ارض مقدسہ کے اہم دینی وتاریخی مقامات کا تعارف (قسط اوّل)
بیت المقدس کی سرزمین میں بہت سے انبیاء لوگوں کی اصلاح کی خاطر بھیجے گئے۔ اس مبارک زمین پر وہ چلے، عبادات بجالائے، ان کی دعائیں سنی گئیں اور دینی مہمات میں اللہ تعالیٰ نے انہیں فائز المرامی عطا فرمائی
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی بعض آیات میں سرزمین شام کو مبارک ومقدس قرار دیا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ فرماتا ہے: وَنَجَّیۡنٰہُ وَلُوۡطًا اِلَی الۡاَرۡضِ الَّتِیۡ بٰرَکۡنَا فِیۡہَا لِلۡعٰلَمِیۡنَ۔ (الانبياء: 72)اور ہم نے اسے اور لوط کو ایک ایسی زمین کی طرف نجات دی جس میں ہم نے تمام جہانوں کے لئے برکت رکھی تھی۔
اسی طرح فرمایا: سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ۔ (بنی اسرائیل: 2) پاک ہے وہ جو رات کے وقت اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ کی طرف لے گیا جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے۔ تاکہ ہم اسے اپنے نشانات میں سے کچھ دکھائیں۔ یقیناً وہ بہت سننے والا (اور) گہری نظر رکھنے والا ہے۔
ایک اور جگہ فرمایا: وَلِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ عَاصِفَۃً تَجۡرِیۡ بِاَمۡرِہٖۤ اِلَی الۡاَرۡضِ الَّتِیۡ بٰرَکۡنَا فِیۡہَا ؕ وَکُنَّا بِکُلِّ شَیۡءٍ عٰلِمِیۡنَ۔ (الانبیاء: 82)اور سلیمان کے لئے (ہم نے) تیز ہوا (مسخر کی) جو اس کے حکم سے اُس زمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی تھی جبکہ ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے تھے۔
پھر حضرت موسیٰؑ کی زبانی بنی اسرائیل کو حکم فرمایا: یٰقَوۡمِ ادۡخُلُوا الۡاَرۡضَ الۡمُقَدَّسَۃَ الَّتِیۡ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمۡ وَلَا تَرۡتَدُّوۡا عَلٰۤی اَدۡبَارِکُمۡ فَتَنۡقَلِبُوۡا خٰسِرِیۡنَ۔ (المائدۃ: 22)اے میری قوم! ارضِ مقدس میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ رکھی ہے اور اپنی پیٹھیں دکھاتے ہوئے مُڑ نہ جاؤ ورنہ تم اس حال میں لَوٹو گے کہ گھاٹا کھانے والے ہوگے۔
بیت المقدس کی سرزمین میں بہت سے انبیاء لوگوں کی اصلاح کی خاطر بھیجے گئے۔ اس مبارک زمین پر وہ چلے، عبادات بجالائے، ان کی دعائیں سنی گئیں اور دینی مہمات میں اللہ تعالیٰ نے انہیں فائز المرامی عطا فرمائی۔ اس پہلو سے پورا ملک شام ارض مقدسہ کے زمرہ میں آتا ہے البتہ بیت المقدس کے علاقے کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو بعض بیّن عظیم کشوف کے ذریعہ نورانی کیفیت میں اس سرزمین کی سیر کرائی اور انبیائے بنی اسرائیل نےیہیں پر آپﷺ کی امامت میں کشفی رنگ میں نماز ادا کی اور گویا اس طرح رسول کریمﷺ کے عالی مقام کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی کہ عنقریب انبیائے بنی اسرائیل کا مرکز بھی خاتم النبیینﷺ اور مکہ مکرمہ کے ماتحت آنے والا ہے۔ چنانچہ وہ پیشگوئی ربع صدی کے اندر اندر پوری ہوگئی۔
چنانچہ سن 15 ہجری میں خلیفہ ثانی حضرت عمر بن الخطابؓ نےفاتح بن کر اس شہر کو اپنی زیارت سے مبارک فرمایا۔ اسی طرح جماعت احمدیہ مسلمہ کے دوسرے خلیفہ سیدنا المصلح الموعودؓ نےبھی سن 1924ء میں بیت المقدس کی زیارت فرمائی۔ اس دوران القدس، بیت لحم، الخلیل، لد، حیفا، عکا وغیرہ شہروں نے آپؓ کی قدم بوسی کی۔
بنی اسرائیل کی مختصر تاریخ
