حقوق العباد کے ذریعے حقیقی عید کی خوشیاں
کہتے ہیں رمضان المبارک مسلمانوں کے لیے ریفریشر کورس کی حیثیت رکھتا ہے، جس میں ایک طرف ہماری توجہ بھر پور طریق پرحقوق اللہ بجا لانے کی طرف ہوتی ہےتو دوسری طرف دن بھرمحض اللہ تعالیٰ کی خاطر بھوک پیاس برداشت کرنے کی وجہ سے قدرتی طور پرہمارے دل میں ان لوگوں کے لیےاحساس پیدا ہوتا ہے جن کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ اس طرح ہماری توجہ خودبخود حقوق العبادکی ادائیگی کی طرف ہوتی ہے۔ اسی طرح جب ہم خدا تعالیٰ کی خاطر روزہ میں لڑائی جھگڑے اور غصہ سے پرہیز کرتے ہیں توہمیں انسانی ہمدردی اور بھائی چارےکی تعلیم مل رہی ہوتی ہے۔
چنانچہ رمضان کے بعد عید ایک ایسا تہوار ہےجس میں انسان حقوق اللہ کی ادائیگی کےساتھ ساتھ بندوں کے حقوق ادا کر کے حقیقی عید کی خوشیاں حاصل کر سکتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں حقوق العباد اور انسانی ہمدردی اولین درجہ پرہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایاجس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی بے چینی اور کرب کو دور کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی بے چینیوں اور تکلیفوں کو اس سے دور کردے گا۔‘‘ (صحیح مسلم کتاب الذکر باب فضل الاجتماع علی تلاۃ وعلی الذکر)
حضر ت زید بن ثابتؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس وقت تک انسان کی ضرورتیں پوری کرتا رہتا ہے جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لئے کوشاں رہتا ہے۔‘‘(حدیقۃ الصالحین صفحہ643)
حضرت اقدس بانیٔ سلسلہ احمدیہ اپنے منظوم فارسی کلام میں اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مَرا مطلوب و مقصود و تمنّا خدمتِ خلق است
ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم
یعنی میری زندگی کی سب سے بڑی تمنا اور خواہش خدمت خلق ہے۔ یہی میرا کام، یہی میری ذمہ داری، یہی میرا فریضہ اور یہی میرا طریقہ ہے۔
آپ علیہ الصلوٰۃوالسلام مزید فرماتے ہیں: ’’دراصل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے اور خدا تعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ وہ اس سے اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے۔ عام طور پر دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا خادم کسی اس کے دوست کے پاس جاوے اور وہ شخص اس کی خبر بھی نہ لے تو کیا وہ آقا جس کا وہ خادم ہے اس اپنے دوست سے خوش ہو گا؟ کبھی نہیں حالانکہ اس کو تو کوئی تکلیف اس نے نہیں دی، مگر نہیں۔ اس نوکر کی خدمت اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک گویا مالک کے ساتھ حسنِ سلوک ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھی اس طرح پراس بات پر چِڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق سے سرد مہری برتے۔ کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے۔ پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 4صفحہ 215-216 ایڈیشن1988ء)
عید کے موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ الفطر کو بھی اسی لئے لازم قرار دیا تاکہ ہر غریب و مسکین عید کی خوشیوں میں برابر شامل ہو سکے۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے (عید کی ) نماز کے نکلنے سے پہلے صدقہ فطر (ادا کرنے ) کا حکم فرمایا۔ ( صحیح بخاری جلد سوم کتاب الزکاۃ باب اَلصَّدَ قَۃُ قَبلَ العِیْدِ حدیث 1509 صفحہ 160)
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم عید الفطر کے دن ایک صاع خوراک (صدقہ کے لیے ) نکالا کرتے تھے۔ حضرت ابو سعید نے کہا: اور ہماری خوراک جَو، کشمش، پنیر اور کھجور ہوتی تھی۔ ( صحیح بخاری جلد سوم کتاب الزکاۃ باب اَلصَّدَ قَۃُ قَبلَ العِیْدِ حدیث 1510 صفحہ161)
