نظامِ شوریٰ کے مقاصد و افادیت اور ممبران شوریٰ کی ذمہ داریاں
امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مجلس مشاورت کے قیام کے سو سال مکمل ہونے پر یوکے، کینیڈا، امریکہ، جرمنی، بیلجیم اور گنی بساؤ کی مجالس مشاورت 2022ء کے نمائندگان سے لائیو اختتامی خطاب
(مسجد بیت الفتوح مورڈن، لندن، یوکے 22؍مئی 2022ء) حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزطاہر ہال، بیت الفتوح، مورڈن میں منعقد ہونے والی مجلس مشاورت برطانیہ 2022ء (منعقدہ 21و 22؍مئی 2022ء) کے اختتامی اجلاس میں بنفسِ نفیس رونق افروز ہوئے اور انگریزی زبان میں بصیرت افروز اختتامی خطاب فرمایا۔ یہ خطاب ایم ٹی اے کے مواصلاتی رابطوں کے توسّط سے پوری دنیا میں دیکھا اور سنا گیا۔
حضورِانور کا قافلہ 5 بج کر 10 منٹ پر بیت الفتوح کے احاطہ میں پہنچا۔ بعد ازاں حضور انور مسجد بیت الفتوح تشریف لے گئے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں مردو زَن اور بچے اپنے پیارے امام کے دیدار کے انتظار میں تھے۔ حضورِ انور بیت الفتوح کے ہال میں تشریف لے گئے جہاں احباب جماعت نے حضور انور کی اقتدا میں نماز ظہر و عصر پڑھنے کی توفیق پائی۔ یاد رہے کہ کورونا وبا کے بعد مسجد بیت الفتوح میں پہلی مرتبہ خواتین نے نیز بحیثیت مجموعی اتنی بڑی تعداد میں احبابِ جماعت نے حضورِ انور کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کی توفیق پائی۔
نمازوں کی ادائیگی کے کچھ دیر بعد 5 بج کر 45 منٹ پر حضورِانور اختتامی اجلاس کے لیے طاہر ہال میں تشریف لائے۔ کرسی صدارت پر رونق افروز ہونے کے بعداختتامی اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مکرم حافظ فضل ربی صاحب نے سورۃ المومنون کی آیات 1 تا 12 کی تلاوت کی۔ ان آیات کا انگریزی ترجمہ مکرم طاہر سلبی صاحب مبلغ سلسلہ نے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔
خطاب حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 5 بج کر 51 منٹ پر مجلس مشاورت سے (بزبانِ انگریزی) خطاب فرمانے کے لیے منبر پر تشریف لائے۔ تشہد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور نے فرمایا:
جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ گذشتہ دو سالوں میں کورونا کی وبا کے سبب دنیا بھر میں پروگرامز میں کمی ہوئی اور ہماری جماعت کے پروگرام بھی متاثر ہوئے۔ گذشتہ چند سالوں میں یوکے اور دیگر ممالک میں مجالس شوریٰ کا محدود انعقاد آن لائن کیا گیا۔ عام شوریٰ کے مقابل ایجنڈا بھی مختصر رکھا گیا تھا۔
آج اس لحاظ سے یہ خوشی کا دن ہے کہ تقریباً تین سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے یوکے جماعت کو مجلس شوریٰ کا انعقاد کرنے کی توفیق دی ہے جس میں نمائندگان بذاتِ خود شامل ہو رہے ہیں۔ ایسا ہی کینیڈا، جرمنی اور دوسرے ممالک میں بھی ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ الحمد للہ اس سال نظامِ شوریٰ کے قیام پر سو سال بھی مکمل ہو رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ تمام ممبران نے اس اہم سنگ میل کو خصوصی نگاہ سے دیکھا ہو گا۔ 1922ء میں شوریٰ کا آغاز ہوا اور ہر سال مجلس شوریٰ کا نظام وسیع اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہمیشہ ہمارے شاملِ حال رہی ہے۔ اور جماعت ہر رنگ میں پھلتی پھولتی ہے۔ اس حقیقت کا اطلاق یقیناً مجلس مشاورت پر بھی ہوتا ہے۔ جو مبارک بیج آج سے سو سال قبل بویا گیا اس کی جڑیں نہ صرف مضبوط ہوئیں بلکہ اس سے نکلنے والا پودا پھولتا اور پھیلتا گیا اور اب اس کے ثمرات تمام دنیا میں پھیل چکے ہیں۔ یقیناً ہر ملک میں جہاں نظام جماعت مکمل طور پر قائم ہے وہاں مجلس شوریٰ ہر سال منعقد ہوتی ہے۔
