نظامِ شوریٰ از افاضات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ (قسط نمبر16)
مشورے وہی بابرکت ہوتے ہیں جو صحتِ نیت اور اخلاص سے دیے جائیں
1961ء کی مجلسِ مشاورت میں حضورؓ بوجہ علالت بنفسِ نفیس شمولیت نہ فرما سکے۔ حضورؓ نے اِس موقع کے لئےایک پیغام تحریر فرمایا جو درج ذیل ہے:
’’ اَعوْذ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنصَلِّیْ عَلٰی رَسوْلِہِ اْلکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھُوَالنَّاصِر
برادران!
اَلسَّلَامُ عَلَیْکمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتہٗ
مَیں جوان تھا جب مَیں نے مجلس مشاورت کی بنیاد رکھی اور اب میں بیمار اور کمزور ہوں جس کی وجہ سے نہ تو مَیں مجلس شوریٰ میں زیادہ دیر بیٹھ سکتا ہوں اور نہ ہی اس کی کارروائی میں اس طرح حصہ لے سکتا ہوں جس طرح پہلے لیا کرتا تھا بلکہ اس مجلس مشاورت میں تو شرکت سے ہی معذور ہوں لیکن اِس لئے کہ میں دعا کے ساتھ مجلس مشاورت کا افتتاح کر دوں باوجود بیماری اور کمزوری کے عزیزم مرزا بشیر احمد کے ہاتھ یہ مختصر سا افتتاحی پیغام بھجوا رہا ہوں اور دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ احتیاط اور غور و فکر سے مشورہ دیں۔ مشورے وہی بابرکت ہوتے ہیں جو صحتِ نیت اور اخلاص کے ساتھ جماعتی مفاد کی غرض سے دئیے جائیں اور جن میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے قائم کردہ سلسلہ کی بہبودی کو مدنظر رکھا گیا ہو۔ اگر آپ لوگ اپنے مشوروں میں اس روح کو قائم رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے کاموں میں ہمیشہ برکت رکھے گا اور آپ کے مشوروں کے اچھے نتائج پیدا کرے گا لیکن اگر آپ لوگوں نے بھی کسی وقت یہ دیکھنا شروع کر دیا کہ زید یا بکر کی کیا رائے ہے اور یہ نہ دیکھا کہ سلسلہ کا مفاد کس امر میں ہے تو آپ کے کاموں میں برکت نہیں رہے گی اور آپ کے مشورے محض رسمی بن کر رہ جائیں گے اور خدائی نصرت کو کھو بیٹھیں گے۔ پس آپ لوگوں پر ایک بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہے۔ آپ لوگ جب مشورہ دینے کے لئے جمع ہوتے ہیں تو درحقیقت آپ ایک ایسے راستہ پر قدم مارتے ہیں جو تلوار کی دھار سے بھی زیادہ تیز اور بال سے بھی زیادہ باریک ہے۔ پس آپ لوگ بڑی احتیاط اور غوروفکر کے ساتھ مشورہ دیں اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرتے رہیں کہ وہ حق آپ کی زبان پر جاری کرے اور آپ کو ایسے فیصلوں پر پہنچنے کی توفیق بخشے جو سلسلہ کے لئے مفید اور اس کی دینی اور روحانی اور تنظیمی اور مالی حالت کو بہتر بنانے والے ہوں۔‘‘(تحریری پیغام برائے مجلسِ شوریٰ1961ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلدسوم صفحہ 741تا743)
مشورہ کے وقت صحیح رائے دی جائے
’’ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ مشورہ کے وقت صحیح رائے دیں اور جب خلیفہ یا اس کے مقرر کردہ اشخاص فیصلہ کر دیں۔ جوخواہ ان کی رائے کے خلاف ہی ہو تو ایسی سعی کریں کہ ان کی طرف سے کام میں کوئی کسر نہ رہے۔ تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ چونکہ یہ فیصلہ ان کی رائے کے خلاف کیا گیا تھا اس لیے انہوں نے خراب کر دیا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍ اپریل 1922ء، خطباتِ محمود جلد7صفحہ 256)
نمائندگانِ شوریٰ کی بعد ازشوریٰ ذمہ داریاں
