کیا حدیث عُلَمَاءُ أُمَّتِیْ کَأَنْبِیَاءبَنِیْ إِسْرَائِیْل موضوع ہے؟ (حصہ سوم۔ آخری)
حدیث علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل کے حوالے سے پہلے حصےمیں ذکر کیا گیا تھا کہ بڑے بڑے اہل تشیع اور اہلسنت والجماعت علماء نے اسے نہ صرف اپنی کتب تفاسیر اور کتبِ فقہ میں درج کیا ہے بلکہ اس کی بنیاد پر استدلال بھی کیے ہیں۔ ان کتب میں سے چند کے حوالہ جات یہاں نقل کیے جارہے ہیں:
٭…’’اُس نے علمائے امت کو انبیائے بنی اسرائیل کی مانند کیا۔‘‘ (حسام الحرمین از احمد رضا خان بریلوی صفحہ64تا65)
٭…’’انبیاء کے کمالات کے ساتھ عام مومنین کی مماثلت: پس واضح ہوا کہ ہر کمال کا مرتبہ جو انبیاء اللہ سے ثابت ہے اگر اُسی کمال کے مرتبے کا جو ادنیٰ مومن میں واقع ہو، مقابلہ کریں تو کوئی مشابہت ان دونوں کے مراتب کے درمیان نہ پائی جائے گی۔ لیکن اگر ان کے مرتبے کا اس مرتبے کے ساتھ قیاس کریں جو ان کے مرتبے کے متّصل واقع ہے تو ایک قسم کی معنوی مماثلت ظاہر ہوگی۔ جس کی حقیقت کو سوائے علّام الغیوب کے کوئی نہیں پہنچ سکتا جو کہ نفس الامر میں باہم متحقّق ہے اور اسی مماثلت کو مشابہت کہتے ہیں۔ پس جو کوئی مذکورہ کمالات کے مرتبے میں مرتبۂ ثانیہ سے متصف ہو تو وہی ان کمالات میں انبیاء کے کمال سے مشابہ ہے۔ چنانچہ نبیﷺ نے فرمایا: عُلَمَاء اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَاءِ بَنِیْ اِسْرَائِیل میری امّت کے علماء انبیائے بنی اسرائیل کی طرح ہیں۔‘‘ (منصب امامت صفحہ 82تا83، شاہ اسماعیل شہیدؒ )
٭…’’اس تاریک زمانہ میں بطحائی پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچّی پیشینگوئی کے موافق علماء امّت میں ایک ایسے زبردست عالم کی ضرورت تھی جو من کل الوجوہ قابل اعتماد مصلح اور سرتاپا سنت نبویہؐ کے زیور سے آراستہ کامل اتباع شریعت کاملہ میں مخلوق کے لئے نمونہ اور عالم کے لئے حجت بنے۔ جس کی روحانی قوت ایسی زبردست ہو جس میں متکبر و مغرور مولویوں کو کھینچ لینے کی قابلیت ہو۔ جس طرح علماء میں ہر عالم اپنے خاص گروہ کا سردار بنتا اور ان کے اختلافی امور سلجھاتا ہے اسی طرح یہ مقدس ذات مرجع علماءِ ہند بنے اور مولویوں میں الجھے پڑے مسائل اور مختلف و متنازع فیہ امور کا تصفیہ کرے۔ غرض نیابت رسالت کا عمامہ سر پر باندھے اور مہتمم بالشان و عظیم خدمت کو انجام دے جس کی تکمیل قوم بنی اسرائیل میں انبیاء علیہم السلام کے ذمہ ہوتی تھی شریعت کی شاہراہ کا ہادی و مجدّدِ مذہب قرار پائے اور طریقت کی دشوار گزار سڑک کا راہبر و قطب الارشاد۔‘‘ (تذکرۃ الرشیدحصہ اول صفحہ 10تا11)
٭…’’علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل کا مقصد: اس بیان سے ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی تذکیر و نصیحت کا تعلق صرف مومنوں کے دائرہ تک محدود رہا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر احکامات آتے اور وہ ان کو مومنوں کو سنا دیتے جیسا کہ انبیاء بنی اسرائیل تھے وہ خود تورات کی شریعت پر عامل تھے۔ اگرچہ خاص خاص معاملات میں ان پر خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص خاص وحی بھی آتی تھی۔ پھر وہ اس وحی کی روشنی میں بنی اسرائیل کے مقدمات کے فیصلے اسی طرح فرمایا کرتے تھے جیسا کہ آج علماء قرآن کی روشنی میں امت کے نزاعات کے فیصلے کرتے ہیں۔ یہی نکتہ تھا کہ آپ نے اپنے علماء امت کو بنی اسرائیل کے انبیاء سے تشبیہ دی اور علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیلفرمایا ہے اور بنی اسرائیل کے رسولوں سے تشبیہ دے کر یوں نہیں فرمایا علماء امتی کرُسُل بنی اسرائیل۔‘‘ (ترجمان السنۃ جلد 3صفحہ 443)
