تحریکِ معتزلہ…ایک تعارف
اگرچہ تحریکِ معتزلہ اپنی نوعیت کےاعتبار سے نویں صدی سے سترھویں صدی عیسوی تک یورپی مکاتبِ فکر سے مماثل دکھائی دیتی ہے لیکن اس نے کوئی ایسا الحاد یا بدعت کا رنگ اختیار نہیں کیا جیسا کہ یورپ میں عقلیت پسندی نے اپنے مسلسل انحطاط کے زمانہ میں اختیار کیا
آج کی اس دنیا میں معلومات کے سمندر تک رسائی انسانی انگلی کی ہلکی سی جنبش پرموقوف ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ معلومات کے اس ’انبار‘ میں سے کھرے اور کھوٹے کی تمیز کرنا اور مستند و غیرمستند کا فرق کر پانا کارِ سہل نہیں۔ اسلامی تاریخ کی اولین فکری تحریک ’معتزلہ‘ اس کی ایک مثال ہے کہ جس کےمتعلق صحیح و غلط، سچ اور جھوٹ پر مشتمل گنجلک معلومات کی تو بہتات ہے مگر ٹھوس، مصدقہ اور غیرجانب دار مواد تلاش کرنا آسان کام نہیں۔ ایسے میں محترم ملک سیف الرحمٰن صاحب مرحوم کی تصنیف ’تاریخ افکار اسلامی‘ایک عمدہ حوالہ ہے۔ محترم ملک صاحب مرحوم نے اپنی اس منفرد تصنیف میں مسلمانوں میں جنم لینے والے مختلف مکاتب فکر کی ابتدا اور ترقی و انجام کا بڑا گہرا مطالعہ پیش کیا ہے۔ مسلمانوں کے فکری ارتقا، بتدریج ذہنی ترقی اور ان کے درپردہ کارفرما عوامل کا یہ بیان، نیزقرآن وحدیث کی روشنی میں ان کاجائزہ لیا جانا ہر اعتبار سے لائقِ تحسین ہے۔
اس کتاب میں معتزلہ سے متعلق ایک مکمل باب موجود ہے جس میں محترم ملک سیف الرحمٰن صاحب نے معتزلہ کے عقائد اور ان کے فرقوں کی تفاصیل کو علّامہ بغدادی کی کتاب ’الفَرْق بین الْفِرَق‘کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ مگر چونکہ کتاب تقابلی انداز میں تصنیف کی گئی ہے چنانچہ مذکورہ عنوان سے متعلق معلومات دیگر فرقوں اور مکاتبِ فکر کے ابواب میں موازنے کے رنگ میں بھی نظرآتی ہیں۔ کتاب میں موجود معتزلہ سے متعلق جابجا معلومات کواس مضمون کے ابتدائی حصّےمیں، ذیلی عنوانات کے تحت خلاصے کی صورت میں سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ معتزلہ کےآغاز و ابتدا اور فرقوں سے متعلق تفاصیل کے بیان میں بغیر حوالےکےدرج تمام معلومات مذکورہ کتاب کے باب ’معتزلہ اور ان کے فرقے‘(صفحہ نمبر 292تا 309) سے ماخوذ ہیں اسی طرح جہاں کہیں بریکٹ میں صرف صفحہ نمبر درج ہے وہ تمام حوالے ’تاریخ افکار اسلامی‘کے متفرق صفحات کے ہیں۔ یہ کتاب معتزلہ کی تاریخ اور بالخصوص ان کی ذہنی تشکیل میں یونانی فکر کے کردار سے علاقہ نہیں رکھتی اس لیے مضمون کے ایک حصّے میں بعض دیگرمحققین کے حوالے بھی شامل ہیں۔ ایسے تمام مواقع پر کتاب کا نام اور مکمل حوالہ درج کیا گیاہے۔
آغاز و ابتدا
معتزلہ ایک خالص علمی گروہ تھا جس کا سیاسی خلفشار سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی اقتدار پرقبضہ کرنا اس کے مقاصد میں شامل تھا۔ پہلے پہل یہ لوگ حضرت علیؓ کے حامی تھے تاہم آپؓ کی شہادت کے بعد یہ سیاسی سرگرمیوں سے علیحدہ ہوگئے۔ اس زمانے میں مختلف مذاہب کےماننے والےمخالفِ اسلام لوگوں نے اسلامی عقائد و تعلیمات پر علمی اعتراضات اٹھانا شروع کردیے تھے۔ ایسے میں معتزلہ ہی وہ گروہ تھا جس نے اپنے علمی ذوق کےسبب گوشہ نشین ہوکر عقلی عُلوم اور دین کے علمی پہلوؤں کی طرف توجہ دی۔ چنانچہ سیاسی سرگرمیوں سے الگ ہوکر گوشہ نشینی اختیار کرنے کی وجہ سے یہ ’معتزلہ‘یعنی الگ ہوجانے والے کہلائے۔
بعض کا خیال ہے کہ حضرت علیؓ کےزمانۂ خلافت میں سر اٹھانے والے فتنوں سے الگ تھلگ رہنے والے صحابہ مثلاً حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ وغیرہ معتزلہ کے آباء ہیں۔
واصل بن عطاء وہ پہلا شخص تھا جسے ’معتزلی‘ کہا گیا۔ یہ شخص پہلے حضرت حسن بصری ؓکا شاگرد اور آپؒ کے حلقۂ درس کا طالبِ علم تھالیکن اس نے بعض ایسے خیالات کا اظہار شروع کردیا تھاجن سے حضرت حسن بصریؒ متفق نہ تھے۔ اختلافات کے شدت اختیار کرنے پر حضرت حسن بصریؒ نے اُسے اپنے حلقۂ درس میں بیٹھنے سے منع کردیا۔ واصل نے ضد میں آکر اُسی مسجد کے ایک کونے میں اپنا الگ حلقۂ درس بنا لیا۔ اس پر حسن بصریؒ نے فرمایا ’’اِعْتَزَلَ عَنَّا‘‘یعنی اس نے ہم سے علیحدگی اختیار کرلی۔ یہاں سے یہ نام معتزلی مشہور ہوگیا۔ واصل کو معبد جُھْنِیْ اور غِیلان دمشقی کےبعد معتزلہ کا تیسرا بڑا قائد تسلیم کیا جاتا ہے۔
دینِ اسلام پر ہونے والے عقلی اور فلسفیانہ قسم کے اعتراضات کے جوابات دینے کی کوشش میں معتزلہ عقل کی حکمرانی کے قائل ہوتے چلے گئے اور نقل کوبالکل فراموش کردیا۔ جہاں انہیں عقل اور نقل میں تضاد نظر آتا، وہ نقل کی تاویل کرتے یا نقل کو نظر انداز کردیتے خواہ وہ سندکے اعتبار سے کیسی ہی مضبوط کیوں نہ ہوتی۔ (31) ان کے نزدیک عقائد کےادراک اور اثبات کےلیے عقلی دلائل کی ضرورت ہے۔ تاہم قرآن کریم اور احادیث سے ان دلائل کی تائید حاصل کی جانی چاہیے۔ (32)
