احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
جب لڑکپن اورجوانی کی حدود میں داخل ہوئے تو صحتمندانہ ورزش اور معمولات کو ضرور اختیار کیا جیسے تیراکی، گھڑسواری، پیدل چلنااور سیر وغیرہ۔ سیر کرنے کی عادت تو آپ کی زندگی کا ایک لازمی جزرہی جو آخرتک آپ جاری رکھے ہوئے تھے
تیراکی اور گھڑسواری
یہ تو آپؑ کے بچپن کے چند ایک واقعات ہیں جو ہمیں معلوم ہوسکے۔ لیکن آپؑ کے بچپن اور لڑکپن کے صرف یہی معمولات ہی نہ تھے۔ اور نہ ہی اس زمانے میں صرف یہی کھیل ہواکرتے تھے۔ اس زمانے میں بھی عام زمانوں کی طرح مختلف قسم کی عیاشیاں اور لہوولعب کے سینکڑوں کھیل تماشے تھے۔ اور نوابوں اور رئیس زادوں کے لیے تو یہ نہ صرف کوئی مشکل کام نہ تھا بلکہ ان کی زندگیوں کا ایک حصہ بن چکاتھا۔ بٹیر بازی، مرغ بازی، کنکوے اور جؤا اور شراب تو ان کی گھٹی میں پڑاہواتھااور ان کی ’’تہذیب وثقافت ‘‘ کا ایک لازمی جزتھا۔ لیکن باوجود ’’رسمِ زمانہ اور دستور‘‘ کے اور باوجود اس کے کہ ریاستی اور مالی آسائشیں آپ کو میسر اور حاصل تھیں آپؑ نے بچپن یا جوانی میں کسی بھی قسم کی لغواورفضول باتوں کو نہ کیا نہ اپنایا۔ سوائے شکار کے اور وہ بھی بچپن میں چڑیوں وغیرہ کو جنگل میں جاکر پکڑنا اور ہاں جب لڑکپن اورجوانی کی حدود میں داخل ہوئے تو صحتمندانہ ورزش اور معمولات کو ضرور اختیار کیا جیسے تیراکی، گھڑسواری، پیدل چلنااور سیر وغیرہ۔ سیر کرنے کی عادت تو آپ کی زندگی کا ایک لازمی جزرہی جو آخرتک آپ جاری رکھے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی اپنے ہم جولیوں کے ساتھ کھیل میں ریفری کے فرائض بھی سرانجام دیتے۔ جس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ بچپن میں بھی آپؑ کے ساتھی یقین رکھتے تھے کہ ہمارا یہ ساتھی امین اوردیانتدارہے۔ حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:
’’He seldom took an active part in any of them, although it is said that on several occasions he acted as an umpire or a referee.‘‘
(Life of Ahmad by A.R.Dard, Page 30)
قادیان کے تعارف میں ذکرہوا ہے کہ قادیان کے گرداگرد ایک ڈھاب تھی جو برسات کے موسم میں تو دریا کی سی صورت اختیار کرجاتی۔ دوسرے لوگوں کی طرح آپؑ بھی اس میں تیراکی کرتے اور خوب تیراکی کرتے۔ اس ضمن میں ایک روایت ہمیں ملی ہے جس میں حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں کہ’’میںبچپن میں اتنا تیرتا تھاکہ ایک وقت میں ساری قادیان کے ارد گرد تیر جاتا تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ برسات کے موسم میں قادیان کے ارد گرد اتنا پانی جمع ہو جاتا ہے کہ سارا گاوٴں ایک جزیرہ بن جاتا ہے۔ ‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 288)
گودمیں تیری رہا…حفاظت الٰہی کے نظارے
حفاظت الٰہی کے ایسے نظارے دیکھتے ہیں کہ جو اس بات کی دلیل ہیں کہ خداکا ایک غیبی ہاتھ تھا جو آپ کی مدد اور حفاظت کے لیے ہمیشہ سے ساتھ رہا۔
