خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 29؍ اپریل2022ء
’’نماز کا مغز اور روح وہ دعا ہے جو ایک لذت اور سرور اپنے اندر رکھتی ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
رمضان المبارک میں کی جانے والی نیکیاں سارا سال جاری رکھنے کی تلقین
’’ہماری جماعت کو سرسبزی نہیں آئے گی جب تک آپس میں سچی ہمدردی نہ کریں‘‘
دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لیے جہاں ایمان میں مضبوطی ضروری ہے وہاں علمی اور عملی ترقی بھی ضروری ہے اور اس کے لیے کوشش بھی کرنی چاہیے
دنیا کے عمومی حالات نیز اسیرانِ راہ مولیٰ اور پاکستان و دیگر ممالک میں مخالفت برداشت کرنے والے احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک
محترم عبدالباقی ارشد صاحب (چیئرمین الشرکۃ الاسلامیہ یوکے)کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ حاضر
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 29؍ اپریل2022ء بمطابق 29؍ شہادت 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
رمضان آیا اور تمام ان لوگوں پر جنہوں نے اس سے فیض پانے کی کوشش کی برکتیں بکھیرتے ہوئے گزر گیا۔ اب دو روز باقی رہ گئے ہیں یا شاید بعض جگہ تین روزے رہتے ہوں لیکن بہرحال رمضان اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ ایک عقل مند اور حقیقی مومن ہمیشہ یاد رکھتا ہے اور رکھنا چاہیے کہ رمضان کے ختم ہونے سے ہم اپنی بہت سی ذمہ داریوں اور فرائض سے آزاد نہیں ہو گئے بلکہ
رمضان ان فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کا حق ادا کرنے کی تربیت کر کے گیا ہے۔
ان فرائض کی ادائیگی اور مستقل ادائیگی کے طریق سکھانے آیا تھا اور ان میں ترقی کی منازل کی نشاندہی کرنے آیا تھا اور یہ سکھاتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ بےشک فرض روزوں کا مہینہ تو ختم ہو رہا ہے لیکن باقی فرائض کی ادائیگی کے معیاروں کو اونچا رکھنے اور ان میں ترقی کرتے چلے جانے کا وقت شروع ہو رہا ہے۔ اگر ہم اس حقیقت کو بھول گئے کہ رمضان کے بعد ہم نے اپنے فرائض اور حقوق کی ادائیگی کے معیاروں کو کس طرح قائم رکھنا ہے تو ہم نے اپنا رمضان اس طرح نہیں گزارا جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ ایک حدیث میں آتا ہے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچوں نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک اپنے مابین سرزد ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔
(صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب الصلوات الخمس … الخ حدیث 552)
یہاں واضح ہو کہ
اگر انسان اپنی چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور گناہوں کی نشاندہی نہیں کرتا،ان سے بچنے کی کوشش نہیں کرتا اور ان کے سرزد ہونے پر توبہ واستغفار نہیں کرتا تو وہی کبیرہ گناہ بن جاتے ہیں۔
پس یہاں مراد یہ ہے کہ انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھے، استغفار کرتا رہے تا کہ ان چیزوں سے بچتا رہے۔ پس اگر ہم ایک رمضان کو دوسرے رمضان کے ساتھ نیکیاں کرتے ہوئے اور اپنے فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے، اپنے حق ادا کرتے ہوئے جو عبادتوں کے بھی حق ہیں اور لوگوں کے بھی حق ہیں سال کے باقی مہینے نہیں گزارتے تو ہم نے رمضان سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر معاملے میں بڑی کھول کر ہماری راہنمائی فرمائی ہے۔ بار بار مسلسل ہمیں نصیحت فرمائی کہ اپنی عبادتوں کے بھی حق ادا کرو اور بندوں کے بھی حق ادا کرو۔ اپنی زندگیاں گزارنے کے لیے ایک لائحہ عمل ہمیں دے دیا۔ اگر ہم اس لائحہ عمل کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں، اس طریق کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کریں تو یقیناً ہم ان راستوں پر چلنے والے بن جائیں گے جو نیکیوں میں بڑھنے اور ترقی کرنے کے راستے ہیں، جو ایک رمضان سے دوسرے رمضان کو ملانے کے راستے ہیں، جو اس دوران کی جانے والی غلطیوں اور گناہوں سے بچانے کے راستے ہیں، معاف کروانے کے راستے ہیں۔ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ غلامِ صادق ہی ہیں جو ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیم کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی بار بار تلقین فرماتے ہیں اور کھول کر بیان فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مستقل وارث بننا ہے تو ان پر عمل کرو۔ پس آپؑ کی نصائح میں سے چند نصائح مَیں اس وقت بیان کروں گا۔
رمضان میں ہماری عبادت کی طرف توجہ
پیدا ہوتی ہے۔ فرض نمازیں اور نوافل ہم خاص اہتمام سے ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن نمازوں کی فرضیت کوئی خاص مہینہ اور کسی خاص وقت کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ دن میں پانچ نمازیں اپنے مقررہ وقت پر سال کے بارہ مہینوں میں ادا کرنی ضروری ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں مومنوں کو باربار توجہ دلائی ہے۔ آپؐ نے ایک موقع پر فرمایا کہ نماز کو چھوڑنا انسان کو کفر اور شرک کے قریب کر دیتا ہے۔
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلوٰۃ حدیث 247)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا بندوں سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے۔ اگر یہ حساب ٹھیک رہا تو وہ کامیاب ہو گیا اور نجات پا گیا۔
(سنن الترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ما جاء ان اول ما یحاسب بہ العبد … الخ حدیث 413)
پس یہ اہمیت ہے نماز کی۔ کسی خاص مہینے کے لیے مخصوص نہیں بلکہ دن میں پانچ نمازوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بار بار نمازوں کی اہمیت کی تلقین کی ہے اور نصیحت فرمائی ہے اور کھول کر بیان فرمایا کہ نماز کیا ہے؟ کس طرح ادا کرنی چاہیے؟ کس طرح ہم نماز سے لذت اٹھا سکتے ہیں؟ اور یہ لذت اٹھانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ ایسی نمازیں ہوں جو اللہ تعالیٰ سے محبت میں بڑھانے والی ہوں۔ یہ نہیں کہ جب ضرورت ہوئی، کوئی دنیاوی مسئلہ پیش ہوا تو جائے نماز بچھائی یا مسجد میں چلے گئے اور تھوڑی سی گریہ و زاری کر لی، رو لیے، دعائیں کر لیں۔ جب مسئلہ حل ہو گیا تو پھر بھول گئے یا صرف رمضان میں ہی نمازوں کی طرف توجہ کر لی پھر بھول گئے یا وہ توجہ نہیں رہی جو ہونی چاہیے تھی۔ اگر یہ ہو تو پھر نہ نمازیں گناہوں سے معاف کروانے والی ہوتی ہیں نہ جمعہ اور نہ روزے۔ جیساکہ حدیث میں بیان ہوا ہے جو مَیں نے پیش کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ
