سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

جوکوئی آپ کو جانتا تھاوہ آپ کی نیکی اور امانت ودیانت کا قائل تو تھا ہی البتہ نیکی اور تقویٰ کا یہ نور آپؑ کے چہرے سے بھی عیاں ہوتاتھا۔ آپ سچ مچ ’’عشقِ الٰہی وَسّے مونہہ پر وَلیاں ایہہ نشانی‘‘ کے مصداق تھے

ہر شخص اُن کو امین جانتا تھا

جوانی میں ہی آپؑ کا تقویٰ وراستبازی اور صداقت و امانت ایسی رہی کہ ہرکوئی اس کا ذکر کیے بغیر رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ جیساکہ ہم پہلے،واقعات میں دیکھ چکے ہیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمدصاحب کابیان ہے: ’’…کہ والد صاحب ہر وقت دین کے کام میں لگے رہتے تھے۔ گھر والے اُن پر پورا اعتماد کرتے تھے۔ گاوٴں والوں کو بھی اُن پر پورا اعتبار تھا۔ شریک جو ویسے مخالف تھے۔ اُن کی نیکی کے اتنے قائل تھے کہ جھگڑوں میں کہہ دیتے تھے کہ جو کچھ یہ کہہ دیں گے ہم کو منظور ہے۔ ہر شخص اُن کو امین جانتا تھا۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 196)

پرمیشر زمین پراترآیاہے

آپؑ کو بچپن سے دیکھنے اور جاننے والے ایک اور ہندو کی شہادت ملاحظہ فرمائیں جوبیان کرتاہے کہ’’ میں نے بچپن سے مرزا غلام احمدکو دیکھا ہے (علیہ السلام)میں اور وہ ہم عمر ہیں اور قادیان میرا آنا جانا ہمیشہ رہتا ہے اور اب بھی دیکھتاہوں جیسی عمدہ عادات اب ہیں ایسی نیک خصلتیں اور عادات پہلے تھیں اب بھی وہی ہیں۔ سچا، امانت دار، نیک۔ میں تو یہ سمجھتاہوں کہ پر میشور مرزا صاحب کی شکل اختیار کرکے زمین پر اتر آیا ہے اور پر میشور اپنے جلوےآپ دکھا رہا ہے۔‘‘( تذکرة المہدی حصّہ دوم صفحہ 303)

عشق الٰہی وَسّے مونہہ پر…

جوکوئی آپ کو جانتا تھاوہ آپ کی نیکی اور امانت ودیانت کا قائل تو تھا ہی البتہ نیکی اور تقویٰ کا یہ نور آپؑ کے چہرے سے بھی عیاں ہوتاتھا۔ آپ سچ مچ ’’عشقِ الٰہی وَسّے مونہہ پر وَلیاں ایہہ نشانی‘‘ کے مصداق تھے۔

آپؑ کی جوانی کی زندگی کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہے جو درحقیقت اپنے اندر آپؑ کی تیس چالیس سال کی مقدس اور پاکیزہ جوانی کاخلاصہ لیے ہوئےہے۔ ملاحظہ فرمائیے!حضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمدصاحبؓ فرماتے ہیں کہ’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعودؑ نے بیان فرمایاکہ ایک دفعہ کسی مقدمہ کے واسطے میں ڈلہوزی پہاڑ پر جا رہا تھا راستہ میں بارش آگئی مَیں اور میرا ساتھی یکہ سے اُترآئے اور ایک پہاڑی آدمی کے مکان کی طرف گئے جو راستہ کے پاس تھا۔ میرے ساتھی نے آگے بڑھ کر مالک مکان سے اندر آنے کی اجازت چاہی مگر اس نے روکا اس پر ان کی باہم تکرار ہو گئی اور مالک مکان تیز ہو گیا اور گالیاں دینے لگا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں یہ تکرار سن کر آگے بڑھا۔ جونہی میری اور مالک مکان کی آنکھیں ملیں تو پیشتر اس کے کہ میں کچھ بولوں اس نے اپنا سر نیچے ڈال لیا اور کہا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ میری ایک جوان لڑکی ہے اس لئے میں اجنبی آدمی کو گھر میں نہیں گھسنے دیتا مگر آپ بے شک اندر آجائیں۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ وہ ایک اجنبی آدمی تھا نہ میں اسے جانتا تھا اور نہ وہ مجھے جانتا تھا۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 8)

