روز مرہ کے معاملات میں بھی توکّل علی اللہ کی بہت ضرورت ہے
دنیا میں سب سے زیادہ توکل اللہ تعالیٰ انبیاء میں پیدا کرتاہے اور ان کو خود تسلی دیتاہے کہ تم فکر نہ کرو مَیں ہر معاملے میں تمہارے ساتھ ہوں۔ کوئی دشمن تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔ مَیں تم میں اور دیکھنے والاہوں اگر دشمن نے غلط نظر سے دیکھنے کی کوشش کی یا کوئی سازش کرنے کی کوشش کی تو مَیں جو ہر بات کا علم رکھنے والا اور تیری دعاؤں کو سننے والاہو ں خوداس کا علاج کرلوں گا۔ اور اس طرح باقی روزمرہ کے معاملات میں بھی انبیاء کا توکل بہت بڑھا ہوا ہوتاہے کیونکہ وہ اس یقین پر قائم ہوتے ہیں کہ خدا ہر قدم پر ان کے ساتھ ہے، ہر معاملے میں ان کے ساتھ ہے اور پھر اسی طرح روحانی مدارج اور مقام کے لحاظ سے توکل کے معیار آگے مومنین میں قائم ہو تے چلے جاتے ہیں …۔
روز مرہ کے معاملات میں بھی توکّل علی اللہ کی بہت ضرورت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ پر توکّل تبھی پیدا ہوتاہے جب خدا کی ذات پر اس کی طاقتوں پر کامل یقین پیدا ہو۔ جیساکہ اس آیت میں جو مَیں ابھی پڑھتاہوں اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ اِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُہٗ زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ(الانفال: 3)ترجمہ اس کا یہ ہے کہ مومن صرف وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اُس کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ ان کو ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے ربّ پر ہی توکل کرتے ہیں۔
…معاشرے میں آج کل بہت سارے جھگڑوں کی وجہ طبیعتوں میں بے چینی اور مایوسی کی وجہ سے ہوتی ہے جو حالات کی وجہ سے پیداہوتی رہتی ہے۔ اور یہ مایوسی اور بے چینی اس لئے بھی زیادہ ہو گئی ہے کہ دنیا داری اور مادیت پرستی اور دنیاوی چیزوں کے پیچھے دوڑنے کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کم ہوگیاہے اور دنیاوی ذرائع پر انحصار زیادہ ہوتا جا رہاہے۔ اس لئے اگر اپنی زندگیوں کو خوشگوار بناناہے تو جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ دعاؤں پر زوردیں اور اسی سے آپ کی دنیا اور عاقبت دونوں سنوریں گی۔ اوریہی توکل جو ہے آپ کا آپ کی زندگی میں بھی اور آپ کی نسلوں میں بھی آپ کے کام آئے گا۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍ اگست 2003ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍ اکتوبر 2003ء صفحہ 5، 8)