’’نماز کیا ہے؟‘‘
فرمایا ’’یہ ایک خاص دعا ہے۔ مگر لوگ اس کو بادشاہوں کا ٹیکس سمجھتے ہیں۔‘‘ مجبوری سے پڑھنی ہے ۔ ’’نادان اتنا نہیں جانتے کہ بھلا خدا تعالیٰ کو ان باتوں کی کیا حاجت ہے۔ اس کے غناء ذاتی کو اس بات کی کیا حاجت ہے کہ انسان دعا، تسبیح اور تہلیل میں مصروف ہے۔ بلکہ اس میں انسان کا اپنا ہی فائدہ ہے کہ وہ اس طریق پر اپنے مطلب کو پہنچ جاتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ آج کل عبادات اور تقویٰ اور دینداری سے محبت نہیں ہے۔‘‘ یہ تو محبت کی باتیں ہیں، محبت ہو تو صحیح طرح ان فرائض کی ادائیگی ہوتی ہے۔ ’’اس کی وجہ ایک عام زہریلااثر رسم کا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت سرد ہو رہی ہے۔‘‘ رسموں میں انسان زیادہ پڑ گیا ہے۔ ’’اور عبادت میں جس قسم کا مزہ آنا چاہئے وہ مزہ نہیں آتا۔ دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس میں لذت اور ایک خاص حظ اللہ تعالیٰ نے نہ رکھا ہو۔ جس طرح پر ایک مریض ایک عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ چیز کا مزہ نہیں اٹھا سکتا اور وہ اسے تلخ یا بالکل پھیکا سمجھتا ہے۔‘‘ دوائیاں کھا کے یا مرض کی وجہ سے منہ بک بکا ہو جاتا ہے، مزہ ہی نہیں آتا کسی چیز کا۔ مریض کھانے سے انکار کر دیتے ہیں یا کھانے میں برائیاں نکالنے لگ جاتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’اسی طرح وہ لوگ جو عبادت الٰہی میں حظّ اور لذت نہیں پاتے۔‘‘ وہ بھی بیماروں کی طرح ہیں ’’ان کو اپنی بیماری کا فکر کرنا چاہئے کیونکہ جیسا میں نے ابھی کہا ہے دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں خدا تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی لذت نہ رکھی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس عبادت میں اس کے لئے لذت اور سرور نہ ہو۔‘‘ فرمایا کہ ’’لذت اور سرور تو ہے۔‘‘ یہ نہیں کہ نہیں ہے ’’مگر اس سے حظ اٹھانے والا بھی تو ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذٰریات: 57) اب انسان جبکہ عبادت ہی کے لئے پیدا ہوا ہے ضروری ہے کہ عبادت میں لذت اور سرور بھی درجہ غایت کا رکھا ہو۔‘‘ ضرور اس درجہ کا رکھا ہونا چاہیے جس کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ ’’اس بات کو ہم اپنے روزمرہ کے مشاہدہ اور تجربے سے خوب سمجھ سکتے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’مثلاً دیکھو اناج اور تمام خوردنی اور نوشیدنی اشیاء انسان کے لئے پیدا ہوئی ہیں۔‘‘ سب کھانے والی چیزیں انسان کے لیے پیدا ہوئی ہیں۔ ’’تو کیا ان سے وہ ایک لذت اور حظّ نہیں پاتا ہے؟ کیا اس ذائقہ، مزے اور احساس کے لئے اس کے منہ میں زبان موجود نہیں؟ کیا وہ خوبصورت اشیا دیکھ کر نباتات ہوں یا جمادات، حیوانات ہوں یا انسان حظ نہیں پاتا؟ کیا دل خوش کن اور سریلی آوازوں سے اس کے کان محظوظ نہیں ہوتے؟ پھر کیا کوئی دلیل اَور بھی اس امر کے اثبات کے لئے مطلوب ہے کہ عبادت میں لذت نہیں۔‘‘ ہر چیز میں لذت ہے اور انسان اس سے حظّ اٹھاتا ہے تو پھر عبادت میں کیوں نہیں۔ فرمایا کہ ’’خوب سمجھ لو کہ عبادت بھی کوئی بوجھ اور ٹیکس نہیں ہے اس میں بھی ایک لذت اور سرور ہے اور یہ لذت اور سرور دنیا کی تمام لذتوں اور تمام حظوظ نفس سے بالا تر اور بلند ہے۔‘‘ فرمایا ’’جیسے ایک مریض کسی عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ غذا کی لذت سے محروم ہے اسی طرح پر ہاں ٹھیک ایسا ہی وہ کم بخت انسان ہے جو عبادت الٰہی سے لذت نہیں پاسکتا۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ160 ایڈیشن 1984ء ایڈیشن 1984ء) اس کی حالت بھی مریضوں والی ہے۔ اپنے مرض کا علاج کرو، فکر کرو۔ پس اس نکتہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ
لذت کس طرح حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
جس چیز کا انسان کو ادراک ہی نہیں، پتہ ہی نہیں اس کی لذت کس طرح حاصل کر سکتا ہے؟ جس کی تمام حسیں ہی مر گئی ہوں وہ کس طرح کسی نعمت اور اس کی لذت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور حظ محسوس کر سکتا ہے؟ دنیا داری میں اگر انسان پڑ جائے، فکر ہی نہ ہو ان چیزوں کی تو وہ تو مریض بن گیا۔
اس کے حل کا بھی آپ نے طریقہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’میں دیکھتا ہوں کہ لوگ نمازوں میں غافل اور سست اس لئے ہوتے ہیں کہ ان کو اس لذت اور سرور سے اطلاع نہیں جو اللہ تعالیٰ نے نماز کے اندر رکھا ہے اور بڑی بھاری وجہ اس کی یہی ہے‘‘ کہ اس کو پتہ نہیں ہے۔ ’’پھر شہروں اور گاؤں میں تو اَور بھی سستی اور غفلت ہوتی ہے۔ سو پچاسواں حصہ بھی تو پوری مستعدی اور سچی محبت سے اپنے مولیٰ حقیقی کے حضور سر نہیں جھکاتا۔ پھر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟‘‘ کیوں سر نہیں جھکاتا۔ کیوں عبادت نہیں کرتا؟ ’’ان کو اس لذت کی اطلاع نہیں اور نہ کبھی انہوں نے اس مزہ کو چکھا ہے۔ اور مذاہب میں ایسے احکام نہیں ہیں ۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے کاموں میں مبتلا ہوتے ہیں اور مؤذن اذان دے دیتا ہے۔ پھر وہ سننا بھی نہیں چاہتے۔‘‘ اذان مؤذن کی۔ کہتے ہیں ہم اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اذان دے کے کیا مشکل ڈال دی ہے۔ ’’گویا ان کے دل دکھتے ہیں۔‘‘ اذان کی آواز سن کے ان کے دل دکھتے ہیں۔ پھر بعض دفعہ لوگ لوگوں کو یہ بھی کہتے ہیں کہ دکھاوے کے لیے نماز پڑھنے جانا پڑے گا یا دکان بند کرنی پڑے گی۔ ’’یہ لوگ بہت ہی قابل رحم ہیں۔ بعض لوگ یہاں بھی ایسے ہیں کہ ان کی دکانیں دیکھو تو مسجدوں کے نیچے ہیں مگر کبھی جا کر کھڑے بھی تو نہیں ہوتے۔‘‘ مسجد میں۔ ’’پس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ
خدا تعالیٰ سے نہایت سوز اور جوش کے ساتھ یہ دعا مانگنی چاہئے کہ جس طرح پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذتیں عطا کی ہیں نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزہ چکھا دے۔‘‘