اس امر کی مزید وضاحت سیّدنا حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے ایک ارشاد سے ہوتی ہے۔ آپؒ معتزلہ کےاس رویّے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’جہاں تک معتزلہ کا تعلق ہے انہوں نے اس امر سے انکار نہیں کیا کہ وحی صداقت تک پہنچنے کا معتبر ترین ذریعہ ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وحی کا حقیقی پیغام عقلی استدلال کے بغیر صحیح معنوں میں سمجھا نہیں جاسکتا۔ چنانچہ انہوں نے عقل کو وحی پران معنوں میں ترجیح دی کہ جب کبھی یہ دونوں بظاہر ایک دوسرے سے متصادم نظر آئیں تو وحی کی صحیح تفہیم کےلیے عقل کو فوقیت دی جائے گی یعنی عقل کو یہ فوقیت الہام کے متبادل کےطور پر نہیں بلکہ الہام کی صحیح توجیہ و تشریح کےمددگار کےطور پر حاصل ہوگی۔‘‘(الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ 20تا21)
معتزلہ کےنزدیک مسلمان کی تعریف
مشہور معتزلی امام ابو القاسم عبداللہ احمد بن محمود الکعبی (المتوفّی: 319ہجری) کےنزدیک ہر وہ شخص مسلمان ہے جو اللہ تعالیٰ کو ایک جانتا ہے اور آنحضرتﷺ کی نبوت کا اقرار کرتا ہے اور یہ مانتا ہے کہ کُلُّ مَا جَآءَ بِہٖ فَھُوَ حَقٌّ۔ (4)
معتزلہ کے مخصوص نظریات
تمام معتزلہ مندرجہ ذیل مسائل میں ایک سا نظریہ رکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کی صفات اُس کی ذات کا عین ہیں اُن کا کوئی الگ وجود نہیں جبکہ دوسری اشیا کی صفات ان کی ذات سے الگ اپنا علیحدہ وجود رکھتی ہیں اور زائد از ذات ہیں۔
رؤیتِ باری محال ہے یعنی مادی آنکھوں سے ہم خدا کو نہیں دیکھ سکتےنہ اس دنیا میں اور نہ اگلے جہان میں۔
معتزلہ کےنزدیک کلامِ الٰہی مخلوق اور حادث ہے۔ اسی نظریے کےتحت یہ قرآن کریم کو بھی حادث اور مخلوق مانتے ہیں۔ بعض خلق اور حدوث میں فرق کرکے کہتے ہیں کہ کلام اللہ اور قرآن کو حادث تو کہا جاسکتا ہے لیکن مخلوق نہیں۔
گناہ کے مرتکب مسلمان نہ مومن ہیں اور نہ کافر بلکہ اُن کا مقام بَین بَین ہے۔ مرتکب گناہِ کبیرہ دائمی جہنمی ہے بشرطیکہ وہ توبہ نہ کرے۔
انسانی عقل بعض افعالِ انسانی کواچھا اور بعض کو برا قرار دیتی ہے۔ جو اچھے کام ہیں اللہ تعالیٰ ان کے کرنے کا حکم دیتا ہے اور جو برے ہیں ان سے روکتا ہے۔ عقل ان افعال کے اچھے برے ہونے کا خوب عِلْم رکھتی ہے، چنانچہ یہ عِلْم اور ادراک رکھنے والے کو سزا اور جزا ملے گی خواہ شریعت نازل نہ بھی ہوئی ہو۔ (28)
بعض معتزلہ کے نزدیک خداتعالیٰ کا جسم ہے لیکن وہ جسم دیگر اجسام کی مانند نہیں۔
معتزلہ اور مسئلہ وفاتِ مسیح
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’معتزلہ مسیحؑ کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانےکےقائل نہیں ہیں۔ صوفیوں کا یہی مذہب ہے کہ وہ کہتے ہیں۔ مسیح کی آمد بروزی ہے۔ وَقَالَ مَالِکٌ مَاتَ۔ امام مالکؒ موت ہی کے قائل ہیں۔ ابنِ حزم کا بھی مذہب یہی ہے۔ اب مالکی۔ ابنِ حزم کے ماننے والے اور معتزلہ اس مسئلہ میں ہمارے ساتھ ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 294۔ایڈیشن1988ء)
معتزلہ کے فرقے
بنیادی طور پر معتزلہ تین بڑے فرقوں معتزلہ قدریّہ، معتزلہ جبریّہ اور معتزلہ مرجئہ میں منقسم ہیں۔
معتزلہ قدریّہ
زیادہ تر معتزلہ قدریہ تھے لہٰذا قدریہ ہی کو معتزلہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ اس بات کے قائل تھے کہ انسان اپنے اعمال میں خودمختار اورآزاد ہے۔ وہ جس طرح چاہے کوئی سا طرزِ عمل اختیار کرے۔ ان کے نزدیک اعراض یعنی جسم کی مختلف حرکات، طبیعت اورفطرت کا ذاتی تقاضا ہیں چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق نہیں۔ جب کوئی جسم وجود میں آئے گا تو لازماً اس میں کوئی نہ کوئی رنگ خود بخود ظاہر ہوگاکیونکہ کوئی جسم رنگ کے بغیر وجود نہیں پاسکتا۔ کلام خدا کی ازلی صفت نہیں بلکہ حادث ومخلوق ہے یعنی خدا اجسام میں کلام کا وصف پیدا کرتا ہے اور وہ بولنے لگ جاتے ہیں، یہ نہیں کہ خدا بولتا ہے۔ انہی معنوں میں یہ قرآن کو مخلوق مانتے ہیں۔ (19) خدا کا نظر آنا محال ہے کیونکہ وہ لامحدود ہے اور نظر میں آنے کے لیے محدود ہونا ضروری ہے۔ (20) خدا تعالیٰ جو کام کرتا ہے اس فعل سے اس کا نام مشتق ہوسکتا ہے۔ وہ بندوں کی بات مانتا، ان کی مرادیں پوری کرتا اور دعائیں قبول کرتا ہے لہٰذا اس کا نام ’مطیع‘ یعنی بات ماننے والا رکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ حمل ٹھہراتا ہے اس لیے اس کا نام ’محبل‘ بھی ہے۔ ظاہر ہے یہ نظریہ لَہٗ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنیٰ کے خلاف ہے۔ (20) فرشتے انبیاء سے افضل ہیں۔ (21)
معتزلہ قدریّہ کے ضمنی فرقے
اَلْوَاصِلِیَّہ، اَلْعَمْرَوِیّہ، اَلْھُذَلِیَّہ، اَلنِّظَامِیَّہ، اَلْمُرْدَارِیّہ، اَلْمَعمَرِیَّہ، اَلشَّحَامِیَّہ، اَلْجَاحِظِیَّہ، اَلْخَابِطِیَّہ، اَلْحِمَارِیَّہ، اَلْخَیَاطِیَّہ، اَلشَّخْلَمِیَّہ، اَلصَّالِحِیَّہ، اَلثُّمَامِیَّہ، اَلْمَرِیْسِیَّہ، اَلْکَعْبِیَّہ، اَلْجَبَائِیَّہ، اَلْبَھْشَمِیَّہ
اَلْوَاصِلِیَّہ: جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ فرقہ واصل بن عطا کا پیرو تھا۔ ان کے نزدیک امتِ اسلامیہ کا جو شخص گناہ یا نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے وہ نہ مومن ہے اور نہ کافر بلکہ وہ فاسق ہے۔ اگر اس نے مرنے سے قبل توبہ نہ کی تو ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ واصل کا یہ بھی نظریہ تھا کہ حضرت علیؓ اور ان کے حامی بمقابلہ حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عائشہؓ اور ان کےساتھی ان دونوں گروہوں میں سے ایک گروہ بالضرور فاسق ہے۔ اس لیے اگر ان دونوں گروہوں میں سے ایک ایک آدمی مل کر کسی واقعے کے متعلق شہادت دیں تو قاضی کو چاہیے کہ وہ ان کی شہادت ردّ کردے کیونکہ ان میں سے ایک لازماً فاسق ہے اور فاسق کی شہادت قابلِ ردّ ہے۔ لیکن اگر ایک ہی گروہ کے دو آدمی مل کر گواہی دیں تو ان کی گواہی قبول ہوگی کیونکہ یہ یقین نہیں کہ یہی لازماً فاسق ہیں۔ (295)