حضرت اقدسؑ کے صاحبزادے حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب تیرنا اور سواری خوب جانتے تھے۔ اور سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ بچپن میں مَیں ڈوب چلا تھا۔ تو ایک اجنبی بڈھے سے شخص نے مجھے نکالا تھا اس شخص کو میں نے اس سے قبل یا بعد کبھی نہیں دیکھا۔ نیز فرماتے تھے کہ میں ایک دفعہ ایک گھوڑے پر سوار ہوا۔ اس نے شوخی کی اور بے قابو ہو گیا۔ میں نے بہت روکنا چاہا مگر وہ شرارت پر آمادہ تھا نہ رکا۔ چنانچہ وہ اپنے پورے زور میں ایک درخت یا دیوار کی طرف بھاگا۔ (اَلشَّکُّ مِنّی)اور پھر اس زور کے ساتھ اس سے ٹکرایا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور وہ وہیں مر گیا۔ مگر مجھے اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب بہت نصیحت کیا کرتے تھے کہ سر کش اور شریر گھوڑے پر ہرگز نہیں چڑھنا چاہیے۔ اور یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اس گھوڑے کا مجھے مارنے کا ارادہ تھا۔ مگر میں ایک طرف گر کربچ گیا اور وہ مرگیا۔ ‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 188)
ابتدائی تدریس و تعلیم
آپؑ کے بچپن اورجوانی کے واقعات اور حالات کو بیان کرتے کرتے ہم اب آپؑ کے حصول تعلیم کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔
آپؑ کے آباءواجدادکے تذکرہ میں بیان ہوچکاہے کہ آپؑ کے والد بزرگوار خود ایک عالم فاضل شخص تھے اور انہوں نے اپنے بچوں کو بھی زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے اس وقت کے حساب اور وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترین طریق تعلیم کواختیارکیا۔
اس زمانے میں مدارس کا سلسلہ ابھی جاری نہ ہوا تھا اورتعلیم کے لیے عام دستور یہی تھا کہ بڑے بڑے رئیس اور صاحب استطاعت لوگ اپنے گھروں پر استاد بطوراتالیق رکھ لیتے تھے۔ اور خاندانی لوگوں میں تو یہ رواج بہت مدت تک جاری رہا۔ چنانچہ اسی طرح پر حضرت اقدسؑ کی تعلیم کا انتظام کیا گیا۔ آپؑ کی عمر چھ یا سات سال کی ہوگی کہ جب سب سے پہلے آپؑ کی تعلیم کے لیے قادیان ہی کے ایک فارسی خوان استاد کو مقرر کیا گیا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنے سوانح بیان فرماتے ہوئے خود اپنی تعلیم کے متعلق بھی بہت وضاحت سے لکھاہے۔ چنانچہ حضورؑ اپنے ذاتی سوانح میں لکھتے ہیں: ’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا۔ جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا۔ اور جب میری عمر قریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے۔ وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتےرہے اور میں نے صَرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہواتو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کانام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیاں میں پڑھانے کے لئے مقرر کیا تھا۔ اور ان آخرالذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے ‘‘۔(کتاب البریہ، روحانی خزائن 13صفحہ 179تا181حاشیہ)
جیساکہ مندرجہ بالا اقتباس سے ظاہر ہورہاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی عمر چھ یا سات سال کی تھی جب تدریس کا یہ باقاعدہ آغاز ہوا۔ یعنی 43-1842ء میں، آپؑ کے یہ پہلے استاد فضل الٰہی صاحب قادیان کے باشندے اور حنفی المذہب تھے۔