یہ دعا بھی اللہ تعالیٰ سے کرنے کی ضرورت ہے تبھی لذت آئے گی کہ اللہ تعالیٰ نماز کا وہ مزہ چکھا دے اور جب مزہ ایک دفعہ انسان کو آ جاتا ہے تو پھر اس لذت کا بھی پتہ لگ جاتا ہے، پھر اس طرف توجہ بھی کرتا ہے۔ ’’… دیکھو! اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کو ایک سرور کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ اسے خوب یاد رہتا ہے اور پھر اگر کسی بدشکل اور مکروہ ہیئت کو دیکھتا ہے تو اس کی ساری حالت بہ اعتبار اس کے مجسم ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی تعلق نہ ہو تو کچھ یاد نہیں رہتا۔ اسی طرح بے نمازوں کے نزدیک نماز ایک تاوان ہے کہ ناحق صبح اٹھ کر سردی میں وضو کر کے خوابِ راحت کو چھوڑ کر کئی قسم کی آسائشوں کو کھو کر پڑھنی پڑتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسے بیزاری ہے وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا۔ اس لذت اور راحت سے جو نماز میں ہے۔‘‘ کہنے کو تو وہ مومن اور مسلمان ہے لیکن اصل میں دل میں ایک بیزاری ہے جس کو سمجھ نہیں سکتا۔ اس نماز کے مقابلے میں اس کو راحت میں زیادہ لذت آ رہی ہے۔ نیند اور سونے میں زیادہ لذت آ رہی ہے۔ فرمایا ’’اس کو اطلاع نہیں ہے پھر نماز میں لذت کیونکر حاصل ہو۔ میں دیکھتا ہوں کہ ایک شرابی اور نشہ باز انسان کو جب سرور نہیں آتا تو وہ پے در پے پیالے پیتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کو ایک قسم کا نشہ آ جاتا ہے۔ دانش مند اور بزرگ انسان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور وہ یہ ۔‘‘ کس طرح فائدہ اٹھائے۔ اس شرابی کے، نشہ کرنے والے کے نشہ سے کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ اگر مخلص مومن ہے تو اس طرح اٹھا سکتا ہے ’’کہ
نماز پر دوام کرے۔‘‘
نماز مستقل مزاجی سے پڑھتا چلا جائے ’’اَور پڑھتا جاوے یہاں تک کہ اس کو سرور آ جاوے اور جیسے شرابی کے ذہن میں ایک لذت ہوتی ہے جس کا حاصل کرنا اس کا مقصود بالذات ہوتا ہے اسی طرح سے ذہن میں اور ساری طاقتوں کا رجحان نماز میں اسے سرور کا حاصل کرنا ہو۔‘‘ دعا بھی کرے اور کوشش بھی کرے۔ ’’اور پھر ایک خلوص اور جوش کے ساتھ کم از کم اس نشہ باز کے اضطراب اور قلق کرب کی مانند ہی ایک دعا پیدا ہو۔‘‘ دل میں دعا بھی پیدا ہو جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ مجھے سرور دے ’’کہ وہ لذت حاصل ہو۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’تو مَیں کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ یقیناً یقیناً وہ لذت حاصل ہو جاوے گی۔‘‘ اگر اس درد سے دعا ہو گی تو لذت بھی حاصل ہو جائے گی۔ ’’پھر نماز پڑھتے وقت ان مفاد کا حاصل کرنا بھی ملحوظ ہو جو اس سے ہوتے ہیں اور احسان پیش نظر رہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ (ھود:115)۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ کہ ’’نیکیاں بدیوں کو زائل کر دیتی ہیں۔پس ان حسنات کو اور لذات کو دل میں رکھ کر دعا کرے کہ وہ نماز جو کہ صدیقوں اور محسنوں کی ہے وہ نصیب کرے۔ یہ جو فرمایا ہے اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ۔ یعنی نیکیاں یا نماز بدیوں کو دور کرتی ہے یا دوسرے مقام پر فرمایا ہے نماز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں مگر نہ روح اور راستی کے ساتھ۔‘‘ اگر کوئی اثر نہیں ہو رہا تو مطلب یہ ہےکہ وہ نمازیں تو پڑھتے ہیں مگر روح اور راستی کے ساتھ نہیں۔ ’’وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکریں مارتے ہیں۔ ان کی روح مردہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام حسنات نہیں رکھا۔‘‘ ایسی نمازیں حسنات میں شمار نہیں ہوتیں۔ ’’اور یہاں جو حسنات کا لفظ رکھا الصلوٰة کا لفظ نہیں رکھا۔ باوجودیکہ معنی وہی ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تا نماز کی خوبی اور حسن و جمال کی طرف اشارہ کرے کہ
وہ نماز بدیوں کو دور کرتی ہے جو اپنے اندر ایک سچائی کی روح رکھتی ہےاور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے۔
وہ نماز یقیناً یقیناً برائیوں کو دور کرتی ہے۔ نماز نشست و برخاست کا نام نہیں ہے۔‘‘ اٹھنے بیٹھنے کا نام نہیں ہے۔
’’نماز کا مغز اور روح وہ دعا ہے جو ایک لذت اور سرور اپنے اندر رکھتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 162تا 164 ایڈیشن 1984ء)
پس اس لذت اور سرور کو حاصل کرنے کے لیے اور اس بیماری سے باہر نکلنے کے لیے بھی دعا ضروری ہے۔ صرف اپنی دنیاوی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے دعا نہ ہو بلکہ اس کے لیے بھی دعا ہو۔ جس طرح بیماری سے صحت یاب ہونے کے لیے انسان ہر حیلہ استعمال کرتا ہے۔ علاج بھی کرتا ہے، دعا بھی کرتا ہے اسی طرح اس کے لیے بھی کرے۔
پھر آپؑ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نماز کو اسی طرح پڑھو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے۔ البتہ اپنی حاجتوں اور مطالب کو مسنون اذکار کے بعد اپنی زبان میں بےشک ادا کرو اور خداتعالیٰ سے مانگو۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس سے نماز ہر گز ضائع نہیں ہوتی۔ آج کل لوگوں نے نماز کو خراب کر رکھا ہے۔ نمازیں کیا پڑھتے ہیں ٹکریں مارتے ہیں۔ نماز تو بہت جلد مرغ کی طرح ٹھونگیں مار کر پڑھ لیتے ہیں اور پیچھے دعا کے لیے بیٹھے رہتے ہیں۔ ہمارے خاص طور پر ایشیا میں ہندوستان پاکستان میں یہی رواج ہے۔ نماز جلدی جلدی پڑھی اور اس کے بعد ہاتھ اٹھا کے دعا کرنے لگ گئے۔ فرمایا کہ نماز کا اصل مغز اور روح تو دعا ہی ہے۔ نماز سے نکل کر دعا کرنے سے وہ اصل مطلب کہاں حاصل ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ہے جس طرح ایک شخص بادشاہ کے دربار میں جائے اور اس کو اپنا عرض حال کرنے کا موقع بھی ہو لیکن اس وقت تو وہ کچھ نہ کہے لیکن جب دربار سے باہر آجائے تو اپنی درخواست پیش کرے۔ ایسے کیا فائدہ ہو گا؟ ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جو نماز میں خشوع وخضوع کے ساتھ دعائیں نہیں مانگتے۔ تم کو جو دعائیں کرنی ہوں نماز میں کر لیا کرو اور پورے آداب الدعا کو ملحوظ رکھو۔
(ماخوذ از ملفوظات جلدسوم صفحہ 258 ایڈیشن 1984ء)
نماز پڑھنے کا طریق
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کس طرح سکھایا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کے سلام کیا۔ آپؐ نے فرمایا جاؤ اور دوبارہ نماز پڑھو۔ آپؐ اسے دیکھ رہے تھے اور اس مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مجلس لگی ہوئی تھی۔ اس طرح تین مرتبہ اس سے نماز پڑھوائی۔ تو آخر اس نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مَیں اس سے بہتر نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اس لیے اب آپؐ ہی مجھے صحیح طریق بتا دیں کس طرح نماز پڑھنی ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ جب تم نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو جاؤ تو تکبیر کہو۔ پھر حسبِ توفیق قرآن پڑھو۔ سورۂ فاتحہ کے ساتھ قرآن پڑھو۔ پھر پورے اطمینان کے ساتھ رکوع کرو۔ یہ نہیں کہ ذرا سا جھکے اور کھڑے ہو گئے۔ پورے اطمینان کے ساتھ رکوع کرو۔ پھر سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر پورے اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو اور پھر سجدے سے اٹھ کر پوری طرح بیٹھو۔ بعض لوگ صرف سجدہ کے لیے بیچ میں دو سجدوں کے درمیان اٹھتے ہیں اور پھر فوراً دوبارہ سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ فرمایا پوری طرح بیٹھو۔ اس کے بعد دوسرا سجدہ کرو۔ اس طرح