٭…’’جزیرہ مالٹا سے رہائی۔ یوسف علیہ السلام جب زندان سے رخصت ہوئے ہیں تو اہل سجن آہ و بکا کرتے ہوئے بادل ناخواستہ ان کو رخصت کررہے تھے اور یوسف علیہ السلام ان کے لئے دعا فرماتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ عَطِّفْ عَلَیْھِمْ قُلُوْبَ الاَخْیَارِ وَلَا تَعَمْ عَلَیْھِمُ الاَخْبَار اور جب نکلے ہیں تو دروازہ پر یہ لکھ آئے تھے کہ ھذا بیت البلوی و قبر الاحیاء و شماتۃ الاعداء و تجربۃ الاصدقاء (یعنی یہ امتحان کا مکان ہے اور زندوں کی قبر ہے اور دشمنی کی خوشی کی جگہ ہے اور دوستوں کا تجربہ ہونے کا موقع ہے) وہی منظر آنکھوں کے سامنے پھر رہا تھا عُلَمَاءُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَاءِ بَنِیْ اِسْرَائِیل کا سچا مصداق پانچ برس تک اصحابِ سجن کو دعوت الی الحق کرنے کے بعد زندان سے جدا ہوتا ہے۔‘‘ (حیات شیخ الہند صفحہ134تا135)
٭…’’حضرت خاتم النبیینﷺ کے لائے ہوئے دینِ مبین کی پائیدار تخم ریزی چونکہ ختم دنیا تک قائم رہنے والی تھی اور آپ کے ہاتھوں کا لگایا ہوا باغ قیامت تک باقی وقائم رہنے والا تھا اس لئے آپ کے روشن کئے ہوئے چراغوں کا سلسلۂ نور رسانی متعدّی ہوا اور ایک مشعل سے دوسری مشعل اور ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہوکر ہر قرن اور ہر زمانے میں ہر مُلک اور ہر بستی کے اندر اس نور کا مخلوق کو نظارہ کراتا رہا جس کا اصل مخزن قلبِ محمدیؐ اور جس کا مشکوٰۃ سرورِ عالمﷺ کا وجود باجود تھا کہ حضرت روحی فداہ خود ارشاد فرما چکے تھے عُلَمَاءُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَاءِ بَنِیْ اِسْرَائِیل۔ یہ علماء امت جنہوں نے اپنے پیشوا، اپنے امام، اپنے ہادی، اپنے سرور، اپنے آقا، اپنے مولیٰ اور اپنے مورثِ اعلیٰ سیدنا محمدﷺ کے عالمِ قدس کو روانہ ہوجانے کے بعد آپ کی نیابت میں فرائضِ نبوت کو انجام دیا اور مخلوق کی رہبری کو اپنا مقصودِ حیات بنادیا اولیاء اللہ کہلاتے ہیں جن کی تعداد حیطۂ شمار سے باہر اور انسانی حدوحساب سے بیرون ہے۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل مقدمہ صفحہ24از عاشق الٰہی میرٹھی)
٭…’’اکبر و جہانگیرکے حالات کافی تفصیل سے بیان کئے گئے تاکہ حضرت مجدّد صاحب قدس اللہ سرہ العزیز کے مندرجہ ارشاد کی تاریخی تصدیق ناظرینِ کرام ملاحظہ فرماسکیں۔ ’’فرزندا! یہ وہ وقت ہے کہ پہلی امّتوں میں اس جیسے پُرظلمت وقت میں کوئی اولوالعزم نبی مبعوث ہوتا تھا۔ اور نئی شریعت کی بنیاد رکھتا تھا۔ مگر یہ امّت خیرالامم ہے اور اس کے نبی خاتم الرسل ہیں علیہ و علیٰ آلہٖ و اصحابہ الصلوٰۃ والسلام۔ اس امّت کے علماء کو انبیاءِ بنی اسرائیل کا مرتبہ دیا گیا ہے اور انبیاء علیہم السلام کے بجائے ان علماء کے وجود کو ہی کافی سمجھا گیا ہے۔ لہٰذا ہر سوسال کے ختم پر اس امّت کے علماء میں سے ایک مجدّد مقرر کیا جاتا ہے جو شریعت مصطفویہ کا احیا ءکرتا ہے۔ بالخصوص ایک ہزار کے بعد جو امم سابقہ میں کسی عظیم الشان رسول کی بعثت کا زمانہ ہوتا تھا، اور صرف نبی کے درجہ پر بھی اکتفا نہیں کیا جاتا تھا۔ امّت محمدیہ میں ایک ایسے جلیل الشان عالم کی ضرورت ہے جو اولوالعزم نبی کے قائم مقام ہوسکے۔‘‘ (علمائے ہند کا شاندار ماضی جلد اوّل از سیّد محمد میاں صاحب)
٭…’’عرضِ ناشر۔ حضور نبی کریم، رؤف رحیم، خاتم المعصومین، علیہ التحیۃ والتسلیمﷺ کا فرمان عالی شان ہےکہ’’میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں۔ ‘‘کیونکہ بنی اسرائیل کے علماء شریعت کی وضاحت و تشریح کا فریضہ سرانجام دیتے تھے اور یہی ذمہ داری امت مسلمہ کے علماء پر ڈالی گئی ہے۔ چنانچہ آپﷺ کی وفات سے لے کر آج تک ہر دور کے علماء نے شریعت مطہرہ کی وضاحت اور حفاظت کے لیے قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔‘‘ (ریاض الصالحین مترجم ، مکتبۃ العلم ، اردو بازار لاہورمترجم : مولانا شمس الدین صاحب ، عرض ناشر)
مذکورہ بالا ناقابل تردید شواہد سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ حدیث عُلَمَاءُ أُمَّتِیْ کَأَنْبِیَاءِبَنِیْ إِسْرَائِیْل موضوع نہیں ہے اور امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے چنیدہ افراد کو درجات نبوت کی خوشخبری سناتی ہے۔ وَذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ۔
(مرسلہ: انصر رضا، واقفِ زندگی، کینیڈا)