خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب 11؍ مارچ 2022ء
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی زبان میں اللہ تعالیٰ نے وہ تاثیر پیدا کی اور دوسری طرف لوگوں کے دلوں کو حضرت ابوبکرؓ کی طرف مائل کیا کہ یہ سارا انتشار اور اختلاف ایک بار پھر محبت و اتحاد میں تبدیل ہو گیا
سوال نمبر1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟
جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔
سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓ کو خلافت کے بعد جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اُن کا ذکرہو رہا تھا۔
سوال نمبر3: رسول اللہﷺ کی وفات کے وقت حضرت ابوبکرؓ نے کس طرح توحید کا درس دیا؟
جواب: فرمایا: آپﷺ کی وفات کا حادثہ اس قدر شدید اور المناک تھا کہ بڑے بڑے صحابہ مارے غم کے حواس کھو بیٹھے تھے۔ حضرت عمرؓ جیسے بہادر کا محبت کی اس دیوانگی میں اَور بھی برا حال تھا۔ وہ تلوار لے کر کھڑے ہو گئے کہ اگر کسی نے یہ کہاکہ محمدﷺ وفات پاگئے ہیں تو میں اس کا سر تن سے جدا کر دوں گا اور یہ ایک ایسا ردّعمل تھا کہ مسلمان اس بات کو سن کر اس شش و پنج کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے تھے کہ کیا آنحضرتﷺ واقعی فوت ہو گئے ہیں کہ نہیں اور قریب تھا کہ یہ عشاق نبی اکرمﷺ کی محبت میں توحید کے بنیادی سبق کو بھولتے ہوئے یہ کہنے لگ جاتے کہ نہیں آنحضرتﷺ کبھی فوت نہیں ہو سکتے اور نہ ہی فوت ہوئے ہیں۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ مسجد نبوی میں تشریف لائے اور وہاں جمع شدہ سب لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ اے لوگو! مَنْ كَانَ مِنْكُمْ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ یعْبُدُ اللّٰهَ فَإِنَّ اللّٰهَ حَیّ لَا یَمُوْتُ۔ جو شخص محمد رسول اللہﷺ کی عبادت کرتا تھا وہ سن لے کہ محمدﷺ فوت ہو چکے ہیں اور جو کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ خوش ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور کبھی فوت نہیں ہو گا۔ باوجود بے انتہا محبت کے جو آنحضرتﷺ سے آپؓ کو تھی جس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا لیکن توحید کا درس آپؓ نے دیا۔ پھر فرمایا۔ وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰى اَعْقَابِكُمْ(آل عمران: 145)کہ محمدﷺ صرف اللہ کے ایک رسول تھے اور آپؐ سے پہلے جتنے رسول گزرے ہیں سب فوت ہو چکے ہیں۔ پھر آپؐ کیوں نہ فوت ہوں گے۔ اگر آپؐ فوت ہو جائیں گے یا قتل کیے جائیں گے تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور اسلام کو چھوڑ دو گے؟ اس طرح حضرت ابوبکرؓ نے کمال ہمت اور حکمت سے اس وقت غم کی اس کیفیت میں صحابہ کی ڈھارس بندھائی اور غم کے مارے ان عشاق کے دلوں پر مرہم لگانےکا سبب بنے اور دوسری طرف توحید کی لرزتی ہوئی عمارت کو سنبھالا دیا۔
سوال نمبر4: حضرت ابوبکرؓ کے ذریعہ امت مسلمہ میں اتحاد پیداہونے کی بابت حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: نبی اکرمﷺ کی وفات کے بعد جو ایک دوسرا ممکنہ خدشہ پیدا ہوا وہ سقیفہ بنو ساعدہ میں انصار کا اجتماع تھا جہاں ابتدا میں تو گویا یوں لگتا تھا کہ انصار کسی طور سے بھی مہاجرین میں سے کسی کو اپنا امیر یا خلیفہ تسلیم کرنے کو تیار نہ ہوں گے اور مہاجرین انصار میں سے کسی کو خلیفہ بنانے پر تیار نہ ہوں گے۔ اور قریب تھا کہ اختلافی تقریروں سے بڑھ کر بات تلواروں تک جا پہنچتی کہ اس نازک موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ کی زبان میں اللہ تعالیٰ نے وہ تاثیر پیدا کی اور دوسری طرف لوگوں کے دلوں کو حضرت ابوبکرؓ کی طرف مائل کیا کہ یہ سارا انتشار اور اختلاف ایک بار پھر محبت و اتحاد میں تبدیل ہو گیا۔
