نظامِ شوریٰ از افاضات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ (قسط نمبر17)
شوریٰ کے بعض فوائد کا ذکر
’’اسلام نے شوریٰ کے نظام سے خودسری اور خودرائی کے لیےایک بڑی روک پیدا کر دی ہے۔ پھر تربیت کے لحاظ سے بھی مشورہ ضروری ہے کیونکہ اگر مشورہ نہیں لیا جائے گا تو جماعت کے اہم امور کی طرف افراد جماعت کو توجہ نہیں ہوگی …اس میں اور بھی بیسیوں حکمتیں ہیں مگر میں اِس وقت انہیں نہیں بیان کررہا۔ مختصر یہ ہے کہ شوریٰ خداتعالیٰ کی طرف سے خاص حکمت کے ماتحت ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ وَأَمۡرُهُمۡ شُوْرَىٰ بَيۡنَهُمۡ گویا مشورہ والی انجمن کو قرآنی تائید حاصل ہے اور اس کا ذکر قرآن کریم میں کرکے اسے اہم قرار دے دیا ہے۔ گو قرآن کریم میں کارکنوں کا بھی ذکر ہے مگر شوریٰ کو ایک فضیلت دی گئی ہے اور جب جماعت کے مختلف افراد مل کر ایک مشورہ دیں اور خلیفہ اسے قبول کرلے تو وہ جماعت میں سب سے بڑی آواز ہے اور ہر خلیفہ کا فرض ہے کہ وہ دیکھے جس مشورہ کو اس نے قبول کیا ہے اس پر کارکن عمل کرتے ہیں یا نہیں اورکہ اس کی خلاف ورزی نہ ہو۔ یہ دو مختلف پہلو ہیں جنہیں نظر انداز کرنے کی وجہ سے دونوں فریق اعتراض کرتے ہیں۔ جب میں جماعت کے دوستوں کو ان کی غلطی کی وجہ سے سمجھاتا ہوں تو کہا جاتا ہے کہ ضمیر کی حریت کہاں گئی اورجب میں دیکھوں کہ ناظروں نے غلطی کی ہے اور اُن کو گرفت کروں تو بعض دفعہ اُن کو بھی شکوہ پیدا ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کام میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں مگر مجھ پر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا فرض ہے جسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کرسکتا اور دراصل خلافت کے معنی ہی یہ ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍ اپریل 1938ءمطبوعہ خطباتِ محمود جلد19صفحہ255-256)
تنقید سے گھبرانا نہیں چاہیے
’’میں کہتا ہوں کہ ناظر تنقید سے گھبراتے کیوں ہیں؟ ان کا مقام وہ نہیں کہ تنقید سے بالا سمجھاجاتا ہو۔ ہر کارکن خلیفہ نہیں کہلاسکتا۔ میرے نزدیک اس بارہ میں جماعت اور ناظر دونوں پر ذمہ داری ہے۔ جماعت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ خیال رکھیں کہ ان میں سے جو لوگ سلسلہ کےلئے اپنی زندگیوں کو وقف کرکے بیٹھے ہوئے ہیں ان کا مناسب احترام کیا جائے اور ناظروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جماعت کی تنقید کو ایک مخلص بھائی کے مشورہ کے طور پر سُنیں کیونکہ ان کا مقام تنقید سے بالا نہیں ہے۔ پارلیمنٹوں میں تو وزراء کو جھاڑیں پڑتی ہیں جس کی حد نہیں مگر پھر بھی وزراء کے رُعب میں فرق نہیں آتا۔ یہاں تو میں روکنے والا ہوں، مگر وہاں کوئی روکنے والا نہیں ہوتا۔ گالی گلوچ کوسپیکر روکتاہے، سخت تنقید کو نہیں بلکہ اسے مُلک کی ترقی کےلئے ضروری سمجھا جاتا ہے پس اس تنقید سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ اگرتنقید کا کوئی پہلو غلط ہو تو ثابت کریں کہ وہ غلط ہے اور اگر وہ صحیح ہے تو بجائے گھبرانے کے اپنی اصلاح کریں …تنقید نامناسب رنگ میں نہ ہو اور اس قسم کی تنقید کرنے والوں کو میں سختی سے روکتا ہوں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍ اپریل 1938ء خطباتِ محمود جلد19صفحہ 255تا263)
مجلسِ شوریٰ اور صدر انجمن احمدیہ کے فرائض