تقریباً سو سال سے زائد عرصہ قبل یوکے میں جماعت کا قیام ہوا لیکن یہاں نظام شوریٰ اس کے چند دہائیوں بعد شروع ہوا۔ اور دراصل حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ کی ہجرت کے بعد یہ باقاعدہ طور پر زیادہ منظم ہوا۔ اب یہ نظام باقاعدہ جاری ہے اور صرف انتظامی لحاظ سے ہی یوکے میں نہایت منظم ہو چکا ہے۔ اور مجھے امیدہے کہ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہو گی۔ اس میں یورپ کی جماعتیں، امریکہ، کینیڈا اور افریقہ کی بڑی جماعتیں شامل ہیں۔
شوریٰ کے ممبران کا انتخاب شوریٰ کے قواعد کے مطابق ہوتا ہے۔ تجاویز پیش ہوتی ہیں اور جو منظور ہوں انہیں ایجنڈے میں شامل کیا جا تا ہے جہاں وہ زیرِ بحث آتی ہیں۔ پھر سب کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں جہاں ان تجاویز پر غور و خوض کیا جاتا ہے اورحتمی شکل دی جاتی ہے جس کے بعد مجلس شوریٰ کے سامنے یہ تجاویز دوبارہ رکھی جاتی ہیں جہاں ان پر ایک مرتبہ پھر غور کیا جاتا ہےیہاں تک کہ سفارشات حتمی شکل اختیار کر جائیں۔
جہاں تک طریقہ کارکا سوال ہے تو اس میں کافی حد تک پختگی آچکی ہے مگر میری نظر میں بعض عہدے دار اورشوریٰ کے ممبران کواپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا حقیقی ادراک نہیں۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ مجلس شوریٰ ایک ایسا اداراہ ہے جو کسی بھی دنیاوی ادارے یا پارلیمنٹ سے یکسر مختلف ہے۔ دنیاوی پارلیمنٹس کو دیکھیں تو ان کی کارروائیوں میں ناختم ہونے والی بحث ہوتی ہے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا اور آپس میں تنازعات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات یہ کارروائی باہمی حالات کو کشیدہ بھی کردیتی ہے جبکہ اقوامِ متحدہ کی سطح پر ممالک میں باہمی دوریاں بڑھادیتی ہے۔ ایک ایجنڈے کے دو مخالف گروپ ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی بات کو اہمیت نہیں دی جاتی اور اپنی یا اپنی پارٹی کے نظریہ کو زبردستی تھوپا جاتا ہے۔
عام دنیاوی پارلیمان کے ممبران کی تو خواہش اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی انفرادی شخصیت کو ابھار کر پیش کرسکیں، اس کے لیے وہ بسا اوقات انصاف اور حقیقت سے ہٹ کر بھی رائے کا اظہار کردیتے ہیں۔ لیکن ہماری مجلسِ مشاورت دوسری پارلیمان اور کانگریس وغیرہ سےافضل ہے اور اس کی یہ افضلیت اسی بنا پر قائم رہ سکتی ہے کہ جب آپ ممبران کے اخلاق اور رویّے مثالی ہوں۔ آپ کی رائے صداقت پر مبنی اور دھوکا دہی سے مبرّا ہو۔ یاد رکھیں کہ شوریٰ کا بنیادی مقصد وہ سفارشات پیش کرنا ہے کہ جو امامِ وقت حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے مشن کو آگے بڑھانے والی ہوں۔ آپؑ کا مشن اسلام اور آنحضرتﷺ کے پیغام کو دنیا کے کونوں تک پہنچاناہے۔ پس یہ آپ ممبران کی ڈیوٹی ہے کہ خلیفۂ وقت جو تمام جماعت کے لیے بمنزلہ باپ کے ہے اُسے صحیح اور صائب رائے دیں تاکہ خلیفۂ وقت اسلام کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے کے لیے وہ اقدامات کرسکے جس کے نتیجے میں بنی نوع انسان اپنے خالق کو پہچاننے والی بنے۔