جیساکہ یہ بیان ہوچکاہے کہ حضرت اقدسؑ سیالکوٹ میں بھی اپنی جوانی کا ایک حصہ گزارچکے تھے۔ جس جس نے آپؑ کودیکھااوربیان کیا، مخالف ہویاموافق، ہرایک اس بیان پرمتفق تھا کہ وہ بےعیب اور پاکبازجیناجیا۔ آپ جب کچہری کے مفوضہ کاموں سے فارغ ہونے کے بعد اپنی رہائش گاہ پرتشریف لاتے تواپنا کمرہ بند کرلیتے۔ اور باقی وقت تلاوت قرآن اور خداکی عبادت میں گزارتے۔ چندمعززین شہرکی شہادتیں پہلے بھی بیان ہوئی ہیں۔

اب ایک اور چشم دید گواہ کی شہادت یہاں درج کی جاتی ہے، ایک خاتون کی شہادت یہاں پیش کی جارہی ہے اس لیے کہ اس نصیبے والی محترمہ کی خوش بختی یہ ہے کہ نہ صرف اس نے اس زمانے کے ’’یوسف‘‘ کو دیکھا بلکہ آپؑ کی رہائش ابتدا میں انہی کے گھرمیں رہی اور بعدمیں کھانا بھی انہی کے گھر سے تیارہوکے جایاکرتا۔ یہ روایت سیرت المہدی کی روایت نمبر625ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں: ’’سیّد زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں 11؍ستمبر 1935ء کو سیالکوٹ میں تھا۔ وہاں مجھے مائی حیات بی بی صا حبہ بنت فضل دین صاحب جو کہ حافظ محمد شفیع صاحب قاری کی والدہ ماجدہ ہیں سے ملنے کا موقعہ ملا۔ اس وقت میرے ہمراہ مولوی نذیر احمد صاحب فاضل سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ سیالکوٹ اور چوہدری عصمت اللہ خان بی۔ اے۔ پلیڈر لائلپور، سیکرٹری جماعت احمدیہ لائلپور بھی تھے۔ مائی صا حبہ اپنے مکان کی دہلیز پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہم نے ان کو نہ پہچانا۔ مگر انہوں نے ہم کو پہچان کر السَّلام علیکم کہا۔ اور فرمایا کہ ادھر تشریف لے آئیں۔ مائی صاحبہ کی عمر اس وقت 105سال ہے۔ مائی صا حبہ نے بتایا۔ کہ غدر کے زمانہ میں جب یہاں بھاگڑ پڑی اور دفاتر اور کچہریوں کو آگ لگی تو اس وقت مَیں جوان تھی۔ دورانِ گفتگو میں مائی صا حبہ نے بتایا کہ مجھے مرزا صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)سے اس وقت سے واقفیت ہے کہ جب آپ پہلے پہل سیالکوٹ تشریف لائے تھے اور یہاں ملازمت کے زمانہ میں رہے تھے…سیالکوٹ تشریف لانے کے بعد حضرت مرزا صاحب میرے والد صاحب کے مکان پر آئے۔ اور انہیں آواز دی اور فرمایا میاں فضل دین صاحب آپ کا جو دوسرا مکان ہے۔ وہ میری رہائش کے لئے دے دیں۔ میرے والد صاحب نے دروازہ کھولا اور آپ اندر آ گئے۔ پانی، چارپائی، مصلّٰی وغیرہ رکھا۔ مرزا صاحب کا سامان بھی رکھا۔ آپ کی عادت تھی کہ جب کچہری سے واپس آتے تو پہلے میرے باپ کو بُلاتے اور ان کو ساتھ لے کر مکان میں جاتے۔ مرزا صاحب کا زیادہ تر ہمارے والد صاحب کے ساتھ ہی اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ ان کا کھانا بھی ہمارے ہاں ہی پکتا تھا۔ میرے والد ہی مرزا صاحب کو کھانا پہنچایا کرتے تھے۔ مرزا صاحب اندر جاتے اور دروازہ بند کر لیتے اور اندر صحن میں جا کر قرآن پڑھتے رہتے تھے۔ میرے والد صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب قرآن مجید پڑھتے پڑھتے بعض وقت سجدہ میں گر جاتے ہیں اور لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں۔ اور یہاں تک روتے ہیں کہ زمین تر ہو جاتی ہے۔ مائی صاحبہ نے حضرت مسیح موعودؑ کی باتیں بتلاتے ہوئے متعدد دفعہ کہا۔ ’’مَیں قربان جاؤں آپ کے نام پر‘‘۔ یہ بیان حافظ محمد شفیع صاحب قاری کی موجودگی میں میں نے لیا۔ اور حافظ صاحب نے اپنی والدہ صا حبہ کے سامنے بتلایا۔ کہ یہی باتیں میں اپنے ماموں اور نانے سے بھی سُنا کرتا تھا…