ساری نماز ٹھہر ٹھہر کر، سنوار کر ادا کرو۔
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب امر النبیؐ … الخ حدیث 793)
بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ سنوار کر نمازیں کس طرح پڑھی جاتی ہیں؟ تو یہ ہے سنوار کر نماز پڑھنے کا طریقہ کہ ٹھہر ٹھہر کر نماز کی جو ہر حرکت ہے اس کو پورا وقت دے کے آرام سے پڑھے۔
پھر نماز کی حقیقت کو سمجھ کر اس کو ادا کرنے کی طرف توجہ کرنے کے بعد
ایک مومن کا کام ہے کہ قرآن کریم کو بھی پڑھے اور سمجھے، اس کی طرف توجہ رکھے۔
جس طرح اکثر کی رمضان میں اس طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ تفسیر پر بھی غور کرو اور یہ بھی ایک ذریعہ ہے رمضان کو اگلے رمضان سے جوڑنے کا۔ قرآن کریم پر توجہ دینی چاہیے۔
قرآن کریم پڑھنے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’اگر ہمارے پاس قرآن نہ ہوتا اور حدیثوں کے یہ مجموعے ہی مایہ ناز ایمان واعتقاد ہو تے تو ہم قو موں کو شرمساری سے منہ بھی نہ دکھا سکتے۔ مَیں نے قرآن کے لفظ میں غور کی تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبردست پیش گوئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اَور بھی زیادہ یہی پڑھنے کے قابل کتاب ہو گی جبکہ اَور کتابیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی۔ اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہو گی اور دیگر کتابیں قطعاً چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی۔ فرقان کے بھی یہی معنی ہیں۔ یعنی یہی ایک کتاب حق وباطل میں فرق کرنے والی ٹھہرے گی اور کوئی حدیث کی یا اور کوئی کتاب اس حیثیت اور پایہ کی نہ ہو گی۔ اس لئے اب سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کو پڑھو۔ بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآنِ کریم کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی رات دن جھکا رہے۔
ہماری جماعت کو چاہئے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان ودل سے مصروف ہو جائیں
اور حدیثوں کے شغل کو ترک کریں۔ بڑے تأسف کا مقام ہے کہ قرآن کریم کا وہ اعتنا اور تدارس نہیں کیا جاتا جو احادیث کا کیا جاتا ہے۔
اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے۔اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 122 ایڈیشن 1984ء)
پھر نیکیوں کو قائم رکھنے کے لیے آپؑ نے یہ ہدایت فرمائی کہ دین کو ہر حال میں دنیا پر مقدم رکھو۔ اس کی تفصیل میں آپؑ فرماتے ہیں کہ دیکھو! دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ لوگ جو اسلام قبول کر کے دنیا کے کاروباروں اور تجارتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ شیطان ان کے سر پر سوار ہو جاتا ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کرنی منع ہے۔ نہیں۔ صحابہ تجارتیں بھی کرتے تھے مگر وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا تو اسلام کے متعلق سچا علم جو یقین سے ان کے دلوں کو لبریز کر دے انہوں نے حاصل کیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کسی میدان میں شیطان کے حملے سے نہیں ڈگمگائے۔ کوئی امر اُن کو سچائی کے اظہار سے نہیں روک سکا۔ میرا مطلب اس سے صرف یہ ہے کہ
جو بالکل دنیا ہی کے بندے اور غلام ہو جاتے ہیں گویا دنیا کے پرستار ہو جاتے ہیں ایسے لوگوں پر شیطان اپنا غلبہ اور قابو پا لیتا ہے۔
دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو دین کی ترقی کی (فکر کرتے ہیں) فکر میں ہوتے ہیں۔ یہ وہ گروہ ہے جو حزب اللہ کہلاتا ہے اور جو شیطان اور اس کے لشکر پر فتح پاتا ہے۔ مال چونکہ تجارت سے بڑھتا ہے اس لیے خدا تعالیٰ نے بھی طلبِ دین اور ترقیٔ دین کی خواہش کو ایک تجارت ہی قرار دیا ہے۔ (دین کو حاصل کرنا بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایک تجارت ہے) چنانچہ فرماتا ہے۔ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ (الصف: 11)کہ پس کیا مَیں تمہیں ایک ایسی تجارت پر مطلع کروں جو تمہیںایک دردناک عذاب سے نجات دے دے۔ فرمایا سب سے عمدہ تجارت دین کی ہے جو درد ناک عذاب سے نجات دیتی ہے۔ پس میں بھی خدا تعالیٰ کے انہی الفاظ میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ جو دینی ترقی اور شوق کو کم کرتے ہیں مجھے اندیشہ ہے کہ شیطان پھر ان پر قابو نہ پا لے۔ کبھی اس میں سستی نہیں ہونی چاہیے۔ ہر ایک امر پر جو سمجھ نہ آئے آپؑ نے فرمایا پوچھنا چاہیے تا کہ معرفت میں زیادتی ہو۔ پوچھنا حرام نہیں ہے۔ سمجھ نہیں آئی پوچھو۔ سوال ضرور اٹھنے چاہئیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ عملی ترقی کے لیے بھی پوچھنا چاہیے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلدسوم صفحہ 193-194 ایڈیشن 1984ء)
عملی ترقی کے لیےضروری ہے۔ پس
دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لیے جہاں ایمان میں مضبوطی ضروری ہے وہاں علمی اور عملی ترقی بھی ضروری ہے اور اس کے لیے کوشش بھی کرنی چاہیے۔
پھر رمضان کے فیض کو جاری رکھنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہمیں جو طریق بتایا وہ ہے آپس کے تعلقات میں جو اعلیٰ اخلاق دکھانے کی رمضان میں ہم نے کوشش کی تھی انہیں جاری رکھنا۔ آپس میں محبت اور بھائی چارے کو بڑھانا اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ
ہماری جماعت کو سرسبزی نہیں آئے گی جب تک آپس میں سچی ہمدردی نہ کریں۔
جو پوری طاقت دی گئی ہے وہ کمزور سے محبت کرے۔ مَیں جو یہ سنتا ہوں کہ کوئی کسی کی لغزش دیکھتا ہے تو اس سے اخلاق سے پیش نہیں آتا بلکہ نفرت اور کراہت سے پیش آتا ہے حالانکہ چاہیے تو یہ کہ اس کے لیے دعا کرے، محبت کرے اور اسے نرمی اور اخلاق سے سمجھائے مگر بجائے اس کے کینہ میں زیادہ ہو جاتا ہے۔ اگر عفو نہ کیا جائے، ہمدردی نہ کی جاوے اس طرح پر بگڑتے بگڑتے انجام بد ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کو یہ منظور نہیں۔ جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کر کے پردہ پوشی کی جائے۔ جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجود ہوکر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔
آپس میں محبت حقیقی بھائیوںسے بڑھ کر ہونی چاہیے۔ ایسی ہمدردی ہو۔ فرمایا کہ مثلاً ایک شخص کا بیٹا ہو اور اس سے کوئی قصور سرزد ہو تو اس کی پردہ پوشی کی جاتی ہے اور اس کو الگ سمجھایا جاتا ہے۔ بھائی کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ بھائی دوسرے بھائی کی پردہ پوشی کرتا ہے اگر حقیقی بھائی ہوں تو۔ کبھی نہیں چاہتا کہ اس کے لیے اشتہار دے کہ اس نے یہ ظلم کیا، یہ گناہ کیا۔ پھر جب خدا تعالیٰ بھائی بناتا ہے تو کیا بھائیوں کے حقوق یہی ہیں؟ دنیا کے بھائی اخوت کا طریق نہیں چھوڑتے تو پھر تم لوگ کیوں چھوڑو۔ فرمایا بعض وقت انسان جانور بندر یا کتے سے بھی سیکھ لیتا ہے۔ یہ طریق نامبارک ہے کہ اندرونی پھوٹ ہو۔ خدا تعالیٰ نے صحابہ کو بھی یہی طریق ونعمتِ اخوت یاد دلائی ہے۔ اگر وہ سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرتے تو وہ اخوت ان کو نہ ملتی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کو ملی۔ اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اسی قسم کی اخوت وہ یہاں قائم کرے گا۔ خدا تعالیٰ پر مجھے بہت بڑی امیدیں ہیں۔ اس نے وعدہ کیا ہے کہ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ (آل عمران: 56) مَیں یقینا ًجانتا ہوں کہ وہ ایک جماعت قائم کرے گا جو قیامت تک منکروں پر غالب رہے گی مگر یہ دن جو ابتلا کے دن ہیں اور کمزوری کے ایام ہیں۔ ہر ایک شخص کو موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنی اصلاح کرے اور اپنی حالت میں تبدیلی کرے۔ دیکھو! ایک دوسرے کا شکوہ کرنا، دل آزاری کرنا اور سخت زبانی کر کے دوسروں کے دل کو صدمہ پہنچانا اور کمزوروں اور عاجزوں کو حقیر سمجھنا سخت گناہ ہے۔
(ماخوذازملفوظات جلدسوم صفحہ348-349 ایڈیشن 1984ء)
فرمایا کہ ’’ہماری جماعت میں شہزور اور پہلوانوں کی طاقت رکھنے والے مطلوب نہیں‘‘ پہلوان نہیں ہمیں چاہئیں ’’بلکہ ایسی قوت رکھنے والے مطلوب ہیں جو تبدیل اخلاق کے لئے کوشش کرنے والے ہوں۔ یہ ایک امر ِواقعی ہے کہ وہ شہزور اور طاقت والا نہیں جو پہاڑ کو جگہ سے ہٹا سکے۔ نہیں نہیں۔ اصلی بہادر وہی ہے جو تبدیل اخلاق پر مقتدرت پاوے۔ پس یاد رکھو کہ ساری ہمت اور قوت تبدیل اِخلاق میں صرف کرو کیونکہ یہی حقیقی قوت اور دلیری ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 140 ایڈیشن 1984ء)
آپس میں محبت اور پیار اور ایک دوسرے کے حق ادا کرنے، عاجزی اور مسکینی سے زندگی گزارنے کے بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’اہلِ تقویٰ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں۔
یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے۔ بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لئے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے۔ عجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے اور ایسا ہی کبھی خود غضب عجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے۔‘‘ یعنی غصہ تکبر اور غرور سے پیدا ہوتا ہے یا غصہ کی وجہ سے تکبر اور غرور پیدا ہو جاتا ہے۔ ’’کیونکہ غضب اس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں۔ خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے۔ یہ ایک قسم کی تحقیر ہے۔ جس کے اندر حقارت ہے، ڈر ہے کہ یہ حقارت بیج کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جاوے۔ بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے۔ اس کی دلجوئی کرے۔ اس کی بات کی عزت کرے۔ کوئی چڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے۔‘‘ خاص طور پر بڑوں کو، عہدیداروں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہر شخص سے جس سے وہ بات کرتے ہیں بڑے آرام سے اور پیار سے اور محبت سے کیا کریں۔ ’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (الحجرات:12) تم ایک دوسرے کا چڑ کے نام نہ لو۔ یہ فعل فساق و فجار کا ہے۔ جو شخص کسی کو چڑاتا ہے وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اسی طرح مبتلا نہ ہو گا۔ اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو۔ جب ایک ہی چشمہ سے کُل پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے۔ مکرم و معظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے۔ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ (الحجرات:14)۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 36 ایڈیشن 1984ء)
پس رمضان میں جو تقویٰ پیدا کیا ہے اس
تقویٰ کا تقاضا یہی ہے کہ آپس کے تعلقات کو بھی بہتر سے بہتر کیا جائے اور ایک دوسرے سے معاملات میں بھی اخلاق اور حسن اخلاق کا نمونہ دکھایا جائے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو۔ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم وجودِ واحد رکھو ورنہ ہوا نکل جائے گی۔ نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لئے ہے کہ باہم اتحاد ہو۔ برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی۔ اگر اختلاف ہو، اتحاد نہ ہو تو پھر بے نصیب رہو گے۔‘‘
آج کل کے حالات کی وجہ سے اگر ایک فاصلہ دیا جاتا ہے تو یہ ضرورت کی وجہ سے ہے۔ اس کو بچے بھی اور بعض دوسرے بھی یہ نہ سمجھ لیں کہ یہ مستقل چیز بن گئی ہے۔ حالات آہستہ آہستہ ٹھیک ہورہے ہیں تو فاصلے بھی کم ہو رہے ہیں اور ان شاء اللہ نارمل حالات بھی آ جائیں گے۔ اصل چیز یہی ہے کہ جب مسجد میں صفیں ہوں تو ایک دوسرے سے جڑ کے کھڑا ہوا جائے۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ ہاں ضرورت کے تحت ایک عارضی arrangementکی گئی تھی۔ اس لیے فاصلہ دیا گیا ہے تاکہ کم از کم باجماعت نمازیں جاری رہیں۔ اور
امید ہے ان شاء اللہ تعالیٰ جس طرح حالات ٹھیک ہو رہے ہیں جلدی نارمل حالات آ جائیں گے۔
بہرحال آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرو۔‘‘بڑی اہم بات ہے۔ ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دعا کرو۔ چاہے تمہیں کوئی دعا کے لیے کہتا ہے یا نہیں کہتا۔ جانتے ہو یا نہیں جانتے۔
عمومی طور پر جماعت کے افراد ایک دوسرے کے لیے یا جماعت کے لیے من حیث الجماعت دعا کریں تو یہ بہت بڑی نیکی ہے۔