مجھے امید ہے کہ آپ تمام ممبران نے اپنی اس ڈیوٹی کو صحیح طرح نبھایا ہوگا۔ یاد رکھیں کہ آپ یہاں کسی دنیاوی مقصد کے لیے اکٹھےنہیں ہوئے بلکہ آپ دینِ اسلام کو دنیا میں پھیلانے کی تجاویز سوچنے کےلیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ کواپنی رائے کا اظہار ایمان داری اور دیانت داری سے کرنا چاہیے اور کبھی یہ سوچ نہیں آنی چاہیے کہ آپ ہی کی رائے درست ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اب تو ہر اس ملک میں جہاں نظامِ جماعت فعال ہےوہاں مجلسِ شوریٰ کا نظام بھی قائم ہے اس کے باوجود بعض جگہوں سے ایسی شکایات وقتاً فوقتاً سامنے آجاتی ہیں کہ بعض ممبران بحث برائے بحث یا معمولی باتوں پر وقت ضائع کرتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ خیال بھی ظاہر کردیتے ہیں کہ دوسرے ممبرانِ شوریٰ مثبت سوچ کے ساتھ مشاورت میں شامل نہیں ہوئے۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ آپ نے تقویٰ اور مجلسِ مشاورت کے حقیقی مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی رائے دی ہوگی۔
اس سال مجلسِ مشاورت کے سَو سال پورے ہورہے ہیں۔ پس اس موقع پرہمیں خدا کے فضلوں کو یادکرنا چاہیے۔ پہلی مجلسِ مشاورت جو 1922ء میں ہوئی تھی، اس وقت جماعت کا کُل بجٹ 55ہزار روپے تھا جو آج کل کے حساب سے کسی طرح بھی ڈیڑھ دو لاکھ پاؤنڈز سے زیادہ نہیں بنتا، لیکن آج صرف یوکے جماعت کا بجٹ ہی کئی ملین پاؤنڈز ہے۔ اسی طرح کینیڈا، جرمنی اور امریکہ وغیرہ جماعت کا بجٹ بھی ہے۔ پس یہ سب خدا کے فضل اور انعامات ہیں جن کا شمار ممکن نہیں۔
بلا شبہ خدا تعالیٰ کے ہماری جماعت پر بے انتہا فضل اور احسانات ہیں ۔ایک وقت تھا کہ جماعت کے پاس اس قدر بھی وسائل نہ تھے کہ صرف واقفین کے الاؤنس ہی ادا کیے جاتے لیکن اُس وقت کے واقفین نے بھی توکل علیٰ اللہ اورصبر و استقامت سے خدمت کی اور کبھی کوئی شکایت زبان پر نہ لائےاور نہ ہی ان واقفین کے اہل خانہ نے کبھی شکایت کی اور بہترین خدمت بجا لاتے رہے اور اس وجہ سے یہ آج کے واقفین، کارکنان اور ممبران شوریٰ کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ آج خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے جماعت کو کشائش عطا فرمائی ہے گو کہ اب بھی ایک تعداد ہے جو کہ اپنی آمد کے مطابق معیاری چندہ ادا نہیں کر رہی۔ لیکن آج ایسا نہیں کہ ہم مساجد نہیں بنا سکیں، جماعتی لٹریچر نہ چھاپ سکیں، واقفین اور کارکنا ن کے الاؤنس نہ ادا کر سکیں بلکہ اب تو خدا کا اتنا فضل ہے کہ جماعت کے کئی ممالک ایسے ہیں کہ ان میں سےایک ایک شعبےکے لیے خدمتِ اسلام بجا لانے کے لیے بھاری رقوم مختص کی جاتی ہیں۔ اگر اس قدر کشائش عطاہو گئی ہے تو سوال یہ ہے کہ اب اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا ہم اپنے سے پہلوں کی طرح صدق و وفا میں بھی ترقی کر رہے ہیں یا صرف زبانی دعوے ہیں؟
حضورِانور نے فرمایا کہ آج جماعت پر جو خداتعالیٰ کے افضال ہیں ہم سب اس کے عینی شاہد ہیں کہ اس کشائش سے ہم تمام دنیا میں تبلیغ اور تربیت کا کا م مساجد کی تعمیر، اور احمدیوں کی تربیت کی توفیق پا رہے ہیں۔ اللہ کے فضل سے اب تو خداتعالیٰ نے احمدیوں کو انفرادی طور پر بھی اتنی کشائش عطا فرما دی ہے کہ ان میں سے کئی لوگ اکیلے غریب ممالک میں مساجد کی تعمیر کروا رہے ہیں۔ یو کے میں مسجد بیت الفتوح کے ایک حصے کوآگ لگنے کے بعد یو کے جماعت نے اس کی تعمیرنَو کے لیے ایک بڑا حصہ ادا کیا ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضلوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد اور احباب جماعت کی قربانی دیکھ کرآپ سب پر یہ واجب ہے کہ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ نہ کہ یہ سمجھا جائے کہ یہ سیکرٹری مال، سیکرٹری تحریک جدید، سیکرٹری وقف جدید یا کسی کمیٹی ممبر کی محنت کا نتیجہ ہے بلکہ سمجھا جائے کہ ایسے منصوبے صرف خدا تعالیٰ کے فضل سے تکمیل کو پہنچتے ہیں۔