بنی اسرائیل کی تاریخ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہوتی ہے جن کا زمانہ آج سے قریباً 4000سال قبل اور حضرت عیسٰی علیہ السلام سے 2000 سال قبل بنتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاں دو بیٹے حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام پیدا ہوئے۔ ان دونوں بیٹوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ وعدے دیے ہیں کہ ان دونوں بیٹوں کی نسلوں کو میں بہت بڑھاؤںگا اور ترقیات دوں گا۔ حسب منشائے الٰہی حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حجاز یعنی مکہ میں آباد کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور حضرت اسحاق علیہ السلام کو کنعان یعنی موجودہ فلسطین و اسرائیل میں آباد کیا۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کے وارث ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام ہوئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اسرائیل کا خطاب دیا جس کا مطلب ہے خدا کا پہلوان۔ بائبل کے مطابق حضرت یعقوب علیہ السلام کے ہاں دو بیویوں اور دو لونڈیوں سے بارہ بیٹے پیدا ہوئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے ان بارہ بیٹوں سے بارہ قبیلے وجود میں آئے جو بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہوئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں میں حضرت یوسف علیہ السلام بھی تھے جن کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں رکھ دیا اور ایک قافلہ انہیں اٹھا لے گیا اور مصر میں بیچ دیا۔ بالآخر حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مصر میں عزت دی اور ان کو شاہی اختیارات دیے گئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو شاہی اختیارات ملنے کی وجہ سے حضرت یعقوب علیہ السلام اور آپ کے باقی گیارہ بیٹے مع اہل وعیال بھی مصر میں ہی آگئے۔
پھر جب بنی اسرائیل دنیاوی لحاظ سے مصر میں مضبوط نظر آنے لگے تو مقامی مصری ( قبطیوں ) نے اس ڈر سے کہ یہ کہیں بغاوت نہ کر دیں بنی اسرائیل پر ظلم کرنے شروع کر دیے یہاں تک کہ حضرت موسیٰؑ کا زمانہ آگیا۔ اس زمانہ میں مصر کے بادشاہوں کا لقب فرعون تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیؑ کے ذریعہ بنی اسرائیل کو فرعون سے بچا کر فلسطین کی موعودہ سرزمین کی طرف منتقل کر دیا۔ لیکن حضرت موسیؑ کی زندگی میں بنی اسرائیل اپنی نافرمانیوں کے سبب فلسطین داخل نہ ہوسکے، بعد میں حضرت یوشعؑ کی سرکردگی میں بنی اسرائیل نے فلسطین فتح کیا حضرت یوشعؑ کی وفات کے بعد فلسطین میں بنی اسرائیل کی کوئی متحد مرکزی حکومت نہ رہی بلکہ ہر قبیلہ اپنی اپنی جگہ نیم آزاد تھا اور ہر قبیلے کا اپنا اپنا قاضی تھا اس دور کو قضاۃ کا دور کہا جاتا ہے یہ دور قریباً 230 برس 1020 ق م تا 1225ق م رہا۔ ارد گرد کی اقوام کے مسلسل حملوں سے یہ خیال زور پکڑ گیا کہ کوئی متحد مرکزی حکومت ہونی چاہیے چنانچہ سرداروں نے اس وقت کے نبی حضرت سموئیلؑ سے بادشاہ بنانے کی درخواست کی حضرت سموئیل نے ساؤل کو بادشاہ بنایا۔ ان کے بعد حضرت داؤدؑ 960ق م تا 1000ق م اور پھر حضرت سلیمانؑ 922ق م تا 960ق م بادشاہ رہے۔ کیونکہ یہ بادشاہت اور ظاہری طاقت کا دَور تھا اس لیے حضرت داؤدؑ اور سلیمانؑ باوجود خدا کے نبی ہونے کے بنی اسرائیل میں بادشاہ کے طور پر مشہور رہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد 922ق م میں ان کا بیٹا رحبعام جانشین ہوا رحبعام ایک ناخلف حکمران تھا جسے قرآن کریم نے بھی دابۃ الارض یعنی زمینی کیڑا کہا ہے اسی وجہ سے اس کی حکمرانی میں بنی اسرائیل کا بیشتر حصہ ( دس قبائل اور بنیامین کا اکثر حصہ )باغی ہوگیا اور یربعام بن نباط کی سربراہی میں فلسطین کے شمال میں ایک الگ حکومت بنائی جس کا نام مملکت اسرائیل رکھا اور باقی دو قبائل یہودہ، شمعون اور بنیامین قبیلہ کا کچھ حصہ رحبعام کے ماتحت ہی رہا انہوں نے فلسطین کے جنوب میں اپنی سلطنت بنائی۔ اور چونکہ حضرت داؤد، سلیمان اور ان کا بیٹا رحبعام یہودہ قبیلہ سے تھے اس لیے حکمران قبیلہ ہونے کی وجہ سے اور یہودہ قبیلے کا علاقہ بھی ہونے کی وجہ سے اس سلطنت کا نام مملکت یہودہ رکھا گیا۔ 200سال بعد 722ق م میں شمالی مملکت اسرائیل کو عراق کے شمال میں موجود اسیری حکومت نے تباہ کردیا اور مملکت اسرائیل کے 10 قبائل کو جلاوطن کر کے عراق لے گئے جلاوطنی کے بعد یہ قبائل کبھی واپس نہیں آئے اور عراق سے چین افغانستان کشمیر اور ہندوستان میں آگئے ان دس قبائل کو بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑیں بھی کہتے ہیں حضرت مسیح موعودؑ نے بھی اپنی کتاب مسیح ہندوستان میں اسیری بادشاہ شالمنذر پنجم کے دَور میں مملکت اسرائیل کی تباہی اور جلاوطنی کا ذکر کیا ہے مملکت اسرائیل کے بعد فلسطین میں صرف یہودہ سلطنت باقی رہی اور یہودہ مملکت587 ق م سے لےکر922ق م تک قائم رہی۔ یہودہ سلطنت کے رہنے والوں کےلیے یہودی کا لفظ استعمال ہونے لگا۔ پھر 587ق م میں عراق کی بابلی سلطنت کے بادشاہ نبوکد نضریہودہ مملکت کو تباہ کرکے وہاں کے لوگوں کو اپنے ساتھ بابل لے گیا۔ پھر 538ق م میں میدوفارس کے بادشاہ خورس نے بابلی حکومت کو شکست دی اور ان جلاوطن قبائل کے کچھ لوگوں کو مملکت یہودہ میں واپس جانے دیا۔ قرآن کریم حضرت موسیؑ سے لےکر حضرت سلیمانؑ کے دَور تک یہود لفظ استعمال نہیں کرتا بلکہ بنی اسرائیل کرتا ہے کیونکہ لفظ یہود کا استعمال مملکت یہودہ بننے کے بعد شروع ہوا، اسی طرح قرآن کریم نے جہاں جہاں بھی اُن نعمتوں اور عذابوں کا ذکر کیا ہے جو ان 12قبائل پر نازل ہوئی تھیں وہاں لفظ بنی اسرائیل استعمال کیا ہے۔ (اس بارے میں تفصیل کے لیے دیکھیں بنی اسرائیل اور یہود میں فرق۔ الفضل آن لائن 18؍مئی 2021ء)
مگر بنی اسرائیل نے ان واقعات سے عبرت حاصل نہیں کی، ان کی اصلاح کے لیے خدا کی طرف سے بھیجے گئے مسیح کا انہوں نے انکار کیا اور پھر ظلم ونافرمانی میں شدت اختیار کی تب اللہ تعالیٰ نے دوسرے عذاب کا وعدہ بھی پورا فرمایا۔ چنانچہ 70ء کو رومی بادشاہ ٹائٹس نے یروشلم پر حملہ کیا اور شہر کی دیواروں اور مسجد کو گرا دیا گیا اور یہودی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔
عہد اسلام میں سب سے پہلے 638ء میں دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن الخطابؓ کے دور میں بیت المقدس کی فتح ہوئی۔ مسیحی دنیا میں یہ واقعہ عظیم سانحے کی حیثیت رکھتا تھا۔ آخر 1095ء میں پوپ اربن دوم نے یورپ بھر میں مہم چلا کر مسیحیوں سے اپیل کی کہ وہ یروشلم کو مسلمانوں سے آزاد کروانے کے لیے فوجیں اکٹھی کریں۔ نتیجۃً 1099ء میں عوام، امراء اور بادشاہوں کی مشترکہ فوج یروشلم کو آزاد کروانے میں کامیاب ہو گئی۔ اس طرح پہلی صلیبی جنگ واقع ہوئی۔ پھر سلطان صلاح الدین ایوبی 90برس بعد شہر کو آزاد کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ ایک بار پھر یورپ میں بےچینی پھیل گئی اور یکے بعد دیگرے چار مزید صلیبی جنگیں لڑی گئیں، لیکن وہ یروشلم سے مسلمانوں کو بےدخل کرنے میں ناکام رہیں۔ البتہ 1229ء میں مملوک حکمران الکامل نے بغیر لڑے یروشلم کو فریڈرک دوم کے حوالے کر دیا۔ لیکن صرف 15 برس بعد خوارزمیہ نے ایک بار پھر شہر پر قبضہ کر لیا، جس کے بعد اگلے 673 برس تک یہ شہر مسلمانوں کے قبضے میں رہا۔