فرمایا کہ ’’اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لئے بھی ایسا ہی ہو۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے۔ اگر انسان کی دعا منظور نہ ہو تو فرشتہ کی تو منظورہوتی ہے۔ مَیں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو۔‘‘ فرمایا
’’مَیں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں۔ اوّل خدا کی توحید اختیار کرودوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو۔
وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لئے کرامت ہو۔ یہی دلیل تھی جو صحابہؓ میں پیدا ہوئی تھی۔ كُنْتُمْ اَعْدَاءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ (آل عمران: 104)‘‘ کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا۔ ’’یاد رکھو تالیف ایک اعجاز ہے۔ یاد رکھو جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ وہ مصیبت اور بلا میں ہے۔ اس کا انجام اچھا نہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 48)
پھر خد تعالیٰ سے محبت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ نے فرمایا ’’خدا کے ساتھ محبت کرنے سے کیا مراد ہے؟ یہی کہ اپنے والدین، جورو، اپنی اولاد، اپنے نفس غرض ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی رضاء کو مقدم کر لیا جاوے۔ چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے۔ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا (البقرۃ:201)۔یعنی اللہ تعالیٰ کو ایسا یاد کرو کہ جیسا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ اور سخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو۔‘‘ فرمایا کہ ’’… اصل توحید کو قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت سے پورا حصہ لو اور یہ محبت ثابت نہیں ہو سکتی جب تک عملی حصہ میں کامل نہ ہو۔‘‘ عملی طور پر بھی محبت کرنی ہو گی، اظہار کرنا ہو گا۔ ’’نری زبان سے ثابت نہیں ہوتی۔ اگر کوئی مصری کا نام لیتا رہے تو کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ شیریں کام ہو جاوے۔‘‘ اس کا منہ میٹھا نہیں ہو جاتا اگر صرف چینی کا نام لے لے، شوگر کا نام لے لے تو میٹھا ہو جائے گا۔ نہیں۔ ’’یا اگر زبان سے کسی کی دوستی کا اعتراف اور اقرار کرے مگر مصیبت اور وقت پڑنے پر اس کی امداد اور دستگیری سے پہلو تہی کرے تو وہ دوست صادق نہیں ٹھہر سکتا۔ اسی طرح پر اگر خدا تعالیٰ کی توحید کا نرا زبانی ہی اقرار ہو اور اس کے ساتھ محبت کا بھی زبانی ہی اقرار موجود ہو تو کچھ فائدہ نہیں بلکہ یہ حصہ زبانی اقرار کی بجائے عملی حصہ کو زیادہ چاہتا ہے۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ زبانی اقرار کوئی چیز نہیں ہے۔ نہیں۔ میری غرض یہ ہے کہ زبانی اقرار کے ساتھ عملی تصدیق لازمی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرواور یہی اسلام ہے۔ یہی وہ غرض ہے جس کے لئے مجھے بھیجا گیا ہے۔ پس جو اس وقت اس چشمہ کے نزدیک نہیں آتا جو خدا تعالیٰ نے اس غرض کے لئے جاری کیا ہے وہ یقیناً بے نصیب رہتا ہے۔ اگر کچھ لینا ہے اور مقصد کو حاصل کرنا ہے تو طالبِ صادق کو چاہئے کہ وہ چشمہ کی طرف بڑھے اور آگے قدم رکھے اور اس چشمۂ جاری کے کنارے اپنا منہ رکھ دے اور یہ ہو نہیں سکتا جب تک خدا تعالیٰ کے سامنے غیریت کا چولہ اتار کر آستانہ ربوبیت پر نہ گر جاوے اور یہ عہد نہ کر لے کہ خواہ دنیا کی وجاہت جاتی رہے اور مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں تو بھی خدا کو نہیں چھوڑے گا اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہے گا۔ ابراہیم علیہ السلام کا یہی عظیم الشان اخلاص تھا کہ بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گیا۔
اسلام کا منشا یہ ہے کہ بہت سے ابراہیم بنائے۔‘‘
یہی اللہ تعالیٰ نے،قرآن شریف نے ابراہیم کی خوبی بیان فرمائی ہے کہ وہ وفا دار تھے۔ ’’پس تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ ابراہیم بنو۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ
ولی پرست نہ بنو۔ بلکہ ولی بنو
اور پیر پرست نہ بنو۔ بلکہ پیر بنو
تم ان راہوں سے آؤ۔‘‘ پیر بن کے یہ نہیں کہ پیروں کی طرح نخوت اور تکبر پیدا ہو جائے بلکہ عاجزی انکساری پیدا کرو، وفاداری پیدا کرو۔ یہ مراد ہے اس سے۔ آج کل کے پیروں کی طرح دنیا داری کے اظہار اس سے مراد نہیں ہے۔ فرمایا کہ ’’بےشک وہ تنگ راہیں ہیں‘‘ تم ان راہوں سے آؤ ’’لیکن ان سے داخل ہو کر راحت اور آرام ملتا ہے مگر یہ ضروری ہے کہ اس دروازہ سے بالکل ہلکے ہو کر گزرنا پڑے گا۔ اگر بہت بڑی گٹھری سر پر ہو تو مشکل ہے۔ اگر گزرنا چاہتے ہو تو اس گٹھری کو جو دنیا کے تعلقات اور دنیا کو دین پر مقدم کرنے کی گٹھری ہے پھینک دو۔ ہماری جماعت خدا کو خوش کرنا چاہتی ہے تو اس کو چاہئے کہ اس کو پھینک دے۔ تم یقیناً یاد رکھو کہ اگر تم میں وفا داری اور اخلاص نہ ہو تو تم جھوٹے ٹھہرو گے اور خدا تعالیٰ کے حضور راستباز نہیں بن سکتے۔ ایسی صورت میں دشمن سے پہلے وہ ہلاک ہو گا جو وفا داری کو چھوڑ کر غداری کی راہ اختیار کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ فریب نہیں کھا سکتا اور نہ کوئی اسے فریب دے سکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ تم سچا اخلاص اور صدق پیدا کرو۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 188تا 190 ایڈیشن 1984ء)
آپؑ نے اس بات کی بھی وضاحت فرمائی کہ
صبر اور دعا سے سچا اخلاص ملتا ہے۔
پس اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس کے لیے مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کے در پر جھکے رہنے کی ضرورت ہے۔پس ہمیں اپنے ہر آنے والے دن ، وفا داری کے ساتھ خدا تعالیٰ سے تعلق میں بڑھاتے چلے جانے کی کوشش کرنے والا ہونا چاہیے۔
یہ ہمارا لائحہ عمل ہے:
نمازوں کی طرف مستقل توجہ ان کو سنوار کر ادا کرنا،
قرآن کریم کو پڑھنا سمجھنا اور اس کے احکامات پر عمل کرنا،
ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا،
اور توحید کا قیام کرنا،