اَلْھُذَلِیَّہ: یہ فرقہ ابو الھذیلمحمد بن الھذیل کا پیرو تھا۔ ابو الھذیل کا لقب عَلّاف تھا۔ ان کے مخصوص نظریات کچھ یوں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سارے مقدورات یعنی ساری کائنات بشمول جنت و دوزخ فنا ہوجائیں گے اور خدا ان کے اعادے پر قادر نہ ہوگا۔ یہ ایک سکون کا دَور ہوگا جس میں سب کچھ حالتِ سکون میں ہوگا۔
اگلے جہان میں جنتی و دوزخی دونوں ہی اپنے اپنے افعال میں مجبور محض ہوں گے یعنی جنتی کھانے پینے اور عیش اڑانے جبکہ دوزخی چیخنے چلّانے اور واویلا کرنے پر مجبور ہوں گے۔ وہاں ان کی مرضی نہیں چلے گی بلکہ یہ سب کچھ ان سے اللہ تعالیٰ کرائے گا۔
اللہ تعالیٰ کی صفات عینِ ذات ہیں۔ اس کی ذات سے الگ ان کا کوئی وجود اور تصوّر نہیں۔ یقینی خبر وہ ہے جسے کم ازکم بیس آدمی بیان کریں اور ان میں سے کم از کم ایک صادق الایمان اور جنتی ہو۔
اَلنِّظَامِیَّہ: یہ فرقہ ابواسحاق بن سیار النظام معتزلی کا پیرو تھا۔ نظام ابوالھذیلکا بھانجا اور عجمی النسل تھا۔ اس کے اختراع کردہ نظریات میں سے بعض یہ ہیں۔ خدا چونکہ عادل ہے اس لیے ایسی باتیں جو انسان کی بہبود سے متعلق ہیں وہ ان کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا۔ لہٰذا نعمائے جنت میں سے ایک ذرّہ بھی کم نہیں ہوسکتا اور جہنمیوں کے عذاب میں ایک ذرّے کا اضافہ بھی نہیں ہوسکتا۔ مثلاً ایک بچّہ دوزخ کےکنارے کھڑا ہے وہ خود دوزخ میں کود سکتا ہے فرشتے اسے دوزخ میں دھکا دے سکتے ہیں، لیکن خدا ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ یہ اس کی صفتِ عدل کے خلاف ہے اسی طرح نہ وہ بینا کو اندھا کرسکتا ہے اور نہ تندرست کو لُولا۔
ایک جنس بیک وقت دو متصادم کام نہیں کرسکتی مثلاً یہ ممکن نہیں کہ آگ گرم بھی کرے اور ٹھنڈا بھی یا برف ٹھنڈا بھی کرے اور گرم بھی۔ پس خدا بھی معاً مصدرِ خیروشر نہیں ہوسکتا۔
نظام ’طَفْرَہْ‘ کے نظریے کا بھی قائل تھا۔ یعنی اس کے نزدیک ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک جسم آناً فاناً ایک جگہ سے بیسویں جگہ تک درمیانی حصّوں کو عبور کیے بغیر پہنچ جائے اور بغیر اس کے کہ وہ پہلے مکان سے مفقود ہو دوسرے مکان میں جاموجود ہو۔ ایسا ہوسکتا ہے۔
نظام کے نزدیک ساری کائنات جنّ و انس، چرند پرند بیک وقت پیدا ہوئے۔ ان میں پیدائش کے لحاظ سے کوئی تقدّم وتأخر نہیں۔
قرآن کریم کی ترتیب و تالیف میں کوئی اعجاز نہیں اور نہ آنحضرتﷺ کا یہ کوئی معجزہ ہے۔ اسی طرح نظام دوسرے معجزات کا بھی منکر تھا۔
اجماعِ امّت حجتِ شرعیہ نہیں کیونکہ یہ بالکل ممکن ہے کہ سب کےسب غلطی کھا گئے ہوں۔ (23)
انسان کے ساتھ بچھو، سانپ، مکھیاں، کیڑے مکوڑے غرض ہر قسم کے چرند پرند جنّت میں جائیں گے وہاں ان سب کا درجہ فضل و احترام کے لحاظ سے برابر ہوگا۔
عمداً نماز چھوڑنے والا قضا کی رعایت کا مستحق نہیں۔ اس کا علاج صرف ندامت و توبہ ہے۔
نظام صحابہؓ کو برا بھلا کہنے سے بھی نہ ہچکچاتا تھا۔
اَلْمَعمَرِیَّہ: یہ فرقہ معمر بن عباد معتزلی کا پیرو تھا۔ معمر کے نزدیک اَعراض یعنی جسم کی مختلف حرکات کو اللہ تعالیٰ نے پیدا نہیں کیا بلکہ ان کا ظہور طبعی ہے یعنی یہ اجسام کی طبیعت کے تقاضے ہیں۔ گویا موت و حیات اور دوسرے اَعراض جسم کے طبعی تقاضے اور کوائف ہیں لہٰذا خدا نہ مُحْیِیْ ہے اور نہ مُمِیْت۔
انسان صرف رُوح کا نام ہے جسم انسانی رُوح سے زائد چیز ہے۔ جزا سزا بھی رُوح کو ملے گی۔
اَلثُّمَامِیَّہ: یہ فرقہ ثَمَامَہ بن اَشْرَس اَلنُّمَیْرِیْ کا پیرو تھا۔ اس کے نزدیک جاہل، دیوانے اور مجذوب دوسرے حیوانات کی طرح غیرمکلّف ہیں۔ اس لیے ایسے جہلا کا دوسرے حیوانوں کی طرح حشر بھی نہیں ہوگا بلکہ وہ فنا ہوکر نابود ہوجائیں گے۔ یہی حال نابالغی کی حالت میں مرنے والے بچوں کا ہوگا کیونکہ آخرت تو عمل کرنے والوں کےلیے جزا سزا کا گھر ہے اور جن و انس کا کوئی عمل نہیں ان کا حشر لغو و بےمعنی ہوگا۔
اَلْجَاحِظِیَّہ: یہ فرقہ عمرو بن بحر اَلجاحظ کا پیرو تھا۔ جاحظ بڑا فصیح اللسان مقرر، ماہر ادیب اور قابل مصنف مانا جاتا ہے۔ جاحظ کا خاص نظریہ یہ تھا کہ انسان کے جملہ افعال اُس کے طبعی تقاضے ہیں۔ اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر انسان کو سزا کیوں کر مل سکتی ہے۔
اَلْکَعْبِیَّہ: یہ فرقہ ابوالقاسم عبداللہ الکعبی البلخی کا پیرو تھا۔ اس کے نزدیک جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں کام کا ارادہ کیا، تو یہ ایسے ہی ہے جیسا قرآن کریم میں آیا ہے کہ جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ(الکہف: 78)یعنی دیوار گِرا ہی چاہتی تھی۔ گویا اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس قسم کا مجاز اور استعارہ ہے۔
