علوم جدیدہ حاصل کرو اور بڑے جدوجہد سے حاصل کرو
عقل اور کلام الٰہی سے کام لو تاکہ سچی معرفت اور یقین کی روشنی تمہارے اندر پیدا ہو اور تم دوسرے لوگوں کو ظلمت سے نور کی طرف لانے کا وسیلہ بنو۔ اس لئے کہ آجکل اعتراضوں کی بنیاد طبعی اور طبابت اور ہیئت کے مسائل کی بناء پر ہے۔ اس لئے لازم ہوا کہ ان علوم کی ماہیّت اور کیفیّت سے آگاہی حاصل کریں تاکہ جواب دینےسے پہلے اعتراض کی حقیقت تو ہم پر کھل جائے۔
…پس ضرورت ہے کہ آجکل دین کی خدمت اور اعلائے کلمة اللہ کی غرض سے علوم جدیدہ حاصل کرو اور بڑے جدوجہد سے حاصل کرو۔ لیکن مجھے یہ بھی تجربہ ہے جو بطور انتباہ میں بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ جو لوگ ان علوم ہی میں یکطرفہ پڑ گئے اور ایسے محو اور منہمک ہوئے کہ کسی اہلِ دل اور اہلِ ذکر کے پاس بیٹھنے کا ان کو موقعہ نہ ملا۔ اور وہ خود اپنے اندر الٰہی نور نہ رکھتے تھے وہ عموماً ٹھوکر کھا گئے اور اسلام سے دُور جا پڑے۔ اور بجائے اس کے کہ ان علوم کو اسلام کے تابع کرتے۔ اُلٹا اسلام کو علوم کے ماتحت کرنے کی بے سود کوشش کر کے اپنے زعم میں دینی اور قومی خدمات کے متکفّل بن گئے۔ مگر یاد رکھو کہ یہ کام وہی کر سکتا ہے۔ یعنی دینی خدمت وہی بجا لا سکتا ہے جو آسمانی روشنی اپنے اندر رکھتا ہو۔
(ملفوظات جلد1صفحہ 68-69، ایڈیشن 1984ء)
قرآن کریم میں ان لوگوں کو جو عقل سے کام لیتے ہیں اولوالالباب فرمایا ہے۔ پھر اس کے آگے فرمایا ہے اَلَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوۡدًا وَّعَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ الآیہ (آل عمران: 192) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دوسرا پہلو بیان کیا ہے۔ کہ اولوالالباب اور عقل سلیم بھی وہی رکھتے ہیں جو اللہ جلشانہ کا ذکر اٹھتے بیٹھتے کرتے ہیں۔ یہ گمان نہ کرنا چاہیئے۔ کہ عقل و دانش ایسی چیزیں ہیں جو یونہی حاصل ہوسکتی ہیں۔ نہیں۔
بلکہ سچی فراست اور سچی دانش اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کئے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتی۔ اسی واسطے تو کہا گیا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ نورِ الٰہی سے دیکھتا ہے۔ صحیح فراست اور حقیقی دانش جیسا میں نے ابھی کہا۔ کبھی نصیب نہیں ہوسکتی۔ جب تک تقویٰ میسر نہ ہو۔
اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو۔ تو عقل سے کام لو۔ فکر کرو۔ سوچو۔ تدبر اور فکر کے لئے قرآن کریم میں بار بار تاکیدیں موجود ہیں۔
(ملفوظات جلد1صفحہ 65-66، ایڈیشن 1984ء)