اصل میں تو ایک حقیقی مومن کا ہر کام اور فعل ہی توحید کے قیام کے لیے ہوتا ہے اور ہونا چاہیے اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بعثت کا مقصد تھا اور اس بات کا آپؑ نے بار بار اظہار فرمایا ہے۔ پس اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ورنہ نری بیعت کر لینا تو کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ یہ بات بڑی کھول کر متعدد جگہ آپؑ نے بیان فرمائی ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا کہ ’’جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کو ٹٹولنا چاہئے کہ کیا مَیں چھلکا ہی ہوں یا مغز؟ جب تک مغز پیدا نہ ہو ایمان، محبت، اطاعت، بیعت، اعتقاد، مریدی، اسلام کا مدعی سچامدعی نہیں ہے۔ یاد رکھو کہ یہ سچی بات ہے۔‘‘ یہ سب دعویٰ جو محبت کرنے کا یا ایمان کا یااطاعت کا یا بیعت کا ہے یہ سب دعوے ہیں سچا دعویٰ نہیں ہو گا۔ یادرکھو کہ سچی بات یہ ہے ’’کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مغز کے سوا چھلکے کی کچھ بھی قیمت نہیں۔ خوب یاد رکھو کہ معلوم نہیں موت کس وقت آ جاوے لیکن یہ امر یقینی ہے کہ موت ضرور ہے۔ پس نرے دعویٰ پر ہرگز کفایت نہ کرو اور خوش نہ ہو جا ؤ۔ وہ ہرگز ہرگز فائدہ رساں چیز نہیں جب تک انسان اپنے آپ پر بہت موتیں وارد نہ کرے اور بہت سی تبدیلیوں اور انقلابات میں سے ہو کر نہ نکلے وہ انسانیت کے اصل مقصد کو نہیں پا سکتا۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 167 ایڈیشن 1984ء)
آپؑ نے فرمایا کہ ’’دنیا کی حالت کودیکھو کہ
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے عمل سے یہ دکھایا کہ میرا مرنا اور جینا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے
اور یا اب دنیامیں مسلمان موجود ہیں۔ کسی سے کہا جاوے کہ کیا تُو مسلمان ہے؟ تو کہتاہے الحمدللہ۔ جس کاکلمہ پڑھتا ہے اس کی زندگی کا اصول تو خدا کے لئے تھا مگر یہ دنیا کے لئے جیتا ہے اور دنیا ہی کے لئے مرتا ہے۔‘‘ عام مسلمان۔ ’’اس وقت تک کہ غرغرہ شروع ہوجاوے۔‘‘ جب موت آتی ہے اس وقت اللہ یاد آتا ہے۔ ’’دنیا ہی اس کا مقصود، محبوب، مطلوب رہتی ہے پھر کیونکرکہہ سکتا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتا ہوں۔ یہ بڑی غورطلب بات ہے۔ اس کو سرسری نہ سمجھو۔ مسلمان بننا آسان نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اسلام کا نمونہ جب تک اپنے اندر پیدا نہ کرو مطمئن نہ ہو۔ یہ صرف چھلکا ہی چھلکا ہے۔ اگر بدوں اتباع مسلمان کہلاتے ہو۔‘‘ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر مسلمان کہلاتے ہو تو پھر یہ تو کوئی بات نہیں۔ صرف چھلکا ہے۔ ’’نام اور چھلکے پر خوش ہو جانا دانشمند کاکام نہیں ہے۔‘‘ ایک مثال دی آپؑ نے ’’کسی یہودی کو ایک مسلمان نے کہا کہ تو مسلمان ہوجا۔ اس نے کہا کہ تُو صرف نام ہی پر خوش نہ ہو جا۔‘‘کہہ دے مسلمان ہے تو تُو اس بات پر خوش ہے۔ یہودی نے کہا کہ ’’مَیں نے اپنے لڑکے کا نام خالد رکھا تھا اورشام سے پہلے ہی اسے دفن کر آیا۔‘‘ وہ تو ہمیشہ رہنے والا نہ ہوا۔ لمبی زندگی بھی اس نے نہ پائی۔
’’پس حقیقت کوطلب کرو۔ نِرے ناموں پر راضی نہ ہوجاؤ۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ انسان عظیم الشان نبیؐ کا امتی کہلا کرکافروں کی سی زندگی بسر کرے۔
تم اپنی زندگی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ دکھاؤ۔
وہی حالت پیدا کرو اور دیکھو اگر وہی حالت نہیں ہے تو تم طاغوت کے پیرو ہو۔‘‘بہت بڑی تنبیہ ہے کہ شیطان کے پیرو بن جاؤ گے۔ اس کے پیچھے چلنے والے بن جاؤ گے تم۔ ’’غرض یہ بات اب بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے کہ
اللہ تعالیٰ کا محبوب ہونا انسان کی زندگی کی غرض وغایت ہونی چاہئے
کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ کا محبوب نہ ہو اور خدا کی محبت نہ ملے کامیابی کی زندگی بسر نہیں کر سکتا اور یہ امر پیدا نہیں ہوتا جب تک رسول اللہؐ کی سچی اطاعت اور متابعت نہ کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے دکھا دیا ہے کہ اسلام کیا ہے؟ پس تم وہ اسلام اپنے اندر پیدا کرو تا کہ تم خدا کے محبوب بنو۔‘‘
(ملفوظات جلددوم صفحہ187-188 ایڈیشن 1984ء)
آپؑ نے فرمایا کہ ’’یاد رکھو ہماری جماعت اس بات کے لئے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں۔ نرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلے میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی جیسے بدقسمتی سے مسلمانوں کا حال ہے کہ پوچھو تم مسلمان ہو؟ تو کہتے ہیں شکر الحمد للہ۔ مگر نماز نہیں پڑھتے اور شعائر اللہ کی حرمت نہیں کرتے۔ پس میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ۔ یہ نکمی حالت ہے۔ خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا اور دنیا کی اس حالت نے ہی تقاضا کیا کہ خداتعالیٰ نے مجھے اصلاح کے لئے کھڑا کیا ہے۔ پس اب
اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر بھی اپنی حالت کی اصلاح نہیں کرتا اورعملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا بلکہ زبانی اقرار ہی کو کافی سمجھتا ہے وہ گویا اپنے عمل سے میری عدم ضرورت پر زور دیتا ہے۔‘‘
عمل سے یہ کہہ رہا ہے کہ مسیح موعود کے آنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ’’پھر تم اگر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میرا آنا بے سود ہے تو پھر میرے ساتھ تعلق کرنے کے کیا معنی ہیں؟ میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو میری اغراض و مقاصد کو پورا کرو اور وہ یہی ہیں کہ خدا کے حضور اپنا اخلاص اور وفا داری دکھاؤ اور قرآن شریف کی تعلیم پر اسی طرح عمل کرو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھایا اور صحابہ نے کیا۔ قرآن شریف کے صحیح منشا کو معلوم کرو اور اس پر عمل کرو۔ خدا تعالیٰ کے حضور اتنی ہی بات کافی نہیں ہو سکتی کہ زبان سے اقرار کر لیا اور عمل میں کوئی روشنی اور سرگرمی نہ پائی جاوے۔ یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعالیٰ قائم کرنی چاہتا ہے وہ عمل کے بدوں زندہ نہیں رہ سکتی۔ یہ وہ عظیم الشان جماعت ہے جس کی تیاری حضرت آدم کے وقت سے شروع ہوئی۔ کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا جس نے اس دعوت کی خبر نہ دی ہو۔ پس اس کی قدر کرو اور اس کی قدر یہی ہے کہ اپنے عمل سے یہ ثابت کر کے دکھاؤ کہ اہل حق کا گروہ تم ہی ہو۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 370-371 ایڈیشن 1984ء)