تشریح: اَلصَّدَقَۃُ قَبْلَ العِیْدِ: صدقہ فطر سے چونکہ غرض یہ ہے کہ غریب لوگ بھی عید کے دن امیروں کے ساتھ عید منائیں اور چونکہ رمضان ختم ہونے پر صبح ناشتہ کرنے کے بعد نمازِ عید کے لیے جانا ضروری ہے، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھنے سے قبل صدقہ فطر دیا جانا ضروری قرار دیا۔ (صحیح بخاری جلد سوم کتاب الزکاۃ باب اَلصَّدَ قَۃُ قَبلَ العِیْد صفحہ 161)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں کہ ’’ مخلوق پر شفقت کرنے کے لئے رمضان کی عید میں صدقۃ الفطر کو لازم ٹھہرایا۔ یہاں تک کہ نماز میں جب جاوے تو اس کو ادا کر لے اور پھر یہ صدقہ خاص جگہ جمع کرے تاکہ مساکین کو یقین ہو جائے کہ ہمارے حقوق کی حفاظت کی جائے گی…پس کیا ہی مستحق ہے صلوٰۃ و سلام کا وہ رسول جس نے ہمیں ایسی عمدہ راہ دکھائی۔ یہ چیزیں صرف اسی بات کے لئے تھیں کہ اللہ کی نسبت فرائض جو انسان کے ہیں اور جو فرائض مخلوق کی نسبت ہیں ان کو پورا کریں۔ مگر دنیا کے کسی میلے کو دیکھ لو، ان میں یہ حق و حکمت کی باتیں نہیں جو عیدین میں ہیں۔‘‘(خطباتِ نور صفحہ 430)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’…یہ عید ہمیں توجہ دلاتی ہے کہ قومیں کس طرح ترقی کیا کرتی ہیں۔ ہمارے ملک کے لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ ذرا ذرا سے فائدہ کے لئے ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں حالانکہ رمضان بتاتا ہے کہ دوسروں کا کیا چھیننا ہے خود بھی فاقہ سے رہو اور جو کچھ تمہارے پاس ہے اسے بھی غرباء کی فلاح اور بہبود کے لئے خرچ کرو۔ یہ روح جس دن مسلمانوں میں پیدا ہوگئی در حقیقت وہی دن ان کے لئے حقیقی عید کا دن ہو گا۔ کیونکہ رمضان نے ہمیں بتایا ہے کہ تمہاری کیفیت یہ ہونی چاہئے کہ تمہارے گھر میں دولت توہو مگر اسے اپنے لئے خرچ نہ کرو بلکہ دوسروں کے لئے کرو۔ تب قوم کے لئے عید کا دن آتا ہے۔ آخر عید صرف کھانے پینے کا نام نہیں۔ مسلمانوں میں ایسے ہزاروں لوگ موجود ہیں جو روزانہ وہ کچھ کھاتے ہیں جو غرباء کو عید کے دن بھی میسّر نہیں آتا۔‘‘(خطبہ عید فرمودہ 12؍مئی 1956ء بمقام مری، خطبات محمودجلد اوّل صفحہ479-480)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’ایک احمدی کی عید محض دنیوی عید نہیں ہوتی۔ محض دنیا کی عید جس میں روحانی خوشیاں شامل نہ ہوں یا ان کے لئے جدو جہد نہ ہو یا ان کے حصول کے لئے دعائیں نہ ہوں یا ان کے حصول کے لئے جو دعائیں کی گئی ہیں وہ قبول نہ ہوں تو ایسی عید ایک احمدی کی عید نہیں ہوتی۔ ایک احمدی کی عید ہے ہی روحانی عید۔ چونکہ ہر احمدی (مومن) نوع انسانی کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس لئے اس کی عید حقیقی معنی میں اس وقت ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی دعائیں قبول ہو کر اس کے لئے روحانی خوشیوں کے سامان پیدا کئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ چونکہ بڑا دیالو ہے اس لئے وہ اس کے ذیل میں حسناتِ دنیا بھی دے دیتا ہے۔‘‘(خطباتِ ناصرجلد دہم، خطبات عیدین و نکاح، خطبہ عید الفطر فرمودہ18؍اکتوبر1974ءصفحہ 72-73)
ہماری عید ایسی ہونی چاہیے جس میں ہم دوسروں کے ساتھ خوشیاں بانٹیں۔ اپنے غریب رشتہ داروں کو اپنی خوشیوں میں شامل کریں ان کے بچوں کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’بہت سے ایسے ہیں جو پاکستان میں دکھ اٹھا رہے ہیں۔ ان کے بھائی امریکہ یا کینیڈا یا جرمنی وغیرہ میں یا انگلستان میں موجود ہوں۔ اگر ہزاروں کوس کے فاصلہ پر وہ اُن کی ہمدردی نہیں کرتے اور ان بھوکوں کی خبر گیری نہیں کرتے تو گویا انہوں نے اسلام کے ایک بنیادی اصول کو نظر انداز کر دیا۔ پس اپنے بھائیوں کو خواہ وہ ہزار وں کوس کے فاصلے پر ہوں ہمیشہ ہمدردی کی نظر سے دیکھو اور جو خدمت بھی خدا تمہیں توفیق دے ان کی کرتے رہا کرو۔‘‘(خطبات عیدین حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ خطبہ عیدالفطر فرمودہ8؍جنوری 2000ء صفحہ333)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’…اپنی عید کی خوشیوں میں اپنے غریب بہن بھائیوں کو بھی ضرور شامل کریں۔ میں ہمیشہ اس عید کے موقع پر یہ نصیحت کیا کرتا ہوں کہ اگر امراء اپنے بچوں کے علاوہ غریبوں کے گھر جاکر ان کو عیدی دیں تو ان کا دل بے انتہا شکر سے لبریز ہو کر ان کو دعائیں دے گا۔ وہ ایسی دعائیں ہیں جو ضرور مقبول ہوں گی۔ پس ان کے گھر امیر کا جانا ہی ان کے لئے ایک شرف ہوتا ہے۔ پس اپنے غریب بھائیوں کے گھر وں میں جائیں اور ان کو عیدکی مبارکباد دیں اور جتنی توفیق ہو اُن کو بھی اپنی عیدی میں شامل کریں۔‘‘(خطبات عیدین حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ خطبہ عید الفطر17؍دسمبر2001ء صفحہ 358-359)