’’اس میں شک نہیں کہ بعض دفعہ شوریٰ بھی غلط فیصلے دیتی ہے۔ مثلاًاسی سال کی مجلس شوریٰ میں پہلے ایک مشورہ دیا گیا اور پھر اس کے خلاف دوسرا مشورہ دیا گیا جس کی طرف مجھے توجہ دلانی پڑی۔ تو ایسی غلطیاں مجلس شوریٰ بھی کرسکتی ہے، انجمن بھی کرسکتی ہے اور خلیفہ بھی کرسکتا ہے بلکہ بشریت سے تعلق رکھنے والے دائرہ کے اندر انبیاء بھی کرسکتے ہیں۔ جو بالکل غلطی نہیں کرسکتا وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ شوریٰ کو تنقید کا جو حق ہے وہ ماردیا جائے۔ گو شوریٰ غلطی کرسکتی ہے مگر اس سے اس کا حق باطل نہیں کیا جاسکتا۔ اور ناظر بھی غلطی کرسکتے ہیں مگر ان کے دائرہ عمل میں ان کے ماتحتوں کا فرض ہے کہ ان کی اطاعت کریں۔ ہاں جو امور شریعت کے خلاف ہوں ان میں اطاعت نہیں ہے…جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ غلطی ہر شخص کرسکتا ہے ممکن ہے کسی فیصلہ میں ناظر بھی غلطی کرے لیکن اس دائرہ میں اس کی غلطی کو بھی ماننا پڑے گا۔ پس خلیفہ کا فیصلہ مجلسِ شوریٰ اور نظارت کےلئے ماننا ضروری ہے۔ اسی طرح شوریٰ کے مشورہ کو سوائے استثنائی صورتوں کے تسلیم کرنا خلیفۂ وقت کےلئے ضروری ہے اور جس مشورہ کو خلیفۂ وقت نے بھی قبول کیا اور جسے شرعی احکام کے ماتحت عام حالتوں میں خلیفہ کو بھی قبول کرنا چاہئے یقیناً نظارت اس کی پابند ہے خواہ وہ غلط ہی ہو۔ …غرض ناظروں کا یہ فرض ہے کہ شوریٰ کے فیصلوں کی پابندی کریں یا پھر ان کو بدلوالیں لیکن جب تک وہ فیصلہ قائم ہے ناظروں کا اس پر عمل کرنا ویسا ہی ضروری ہے جیسا ان کے ماتحت کلرکوں اور دوسرے کارکنوں کا ان کے احکام پر۔ اگر ناظر اس طرح کریں تو بہت سے جھگڑے مٹ جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ صدر انجمن احمدیہ کا فرض ہونا چاہئے کہ ہر شوریٰ کے معاً بعد ایک میٹنگ کرکے دیکھے کہ کونسا فیصلہ کس نظارت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور پھر اسے ناظر متعلقہ کے سپرد کرے کہ اِس پر عمل ہو اور وقت مقرر کردیا جائے کہ اس کے اندر اندر اس فیصلہ کی تعمیل پوری طرح ہوجائے اور پھر اس مقررہ وقت پر دوسری میٹنگ کرکے دیکھے کہ عمل ہوا ہے یا نہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍ اپریل 1938ءمطبوعہ خطباتِ محمود جلد19صفحہ260تا262)
اگر جماعت کے افراد صحیح ہوں تو شوریٰ مفید ہو سکتی ہے
’’یہ جو ہم شوریٰ کرتے ہیں وہ اِس غرض کو تو پورا کرتی ہے کہ اگر جماعت کے افراد صحیح ہوں تو شوریٰ مفید ہو سکتی ہے۔ لیکن اِس غرض کو پورا نہیں کرتی کہ اس کے افراد ٹھیک ہوں۔ افراد کا ٹھیک ہونا ان کے اپنے ارادے اور کوشش کے صحیح ہونے پر مبنی ہے۔ یہ وہ کام ہے جو آپ لوگ کر سکتے ہیں کوئی نمائندہ نہیں کر سکتا۔ دل کی اصلاح کے لئے انسان کی اپنی جدوجہد کی ضرورت ہے، اس کی اپنی کوشش کی ضرورت ہے۔ اگر تم ٹھیک ہو جاؤ تو تمہاری شوریٰ اور مشورے بھی ٹھیک ہو جائیں اور پھر صحیح مشورے پورے بھی ہو جائیں۔ کیونکہ اگر تم صحیح ہو گے تو تم اپنے مشوروں کو پورا کرنے کی کوشش کرو گے۔ لیکن اگر افراد صحیح نہیں تو نمائندے چونکہ انہی میں سے ہوں گے اور وہ ٹھیک نہیں ہوں گے اس لئے جب نمائندہ عقل و خرد، تقویٰ اور میانہ روی سے عاری ہو تو اُس کا مشورہ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ اور اگر اتفاقاً کوئی مشورہ ٹھیک ہو بھی تو اُس کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر تمہاری اصلاح نہیں ہو گی تو تمہارا سارا وقت خراب ہو گا۔ اور اگر نمائندے غلط مشورہ دیں گے تو اُس پر عمل بھی نہیں ہوگا۔ یہ ساری کُنجی فرد کے ہاتھ میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام انفرادیت پر خاص زور دیتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 11؍ اپریل 1952ءمطبوعہ خطباتِ محمود جلد33صفحہ 97)