اَلْجَبَائِیَّہ: یہ فرقہ ابو علی الجبائی کا پیرو تھا۔ الجبائی اسمائے الٰہی کےتوفیقی ہونے کا قائل نہ تھا بلکہ اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کے نام گھڑنے اور رکھنے کو جائز سمجھتا تھا۔ مثلاً اس کے نزدیک اللہ تعالیٰ چونکہ بندوں کی بات مانتا ہے اس لیے اس کا ایک نام ’مطیع‘ بھی ہوسکتا ہے۔
اَلْبَھْشَمِیَّہ: یہ فرقہ ابو ہاشم الجبائی کا پیرو تھا جو ابوعلی الجبائی کا بیٹا تھا۔ ابو ہاشم کا عقیدہ تھا کہ جرم کے عملی ارتکاب کے بغیر بھی انسان مستوجبِ سزا ہوسکتا ہے۔ مثلاً ایک شخص نماز پڑھنے پر قادر تھا، سارے وسائل مہیّا تھے اور وہ نماز ادا کرنے کا ارادہ کرہی رہا تھا کہ اجل نے اُسے آلیا تو یہ شخص ترکِ نمازکی سزا پائے گاکیونکہ قدرت کے باوجود اس نے حکم کی تعمیل نہیں کی۔
ابو ہاشم کا نظریہ تھا کہ اسباب و شروط بجائے خود عبادت نہیں۔ مثلاً نماز کےلیے طہارت اور وضو شرط ہے لیکن یہ خود عبادت نہیں کیونکہ اگر کوئی دوسرا کسی کو نہلا دے یا وضو کرادے تو طہارت حاصل ہوجائے گی۔ اگر یہ عبادت ہوتی تو پھر ایسا نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ عبادت میں نیابت درست نہیں۔
ابو ہاشم کا یہ بھی نظریہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ساری کائنات کو بیک وقت اور بتمام فنا کرسکتا ہے لیکن جزواً ایسا نہیں ہوسکتا کہ زمین و آسمان تو موجود رہیں لیکن ان میں سے کوئی ذرّہ فنا ہوجائے۔
اَلْخَابِطِیَّہ: یہ فرقہ احمد بن خابط کا پیرو تھا۔ جس طرح مسیحی خدا کو صانع اوّل اور مسیح کو صانع ثانی مانتے ہیں اُسی طرح احمد بن خابط کا نظریہ تھا کہ مسیح مدبر عالم اور خالقِ ثانی ہے۔ (17)یہ ایک قسم کے تناسخ کا بھی قائل تھا مثلاً اس کا نظریہ تھا کہ تمام حیوانات بشمول انسان ایک ہی جنس کی، ایک جیسی روح رکھتے ہیں۔ اس جنس کی ارواح کو ایک اور عالم میں پیدا کیا گیا تھا۔ یہ روح ہی الحیّ العَالم اور القادر ہے اور یہی مکلّف ہے۔ ازل میں ہی سب حیوان احکامِ الٰہی یعنی امر اور نہی کے مخاطب تھے۔ ازل میں بعض روحوں نے احکامِ خداوندی کی اطاعت کی اور دارالنعیم کی وارث ہوئیں۔ بعض ارواح نے نافرمانی کی اور ہمیشہ کی دوزخ میں ڈالی گئیں۔ جبکہ بعض روحوں نے کچھ اچھے کام کیے اورکچھ برے چنانچہ ان روحوں کو موقع دیا گیا اور اس غرض کےلیے دارالعمل یعنی اس دنیا میں بھیج دیا گیا۔ ہر روح اپنے اچھے بُرے اعمال کی مقدار اور نوعیت کے مطابق پیدائش یعنی انسان یا جانور، آسائش یا مصائب سے دوچار ہوئی۔ (277)
(2) معتزلہ جَبَرِیَّہ
یہ قَدر کے بجائے جبر کےقائل ہیں یعنی یہ کہ انسان اپنے افعال اور اعمال میں خودمختار نہیں بلکہ وہ مجبورمحض ہے۔ خدا جس طرح چاہتا ہے اُس سے کرواتا ہے۔ جبریّہ کے درج ذیل ضمنی فرقے ہیں۔
اَلْجَھْمِیَّہ، اَلنَّجَّارِیَّہ، اَلْبِکْرِیَّہ، اَلْضَرَارِیَّہ
اَلْجَھْمِیَّہ: یہ فرقہ جہم بن صفوان کا پیرو تھا۔ یہ پہلا معتزلی تھا جس نے خلقِ قرآن کا عقیدہ ایجاد کیا۔ اس کے نزدیک جنت و دوزخ فانی ہیں۔ جس وصف سے دوسرے متصف ہوسکیں وہ اللہ تعالیٰ کاو صف نہیں ہوسکتا۔ اس لیے یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللّٰہُ حیٌ، علیمٌ، عالِمٌ، سمیعٌ، بصیرٌ، موجودٌ، مریدٌ۔ البتہ یوں کہہ سکتے ہیں اللّٰہُ قادرٌ، مُوجِدٌ، خالقٌ، مُحیٍ وَ ممیتٌ۔
اَلنَّجَّارِیَّہ: یہ فرقہ حسین بن محمد النجار کاپیرو تھا۔ یہ بعض مسائل میں اہلِ سنّت کےساتھ متفق تھا اور بعض میں معتزلہ جبریّہ کے ساتھ۔ مثلاً اس کا عقیدہ تھا کہ افعال العباد کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور اکتساب بجائے خود ایک فعل ہے۔ وہ یہ بھی مانتاتھاکہ گناہ گار کی مغفرت ہوسکتی ہے۔ اس کے نزدیک ایمان میں زیادتی تو ممکن ہے تاہم کمی کا امکان نہیں۔ اس کے نزدیک اَعراض کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ جو جسم کا حصّہ اور اس کی جز ہیں جیسے رنگ، بو اور مزہ۔ یہ اللہ تعالیٰ کے مقدور نہیں بلکہ طبعی ہیں۔ دوسری قسم اعراض کی وہ ہیں جو کبھی ہوتے اور کبھی نہیں ہوتے مثلاً علم، جہالت، حرکت، سکون، قیام اور قعود وغیرہ۔ اس قسم کے اعراض جسم کا حصّہ نہیں اس لیے وہ مقدور ہیں۔ نجاریّہ کے کئی ضمنی فرقے تھے۔ مثلاً برغوثیہ جو اہلِ سنّت کی طرح یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ طبعی افعال بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اس کے اختیار سے ہیں۔
اَلْبِکْرِیَّہ: یہ فرقہ بکر بن اُخت عبدالواحد بن زیاد کا پیرو تھا۔ اس کا نظریہ تھا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنی ایک صورت اختیار کرے گا اور اسی صورت میں وہ بندوں کو نظر آئے گا۔ اس کے نزدیک گناہِ کبیرہ کے مرتکب کومسلم، مومن، منافق، مکذّب سب کچھ کہا جاسکتا ہے اور وہ دائمی جہنمی ہے۔
اَلْضَرَارِیَّہ: یہ فرقہ ضرار بن عمرو کا پیرو تھا۔ اس کا نظریہ تھا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایک ’چَھٹی حِس‘بخشے گا جس کی وجہ سے وہ اسے دیکھ سکیں گے۔
(3) معتزلہ مُرْجِئَہ
یہ مسلمانوں کا وہ فرقہ ہے جو اعمال کو جزوایمان نہیں مانتا بلکہ زائد از ایمان تسلیم کرتا ہے۔ یہ لفظ ’اِرْجَاءٌ‘ سے مشتق ہے جس کے معنی پیچھے رکھنے اور دوسرا درجہ دینے کے ہیں۔ یہ فرقہ اعمال کو ایمان سے پیچھے رکھتا ہےاور ایمان کے مقابلے میں اسے دوسرا درجہ دیتا ہے اور یہ تسلیم کرتا ہے کہ اعمال میں کوتاہی کرنے والے کا معاملہ آخرت میں طے ہوگا۔ مُرجِئہ کی تین قسمیں ہیں۔