دس برس کی عمر میں یعنی 1845ء میں دوسرے استاد مولوی فضل احمد صاحب تدریس کے فرائض کی سعادت پانے لگے۔ یہ بزرگ فیروز والہ ضلع گوجرانوالہ کے رہنے والے اور اہلحدیث تھے۔ مولوی مبارک علی صاحب جو ابتدا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں شامل ہوئے اور پھر غیر مبائعین کی رو میں بہ گئے، آپ ہی کے بیٹے تھے۔ حضرت اقدسؑ نے اپنے اس استاد کا تذکرہ ایک اور جگہ یوں فرمایاہے: ’’حضرت مولوی فضل احمدصاحب مرحوم ایک بزرگوار عالم باعمل تھے مجھ کو ان سے از حد محبت تھی کیونکہ علاوہ استاد ہونے کے وہ ایک باخدا اور صاف باطن اور زندہ دل اور متقی اور پرہیزگار تھے۔ ‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ 542)
قادیان کی درس گاہ
آپؑ کی تدریس تواس وقت کے مروجہ دستورکے مطابق شروع ہوئی لیکن اس میں ایک اور امتیازیہ بھی تھا کہ حضر ت اقدسؑ کے والد ماجدنے کچھ اس طرح کا انتظام فرمایاہواتھاکہ ہرچندکہ ان اساتذہ کوالاؤنس یاوظیفہ توخود دیاکرتے لیکن قادیان کے جتنے بچے بھی پڑھناچاہتے تھے ان کواجازت تھی کہ مفت تعلیم حاصل کرنے کے لیے یہاں آیاکریں۔ درس وتدریس کے لیے وہ کون سی جگہ تھی اس کے متعلق ہمیں یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ درسگاہ اس جگہ واقع تھی جس جگہ آج کل (2011ءمیں ) وقف جدید کا دفتر اور حضرت نواب محمدعلی خان صاحبؓ کا مکان، یعنی گول کمرے کے سامنے والی جگہ جو اُس وقت کچا دیوان خانہ تھی۔
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ اس زمانہ طالب علمی میں آپؑ کے معمولات اور اس درس گاہ کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مجھے وہ دستور العمل بیان کر دینا چاہیئے جو ایام طالب علمی میں آپ کا تھا۔ وہ کچا دیوان خانہ جہاں آج کل نواب محمد علی خان صاحب کے مکانات بنے ہوئے ہیں یہ تعلیم گاہ تھا۔ عام طور پر مدرس لوگ طلباء سے کچھ ماہوار لے لیا کرتے تھے مگر حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے جس استاد کو مقرر کرتے آپ اس کو پوری تنخواہ دیتے اور دوسرے بچوں کو مفت تعلیم دینے کی اجازت دیتے۔ اس وجہ سے جہاں حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب تعلیم پاتے تھے اس مکتب میں آپ کے طفیل سے اور بچے بھی پڑھتے اور بچے بچے ہی ہوتے ہیں ان میں ہر قسم کی باتیں کھیل کود، ہنسی، مذاق کی ہوتی ہیں۔ ان کی عام عادت یہ تھی کہ یہ اپنا سبق آپ پڑھا کرتے تھے۔ بعض لڑکوں کا دستور ہوتا ہے کہ وہ صرف سماعت کرتے ہیں قراءت نہیں کرتے مگر حضرت مرزا صاحب ہمیشہ اپنا سبق آپ پڑھتے اور دو یا تین دفعہ کہہ لینے کے بعد جماعت سے اٹھ جاتے اور اوپر بالاخانہ میں چلے جاتے۔ وہ بالاخانہ اب تک موجود ہے اور وہاں جا کر اکیلے اس کو یاد کرتے۔ اور اگر کچھ بھول جاتا تو پھرنیچے آتے اور استاد سے براہ راست پوچھتے اور پوچھ کر پھر اوپر چلے جاتے۔ ان لڑکوں کی کھیل کود اور تفریحوں میں کبھی شریک نہ ہوتے تھے۔ ہاں یہ آپ کے عادات میں داخل تھا کہ ان بچوں اور لڑکوں میں سے اگر کسی کو سبق بھول جائے یا نہ آئے تو اس کو بتلا دینے اور یاد کرا دینے میں کبھی بخل سے کام نہ لیتے۔ ‘‘(حیات احمدجلد اول صفحہ 213تا214)
٭…٭…٭