’’جماعت کے تمام نمائندے جو ہندوستان کے مختلف صوبوں اور مختلف گوشوں سے اس موقع پر آئے تھے انہوں نے اس مجلسِ شوریٰ میں خداتعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اور اللہ تعالیٰ کو گواہ قرار دیتے ہوئے وعدہ کیا ہے کہ نہ صرف وہ اپنی ذات ہی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسلام کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں گے بلکہ یہ بھی کہ واپس جا کر اپنی اپنی جماعتوں کو ان کے ان فرائض کی طرف توجہ دلائیں گے جو ان کے ذمہ عائد ہوتے ہیں۔ اور ہر بھائی کو اسلام کی خدمت کے لیے کہیں گے۔ اور انہیں اس نازک وقت کے لحاظ سے جو اسلام پر اس وقت ہے۔ اس بات پر آمادہ و تیار کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ اس کے لیے ہر رنگ میں کمر بستہ ہو جائیں۔ پس میں تمام نمائندگان کے اس وعدہ کو جو ہمارے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں وہ کر کے گئے ہیں۔ ساری جماعت کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ اور اس خطبہ ذریعہ ان کو بھی اور تمام جماعت کو آگاہ کرتا ہوں کہ جن لوگوں کو انہوں نے نمائندہ منتخب کر کے یہاں بھیجا تھا وہ کیا ودہ کر کے گئے ہیں۔ اور ان کے ان وعدوں کی بنا پر جو خدا کو حاضر ناظر جانتے ہوئے اور اسے گواہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کیے، خود ان پر اورآپ لوگوں پر کیا فرض عائد ہوتا ہے۔ جلد ہی ان تمام نمائندوں کے ناموں کی فہرست شائع کر دی جائے گی۔ تا وہ لوگ بھی کہ جنہوں نے اپنے وعدوں پرخدا کو گواہ قرار دیا اس بات کو سمجھ سکیں کہ وہ کس ذمہ داری اور فرض کو اس وعدے کے کرنے سے اپنے اوپر عائد کر گئے ہیں اور تا جماعت کے لوگ بھی ان کے ان وعدوں پر گواہ ہو جائیں۔ اور ہر فرد معلوم کر سکے کہ اس کی ذمہ داریاں نمائندوں کے اقرار کے ساتھ بہت بڑھ گئی ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍ اپریل 1927ء، خطباتِ محمود جلد11صفحہ 68-69)
1938ء کی مجلسِ مشاورت کے بعد آمدہ جمعہ 22؍اپریل کو حضرت مصلح موعودؓ نے مجلسِ شوریٰ میں تنقید کے اصول کے عنوان پر ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ میں آپؓ نے مجلسِ شوریٰ سے متعلق بعض امور کی وضاحت فرمائی۔
مجلسِ شوریٰ اورصدر انجمن احمدیہ کے بالمقابل خلافت کا مقام
’’یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خلیفہ کا مقام کیا ہے۔ مجلس شوریٰ ہو یا صدر انجمن احمدیہ، خلیفہ کامقام بہرحال دونوں کی سرداری کا ہے۔ انتظامی لحاظ سے وہ صدرانجمن کےلئے بھی رہنما ہے اور آئین سازی و بحث کی تعیین کے لحاظ سے وہ مجلس شوریٰ کے نمائندوں کیلئے بھی صدر اور رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ جماعت کی فوج کے اگر دو حصے تسلیم کرلئے جائیں تو وہ اِس کا بھی سردار ہے اور اُس کا بھی کمانڈر ہے اور دونوں کے نقائص کا وہ ذمہ دار ہے اور دونوں کی اصلاح اس کے ذمہ واجب ہے۔ اس لحاظ سے اس کےلئے یہ نہایت ضروری ہے کہ جب کبھی وہ اپنے خیال میں کسی حصہ میں کوئی نقص دیکھے تو اس کی اصلاح کرے۔ اپنے خیال میں مَیں نے اس لئے کہا ہے کہ انسان ہمیشہ غلطی کرسکتا ہے اور خلیفہ بھی غلطی کرسکتا ہے۔ میں نے کبھی اس عقیدہ کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی یہ اسلامی عقیدہ ہے کہ خلیفہ غلطی نہیں کرسکتا۔ اور بشری انتظام میں جب نبی بھی غلطی کرسکتا ہے تو خلیفہ کی کیا حیثیت ہے۔ پس یقینا ًخلیفہ بھی غلطی کرسکتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ امکان کیا ہے بلکہ یہ ہے کہ موقع کا تقاضا کیا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک باپ اپنے لڑکے کی تعلیم و تربیت کے متعلق فیصلہ کرنے میں غلطی کرجائے لیکن کیا اس غلطی کے امکان کی وجہ سے اپنے لڑکے کی تعلیم و تربیت کے متعلق انتظام کا اسے جو حق ہے وہ مارا جاتا ہے۔ ساری دنیا بِالْاتفاق اس بات کو مانتی ہے کہ باپ خواہ فیصلہ غلط کرے یا درست، اپنے لڑکے کی تعلیم و تربیت کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق بہرحال اُس کو ہے۔ یہی صورت خلیفہ کے بارہ میں ہے۔ اس کی نسبت غلطی کا امکان منسوب کرکے اس کی ذمہ داری کو اُڑایا نہیں جاسکتا لیکن یہ ادنیٰ تمثیل ہے۔ باپ اور خلیفہ کے مقام میں کئی فرق ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہماری شریعت کہتی ہے کہ خداتعالیٰ جسے خلیفہ بناتا ہے اُس سے ایسی اہم غلطی نہیں ہونے دیتا جو جماعت کےلئے نقصان کا موجب ہو۔ گویاعصمتِ کبریٰ تو بطور حق کے انبیاء کو حاصل ہوتی ہے لیکن عصمتِ صغریٰ خلفاء کو بھی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں وعدہ فرماتا ہے کہ جو کام خلفاء کریں گے اُس کے نتیجہ میں اسلام کا غلبہ لازمی ہوگا۔ ان کے فیصلوں میں جزئی اور معمولی غلطیاں ہوسکتی ہیں، ادنیٰ کوتاہیاں ہوسکتی ہیں مگر انجام کار نتیجہ یہی ہوگا کہ اسلام کو غلبہ اور اس کے مخالفوں کوشکست ہوگی یہ خلافت کیلئے ایک معیار قائم کیا گیا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍ اپریل 1938ء، خطباتِ محمود جلد19صفحہ 249-250)
مجلسِ شوریٰ کوصدر انجمن احمدیہ پر فوقیت
’’مجلس شوریٰ اپنے مقام کے لحاظ سے صدر انجمن پر غالب ہے۔ اس میں براہ راست اکثر جماعتوں کے نمائندے شریک ہوکر مشورہ دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ابھی بیرونی ممالک کی جماعتوں کے نمائندے شریک نہیں ہوسکتے لیکن جب ان میں بھی امراء داخل ہوجائیں گے یا جماعتیں زیادہ ہوجائیں گی اور وہ اپنے نمائندوں کے سفر خرچ برداشت کرسکیں گی اور سفر کی سہولتیں میسر ہوں گی۔ مثلاً ہوائی جہازوں کی آمدورفت شروع ہوجائے گی تو اُس وقت ان ممالک کے نمائندے بھی اس میں حصہ لے سکیں گے۔ پس مجلس شوریٰ جماعت کی عام رائے کو ظاہر کرنے والی مجلس ہے اور خلیفہ اس کا بھی صدر اور رہنما ہے۔ انبیاء کو بھی اللہ تعالیٰ نے مشورہ کا حکم دیا ہے اور خلافت کے متعلق تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَا خِلَافَۃَ اِلَّا بِالْمَشْوَرَۃِ۔ خلیفہ کو یہ حق تو ہے کہ مشورہ لے کر ردّ کردے لیکن یہ نہیں کہ لے ہی نہیں۔ مشورہ لینا بہرحال ضروری ہے اور جب وہ مشورہ لیتا ہے تو قدرتی بات ہے کہ وہ اسے ردّ اسی صورت میں کرے گا کہ جب سمجھے گا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میری ذمہ داری کا یہی تقاضا ہے۔ اگر وہ شریف آدمی ہے اور جب اسے خداتعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ سمجھا جائے تو اس کی شرافت میں کیا شبہ ہوسکتا ہے تو وہ سوائے خاص حالات کے مشورہ کو ضرور مان لے گا۔ ہاں خاص صورتوں میں بوجہ اس کے کہ درحقیقت وہ خداتعالیٰ کا نمائندہ ہے اگر وہ سمجھے کہ اس بات کو ماننے سے دین کو یا اس کی شان و شوکت کو کوئی خاص نقصان پہنچتا ہے تو وہ اس مشورہ کو ردّ بھی کردے گا مگر اس اختیار کے باوجود اسلامی نظام مشورہ اور رائے عامہ کو بہت بڑی تقویت دیتا ہے اور وہ اس طرح کہ اتنے لوگوں کی رائے کو جو پبلک میں ظاہر ہوچکی ہو کبھی کوئی شخص خواہ وہ کتنی بڑی حیثیت کا ہو معمولی طور پر ردّ کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ وہ کثرتِ رائے کو اُسی وقت ردّ کرسکتا ہے جب وہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی ذمہ داری کا یہی تقاضا ہے۔ یہ امر ظاہر ہے کہ اکیلے شخص کو یہ جرأت نہیں ہوسکتی کہ وہ کثرتِ رائے کو ردّ کردے۔ کثرتِ رائے کو ردّ یا تو پاگل کرسکتا ہے اور یا پھر وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی طاقت ہے جو اس کی بات کو منوالے گی۔ پس خلفاء اُسی وقت ایسی رائے کو ردّ کردیں گے جبکہ وہ خداتعالیٰ کی مدد کایقین رکھیں گے اور سمجھیں گے کہ ہم صرف خداتعالیٰ کے منشاء کو پورا کررہے ہیں اور جب وہ خدائی طاقت سے جماعت کے مشورہ کو ردّ کریں گے تو ان کی کامیابی یقینی ہوگی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍ اپریل 1938ء، خطباتِ محمود جلد19صفحہ 254-255)
(جاری ہے)
٭…٭…٭