ایک گروہ کا خیال ہے کہ ایمان دل سےتصدیق اور زبان سےاقرار کا نام ہے۔ اعمال کا ایمان سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ عمل کرے یا نہ کرے ایمان پر اس کا کوئی اثر نہیں اور انسان اپنے اعمال میں مختار وآزاد ہے۔
دوسرے گروہ کےنزدیک بھی ایمان دلی تصدیق اور زبانی اقرار کا نام ہے تاہم اعمال و افعال میں انسان مختاروآزاد نہیں بلکہ مجبور ہے۔
رہا تیسرا گروہ تو وہ قدر اور جبر دونوں کے قائل نہیں۔ ان کے نزدیک ایمان نہ ہو تو نجات ممکن نہیں تاہم اگرعمل نہ ہویا عمل میں کوتاہی ہو تو نجات ممکن ہے۔ اس گروہ کا نظریہ ہے کہ ایمان گھٹتا بڑھتا نہیں اور نہ اس میں فرق مراتب ہے۔ اسی نظریے کو اپنانے کی وجہ سے بعض نے حضرت امام ابو حنیفہؒ کو بھی مرجئہ کہا ہے۔
معتزلہ کا عروج و زوال
پہلی صدی اسلامی کے اختتام سے پیشتر ہی اہلِ اسلام میں عقل کے مقام کی بحث شروع ہوچکی تھی۔ عہدِ صحابہ میں ہی معبد جہنی اور غیلان دمشقی( جن دونوں حضرات کو محترم ملک سیف الرحمٰن صاحب واصل بن عطا سے بلند تر معتزلی قائد قرار دیتے ہیں ) قدریہ عقائد کا اظہار کرچکے تھے۔ واصل بن عطا کی پیدائش 80ہجری کے لگ بھگ بیان کی گئی ہے۔ حضرت حسن بصریؒ کی شاگردی سے پیشتر وہ امام ابوہاشم اور ان کے بھائی حسن ابن محمدحنفیہ کے زیرِ تربیت تھا۔ جون ایلیا اپنے مضمون ’معتزلہ۔ ایک فکری تحریک‘ میں امام ابو ہاشم کے متعلق لکھتے ہیں کہ’’خود امام ابوہاشم کی شخصیت واصل بن عطا سے کہیں زیادہ تشریح طلب ہے وہ بڑی پُراسرار اور سوال آفریں شخصیت کے مالک تھے۔ اسلامی مشرق کی کئی فکری تنظیمیں اور تہہ نشین تحریکیں انہی کے زیرِ اثر ظہورپذیر ہوئیں۔ وہ افلاطونی خانقاہوں کے دانش وروں کے مشابہ تھے۔ نَو افلاطونی راہبوں کی طرح ان کی مبہم شخصیت کے گرد بھی عظمت و اسرار کے ہالے نظر آتے ہیں۔‘‘(انشاء فروری 1959ء، بحوالہ فرنود صفحہ77)
واصل کی ذہن سازی اور نظریۂ اعتذال کے پسِ پردہ یہی تربیت جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ بہرحال حضرت حسن بصریؒ کے حلقۂ درس سے الگ ہونے کا واقعہ 110یا 111ہجری کا ہے۔ اس کے بعد واصل نے اپنے اعتقادات کی ترویج شروع کی اور منطقی دلائل کی وجہ سے جلد ہی اپنا اثر پیدا کرلیا۔ یہاں تک کہ حضرت امام زین العابدینؒ کے صاحبزادے اور شیعہ فرقہ زیدیہ کے بانی زید بن زین العابدین بھی واصل کے شاگرد رہے۔ (معتزلہ اور ان کا عروج و زوال از عبدالحلیم شررؔ صفحہ 4تا5)
اموی خلیفہ یزید بن ولید بھی معتزلی خیالات رکھتا تھا۔ عباسی خلیفہ منصور کاعہدمعتزلہ کےلیے اچھا زمانہ تھا جس نے فلسفے کی ترویج و اشاعت میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اس نے اپنے معتزلی دوست عمرو بن عبید کی وفات پر اس کا مرثیہ بھی لکھا تھا۔ (مضمون بعنوان معتزلہ کا فلسفہ از اعجاز الحق اعجاز، مکالمہ ویب سائٹ 10؍دسمبر 2016ء)ابو جعفرمنصور کے عہد میں فلسفے کی کتابیں یونانی زبان سے عربی میں ترجمہ ہوئیں۔ خلیفہ مہدی نےاپنے دَور میں فلسفے کے بڑھتے اثر کو روکنے کی کوشش کی اور اس قسم کے خیالات رکھنےوالوں سے سختی سے پیش آیا۔ خلیفہ ہادی کا دَور گو مختصر تھا مگر اس میں محدثین و فقہااورعُلومِ فلسفہ کے شائقین کسی کو سختی کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ خلیفہ ہارون الرشید کے دَور میں ترجمے کا الگ محکمہ ’بیت الحکمت‘ قائم ہوا اور یوں یونانی فکر کے باقاعدہ ترجمے کا مستقل سلسلہ جاری ہوگیا۔
فلسفۂ یونان کی کتابیں بکثرت ترجمہ ہوئیں تو معتزلہ کی منطقی بحثوں میں مزید تیزی آگئی اور یوں فلسفیانہ مباحث و مناظرات کا دَور شروع ہوا۔ انہوں نے عِلْمِ کلام کی بنیاد رکھی اور ان کے مباحث و مناظرات کا اصل میدان علمِ کلام ہی رہا۔ کئی عباسی خلفاء معتزلی فکر کے حامی تھے، مامون الرشید، معتصم باللہ اور واثق باللہ نے تو معتزلی مسلک اختیار کرلیا تھا۔ اس تحریک کے ردِّ عمل میں بعض علماء مثلاً عبداللہ بن سعید کلابی اور ابوالعباس قلانسی وغیرہ نےمسائل زیرِ بحث میں معتزلہ کو انہی کے رنگ میں عقلی جوابات دینے کی سعی کی۔ مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود ان حضرات کی اپنی شہرت پر حرف آنے گا اور حلقۂ علماء و محدثین میں یہ بھی مشکوک ٹھہرے۔
درحقیقت یہ دَور زبان و ادب، لغت و عروض، فقہ و حدیث کی تدوین کا دَور تھا۔ اس عہد میں مختلف فرقے علمی طور پر منظّم ہورہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ معتزلہ کےان منطقی مباحثات میں محدثین، فقہا اور ائمہ دین، جہاں کہیں معتزلہ کو کتاب و سنّت کے نصّ سے منحرف پاتے اُن کی دوٹوک مخالفت کرتے۔ امام شافعیؒ تو مناظروں کی اس طرز کو ہی پسند نہ کرتے تھے، ان کے نزدیک ان مباحث کاکوئی فائدہ نہ تھا صرف زبان کا چٹخارہ یاذہنی عیاشی کا سامان تھا۔ (153)امام احمد بن حنبلؒ کا کہنا تھا کہ اس نوع کے مباحث نہ صحابہ نے اٹھائے اور نہ ان کے شاگردوں نے، تو ہمیں بھی ان میں نہیں الجھنا چاہیے۔
