اصل میں توکّل ہی ایک ایسی چیز ہے کہ انسان کو کامیاب و بامراد بنا دیتا ہے
انسان کو چاہئے کہ تقویٰ کو ہاتھ سے نہ دیوے اور خداتعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو پھر اسے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوسکتی۔ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ انسان تدبیر کو ہاتھ سے چھوڑ دے بلکہ یہ معنے ہیں کہ تدبیر پوری کرکے پھر انجام کو خدا تعالیٰ پر چھوڑے اس کانام توکل ہے۔ اگر تدبیر نہیں کرتا اور صرف توکل کرتا ہے۔ تو اس کا توکل پھوکا (جس کے اندر کچھ نہ ہو) ہوگا۔ اور اگر نری تدبیر کرکے اس پر بھروسہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ پر توکل نہیں ہے تو وہ تدبیر بھی پھوکی (جس کے اندر کچھ نہ ہو) ہوگی۔ ایک شخص اونٹ پر سوار تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے دیکھا۔ تعظیم کے لئے نیچے اترا اور ارادہ کیا کہ توکل کرے اور تدبیر نہ کرے چنانچہ اس نے اونٹ کا گھٹنا نہ باندھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر آیا تو دیکھا کہ اونٹ نہیں ہے واپس آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میں نے تو توکل کیا تھا لیکن میرا اونٹ جاتا رہا آپؐ نے فرمایا کہ تونے غلطی کی پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھتا اور پھر توکل کرتا۔ تو ٹھیک ہوتا۔
تدبیر سے مراد وہ ناجائز وسائل نہیں ہیں جو کہ آج کل لوگ استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے احکام کے موافق ہر ایک سبب اور ذریعہ کی تلاش کا نام تدبیر ہے۔
(ملفوظات جلد6صفحہ 334، ایڈیشن 1984ء)
توکل یہی ہے کہ اسباب جو اللہ تعالیٰ نے کسی امر کے حاصل کرنے کے واسطے مقرر کئے ہوئے ہیں ان کو حتی المقدور جمع کرو اور پھر خود دعاؤں میں لگ جاؤ کہ اے خدا تو ہی اس کا انجام بخیر کر۔ صدہا آفات ہیں اور ہزاروں مصائب ہیں جو ان اسباب کو بھی برباد اور تہ و بالا کر سکتے ہیں۔ ان کی دست بُرد سے بچا کر ہمیں سچی کامیابی اور منزل مقصود پر پہنچا۔
(ملفوظات جلد 5صفحہ 192، ایڈیشن 1984ء)
اصل میں توکّل ہی ایک ایسی چیز ہے کہ انسان کو کامیاب و بامراد بنا دیتاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ(الطلاق: 4) جو اللہ تعالیٰ پرتوکل کرتاہے اللہ تعالیٰ اس کو کافی ہو جاتاہے بشرطیکہ سچے دل سے توکل کے اصلی مفہوم کو سمجھ کر صدق دل سے قدم رکھنے والا ہو اور صبر کرنے والا اور مستقل مزاج ہو۔ مشکلات سے ڈر کر پیچھے نہ ہٹ جاوے…۔
(ملفوظات جلد 10صفحہ 252، ایڈیشن 1984ء)