سوال نمبر5: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے لشکر اسامہ کی بابت کیاتفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: رسول اللہﷺ نے یہ لشکر شام کی سرحد پر رومیوں سے جنگ کے لیے تیار کیا تھا۔ جنگ مؤتہ اور غزوۂ تبوک کے بعد آپﷺ کو خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں اسلام اور مسیحیت کے بڑھتے ہوئے اختلاف اور یہود کی فتنہ انگیزی کے باعث اہل روم عرب پر حملہ نہ کر دیں۔ جنگِ مؤتہ میں حضرت زیدؓ، حضرت جعفرؓ، حضرت عبداللہ بن رواحہؓ مسلمانوں کے تین امیر یکے بعد دیگرے شہید ہوئے…اسی وجہ سے رسول اللہﷺ نے اسامہ کو بطور پیش بندی شام روانہ ہونے کا حکم دیا تھا۔ اور ایک مقصد جنگ مؤتہ کے شہیدوں کا بدلہ لینا بھی تھا۔ لشکر اسامہ کی تیاری رسول اللہﷺ کی وفات سے دو روز قبل بروز ہفتہ مکمل ہوئی اور اس کا آغاز آپؐ کی بیماری سے قبل ہو چکا تھا۔ آپﷺ نے ماہ صفر کے آخر میں رومیوں سے جنگ کی تیاری کا حکم دیا۔ حضرت اسامہؓ کو بلایا اور فرمایا اپنے والد کی شہادت گاہ کی طرف روانہ ہو جاؤ اور انہیں گھوڑوں سے روند ڈالو۔ مَیں نے تم کو اس لشکر کا امیر مقرر کیا ہے…کچھ لوگوں نے باتیں شروع کر دیں اور کہا یہ لڑکا اوّلین مہاجرین پر امیر بنایا جا رہا ہے۔ اس بات پر رسول اللہﷺ سخت ناراض ہوئے۔ آپؐ نے اپنے سر کو ایک رومال سے باندھا ہوا تھا اور آپؐ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ آپؐ منبر پر چڑھے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا اے لوگو! تم میں سے بعض کی گفتگو اسامہ کو امیر بنانے کے متعلق مجھے پہنچی ہے۔ اگر میرے اسامہ کو امیر بنانے پر تم نے اعتراض کیا ہے تو اس سے پہلے اس کے باپ کو میرے امیر مقرر کرنے پر بھی تم اعتراض کر چکے ہو۔ خدا کی قسم! وہ امارت کے لائق تھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا بھی امارت کے لائق ہے وہ ان لوگوں میں سے تھا جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اور یقینا ًیہ دونوں ایسے ہیں کہ ان کے بارے میں ہر قسم کی نیکی اور بھلائی کا خیال کیا جا سکتا ہے۔ پس اسامہ کے لیے خیر کی نصیحت پکڑو کیونکہ یہ تم میں سے بہترین لوگوں میں سے ہے۔ یہ 10؍ربیع الاول اور ہفتے کا دن تھا یعنی آنحضورﷺ کی وفات سے دو دن قبل کی بات ہے۔ وہ مسلمان جو حضرت اسامہؓ کے ساتھ روانہ ہو رہے تھے وہ رسول اللہﷺ کو وداع کر کے جُرْف کے مقام پر لشکر میں شامل ہونے کے لیے چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بڑھ گئی لیکن آپؐ تاکید فرماتے رہے کہ لشکرِ اسامہ کو بھیجو۔ اتوار کے دن رسول اللہﷺ کا درد اَور زیادہ ہو گیا۔ حضرت اسامہ لشکر میں سے واپس آئے تو آپﷺ بےہوشی کی حالت میں تھے۔ اس روز لوگوں نے آپ کو دوا پلائی تھی۔ حضرت اسامہؓ نے سر جھکا کر رسول اللہﷺ کو بوسہ دیا۔ آپؐ بول نہیں سکتے تھے لیکن آپﷺ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے اور حضرت اسامہؓ کے سر پر رکھ دیتے۔ حضرت اسامہؓ کہتے ہیں کہ میں نے سمجھ لیا کہ آپؐ میرے لیے دعا کر رہے ہیں۔ حضرت اسامہ لشکر کی طرف واپس آ گئے۔ حضرت اسامہؓ سوموار کو دوبارہ رسول اللہﷺ کے پاس آئے تو آپؐ کو افاقہ ہو گیا تھا۔ آپؐ نے اسامہ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی برکت سے روانہ ہو جاؤ۔ حضرت اسامہؓ آنحضرتﷺ سے رخصت ہو کر اپنے لشکر کی طرف روانہ ہوئے اور لوگوں کو چلنے کا حکم دیا۔ آپؓ نے ابھی کوچ کا ارادہ ہی کیا تھا کہ ان کی والدہ حضرت ام ایمنؓ کی طرف سے ایک شخص یہ پیغام لے کر آیا کہ آنحضرتﷺ کا آخری وقت دکھائی دے رہا ہے۔ اس پر حضرت اسامہؓ رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعُبیدہؓ بھی ان کے ساتھ تھے اور آپؐ پر نزع کی حالت تھی۔ 12؍ربیع الاول کو پیر کے دن سورج ڈھلنے کے بعد آپﷺ نے وفات پائی جس کی وجہ سے مسلمانوں کا لشکر جُرْف مقام سے مدینہ واپس آ گیا اور حضرت بُرَیدہ بن حُصَیبؓ حضرت اسامہؓ کا جھنڈا لے کر آئے اور رسول اللہﷺ کے دروازے پر گاڑ دیا۔ ایک روایت کے مطابق جب حضرت اسامہؓ کا لشکر ذِی خُشُب میں تھا تو رسول اللہﷺ کی وفات ہو گئی۔ بہرحال جب حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی گئی تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بُرَیدہ بن حُصَیبؓ کو حکم دیا کہ جھنڈا لے کر اسامہؓ کے گھر جاؤ کہ وہ اپنے مقصد کے لیے روانہ ہوں۔ حضرت بُرَیدہؓ جھنڈے کو لشکر کی پہلی جگہ پر لے آئے۔ اس لشکر کی تعداد تین ہزار بیان کی جاتی ہے۔
سوال نمبر6: حضرت مصلح موعودؓ نے لشکراسامہ کی روانگی اورحضرت ابوبکرؓ کی بہادری کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ’’جب رسول کریمﷺ وفات پا گئے تو سارا عرب مرتد ہو گیا اور حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ جیسے بہادر انسان بھی اِس فتنہ کو دیکھ کر گھبرا گئے۔ رسول کریمﷺ نے اپنی وفات کے قریب ایک لشکر رومی علا قہ پر حملہ کرنے کے لئے تیا ر کیا تھا اور حضرت اسامہؓ کو اس کا افسر مقرر کیا تھا۔ یہ لشکر ابھی روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول کریمﷺ وفات پا گئے اور آپؐ کی وفات پر جب عرب مرتد ہوگیا تو صحابہؓ نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اسامہؓ کا لشکر ابھی رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے بھیج دیا گیا تو پیچھے صرف بوڑھے مرد او ر بچے اور عورتیں رہ جا ئیں گی اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں رہے گا۔ چنانچہ انہوں نے تجویز کی کہ اکابر صحابہؓ کا ایک وفد حضرت ابو بکرؓ کی خدمت میں جائے اوران سے درخواست کرے کہ وہ اس لشکر کو بغاوت کے فرو ہونے تک روک لیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ اور دوسرے بڑے بڑے صحابہؓ آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے یہ درخواست پیش کی۔ حضرت ابوبکرؓ نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے نہایت غصہ سے اس وفد کو یہ جواب دیا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسولِ کریمﷺ کی وفات کے بعد ابوقُحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کو رسول کریمﷺ نے روانہ کرنے کا حکم دیا تھا اسے روک لے؟ پھر آپؓ نے فرمایا خدا کی قسم! اگر دشمن کی فوجیں مدینہ میں گھس آئیں اورکتے مسلمان عورتوں کی لا شیں گھسیٹتے پِھریں تب بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جس کو روانہ کرنے کا رسول کریمﷺ نے فیصلہ فرمایا تھا۔ یہ جرأت اور دلیری حضرت ابو بکرؓ میں اِسی وجہ سے پیدا ہو ئی کہ خدا نے یہ فرمایا کہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَالَّذِیْنَ مَعَهٗ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ جس طرح بجلی کے ساتھ معمولی تار بھی مل جا ئے تو اس میں عظیم الشان طاقت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح محمد رسول اللہﷺ کے تعلق کے نتیجہ میں آپؐ کے ماننے والے بھی اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ کے مصداق بن گئے۔ ‘‘