ہارون الرشید خود ائمہ دین کی عزت کرتا اور ان کی فکر کا حامی تھا یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے بیٹوں امین ومامون کےلیےحضرت امام مالکؒ کی شاگردی پسند کی۔ ہارون کی وفات کے بعد 193ہجری میں امین الرشید خلیفہ ہوا تو عقل اور نقل دونوں کے حامی گروہ اپنے اپنے طریق میں مشغول رہے مگر یہی وہ زمانہ تھا جب خلقِ قرآن کے عقیدے کاآغاز ہوا۔
امین الرشید کے بعد 198ہجری میں مامون الرشید خلیفہ ہوا اور یہاں سے معتزلہ کے دورِ عروج کا آغاز ہوا۔ مامون خود بھی معتزلی فکر سے متاثر اور اس کا حامی تھا، اس نے فقہ و ادب کی تعلیم بزرگ ائمہ دین سے حاصل کی تھی لیکن اس کا ذہن قدیم یونانی تصورات اور آزاد خیال فلسفے کے زیرِ اثر تھا۔ وہ قرآن کےمخلوق ہونے کا قائل تھا اور اُس نےاِس عقیدے کی ترویج میں بڑے متشدد قدام اٹھائے جن کا کچھ مختصر ذکر آگے چل کر آئے گا۔ اس عہد میں منطق کو باقاعدہ علم کی حیثیت حاصل ہوئی۔ ’بیت الحکمت‘جس کی سرپرستی مامون براہِ راست خود کیا کرتا تھا وہاں ترجمے کے ساتھ تحقیق اور غوروفکر کی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔ مامون کے دربار میں معتزلی خیالات کے مفکرین کا زور چلتا تھا مامون ان کی رائے کو اہمیت دیتا اور ان کے مشوروں پر عمل کرتا۔ 218ہجری میں مامون کی وفات کے بعد اس کا بھائی المعتصم باللہ خلیفہ ہوا اس عہد میں بھی معتزلہ کو دربار تک رسائی حاصل رہی۔ گو کہ معتصم کوئی علمی آدمی نہ تھا تاہم معتزلی خیالات کی سختی سے ترویج کی وہ پالیسی جو مامون نے شروع کی تھی معتصم نے بھی جاری رکھی۔ 231ہجری میں معتصم کی وفات کے بعد اس کا بیٹا الواثق باللہ خلیفہ ہوا۔ اس عہد میں معتزلی خیالات کے برعکس عقیدہ رکھنے والے علماء کے لیے ریاستی جبر میں مزید تیزی آگئی۔ اس نے اپنے دربار میں اپنےہاتھ سےمشہور عالمِ حدیث امام احمد بن نضر خزاعی کو شہید کیا اور ان کی لاش کی بےحرمتی کی۔ بعض مورخین کے نزدیک تو الواثق کا عہد گذشتہ ملوک کی نسبت زیادہ شدت کا دور تھا۔ تاہم واثق نے اپنے عہد کے آخر میں اس سختی کی پالیسی کو تنگ آکر خود ہی ترک کردیا تھا۔ واثق کے بعدالمتوکل علی اللہ مسند نشین ہوا۔ متوکل معتزلی خیالات کا حامی نہ تھا۔ اس نے ان تمام مباحث میں غیرجانب داری اختیار کیے رکھی۔ معتزلی فکر کی جبراً ترویج کا دَور ختم ہوا، یہاں تک کہ 234ہجری میں متوکل نے باقاعدہ یہ اعلان کروایا کہ اب کسی کو قرآن کو مخلوق ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔
عقیدہ خلق قرآن
یہ ذکر گزر چکا ہے کہ معتزلہ کےنزدیک کلامِ الٰہی مخلوق اور حادث ہے۔ اسی نظریے کےتحت یہ قرآن کریم کو بھی حادث اور مخلوق مانتےتھے۔ اس عقیدے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ معتزلہ کے نزدیک کلامِ الٰہی کو قدیم خیال کرنا عیسائی ذہن کی پیداوار ہے۔ بنو امیہ کےعہد میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والا یوحنا دمشقی وہ شخص تھا جو اپنے پیروؤں کو یہ کہا کرتا کہ جب مسلمان تم سے پوچھیں کہ تم مسیح کو کیامانتے ہو تو جواب میں کہنا کہ ہم مسیح کو ’کلمة اللہ‘ مانتے ہیں۔ مسلمانوں کا بھی ایمان ہے کہ ’کلمہ‘ قدیم ہے، پس یوں یہ عیسائی کلمے کی قدامت سےفائدہ اٹھاتے ہوئے مسیح کی الوہیت کی طرف لاشعور کو متاثر کرنا چاہتے تھے۔ یہ وہ وجہ تھی کہ جس سبب سے معتزلہ نے کلامِ الٰہی کے مخلوق اور حادث ہونے کا نظریہ اپنایا۔ ایسا نہیں کہ اس عقیدے میں معتزلہ تنہا تھے، بعض دیگر بزرگ ائمہ دین بھی اس عقیدے کے حامی رہے ہیں مثلاً حضرت اما م داؤد بن علی الظّاہری الاصبہانی (پیدائش 202ہجری)۔ امام موصوف معتزلی نہ تھے اورحضرت امام احمد کی شاگردی اختیار کرنا چاہتے تھے لیکن خلقِ قرآن کےاس عقیدے کی وجہ سے امام احمد نے آپ کو اپنے حلقۂ درس میں بیٹھنے کی اجازت نہ دی۔
یہ ذکربھی گزر چکا ہے کہ جہم بن صفوان وہ پہلا شخص تھا جس نے خلقِ قرآن کاعقیدہ ایجاد کیا اوراس عقیدےنے امین الرشید کے عہد میں سب سے پہلے سر اٹھایا۔ عقیدہ خلقِ قرآن نے ہر دو گروہوں کے عروج میں بڑی متشدد شکل اختیار کی اور فریق زیرِ نگیں کو علمی میدانوں سے ہٹ کر شدید سزائیں تک دی گئیں۔ محترم ملک سیف الرحمٰن صاحب کہتے ہیں کہ’’اگر غوروفکر سے کام لیا جائے تو ظاہر ہوگا کہ قرآن کریم کےمخلوق اور حادث ہونے کی بحث دراصل نزاعِ لفظی ہے لیکن اس نظریے کے اظہار پر پہلےمعتزلہ کو تنگ کیا گیا ان کے خلاف قتل کے فتوے دیے گئے۔ پھر جب معتزلہ کی باری آئی اور انہیں بنوعباس کے دربار میں رسوخ حاصل ہوا تو انہوں نے بھی بدلہ اتارنے میں حد کردی اس طرح امتِ مسلمہ ایک لفظی نزاع کے سلسلے میں بڑے لمبے عرصے تک دست و گریباں رہی۔ قتل و غارت اور تعذیب وتحقیر کا بازار گرم رہا۔‘‘(29تا30)
مصر میں مالکی مذہب کے امام اور امام مالکؒ کے مقرب شاگرد امام سمعنوننے قرآن کریم کومخلوق ماننے کے ’جرم‘ میں ابن ابی الجواد کو اتنے کوڑے لگوائے کہ وہ مرگئے۔ اسی الزام میں امام مالک کے شاگرد بہلول بن راشد کو کوڑے لگوائے گئے۔ ان کے شاگرد بھلول بن عمر الحبیبی جب فوت ہوئے تو ان کے جنازے پر پتھر برسائے گئے اور ان کی لاش کو پھینکوادیا گیا۔ (30)