عید ایک ایسا موقع ہے جس میں ہم صرف مالی مدد سے ہی کسی کو حقیقی خوشی نہیں پہنچا سکتے اس کے دوسرے طریقے بھی ہیں مثلاً اگر کوئی بیمار ہے تو اس کی عیادت کرکے، کوئی ناراض ہے تواس کو منانے میں پہل کرکے۔ کوئی کسی دکھ یا پریشانی میں مبتلا ہے تو اس کو عید کے موقع پر تنہا نہ چھوڑیں بلکہ اس سے دلجوئی اور ہمدردی کرکے بھی ہم یہ مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’ رمضان میں تو بہت سے دل نرم ہو جاتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا غریبوں کا ضرورت مندوں کا، روزہ رکھنے والوں کا خیال رکھنے والے بہت سارے لوگ ہوتے ہیں۔ جماعت میں تو ایسے نہیں لیکن دوسروں میں ایسے بھی ہیں جو خود چاہے عبادت کریں یا نہ کریں، روزے رکھیں نہ رکھیں، قرآن پڑھیں نہ پڑھیں لیکن عموماً دوسرے مذاہب والوں کو بھی اس نیکی کا خیال آجاتا ہے۔ تو عید کے دنوں میں بھی مسکینوں کی خوشیوں میں شامل ہونا چاہئے۔ غریبوں کی خوشیوں میں بھی شامل ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلیٰ حُبِّہٖ مِسْکِیْناًوَّ یَتِیْماً وَّ اَسِیْرًا۔ (الدھر: 9)یعنی: اور وہ کھانے کو اس کی چاہت کے ہوتے ہوئے بھی مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں۔ تو اپنی ضروریات کے ہوتے ہوئے بھی اپنے مال میں سے خرچ کر کے مسکینوں، یتیموں کا خیال رکھنا نیکی ہے کیونکہ یہ نیکی خدا کی خاطر کی جا رہی ہوتی ہے۔ پس جس طرح گذشتہ دنوں میں اس نیکی کے کرنے کی توفیق ملی تھی، اب بھی یہ نیکی جاری رہنی چاہئے۔ عید اور باقی خوشیوں میں بھی محتاجوں کو یاد رکھیں اور اس عید کی خوشی میں تو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ جماعت تو حتی الوسع ضرورت مندوں کو عید کے دن ضروریات مہیا کرتی ہے، ان کا خیال رکھتی ہے۔ کچھ نہ کچھ انتظام ہوتا ہے او ر اللہ کے فضل سے صاحبِ حیثیت اس میں رقوم بھی بلکہ بعض اچھی رقوم بھجواتے ہیں۔ لیکن انفرادی طور پر بھی ہر ایک کوکوشش کرنی چاہئے کہ اس نیکی کو جاری کرے اور صرف اس عید پر ہی یہ خیال نہ رکھے بلکہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک دفعہ کہا تھا کہ ایسا ذریعہ اختیار کرنا چاہئے کہ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری ہوتی رہے اور جن کو مدد دے کر پائوں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے ان کو کھڑا کیا جائے۔‘‘( مشعلِ راہ جلد پنجم حصہ سوم صفحہ 510)
سیدنا امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک اورموقع پرارشاد فرماتے ہیں: ’’یہی عید ہے جو حقیقی خوشیاں دینے والی عید ہے۔ یہی عید ہے جو خرچ کروانے کے بجائے انعامات سے نوازتی ہے بلکہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جو دوسری قسم کی عید کو عید سمجھے ہوئے ہیں انہیں بھی حقیقی عید کا ادراک دلوانے کی کوشش کریں۔ دنیا کو اس حقیقی پیغام کے پہنچانے کی کوشش کریں جو اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ذریعہ سے ہمیں ملا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق کا صحیح فہم و ادراک دلوائیں تا کہ دنیا سے تاریکی کے بادل چھٹ جائیں۔ ہدایت کا سورج دنیا کو اپنی نورانی کرنوں سے جگمگا دے۔ خدا کی حقیقی بندگی دنیا میں قائم ہو جائے تبھی ہماری عیدیں حقیقی عیدیں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ عید دیکھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔‘‘ (آمین)(خطبہ عید الفطر فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 24؍مئی 2020ء)
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم سب اس کی توفیق سےخلوص اورعاجزی کے ساتھ ہمدردیٔ خلق کے ذریعے رضائے باری تعالیٰ حاصل کرنے والے ہوں۔ آمین۔
٭…٭…٭