سوال نمبر7: حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے لشکراسامہ کی روانگی کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام جیشِ اسامہ کی روانگی کی بابت اپنی تصنیف سر الخلافہ میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’ابنِ اثیر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ جب رسول اللہﷺ کا وصال ہوا اور آپؐ کی وفات کی خبر مکہ اور وہاں کے گورنر عَتَّاب بن اَسِیدکو پہنچی تو عَتَّاب چھپ گیا اور مکہ لرز اٹھا اور قریب تھا کہ اس کے باشندے مرتد ہو جاتے اور مزید لکھا ہے کہ عرب مرتد ہو گئے۔ ‘‘ر قبیلہ میں سے عوام یا خواص۔ اورنفاق ظاہر ہو گیا اور یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھنا شروع کر دیا اور مسلمانوں کی اپنے نبیؐ کی وفات کی وجہ سے، نیز اپنی قلت اور دشمنوں کی کثرت کی وجہ سے ایسی حالت ہو گئی تھی جیسی بارش والی رات میں بھیڑ بکریوں کی ہوتی ہے اس پر لوگوں نے ابوبکرؓ سے کہا کہ یہ لوگ صرف اسامہ کے لشکر کو ہی مسلمانوں کا لشکر سمجھتے ہیں اور جیسا کہ آپؓ دیکھ رہے ہیں عربوں نے آپؓ سے بغاوت کر دی ہے۔ پس مناسب نہیں کہ آپؓ مسلمانوں کی اس جماعت کو اپنے سے الگ کر لیں۔ اس پر (حضرت) ابوبکرؓ نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر مجھے اس بات کا یقین بھی ہو جائے کہ درندے مجھے اچک لیں گے تب بھی میں رسول اللہﷺ کے حکم کے مطابق اسامہ کے لشکر کو ضرور بھیجوں گا۔ جو فیصلہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے میں اسے منسوخ نہیں کر سکتا۔ ‘‘
سوال نمبر8: حضرت ابوبکرؓ نے لشکراسامہ کو روانگی کے وقت کیا نصائح فرمائیں؟
جواب: فرمایا: لشکر کو خطاب فرماتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ میں تم کو دس باتوں کی نصیحت کرتا ہوں: تم خیانت نہ کرنا، اور مال غنیمت سے چوری نہ کرنا، تم بدعہدی نہ کرنا، اور مُثلہ نہ کرنا یعنی کسی کے ناک کان نہ کاٹنا آنکھیں نہ نکالنا چہرہ نہ بگاڑنا، اور کسی چھوٹے بچے کو قتل نہ کرنا اور نہ کسی بوڑھے کو اور نہ ہی کسی عورت کو، اور نہ کھجور کے درخت کو کاٹنا اور نہ اس کو جلانا، اور نہ کسی پھل دار درخت کو کاٹنا، نہ تم کسی بکری گائے اور اونٹ کو ذبح کرنا سوائے کھانے کے لیے، اور تم کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرو گے جنہوں نے اپنے آپ کو گرجوں میں وقف کر رکھا ہے پس تم انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دینا یعنی راہب، عیسائی پادری، جتنے ہیں ان کو کچھ نہیں کہنا، اور تم ایسے لوگوں کے پاس جاؤ گے جو تمہیں مختلف قسم کے کھانے برتنوں میں پیش کریں گے تم ان پر اللہ کا نام لے کر کھانا۔ یہ نہیں کہ اگر انہوں نے کھانا پیش کیا تو نہ کھاؤ کہ حرام ہے، بسم اللہ پڑھ کے کھا لینا، اور تمہیں ایسے لوگ ملیں گے جو اپنے سر کے بال درمیان سے صاف کیے ہوں گے اور چاروں طرف پٹیوں کی مانند بال چھوڑے ہوں گے تو تلوار سے ان کی خبر لینا…فرمایا کہ اللہ کے نام سے روانہ ہو جاؤ۔ اللہ تمہیں ہر قسم کے زخم سے اور ہر قسم کی بیماری اور طاعون سے محفوظ رکھے۔