1517ء سے 1917ء تک یہ شہر عثمانی سلطنت کا حصہ رہا اور عثمانی سلاطین نے شہر کے انتظام و انصرام کی طرف خاصی توجہ کی۔ انہوں نے شہر کے گرد دیوار تعمیر کی، سڑکیں بنوائیں اور ڈاک کا نظام قائم کیا، جب کہ 1892ء میں یہاں ریلوے لائن بچھا دی گئی۔
جنرل ایلن بی کے قبضے کے بعد یہ شہر تین دہائیوں تک برطانوی سلطنت میں شامل رہا اور اس دوران یہاں دنیا بھر سے یہودی آ آ کر آباد ہونے لگے۔ آخر 1947ء میں اقوامِ متحدہ نے اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی، جس کے تحت نہ صرف فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، بلکہ یروشلم کے بھی دو حصے کر دیے گئے جن میں سے مشرقی حصہ فلسطینیوں جب کہ مغربی حصہ یہودیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ دنیا کے مختلف کونوں سے یہود کے اس طرح جمع ہونے پر قرآن مجید کی ایک پیشگوئی بھی بڑی وضاحت کے ساتھ پوری ہوگئی۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا: وَقُلۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ لِبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اسۡکُنُوا الۡاَرۡضَ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ جِئۡنَا بِکُمۡ لَفِیۡفًا۔ (بنی اسرائیل: 105)اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ موعودہ سرزمین میں سکونت اختیار کرو۔ پس جب آخرت کا وعدہ آئے گا تو ہم تمہیں پھر اکٹھا کرکے لے آئیں گے۔
اس پیشگوئی کی تعیین زمانی کی وضاحت ایک اور آیت میں ایک اور عظیم الشان پیشگوئی کے طور پر خدا تعالیٰ بیان فرماتا ہے: وَحَرٰمٌ عَلٰی قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَاۤ اَنَّہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ۔ حَتّٰۤی اِذَا فُتِحَتۡ یَاۡجُوۡجُ وَمَاۡجُوۡجُ وَہُمۡ مِّنۡ کُلِّ حَدَبٍ یَّنۡسِلُوۡنَ۔ (الانبیاء: 96تا97)اور قطعاً لازم ہے کسی بستی کے لئے جسے ہم نے ہلاک کر دیا ہو کہ وہ لوگ پھر لَوٹ کر نہیں آئیں گے۔ یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کے لئے دروازہ کھول دیا جائے گا اور وہ ہر پہاڑی اور ہر سمندر کی لہر پر سے پھلانگتے ہوئے دنیا میں پھیل جائیں گے۔ یہاں قریہ سے مراد بیت المقدس بھی ہے۔
اس کے اگلے برس 1948ء میں اسرائیل نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ بہت سےعرب ملکوں کے لیے یہ بات ناقابلِ قبول تھی۔ اس کے بعد اگلے دو عشروں تک یروشلم کا مشرقی حصہ اردن کے اقتدار میں رہا لیکن 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے اس پر بھی قبضہ کر لیا۔
اسرائیلی پارلیمان نے 1950ء ہی سے یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دے رکھا ہے لیکن دوسرے ملکوں نے اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے احترام میں یروشلم کی بجائے تل ابیب میں اپنے سفارت خانے قائم کر رکھے ہیں۔
کچھ سال قبل امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے اس روایت کو توڑ دیا ہے۔ اس طرح امریکہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔
بیت المقدس
یہ دنیا کا وہ واحد شہر ہے جسے یہودی، مسیحی اور مسلمان تینوں مقدس مانتے ہیں۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے کائنات کی تخلیق ہوئی اور یہیں پیغمبرحضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے (بقول ان کے حضرت اسحاقؑ ) کی قربانی کی تیاری کی تھی۔ مسیحی سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کو یہیں مصلوب کیا گیا تھا اور یہیں سے وہ جی اٹھ کر آسمان پر چلے گئے۔ ان کا سب سے مقدس کلیسا یہیں واقع ہے۔ عام مسلمانوں کے اعتقاد کے مطابق پیغمبر اسلامﷺ نے معراج پر جانے سے قبل اسی شہر میں واقع مسجدِ اقصیٰ میں تمام نبیوں کی امامت کی تھی۔
یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور یہاں ہی مسجد اقصیٰ اور گنبد الصخرہ واقع ہیں۔ مقامی مسلمان اسےحرم قدسی شریف بھی کہتے ہیں۔
مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً 1300 کلومیٹر ہے۔ بیت اللحم اور الخلیل اس کے جنوب میں اور رام اللہ شمال میں واقع ہے۔ القدس کو ہی’’یروشلم ‘‘کہتے ہیں۔
القدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہِ ’’موریا‘‘ ہے جس پر مسجد اقصیٰ اور گنبد الصخرہ واقع ہیں۔ قدیم یروشلم کی اونچی فصیلیں 2.4 میل کے فاصلے کا احاطہ کرتی ہیں۔ قدیم شہر چار کوارٹرز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مسلمان کوارٹر، آرمینین کوارٹر، عیسائی کوارٹر اور یہودی کوارٹر۔ یروشلم شہر کے قدیم علاقے میں کُل آٹھ دروازے مشہور ہیں جن میں سے سات دروازے لوگوں کی آمد و رفت کے لیے کھلے رکھے گئے ہیں اور ایک دروازہ مستقل طور پر بند ہے۔ ترکی کے سلطان سلیمان نے 16ویں صدی عیسوی میں یہ تمام دروازے تعمیر کرائے تھے۔
کئی مذاہب کے ماننے والوں کی بڑی تعداد کی آمد کی وجہ سے یہ دروازے انتہائی حساس شمار ہوتے ہیں۔ جہاں اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کا گشت ہر وقت جاری رہتا ہے اور یہاں مختلف مقامات پر کیمرے نصب ہیں۔ ذیل میں ان مشہور دروازوں کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے:
باب دمشق (Damascus Gate)
قدیم یروشلم شہر کے مرکزی داخلی راستوں میں سے ایک ہے۔ اس کا عبرانی نام شكيم(Shechem Gate) ہے اورشكيم نابلس کا قدیم نام ہے۔ اس کے عربی نام باب عامود اور باب النصر ہیں۔ یہاں زیادہ تر گہما گہمی رہتی ہے۔ یہ دروازہ مسلمانوں کے رہائشی کوارٹرز کا داخلی دروازہ ہے۔
باب ساہرہ (Herod‘s Gate)
اسی کو عبرانی میں Sha‘ar HaPerachim یعنی پھولوں کا دروازہ، اور عربی میں باب الساهرة کہا جاتا ہے۔ قدیم یروشلم کا ایک دروازہ ہے۔ یہ مسلم محلہ سے متصل اور باب دمشق کے نزدیک واقع ہے۔
باب الاسباط ( Lion‘s Gate)
اسےعبرانی میں Sha‘ar ha-Arayot یعنی شیروں والا دروازہ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس پر پتھروں کو تراش کر شیر بنائے گئے ہیں، بعض کا کہنا ہے کہ وہ دراصل چیتے ہیں اور ان کو غلطی سے شیر تصور کیا جاتا ہے۔ اس کا رخ مشرق کی جانب ہے۔ جسے سینٹ اسٹیفنز گیٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دور سے ہی نظر آجاتا ہے مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی کے لیے بیشتر مسلمان یہیں سے آتےجاتے ہیں۔
اس باب کا ایک پرانا نام ’ستی مریم‘( سیدہ مریم)بھی ہے۔ یہاں قریب ہی ’القدیسہ حنا‘ نامی ایک گرجا گھر ہے۔ عیسائیوں کے عقائد کے مطابق یہ جگہ حضرت مریم علیہا السلام کی جائے پیدائش ہے۔ یہاں پر مدرسہ صلاحیہ واقع ہے۔ یہیں پر واقع کلیہ صلاح الدین ایوبی میں حضرت زین العابدین شاہ ولی اللہ صاحبؓ پڑھایا کرتے تھے۔
باب المغاربہ یا مراکشی دروازہ (Dung Gate)
عبرانی میں اسے Sha‘ar Ha‘ashpotکہا جاتا ہے، یہ مسجد اقصیٰ کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ مغربی دیوار سے قریب ترین دروازہ ہے اور گاڑیوں کی آمد و رفت کے لیے ایک اہم راستہ ہے۔