دوسری جانب خلیفہ مامون الرشید کا عہد معتزلی فکر کے عروج کا عہد تھا۔ مامون خودمعتزلی خیالات کا حامی اور اس قسم کے مباحثات کا شوقین تھا معتزلہ بھی اسے اکساتے رہتے کہ اس قسم کے عقائد کی ترویج میں سختی سے کام لیا جائے۔ بالخصوص فرقہ اَلثُّمَامِیَّہ کےبانی ثَمَامَہ بن اَشْرَس اَلنُّمَیْرِیْ نے مامون الرشید کو اس بات پر آمادہ کیا کہ جو لوگ خلقِ قرآن کے عقیدے کو نہیں مانتے ان پر سختی کی جائے۔ یہ دَور علمائے سلف کے لیے سخت ابتلا کا دَور ثابت ہوا۔
اس عقیدے کی تائید میں مامون اس حد تک آگے بڑھا کہ علماءسے زبردستی یہ عقیدہ منوانا شروع کردیا۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ بھی اس معاملے میں زیرِ عتاب آئے، اور دیگر کئی علماء کی طرح آپؒ کو بھی گرفتار کیا گیا۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا عقیدہ واضح تھا یعنی ان بحثوں میں الجھنا ہی نہیں چاہیے تاہم اگر اصرار ہی ہو تو کلامُ اللّٰہِ قدیمٌکہنے میں نجات ہے اور قرآن کریم کو مخلوق کہنا بدعت ہے۔ ابھی امام موصوف کو گرفتار کرکے لے جایا جارہا تھا کہ مامون کی وفات ہوگئی۔ مگر وہ مرنے سے پیشتر اپنے جانشین ابو اسحٰق المعتصم کو وصیت کرگیا کہ زبردستی کی اس پالیسی کو جاری رکھا جائے۔ چنانچہ کچھ دن تو آپؒ کو بغداد کے قید خانے میں رکھا گیااور پھر پابجولاں خلیفہ معتصم کے سامنے پیش کیا گیا جس نے آپؒ سے یہ عقیدہ منوانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر آپ کے پایۂ ثبات میں لغزش نہ آئی۔ ظالم معتصم نے دو سال چار ماہ امام احمد کو قید و بند میں رکھا، آپ کو کوڑے لگوائے۔ ان تکالیف کی وجہ سے آپؒ نہایت کمزور ہوگئے اور چلنا پھرنا دوبھر ہوگیا۔ المعتصم کے بعد الواثق کے زمانے میں بھی ابتداءً امام احمدؒ پر یہی سختیاں جاری رہیں۔ آپؒ کے فتویٰ دینے، پڑھانےاورلوگوں سے ملاقات کرنے پر بھی پابندی تھی۔
واثق کے عہد کے نصف آخر میں ایک دفعہ ایک عالمِ دین کو گرفتار کرکے واثق کے سامنے پیش کیا گیا وہاں معتزلہ کا سردار احمد بن ابی داؤد بھی موجودتھا۔ اُس عالِم نے ابن ابی داؤد سے پوچھا کہ خلقِ قرآن کا مسئلہ آنحضرتﷺ اور آپ کے خلفا ءجانتے تھے یا نہیں؟ اگر وہ جانتے تھے اور اس کے باوجود خاموش رہے تو ہمیں بھی خاموش رہنا چاہیے اور اگر نعوذباللہ یہ لوگ لاعِلْم تھے اور اس مسئلے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے تو پھر تم کہاں سے عالِم آگئے ہو۔
یہ بات واثق کے دل پر لگی اور وہ اچھل پڑا، وہ باربار یہ جملہ دہراتا رہا اور ابن ابی داؤد کو سخت ملامت کی۔ واثق نے اس عالم کو رہا کردیا اور شاباش دی۔ (164)یہ عالِم ابوعبدالرحمٰن بن محمد ازدی تھے جو امام ابوداؤد اور امام نسائی کے اُستاد تھے۔ (معتزلہ اور ان کا عروج و زوال از عبدالحلیم شررؔ صفحہ60)
واثق باللہ کے عہد کے اختتام تک نظریہ خلقِ قرآن مذاق بن چکا تھا یہاں تک کہ ایک دفعہ ایک مسخرے نے واثق کے روبرو یہاں تک کہا کہ امیر المومنین!مَیں تعزیت کرنے آیا ہوں کیونکہ جو مخلوق ہے اس نے ایک نہ ایک دن فوت بھی ہونا ہے، اگر قرآن کریم فوت ہوگیا تو لوگ نمازِ تراویح کیسے پڑھیں گے۔ واثق چلّا اٹھا کہ کم بخت! قرآن بھی کبھی فوت ہوسکتا ہے؟
محترم ملک سیف الرحمٰن صاحب لکھتے ہیں کہ’’غرض امام احمدؒ اور دوسرے علماء کی استقامت اور ان کے صبر نے مسئلہ خلقِ قرآن کی شورش کو اپنی موت آپ ماردیا اور قریباً چودہ سال کی ہنگامہ آرائی کے بعد حالات پُرسکون ہوگئے۔ خلقِ قرآن کا مسئلہ دراصل ایک لفظی نزاع تھاجس نے تعصب اور ضدّ کا رنگ اختیار کرلیا تھا لیکن ایک مدت کی سرپھٹول کے بعد اس کا مآل صرف یہ نکلا کہ علمِ الٰہی کے لحاظ سے قرآن کریم کے معانی قدیم ہیں لیکن اس کے الفاظ جن سے مراد آواز اور حروف ہیں حادث ہیں کیونکہ یہ الفاظ آنحضرتﷺ نے جبریلؑ سے سنے اور آپؐ سے آپ کے صحابہؓ نے اور اس کے بعد ساری امت نے سُنے اور ان کی تلاوت کی۔‘‘(164)
فکرِمعتزلہ پر یونانی اثرات
آغاز میں معتزلی فکر کے ابتدائی اکابرین زیادہ تر ان ہی موضوعات سے بحث کرتے جو عقائد سے متعلق تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ معتزلہ کی یہ تحریک علمی اور عقلی رنگ اختیار کر تی چلی گئی۔ پہلی صدی ہجری کے آخر تک خدا کے عدل، قضا و قدر، آزاد ارادیت اور انسانی ذمےداریاں جیسے موضوعات پر گفتگو کا آغازہوچکا تھا۔ معتزلہ شخص کی انفرادیت اور عدلِ خداوندی پر بات کرنے کے لیے قرآنِ کریم سے اخلاقی اور عقلی جواز تلاش کرتے۔ قرآن کریم کی تشبیہی آیات کی تاویل، خدا کے تنزہ اور تقدس کے مقام اور اس نوع کے لطیف مضامین پر گفتگو میں معتزلہ منطقی طرزِ فکر کے اختیار کرنے میں اولیت رکھتے ہیں۔ ماجد فخری کے مطابق ’’اس قسم کے مباحث کو باقاعدہ طور پر جاری رکھنے کےلیے اعلیٰ درجے کی نازک خیالی کی ضرورت تھی، جو کہ یونانی فلسفے اور منطق کے متعارف ہونے سے پہلے ذرا مشکل کام تھا، اگرچہ ناممکن نہیں تھا…یونانی فکر کی آمد سے بنیادی طور پر دو گروہ بن گئے۔ ایک ترقی پسند جنہوں نے وحی کو فلسفیانہ فکر کی کسوٹی پر پرکھنے کی سخت کوشش کی، اور دوسرا قدامت پسند گروہ جس نے فلسفے کو نری بےدینی یا مشتبہ خارجی چیز سمجھ کر اُس سے بالکل لاتعلقی اختیار کرلی۔‘‘(اسلامی فلسفے کی تاریخ از ماجد فخری، مترجم شہزاد احمد، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور2012ء صفحہ 348تا349)