سوال نمبر9: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لشکراسامہ کے اثرات کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: لشکر اسامہ کے اثرات کے بارے میں لکھا ہے کہ اس لشکر کے بہت ہی اہم اور دُوررَس اثرات ظاہر ہوئے: 1: وہ سب لوگ جو کہ پہلے بہت شدت سے قائل تھے کہ حالات کا تقاضا ہے کہ لشکرِ اسامہ کو ابھی نہیں بھیجنا چاہیے وہ جان گئے کہ خلیفہ کا فیصلہ کتنا بروقت اور مفید تھا اور وہ جان گئے کہ حضرت ابوبکرؓ بہت ہی عمیق نظر اور فہم و فراست کے حامل تھے، 2: اس لشکر کی روانگی سے قبل قبائل عرب میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی اور وہ سوچنے لگے کہ اگر مسلمانوں کے پاس قوت نہ ہوتی تو یہ لشکر روانہ نہ کرتے۔ اس کا ان پر کافی رعب پڑا، 3: عرب کی سرحدوں پر نظریں لگائے غیر ملکی قوتیں خاص طور پر رومیوں پر مسلمانوں کا رعب طاری ہو گیا۔ رومی کہنے لگے یہ کیسے لوگ ہیں کہ ایک طرف تو ان کا نبی فوت ہو رہا ہے اور پھر بھی یہ ہمارے ملک پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔
سوال نمبر10: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مرتدین کی اقسام کے حوالے سے کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: ایک ڈاکٹر عبدالرحمٰن ہیں وہ کہتے ہیں کہ مرتدین کی چار قسمیں ہیں: 1: وہ جو بت پرستی میں لگ گئے 2:وہ جنہوں نے جھوٹے مدعیان نبوت اسود عنسی، مسیلمہ کذاب اور سَجَاح کی اتباع کی۔ 3: وہ جنہوں نے وجوبِ زکوٰة کا انکار کیا4: وہ جنہوں نے وجوب زکوٰة کا تو انکار نہ کیا لیکن ابوبکرؓ کو دینے سے انکار کیا۔
سوال نمبر11: منکرین زکوٰۃ کی بابت حضرت ابوبکرؓ نے کیاموقف اختیارفرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت ابوبکرؓ اس رائے کے حامی تھے کہ منکرینِ زکوٰة سے جنگ کر کے بزور ادائے زکوٰة پر مجبور کرنا چاہیے۔ اس امر میں ان کی شدت کا یہ عالم تھا کہ بحث کرتے ہوئے پُرزور الفاظ میں فرمایا۔ واللہ! اگر منکرینِ زکوٰة مجھے ایک رسّی دینے سے بھی انکار کریں گے جسے وہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں ادا کیا کرتے تھے تو بھی میں ان سے جنگ کروں گا۔
سوال نمبر12: دنیا کے موجودہ حالات کی بابت حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: میں دنیا کے جو موجودہ حالات ہیں، اس بارے میں کہنا چاہتا ہوں۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ دونوں طرف کی حکومتوں کو عقل دے، سمجھ دے اور انسانیت کا خون کرنے سے یہ لوگ باز آ جائیں۔ ساتھ ہی یہ جنگ جو ہے اس سے ہمیں، مسلمانوں کو بھی سبق لینا چاہیے کہ کس طرح یہ لوگ ایک ہو گئے ہیں لیکن مسلمان باوجود ایک کلمہ پڑھنے کے کبھی ایک نہیں ہوتے۔ ایک ملک تباہ کیا، عراق تباہ کروایا، سیریا تباہ کروایا، یمن کی تباہی ہو رہی ہے اور غیروں سے کرواتے ہیں اور خود بھی کر رہے ہیں بجائے اس کے کہ ایک ہوں۔ کم از کم یہ اکائی کا سبق ہی یہ مسلمان ان لوگوں سے سیکھ لیں۔ اللہ تعالیٰ مسلم قوم پر بھی رحم کرے۔ مسلمانوں پر بھی رحم کرے۔ امّتِ مسلمہ پر رحم کرے اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب یہ لوگ زمانے کے امام کو ماننے والے بھی ہوں جو اسی مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں بھیجا ہے۔ اللہ تعالیٰ عقل اور سمجھ دے اور ساتھ ہی جہاں یہ اپنی حالتیں درست کرنے والے ہوں وہاں دنیا کے لیے دعا بھی کریں اور اپنے وسائل اور ذرائع استعمال کر کے دنیا کو جنگوں سے روکنے والے بھی ہوں نہ کہ خود جنگوں میں شامل ہونے والے۔
سوال نمبر13: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے کس مرحوم کا ذکرخیرفرمایا؟
جواب: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سیدہ قیصرہ ظفرہاشمی صاحبہ (آف لاہور)کا ذکرخیرفرمایا۔
٭…٭…٭