واقعہ اسراء ومعراج کو جسمانی سمجھنے والےمسلمان اسی دروازے کو باب البراق اور باب النبی بھی کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روایات کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی باب سے معراج کی رات مسجد میں داخل ہوئے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فتح بیت المقدس کے وقت خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ یہیں سے مسجد میں داخل ہوئے تھے۔ باب المغاربہ سنہ 1967ء تک مسلمانوں کی آمدورفت کے لیے کھلا رہا مگر اس کے بعد اب فلسطینی مسلمانوں کا اس دروازے سے مسجد میں داخلہ منع ہے۔
باب صیہون ( Zion Gate)
عبرانی میں Shaar Zionاور عربی میں باب حارة اليهود اور باب نبی داؤد بھی کہا جاتا ہے۔ عموماً یہودی محلہ کے رہنے والے اس دروازے کو استعمال کرتے ہیں۔
باب الخلیل ( Jaffa Gate)
عبرانی میں Sha‘ar Yafo کہا جاتا ہے۔ عربی نام باب الخلیل حضرت ابراہیم سے منسوب ہے جو فلسطین کے شہر الخلیل میں مدفون ہیں۔ یہ مغربی دروازہ ہے جہاں مقامی لوگ آباد ہیں اور بکثرت سیاح یہاں سے آتے جاتے اور یہاں بازاروں میں پھرتے ہیں۔
باب جدید ( New Gate)
عبرانی میں ہاشعار ہیکہداش کہا جاتا ہے۔ قدیم یروشلم کا حصار کی ہوئی دیواروں میں سب سے نیا دروازہ ہے۔ باب جدید عثمانی انتظامیہ کی طرف سے استعمال کیا جانے والا نام تھا۔ اسے مقامی عرب لوگ باب سلطان عبد الحمید یا باب سلطان بھی کہتے تھے۔
باب رحمت (Golden Gate)سنہری دروازہ
اس کا نام عبرانی میں Sha‘ar HaRachamimہے اور بہت قدیم دروازہ مانا جاتا ہے۔ کیونکہ یہودی روایت کے مطابق ظہور مسیح اور رحمت الٰہی کے نزول کا اسی دروازہ سے تعلق ہے اور اسی لیے اسے باب رحمت (Gate of Mercy) کہا جاتاہے۔ 1541ء میں عثمانی سلطان سلیمان اول نے بند کروا دیا جو دفاعی حکمت عملی کے تحت تھا، اور اب بھی یہ دروازہ بند نظر آتا ہے۔
دو صحابہ کرامؓ کی قبریں
مسجد اقصیٰ والی پہاڑی کے نشیبی حصہ میں مسلمانوں کا مقبرہ باب الرحمۃ پایا جاتا ہے، یہ کافی قدیم مقبرہ ہے جس میں دو صحابہ کرامؓ مدفون ہے حضرت شداد بن اوس اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما۔ شداد بن اوسؓ کی ولادت مدینہ منورہ میں ہوئی، آپ نے بعد میں بیت المقدس میں اقامت اختیار کی اور 75 سال کی عمر میں سن 58 ہجری میں وفات پائی، آپ کے بارے میں حضرت ابو درداءؓ فرماتے ہیں کہ شدادؓ وہ شخصیت ہے جنہیں علم اور حلم دیا گیا ہے۔ عبادہ بن صامتؓ خزرجی انصاری تھے تمام معرکوں میں حصہ لیا اور حضرت عمرو بن العاصؓ کے ساتھ مصر کو فتح کیا، حضرت عمرؓ نے آپ کو شام پر قاضی مقرر فرمایا، آپؓ بیت المقدس کے پہلے قاضی اسلام تھے یہیں پر 34ہجری میں 72 سال کی عمر میں آپؓ نےوفات پائی۔
قبۃ الصخرہ۔ گنبد الصخرہ ( Dome of the Rock)
مسجدِ اقصیٰ کا نام آتے ہی ایک سنہرا گنبد ذہن میں آتا ہے۔ یہ ’قبۃ الصخرہ‘ ہے جو کہ 35 ایکڑ پر پھیلے اس وسیع احاطے میں شامل ہے جسے مسلمان حرم شریف اور یہودی ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کہتے ہیں۔
قبۃ الصخرہ یا ’ڈوم آف دی راک‘ اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے ساتویں صدی عیسوی میں تعمیر کرایا تھا۔ بہت سے لوگ اس گنبد کی وجہ سے اسے مسجدِ اقصیٰ سمجھتے ہیں لیکن یہ گنبد مسجد کا نہیں بلکہ اس علاقے میں تعمیر کی گئی مسلمانوں کی پہلی نمایاں یادگار ہے جسے آج یروشلم کی پہچان سمجھا جاتا ہے۔