ابویوسف یعقوب بن اسحٰق الکندی اسلامی تاریخ کے پہلے باقاعدہ فلسفی شمار کیے جاتے ہیں۔ الکندی نے فلسفے اور عقیدے کے درمیان حائل دیوار کو گِرانے کی بڑی پُرخُلوص کوشش کی، انہوں نے فلسفے کی تعریف ہی یوں بیان کی ہے کہ فلسفہ انسانی استعداد کےمطابق چیزوں کی حقیقت کا علم ہے۔ وہ مامون الرشید، المعتصم اور الواثق کی زیرِ سرپرستی فلسفیانہ مطالعات میں مشغول رہے۔ عباسی عہد میں قائم ہونے والےدارالترجمہ ’بیت الحکمت‘ میں الکندی کی حیثیت نگران کی سی تھی۔ الکندی معتزلی خیالات کی طرف میلان رکھتے تھے چنانچہ ان کی مابعدالطبیعاتی تحریرات ان ہی موضوعات سے متعلق ہیں جو معتزلہ کے ہاں زیرِ بحث رہے ہیں۔ گو ان اہم نوعیت کے مضامین میں جابجا ارسطو سے اختلاف دکھائی دیتا ہے تاہم وہ ان عُلوم کی تشریح خالص ارسطو کے انداز سے کرتے ہیں جس سےاندازہ ہوتا ہے کہ الکندی پر یونانی فکر بالخصوص ارسطو کا کس قدر اثر تھا۔ الکندی ارسطو کے اقتباس پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ہمیں اپنے مورثوں میں سے ان کا شکر گزار ہونا چاہیے، جنہوں نے ہمارے لیے صداقت کےخزانے چھوڑے ہیں، (بالکل ویسا ہی کام ہم نے بعد میں آنے والوں کے لیے کیا ہے)، جیسے کہ وہ ہمارے وجود میں آنے کی وجہ تھے، ویسے وہ ہماری صداقت کی دریافت کا بھی سبب تھے۔‘‘(اسلامی فلسفے کی تاریخ از ماجد فخری، مترجم شہزاد احمد، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور2012ء، صفحہ75)
برٹرینڈ رسل نے الکندی کے بارے میں لکھا ہے کہ الکندی نے’’فلاطینس کی Enneadsکے بعض حصّوں کا ترجمہ کیا اور اسے ’’ارسطو کی دینیات‘‘کے نام سے شائع کیا۔ اس امر نے ارسطو کے افکار کے متعلق عربوں میں بڑا الجھاؤ پیدا کیا جس سے نکلنے کےلیے صدیاں لگیں۔‘‘(فلسفۂ مغرب کی تاریخ، برٹرینڈ رسل، مترجم پروفیسر محمد بشیر، پورب اکادمی اسلام آباد، مئی 2010ءصفحہ 498)ماجد فخری نے ارسطو کی مشکوک ’دینیات‘ کے مترجم کا نام ابنِ ناعمہ الحمصی بتایا ہے، نیز وہ لکھتے ہیں کہ ’’ارسطو کی دینیات کے بارے میں خیال تھا کہ یہ ارسطو کی تصنیف ہے، حالانکہ اس کے متعلق بھی اصل مصنف کا نام معلوم نہیں۔ یہ کتاب الکندی کے لیے ترجمہ کی گئی تھی۔‘‘(اسلامی فلسفے کی تاریخ از ماجد فخری، مترجم شہزاد احمد، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور2012ء، صفحہ30تا31)
کائنات کی اصل کے متعلق معتزلہ کی فکر کس طرح ارسطو سے متاثر تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے اعجاز الحق اعجاز لکھتے ہیں: ’’ارسطو نے کہا تھا کہ کائنات قدیم ہے یعنی خدا اور کائنات ہمیشہ سے ہم موجود ہیں یعنی Co-Exist کرتے ہیں۔ معتزلہ نے کہا کہ ارسطو کے اس تصور کا اس قرآنی تصور کہ کائنات اللہ کی مخلوق ہے یعنی اللہ نے اسے وقت کے کسی خاص لمحے میں خلق کیا کوئی تضاد نہیں۔ وہ کائنات کو خدا کی تخلیق ہی مانتے ہیں مگر اس طرح کہ کائنات پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں بالقوہ(Potential)حالت میں تھی جسے خدا کی تخلیقیت بالفعل (Active) حالت میں لانے کا سبب بنی، وہ حالت جس میں اسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ موجودگی کے جتنے بھی اوصاف اور معقولات یعنی موجودگی کی وہ تمام شرائط جو کسی چیز میں اس کی موجودگی کے لیے ضروری ہیں وہ پہلے ہی سے کائنات کے ساتھ نہ تھیں بلکہ اس کے بالفعل حالت میں آنے سے ظاہر ہوئیں۔ ارسطو نے خدا کو خالق کی بجائے ایک محرکِ اول (Prime Mover) قرار دیا تھا۔ معتزلہ کے نزدیک بھی خدا ایک محرک ہے اور اس کی تحریک اس کائنات کی تخلیق یعنی اس کو بالقوہ حالت سے بالفعل حالت میں لانے کا سبب بنی ہے۔ خدا کائنات کا خالق ہے مگر کائنات اس کے ساتھ ازل سے Co-Exist نہیں کرتی۔ اس طرح معتزلہ نے ارسطو کے تصورِ کائنات اور قرآنی تصورِ کائنات کے درمیان ایک رستہ نکالنے کی سعی کی۔‘‘(مضمون بعنوان معتزلہ کا فلسفہ از اعجاز الحق اعجاز، مکالمہ ویب سائٹ 10؍دسمبر 2016ء)
معتزلہ کی فکر کس طرح اپنے بعد کے فلسفے پراثر انداز ہوئی اس کی ایک مثال سیدِ سبطِ حسن کی کتاب ’مارکس اور مشرق‘ میں ملتی ہے وہ کہتے ہیں کہ ’’معتزلہ کے زیرِاثر فرانس میں ایسے مفکّر بھی پیدا ہوئے جو کہتے تھے کہ خدا نے کائنات کی تخلیق کے بعد نظامِ کائنات کو قوانینِ قدرت کے سپرد کردیا ہے‘‘(مارکس اور مشرق، سید سبطِ حسن، ترتیب و تدوین ڈاکٹر سید جعفر احمد، مکتبہ دانیال، کراچی، 2009ء، صفحہ 32)
سیدنا حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ معتزلہ کی تحریک اور یورپی عقلیت پسندی کا موازنہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’اگرچہ تحریکِ معتزلہ اپنی نوعیت کےاعتبار سے نویں صدی سے سترھویں صدی عیسوی تک یورپی مکاتبِ فکر سے مماثل دکھائی دیتی ہے لیکن اس نے کوئی ایسا الحاد یا بدعت کا رنگ اختیار نہیں کیا جیسا کہ یورپ میں عقلیت پسندی نے اپنے مسلسل انحطاط کے زمانہ میں اختیار کیا۔ معتزلہ نے اپنے دلائل کے حق میں ہمیشہ قرآن وسنت کے حقیقی سرچشموں سے ہی استنباط کیا اور خود کو کبھی ان سے الگ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ان سے منسلک رہے‘‘
(الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ 21)
٭…٭…٭