ معاف نہیں ہو سکتے۔ خدا بھی وہ چیز معاف کرتا ہے جو ناممکن ہو اور انسان کی طاقت سے باہر ہو۔ اگر کسی شخص نے ایسا کیا ہے تو اس نے قرآن کریم کے حکم کے خلاف کیا ہے۔ اس نے اگر بیماری کی سہولت سے فائدہ اٹھایا تھا تو اسے چاہیے کہ اپنے چھُوٹے ہوئے روزے پورے کرے۔ سارا سال ہی اس کی یہ حالت نہیں رہتی کہ وہ روزے نہ رکھ سکے۔ کوئی نہ کوئی زمانہ ایسا آتا ہے جب وہ روزے رکھ سکتا ہے۔ بڑھاپے میں بھی ایک زمانہ ایسا آتا ہے جب انسان روزے رکھ سکتا ہے۔ اگر وہ گرمیوں میں روزے نہیں رکھ سکتا تو سردیوں میں رکھ لے۔
پس ایک تو مَیں جماعت کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ جن دوستوں نے رمضان کے سارے روزے نہیں رکھے وہ بعد میں روزے رکھیں اور اُن کو پورا کریں۔ خواہ وہ روزے غفلت کی وجہ سے رہ گئے ہوں یا وہ روزے بیماری یا سفر کی وجہ سے رہ گئے ہوں۔ اسی طرح اگر گزشتہ سالوں میں ان سے کچھ روزے غفلت یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے رہ گئے ہوں تو ان کو بھی پورا کرنے کی کوشش کریں تا خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے سے پہلے پہلے وہ صاف ہو جائیں۔ بعض فقہاء کا یہ خیال ہے کہ پچھلے سال کے چھُوٹے ہوئے روزے دوسرے سال نہیں رکھے جا سکتے۔ لیکن میرے نزدیک اگر کوئی لاعلمی کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکا تو لاعلمی معاف ہو سکتی ہے۔ ہاں اگر اس نے دیدہ دانستہ روزے نہیں رکھے تو پھر اس پر قضا نہیں۔ جیسے جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی نماز کی قضا نہیں۔ لیکن اگر اس نے بھول کر روزے نہیں رکھے یا اجتہادی غلطی کی بناء پر اس نے روزے نہیں رکھے تو میرے نزدیک وہ دوبارہ رکھ سکتا ہے اور اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ روزے رکھے۔ ہاں اگر وہ روزہ رکھ سکتا تھا اور اس نے جان بوجھ کر روزہ نہیں رکھا تو اس پر کوئی قضا نہیں۔ وہ جب توبہ کرے گا اس کے اعمال نئے سرے سے شروع ہوں گے۔ لیکن اگر اس نے غفلت کی وجہ سے روزے نہیں رکھے یا کسی اجتہادی غلطی یا بیماری کی وجہ سے روزے نہیں رکھے تو میرے نزدیک خواہ وہ روزے کتنی ہی دُور کے ہوں وہ دوبارہ رکھے جا سکتے ہیں۔
(6؍اگست 1948ء یارک ہاؤس کوئٹہ۔ الفضل 8مارچ 1961ء)
٭…٭…٭