’قبۃ الصخرہ‘ پر لکھی تحریر کے مطابق مسلمانوں کے یروشلم فتح کرنے کے 55 برس بعد 691 سے 692 ہجری کے درمیان اسے تعمیر کیا گیا۔ اس فتح سے قبل یروشلم بازنطینی سلطنت کا حصہ تھا اور یہاں مسیحی آبادی کی اکثریت تھی۔ مختلف ادوار میں اس کی تعمیرِ نو ہوتی رہی۔ سولہویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان سلیمان اوّل نے عمارت کے بیرونی حصے پر ٹائلیں لگوا کر اس کی تزئین و آرائش کرائی۔ بیسویں صدی میں اردن کے ہاشمی شاہی خاندان نے دوبارہ اس کی تزئین و آرائش کی اور گنبد پر سونا چڑھایا۔
مسجد اقصیٰ
اسی احاطے میں قبۃ الصخرہ کے سامنے ٹیمپل ماؤنٹ کے جنوب میں ایک نقرئی (سلور) گنبد والی عمارت ہے جو بنیادی طور پر مسجد اقصیٰ ہے۔ اسے ’قبلی مسجد‘ بھی کہا جاتا ہے۔ البتہ مسلمان اس پورے احاطے کو ہی الاقصیٰ کہتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں پانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے، جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دَور خلافت 16ھ مطابق سن 236ء میں بیت المقدس کو غیروں سے آزاد کرایا تھا۔ اس دَور میں بعض صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ سن 66ھ اور 86ھ کے درمیان اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر شروع کرائی اور سن 86ھ اور 96ھ کے درمیان ان کے صاحبزادے خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔
مشرقی یروشلم اسرائیل کے زیرِ انتظام آنے کے بعد الاقصیٰ کو معاہدے کے تحت ایک ٹرسٹ کے حوالے کر دیا گیا جسے اُردن چلاتا ہے۔ قبۃ الصخرہ اور اقصیٰ مسجد دونوں اس ٹرسٹ (وقف) کے زیرِ انتظام آتے ہیں۔
اس احاطے میں اسرائیل کی سیکیورٹی فورسز موجود رہتی ہیں اور وقف کے ساتھ معاونت بھی کرتی ہیں۔ یہاں مسیحیوں اور یہودیوں کو داخلے کی اجازت ہے۔ لیکن معاہدے کے تحت صرف مسلمان ہی عبادت کر سکتے ہیں۔
دیوارِ گریہ(Western Wall)
اسی احاطے کے مغرب میں ’دیوارِ گریہ‘ ہے جہاں یہودی عبادت کرتے ہیں اور زائرین بھی یہاں آتے ہیں۔ یہی وہ دیوار ہے جسے عربی میں ’حائط البراق‘ یا دیوارِ براق کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے ’ویسٹرن وال‘ (western wall)کہا جاتا ہے۔
یہودیوں کی تاریخی روایات کے مطابق یہ دیوار اور اس کے ارد گرد کی تعمیرات اس بڑے معبد ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کی باقیات ہیں جہاں یہودیوں کے مقدس معبد قائم تھے جنہیں پہلے بابلیوں اور بعد میں بازنطینیوں نے منہدم کر دیا تھا۔ چونکہ یہ دیوار بھی اس احاطے کی بڑی دیواروں میں شامل ہو چکی ہے جس میں مسلمانوں کی تعمیرات قبۃ الصخرہ اور مسجدِ اقصیٰ بھی شامل ہیں، اس لیے دیوار پر اختیار اور یہاں رسائی کے حوالے سے عربوں اور یہودیوں میں تنازعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
مسجد عمر (Mosque of Omar)
مسجد عمر (Mosque of Omar) (مسجد سیدنا عمر بن الخطابؓ ) یروشلم میں کلیسائے مقبرہ مقدس کے جنوبی صحن کے سامنے واقع ہے۔ 637ء میں مسلم افواج کی یروشلم کی فتح کے وقت سوفرونیئس (Sophronius)نے شرط رکھی کہ شہر کو صرف مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عمر بن خطابؓ کے حوالے کیا جائے گا۔ چنانچہ خلیفہ وقت نے یروشلم کا سفر کیا۔ حضرت عمرؓ نے سوفرونیئس (Sophronius) کے ساتھ شہر کا دورہ کیا۔ کلیسائے مقبرہ مقدس کے دورہ کے دوران میں نماز کا وقت آگیا اور سوفرونیئس نے حضرت عمر کو کلیسا میں نماز پڑھنے کی دعوت دی لیکن حضرت عمرؓ نے کلیسا میں نماز پڑھنے کی بجائے باہر ایک پتھر پھینکنے کی دوری میں آ کر نماز پڑھی۔ جس کی وجہ یہ بیان کی کہ مستقبل میں مسلمان اسے عذر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کلیسا کو مسجد کے لیے استعمال نہ کریں۔