پس یہ ثابت کرنا ہو گا۔ پس اگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت اس یقین کے ساتھ کی ہے کہ آپؑ وہی مسیح و مہدی ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی تو ہمیں اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنی ہو گی، ایک انقلاب پیدا کرنا ہو گا۔ دنیا کے لیے ایک نمونہ بننا ہو گا۔ حقوق اللہ اور حقوق العبادکی ادائیگی کے معیار قائم کرنے ہوں گے۔ رمضان میں جو ہم نے تربیت حاصل کی ہے اس کو سال کے باقی حصوں مہینوں میں بھی جاری رکھنا ہو گا۔ یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں ایک لائحہ عمل میں نے سامنے رکھا ہے اس پر عمل کرنے کی بھی بھرپور کوشش کرنی ہو گی۔ اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کرنا ہو گا۔ قرآن کریم پر عمل کرنا ہو گا ۔ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ہوں گے۔ توحید کے قیام کے لیے ہر قربانی دینی ہو گی تبھی ہم بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
دعائیں بھی کریں۔ دنیا کے لیے بھی دعائیں کریں کہ دنیا کے حالات بہتر ہوں۔
آپس میں جو دشمنیاں چل رہی ہیں، ملک ملک پر حملے کر رہے ہیں وہ عقل کے ناخن لیں اور ان چیزوں سے باز آ جائیں ورنہ دنیا بہت زیادہ تباہی کی طرف جا رہی ہے اور اپنے پیدا کرنے والے خدا کو یہ پہچان لیں تو تبھی اس سے نکل سکتے ہیں۔
اسی طرح اسیران، احمدی اسیران جو ہیں ان کے لیے دعا کریں۔
پاکستان میں احمدیوں کے جو حالات ہیں ان کے لیے دعا کریں۔
دنیا کے بعض اَور ممالک میں حالات ہیں ان کے لیے دعا کریں۔
افغانستان کے اسیران ہیں ان کے لیے دعا کریں۔ الجزائر کے اسیران ہیں ان کے لیے دعا کریں۔ پاکستان میں تو قانون کی وجہ سے ان کی ہر جگہ اور پھر یہ کہ مولوی کا خوف یا عوام کے نام پر عوام کا خوف جو ہے وہ ججوں کو صحیح فیصلہ بھی کرنے کی توفیق نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ حالات بہتر کرے اور پاکستان میں بھی احمدی آزادی سے رہنے لگیں۔
نماز کے بعد میں
ایک جنازہ
بھی پڑھاؤں گا۔ حاضر جنازہ
مکرم عبدالباقی ارشد صاحب
کا ہے جو ان دنوں میں الشرکة الاسلامیہ یوکے کے چیئرمین تھے۔ ڈاکٹر عبدالحمید صاحب فیصل آباد کے بیٹے تھے۔ 27؍اپریل کو ان کی 88سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ حضرت میاں چراغ دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پڑپوتے تھے اور حضرت محمد حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرہم عیسیٰ والے اور میاں محمد یوسف صاحب جو ایک وقت میں حضرت مصلح موعودؓ کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے ہیں ان کے خاندان میں سے تھے۔ ارشد باقی صاحب 1955ء میں انگلستان آئے اور یہاں الیکٹریکل انجنیئرنگ کی۔ مسجد فضل میں ہی یہ اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتے تھے۔ پھر 1963ء میں ملازمت ملی تو سعودی عرب چلے گئے اور 72ء تک وہاں رہے۔ سعودی عرب میں قیام کے دوران آپ کو حج اور عمرہ پہ آنے والے احمدیوں کی خدمت کرنے کی بھی توفیق ملی جن میں بعض صحابہ بھی شامل تھے۔ سعودی عرب میں قیام کے دوران احمدی ہونے کی وجہ سے اسیر راہ مولیٰ ہونے کی سعادت بھی ان کو ملی۔ ان کو حکومت کی طرف سے آفر ہوئی کہ احمدیت سے انکار کر دیں توٹھیک ہے رہائی ہو جائے گی۔ آپ نے اسیری برداشت کر لی لیکن احمدیت چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ بہرحال 1972ء میں ان کو ملک سے نکال دیا گیا پھر آپ یوکے آگئے۔ یہاں آنے کے بعد آخری سانس تک انہوں نے جماعت کی خدمت کی توفیق پائی۔ مختلف عہدوں پر کام کیا۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے جب ہجرت کی ہے تو یہ ان کو لینے کے لیے ہالینڈ بھی گئے تھے۔ پھر وہ ہالینڈ سے یہاں یوکے ان کے ساتھ ہی آئے تھے۔ سیکرٹری جائیداد کے طور پر یوکے میں ان کو کام کی توفیق ملی۔ اسلام آباد کی زمین جو خریدی گئی ہے اس میں بھی ان کا کافی کردار تھا۔ نائب امیر یوکے کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ افسر جلسہ سالانہ یوکے، چیئرمین افریقہ ٹریڈ، چیئرمین الشرکة الاسلامیہ لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی۔ پسماندگان میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ان کے ایک بیٹے نبیل ارشد صاحب یہاں جماعت کی کافی اچھی خدمت کرتے ہیں۔
ان کے بارے میں دفتر کے سابقہ کارکن مبشر ظفر صاحب کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ رضاکارانہ خدمت کی توفیق مل رہی تھی۔ جماعت سے کوئی الاؤنس نہیں لیتے تھے لیکن بڑی ذمہ داری سے کام کرتے تھے۔ وقت کے بڑے پابند تھے۔ روزانہ آٹھ دس گھنٹے دفتر میں آ کے باوجود ضعیف ہونے کے بیٹھتے تھے۔ بیماری کی بھی پروا نہیں کی۔ کہتے ہیں دوسری بات یہ تھی کہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کی ان کو بڑی عادت تھی۔ چائے کی پیالی تک خود بنانے کی کوشش کرتے تھے۔ اگر ان کو چائے کی پیالی بنا کے دے دو تو پھر یہ کسی کو اپنے برتن دھونے نہیں دیتے تھے اور خود ہی دھوتے تھے۔ اور بعض دفعہ لوگ دوپہر کے کھانے کے وقت وہاں ڈیئر پارک میں میز پر کچھ برتن چھوڑ جاتے تھے تو یہ کسی کو کہنے کی بجائے خود ہی اٹھا دیتے اور میز کی صفائی کر دیتے تھے۔ بعض دفعہ اگر ضرورت ہوتی، ٹائلٹ کی صفائی کرنے والا نہ آتا تو ٹائلٹ کی صفائی بھی کر دیا کرتے تھے۔ ایسے افسر تھے جنہوں نے بڑی عاجزی سے کام کیا اور بڑی محنت سے کام کیا۔ حافظہ بھی بہت اچھا تھا اور جماعتی رقوم اور جو بھی ذمہ داریاں تھیں ان کو آخر وقت تک بڑے احسن رنگ میں ادا کرتے رہے۔ نمازوں کی بڑی پابندی کرنے والے، باجماعت ادا کرنے والے، خلافت کا بہت زیادہ احترام، خلافت کی طرف سے اگر کوئی ہدایت چلی جاتی تو خود چاہے ان کی ذاتی رائے اس سے مختلف بھی ہوتی لیکن فوراً شرح صدر کے ساتھ خوشی سے اس کو فوری طور پہ تسلیم کر لیتے اور اپنی رائے، مشورہ بھی یہ بھول جاتے۔ ودود ملک صاحب کہتے ہیں کہ مَیں چھوٹا تھا، ان سے بہت زیادہ چھوٹا ہوں لیکن اس کے باوجود جب بھی کبھی گیا بڑی شفقت سے راہنمائی کی اور بڑی عاجزی سے پیش آئے اور مجھ سے اس طرح پیش آتے تھے جس طرح میں عمر میں چھوٹا نہیں بلکہ برابر ہی ہوں۔
منیر الدین شمس صاحب نے بھی ان کے بارے میں لکھا ہے کہ اسلام آباد کے گھروں کی ضروریات کا پتہ کرنا شروع میں حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے ان کے سپرد کیا تھا۔ اس کو بڑے احسن رنگ میں انہوں نے انجام دیا۔ اسی طرح الشرکة الاسلامیہ کی ذمہ داریاں بھی بڑے احسن رنگ میں آخر تک انجام دیتے رہے۔ ایم ٹی اے کے ساتھ بھی ان کا رابطہ تھا اور ایم ٹی اے کے جو مالی معاملات تھے یا contractوغیرہ کے کام بھی اس میں بھی ان کا کافی کردار ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے ۔ ان کے بچوں کو بھی خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے اور اخلاص و وفا کے ساتھ جماعت اور خلافت سے وابستہ رکھے۔ نماز کے بعد جیسا کہ مَیں نے کہا جنازہ حاضر ہے۔ مَیں باہر جا کے نماز جنازہ پڑھاؤں گا۔