مائی صاحبہ نے بتلایا کہ مرزا صاحب عموماً اپنے اوپر چادر لپیٹے رکھتے تھے اور سر پر بھی چادر اوڑھ لیتے تھے۔ اور اتنا ہی منہ کُھلا رکھتے جس سے راستہ نظر آئے۔ میرے والد بتلاتے تھے کہ مکان کے اندر جا کر چادر اتار دیتے تھے حافظ صاحب نے بتلایا کہ ہمارے نانا فضل دین صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب جب کچہری سے واپس آتے تو چونکہ آپ ا ہلمد تھے۔ مقدمہ والے زمیندار ان کے مکان تک ان کے پیچھے آ جاتے۔ تو مرزا صاحب فضل دین صاحب کو بلاتے اور کہتے کہ فضل دین میرا پیچھا ان سے چھڑا دو یہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ فضل دین صاحب ان زمینداروں کو سمجھاتے کہ جو تمہارا کام ہے مرزا صاحب کچہری میں ہی کر دیں گے۔ گھر میں وہ کسی سے نہیں ملتے۔ اور نیز انہوں نے بتلایا۔ کہ جو تنخواہ مرزا صاحب لاتے۔ محلہ کی بیوگان اور محتاجوں کو تقسیم کر دیتے۔ کپڑے بنوا دیتے یا نقد دے دیتے تھے۔ اور صرف کھانے کا خرچ رکھ لیتے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر625)

وَالْفَضْلُ مَا شَہِدَتْ بِہِ الْاَعْدَاءُ

اب یہاں ایک اور بہت بڑے عالم اور حضرت اقدسؑ کے بہت بڑے مخالف کی رائے بھی درج کرنا ضروری ہے۔ یہ صاحب، حدیث کے بہت بڑے عالم بھی سمجھے جاتے تھے اور اہل حدیث کے بہت بڑے راہنمابھی کہلاتے تھے۔ اور ابتدائی زمانے سے آپؑ کے جاننے والوں میں سےبھی تھے۔ گوکہ بعد میں مخالفین کے گروہ میں سرِ فہرست رہے۔ میری مراد مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب سے ہے۔ انہوں نے براہین احمدیہ پرایک تفصیلی ریویو لکھا۔ جس میں ایک جگہ انہوں نے لکھاہے: ’’مؤلف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے۔ مولف صاحب ہمارے ہموطن ہیں بلکہ اوایل عمر کے (جب ہم قطبی و شرح ملا پڑھتے تھے) ہمارے ہم مکتب۔ اس زمانہ سے آج تک ہم میں ان میں خط و کتابت و ملاقات و مراسلت برابر جاری رہی ہے اس لئے ہمارا یہ کہنا کہ ہم ان کے حالات و خیالات سے بہت واقف ہیں مبالغہ قرار نہ دیئے جانے کے لایق ہے…‘‘( اشاعۃ السنۃ جلد 7 نمبر6 صفحہ176)

اور پھر اپنے اس تمام تر مشاہدے کا نچوڑ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’مؤلف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اورمشاہدے کے رو سے (واللّٰہ حسیبہ) شریعت محمدیہ پر قائم و پرہیز گار اور صداقت شعار ہیں اور نیز شیطانی القا اکثر جھوٹ نکلتے ہیں اور الہامات مؤلف براہین سے(انگریزی میں ہوں خواہ ہندی و عربی وغیرہ) آج تک ایک بھی جھوٹ نہیں نکلا…‘‘(اشاعۃ السنۃ جلد 7 نمبر9 صفحہ284)

یہ شہادت ہے حضرت اقدس بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے اس وقت کے سب سے بڑے مخالف کی۔ جو اپنی ساری زندگی مخالف رہا اور اس کی مخالفت کا یہ عالم تھا کہ حضرت اقدسؑ کو دکھ اور تکلیف پہنچانے اور مقدمات بنانے اور سزائیں دلوانے کی کوششوں میں وہ ہندوؤں سے بھی جاملتا، سکھوں سے بھی ملتا اور عیسائیوں کی بھی حمایت کرتا رہا۔ جس وقت کی یہ گواہی ہے اس وقت حضرت اقدسؑ کی عمر مبارک پچاس سال کے قریب قریب تھی۔ جس کتاب کو پڑھ کر ایک تفصیلی ریویو کرتے ہوئے یہ شہادت دی جارہی ہے اس میں سینکڑوں الہامات بھی تھے۔ خداسے مکالمہ ومخاطبہ کا دعویٰ بھی تھا۔ ان سب باتوں کے باوجود آپؑ کی جوانی اور زندگی کے متعلق اس نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button