خلیفہ عمرؓ کی دانشمندی اور دوراندیشی کو دیکھتے ہوئے کلیسا کی چابیاں آپؓ کی خدمت میں پیش کی گئیں۔ (قابل ذکر بات ہے کہ آج تک کلیسا کی چابیاں ایک مسلمان خاندان کے پاس ہی چلی آرہی ہیں )۔ کہا جاتا ہے کہ اس جگہ ایک چھوٹی سی مسجد پہلے بنائی گئی اور بعد میں پکی مسجد بنی۔ بہر حال 1193ء میں اس واقعہ کی یاد میں صلاح الدین ایوبی کے بیٹے الافضل بن صلاح الدین نے اس جگہ ( پہلی بار یا از سر نو)مسجد تعمیر کروائی جہاں حضرت عمرؓ نے نماز ادا کی تھی جس کا نام مسجد عمر ہے۔ بعد ازاں عثمانی سلطان عبد المجید اول نے اپنے دَور میں اس کی تزئین و آرائش بھی کی۔ اور اسی مسجد کی دیوار پر وہ مشہور تاریخی معاہدہ صلح تحریر کیا نظر آتا ہے جو 15ھ میں بیت المقدس میں حضرت عمرؓ نے بنفس نفیس جابیہ مقام پراہل ایلیا کے ہر علاقہ کے لیے کیا۔ جو مورخ علامہ طبری (متوفی: 310ھ) کے مطابق درج ذیل ہے: ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اللہ کے بندے عمر امیر المؤمنین نے ایلیاء والوں کو امان دے دی ہے۔ ان کو ان کی جانوں اور مالوں کی امان دی گئی ہے۔ ان کے عبادت خانے، صلیبیں، بیمار اور تندرست اور تمام مذاہب والے باشندے امان میں رہیں گے۔ ان کے گرجاؤں کو کوئی (مسلمان)رہائش کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔ نہ ہی ان کو منہدم کیا جائے گا اور نہ ہی ان کی عمارت یا زمین میں سے کمی کی جائےگی اور نہ ہی ان کی صلیب یا مال میں سے کوئی کمی کی جائے گی۔ ان پر ان کے دین کے متعلق جبر نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے کسی فرد کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا۔ اور ایلیاء میں ان لوگوں کے ساتھ کسی یہودی کو رہنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ایلیاء کے باشندوں کے لیے دوسرے شہروں کے لوگوں کی طرح جزیہ کی ادائیگی لازم ہوگی۔ ان پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ رومیوں کو اور اسی طرح چوروں کو ایلیاء سے نکال دیں۔ ان لوگوں میں سے جو کوئی وہاں سے نکلے گا تو اس کی حفاظت اس کے امن کی جگہ تک پہنچنے تک کی جائے گی۔ اور جو یہاں پر قیام کرنا چاہے گا تو اس کی بھی حفاظت کی جائے گی اور اس پر ایلیاء والوں کی طرح جزیہ کی ادائیگی لازم ہوگی۔ مزید برآں یہ کہ اگر ایلیاء والوں میں سے کوئی بذات خود اپنے مال کو لے کر اپنی صلیبوں اور دیگر دینی سامان کے ساتھ رومیوں کی معیت میں جانا چاہے تو اس کی جان اور مال و متاع بھی امن میں ہوگا حتی کہ وہ اپنی امن والی جگہ تک پہنچ جائیں۔ اور ان لوگوں میں سے جو لوگ فلاں شخص کے قتل سے پہلے ہی سے زمیندار تھے تو اب ان کی مرضی ہے کہ چاہیں تو ایلیاءوالوں کی طرح وہ بھی جزیہ ادا کریں۔ اور اگر چاہیں تو روم والوں کے ساتھ وہ بھی جاسکتے ہیں اور جو اپنے اہل و عیال کی طرف لوٹنا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے اس لیے کہ ان (زمینداروں ) سے ان کی فصل کی کٹائی آنے سے قبل کوئی ٹیکس وغیرہ نہیں لیا جائے گا۔
جو کچھ بھی اس معاہدے میں تحریر کیا گیا ہے یہ اللہ، اس کے رسولﷺ اور خلفاء اور مومنوں کی ذمہ داری میں ہے جبکہ یہ لوگ اپنے واجب شدہ جزیہ کی ادائیگی کریں۔
اس معاہدے کے گواہ یہ لوگ بنائے گئے تھے: حضرت خالد بن ولیدؓ۔ حضرت عمرو بن العاصؓ۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ۔
اس معاہدہ کی تحریر 15؍ہجری میں ہوئی۔ (تاریخ طبری اردو، مترجم: سید محمد ابراہیم ندوی جلد دوم صفحہ807تا808)
(جاری ہے)
٭…٭…٭