مجلسِ شوریٰ کے لیے پختہ کاراور متقی نمائندے چننے چاہئیں
’’پس تم اپنی شخصیت اور انفرادیت کو پختہ کرو۔ اگر تم اجتماعی روح کے ساتھ انفرادیت اور شخصیت کی روح کو اُجاگر کرو گے تو تم جن لوگوں کو اپنا نمائندہ چنو گے وہ پختہ کار اور متقی ہوں گے۔ اور اگر نمائندے پختہ کار اور متقی ہوں گے تو جو مشورہ وہ دیں گے وہ صحیح ہو گا۔ اور جومشورہ وہ دیں گے وہ پورا بھی ہو گا۔ کیونکہ اگر تم پختہ کار اور متقی نمائندے چنو گے توتم بھی پختہ کار اور سنجیدہ بنو گے اور ان کے مشورہ پر عمل کر کے دکھا دو گے۔ تم اِس چکر کو صحیح بناؤ تا تمہارا نام صحیح نتائج پیدا کرے اور وہ کام جو خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے اور خد اتعالیٰ نے اسے جاری کیا ہے یا اُس نے اُسے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے وہ ہو بھی جائے اور ہمارے ہاتھوں سے بھی ہوجائے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 11؍ اپریل 1952ءمطبوعہ خطباتِ محمود جلد33صفحہ98)
مجلسِ شوریٰ میں شمولیت کے اعزاز کی اہمیت
’’مجلسِ شوریٰ میں شمولیت تو ایسی چیز ہے کہ دوست اس پر جتنا بھی فخر کر سکیں کم ہے۔ ہم تو دیکھتے ہیں کہ دنیوی پارلیمنٹوں کے ممبر بھی اجلاس میں سے باہر نہیں جا سکتے۔ چنانچہ انگلستان کی پارلیمنٹ کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر کوئی ممبر کسی ضروری کام کی وجہ سے اجلاس سے باہر جانا چاہے تو وہ اُس وقت تک باہر نہیں جا سکتا جب تک کہ وہ حزبِ مخالف کا ایک آدمی بھی اپنے ساتھ نہ لے جائے۔ ہمارے ہاں توچونکہ کوئی فریقِ مخالف ہوتا ہی نہیں اس لیے اس قانون کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمارا کوئی ممبر اجلاس سے باہر جا ہی نہیں سکتا۔ بہرحال جب دنیا کی انجمنوں میں اتنی سختی کی جاتی ہے تو جو انجمنیں دین کی خدمت کے لیے بنائی جاتی ہیں ان میں تو بہت زیادہ قواعد کا احترام ہونا چاہیےاور ان میں شمولیت کو بہت زیادہ اہم سمجھنا چاہیے۔
درحقیقت اس شوریٰ کی ممبری دنیا کی کئی بادشاہتوں سے بھی بڑی ہے اور جس کو شوریٰ کی ممبری نصیب ہو جاتی ہے وہ دنیا کے کئی بادشاہوں سے بھی زیادہ عزت حاصل کر لیتا ہے…غرض شوریٰ کی ممبری بادشاہوں سے ہی نہیں بلکہ شہنشاہوں کی عزت اور مرتبہ سے بھی بڑھ کر ہے اس لیے دوستوں کو یہ فخر ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اور چاہے جان چلی جائے انہیں اجلاس میں حاضر ہونے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس عظیم الشان نعمت سے جو اُس نے تیرہ سو سال کے بعد دوبارہ مسلمانوں کو عطا فرمائی ہے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور وہ خداتعالیٰ کے فضلوں کا زیادہ سے زیادہ شکریہ ادا کریں تاکہ وہ دنیا میں بھی عزت حاصل کریں اور آخرت میں بھی انہیں عزت حاصل ہو۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ اپریل 1959ءمطبوعہ خطباتِ محمود جلد39صفحہ 359تا360)
٭…٭…٭