ہرعہدیدار اور احمدی کو یاد رکھنا چاہیے کہ خالی مالی قربانی کرنا ہمیں اپنے اخلاقی اور روحانی ترقی کی طرف توجہ کرنے کے فرائض سے سبکدوش نہیں کرتا۔ نہ ہی مجلس شوریٰ کے ممبران اس خوش فہمی میں رہیں کہ اس ہال سے نکل کر وہ اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہو چکے ہیں۔ یا یہ خیال کریں کہ بجٹ یا دیگر تجاویز پر بحث کر کے، یا تبلیغ،تعلیم اور تربیت کے لیے فنڈز مختص کرکےآپ کے فرائض ادا ہو گئے ہیں بلکہ ہر ایک کواپنی روحانی اور اخلاقی حالت میں بہتری لانے کی طرف بھر پور توجہ دینی چاہیے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آپ سب اس کے علاوہ خدا کے حضور سجدہ ریز ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی کمزوریوں کی پردہ پوشی کرے۔ اور جو پلاننگ اس نے کرنے کی توفیق دی اور خلیفۂ وقت نےجس کی منظوری عطا فرمائی ہے اس پر اب ہمیں بھر پورطورپر عمل کرنےکی بھی توفیق عطا ہو۔اور احباب جماعت کو بھی یہ بتائیں کہ صرف مالی قربانی کرنے سےدینی فرائض ادا نہیں ہو جاتے بلکہ ان کی قربانیاں حقیقی طور پر بابرکت نہیں ہوں گی جب تک وہ مسلسل اپنے روحانی اور اخلاقی معیار کو بلند کرنے کی طرف توجہ نہیں کریں گے۔ تب ہی افرادِ جماعت حقیقی طور پر خدا تعالیٰ کی برکات اور انعامات کا وارث بن سکیں گے۔ اگر تمام احمدی مسلمان اس روح کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو یقیناً ہمارا خداتعالیٰ کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی تعلق مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا۔
حضورِانور نے فرمایا کہ اگر ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ترقی کریں گے تو ہم اُن لوگوں میں سے ہوں گے جو اس کے انعامات کے مورد ہوتے ہیں۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجلس شوریٰ کی تمام سفارشات کو بابرکت فرمائے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ صرف انتظامی طور پر ترقی کرنے والے ہوں بلکہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں میں شامل کرے جن کی عبادات، ترقی پذیر ایمانی حالتیں دوسروں کے لیے نمونہ ہوتی ہیں۔ اگر آپ اس انداز سے زندگی بسر کریں گے تو لوگ آپ سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ اگر تمام احبابِ جماعت اپنی روحانی اصلاح کریں گے تو تبلیغ کے رستے بھی کھلیں گے اور اسلام کو پھیلانے کے نئے نئے راستے نمودار ہوں گے۔
جہاں تک تبلیغ اور تربیت کا تعلق ہے تو میں ممبران شوریٰ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کی بہتر انداز میں اشاعت و ترویج نیز دیگر لٹریچر کی تشہیر کی ضرورت ہے۔ ماضی میں اس قدر وسائل نہ تھے کہ ضرورت کے مطابق لٹریچر کی اشاعت کی جا سکے لیکن اب جماعت الحمد للہ لاکھوں کی تعداد میں کتب، رسائل اور پمفلٹس شائع کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر امسال قرآن کریم کو خوبصورت عربی رسم الخط میں شائع کیا گیا ہے، حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کا انگریزی ترجمہ قرآن اور حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کا لفظی اردو ترجمہ قرآن بڑی تعداد میں شائع کیا جا رہا ہے۔ کتب حدیث، کتب حضرت مسیح موعودؑ و خلفائے کرام نیز دیگر کتب کو شائع کیا جارہا ہے۔ جہاں ایک وقت ایسا تھا کہ ہمارے پاس کتب کی اشاعت کے لیے رقم کا بندوبست کرنا مشکل تھا وہاں اب جبکہ ہمارے پاس کتب کا کافی سٹاک موجود ہے تو وکالت اشاعت نے رپورٹ دی ہے کہ مقامی جماعتیں اورانفرادی طور پر احمدی جیسا کہ حق ہے اس طرح کتب نہیں خریدتے، تقسیم کرتے اور نہ ہی ان سے کماحقہ ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ مرکزی سٹور میں بڑی تعداد میں لٹریچر پڑا رہتا ہے اور میرا یہ تاثر ہے کہ مختلف ممالک کو جو لٹریچر بھیجوایا جاتا ہے وہ بھی صحیح طرح استعمال نہیں ہوتا اور اکثر ان کے سٹورز میں پڑا رہتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جماعتوں کی طرف سے مرکز کو بار بار نئی ڈیمانڈ بھجوائی جاتی یہاں تک کہ وکالتِ اشاعت کو ممالک کی ڈیمانڈز پوری کرنا مشکل ہو جائے۔ مرکزی اور ملکی سٹورز سے کتب فوراً ختم ہو جائیں اور ہر احمدی کے گھر میں اور دنیا بھر میں زیرِتبلیغ افراد کے ہاتھوں میں موجود ہوں۔
حضورِانور نے تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ یوکے اور دوسری جماعتیں جو یہ خطاب سن رہی ہیں مصمم ارادہ کریں کہ ہم نے لٹریچر کی پہلے سے بڑھ کر ترسیل کرنی ہے اوراسے کثرت سے عوام میں پھیلانا ہے تا کہ احمدیت اور اس کی تعلیمات کا تعارف معاشرے میں وسیع طور پر ہو جائے۔ احمدیوں کو انفرادی طور پر بھی اس کی تحریک کرنی چاہیے کہ وہ کتب خریدیں اور ان کا مطالعہ کریں اور اپنے زیررابطہ احباب کو بھی دیں۔
حضورِانور نے فرمایا کہ اس زمانے میں ہمیں مختلف آن لائن اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعہ بھی احمدیت کے پیغام کو وسیع طور پر پھلانےکی ضرورت ہے۔ ہر احمدی کو ترغیب دلانی چاہیے کہ وہ ایم ٹی اے اور دیگر جماعتی آن لائن مواد سے استفادہ کریں اور اسے دوسروں کے ساتھ شیئر کریں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال ہزاروں لوگ ایم ٹی اے اور الاسلام کےذریعہ جماعت سے متعارف ہوتے ہیں۔ اور ان میں سے کئی سعید فطرت روحیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہو جاتی ہیں۔ ایم ٹی اے کو صرف ایک ایسا چینل نہ سمجھا جائے جو صرف ممبرانِ جماعت کے لیے مفید ہے بلکہ یہ تبلیغ کے میدان میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے اگرچہ ابھی بھی اس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ پس ہر شوریٰ ممبر اور عہدیدار کو غیر مسلموں کے سامنے ایک منصوبہ بندی اور پلان کے تحت ایم ٹی اےاور ہماری دیگر ویب سائٹس جیسے الاسلام کا تعارف کروانا چاہیے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آخر میں مَیں ایک بار پھر آپ کو یہ یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں کہ بحیثیت شوریٰ ممبر اور عہدیدار اگر آپ اپنا کرداراخلاص اور عاجزی کے ساتھ ادا کریں گے اور اللہ کے حضور خالص ہو کر جھک کر دعائیں کریں گے اور اس کا رحم مانگیں گے تو یقیناً اس کی نصرت اور فضل کی بارش جماعت پرپہلے سےزیادہ برسے گی۔
آج بعض مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں اور ہمارے عقائد او ر طور طریقوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ گو یہ بے بنیاد الزام ہے لیکن ہمارے قول و فعل میں ہلکا سا بھی تضاد نہیں ہونا چاہیےاور ہمارے تمام عمل اسلام کی تعلیم کے مطابق ہوں۔ آج ہم دنیا میں امن کا فقدان دیکھتے ہیں۔ اس وقت انسانیت کو تباہی سے بچانے کا ایک ہی رستہ ہے کہ وہ اپنے خالق کو پہچانیں اور اس کی طرف جھکنے والے ہوں۔ ہمیں اپنی اپنی اقوام کی راہنمائی کرنی چاہیے اورانہیں اللہ اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلانی چاہیے۔ اور ہم یہ اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک اسلام کی تعلیم اور ان اقدار کو اپنانے والے نہ ہوں گے جو قرآن کریم ، رسول اللہ ﷺ اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑ نے ہمارے اندر قائم کیے ہیں۔ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک احمدیت کا پیغام پہنچے اور وہ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے مقصد کو سمجھیں۔تبھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم مجلس شوریٰ کے مقاصد کو پورا کرنے والے ہیں۔تبھی آپ خلیفہ وقت کے حقیقی سلطان نصیر کے طور پر خدمت کر رہے ہوں گے جو اسلام احمدیت کے پھیلاؤ کو نئی رفعتوں کی طرف لے جانے کی خاطر جماعت کی راہنمائی کر تا ہے۔صرف تبھی آپ اپنا کردار ادا کر رہے ہوں گے جب اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ دنیا کے تمام احمدی خلیفۃ المسیح کے ہاتھ پر ایک سمت میں، ایک متحد جماعت کےطور پر اسلام اور آنحضرت ﷺ کی حقیقی اور آخری روحانی فتح کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
میں دعا اور امید کرتا ہوں کہ جن تجاویزپر غور کیا ہے اور جو بھی سفارشات آپ نے مجھے بھیجی ہیں وہ مجلس شوریٰ کے مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہیں۔ اورجماعت کی باہمی اخوت کو نئے معیار پر پہنچانے کے لیے ہیں اور اس روح کے ساتھ ہیں کہ اسلا م کا حقیقی پیغام دنیا کے ہر کونے تک پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ مجلس شوریٰ کے نظام پرافضال نازل فرمائے کہ یہ آج اپنی دوسری صدی میں داخل ہو رہی ہے۔اور ہماری جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعامات کا مشاہدہ کرنے والی ہو۔ آمین
حضورِ انور کے خطاب کا اختتام 6 بج کر 35 منٹ پر دعا کے ساتھ ہوا۔ حضور انور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عنایت فرمانے کے بعد طاہر ہال سے باہر تشریف لے گئے۔
بعد ازاں حضور انور لجنہ اماء اللہ کی طرف تشریف لے گئے جہاں پر حضورِانور نے صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ سے بعض امور کے متعلق دریافت فرمایا۔ وہاں سے حضور انورصد سالہ جوبلی خلافت احمدیہ نمائش میں تشریف لے گئے جہاں ممبرانِ قافلہ کے لیے ریفریشمنٹ کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہاں پرکچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد حضور انور چھ بج کر انسٹھ منٹ پر بیت الفتوح کے نئے تعمیر ہونے والے پانچ منزلہ خوبصورت بلاک کا معائنہ فرمانے کے لیے تشریف لے گئے۔ حضورانور راہداری سے ہوتے ہوئے مسجد کے نو تعمیر شدہ بلاک کے سامنے برآمدے میں تشریف لے گئے۔ پھر بیت الفتوح کے سامنے موجود کارپارکنگ میں رونق افروز ہوئے اور بلاک کے سامنے کچھ دیر کھڑے ہو کر نظر اٹھا کر مسجد کے سامنے والے حصے (elevation) کو کچھ دیر ملاحظہ فرمایا۔ مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ اور مکرم عرفان قریشی صاحب (سیکرٹری جائیداد برطانیہ) نے حضور انور کی خدمت میں تعمیرات سے متعلق تفصیلات پیش کیں۔ حضور انور نے بھی ان سے بعض امور کے بارہ میں دریافت فرمایا۔
معائنہ کے بعد حضورِانور جب ایم ٹی اے کے سامنے موجود راہداری سے گزر رہے تھے تو وہاں پر ایم ٹی اے کے رضاکاران اور کارکنان موجود تھے۔ حضور انور نے مکرم عبدالمومن طاہر صاحب (انچارج عربک ڈیسک) اور محترم فیروز عالم صاحب (انچارج بنگلہ ڈیسک) سے خطاب کے براہِ راست ترجمہ کے بارے میں دریافت فرمایا۔
مختصر رپورٹ مجلس مشاورت برطانیہ 2022ء
مکرم رانا مشہود احمد صاحب، جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ برطانیہ نے نمائندہ الفضل انٹرنیشنل کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ برطانیہ کی مجلس مشاورت مورخہ 21و22؍مئی 2022ء کو مسجد بیت الفتوح، مورڈن میں منعقد ہوئی۔ مورخہ 21؍مئی بروز ہفتہ صبح دس بجے رجسٹریشن کا آغاز ہوا جس کے بعد مجلس شوریٰ کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز گیارہ بجے طاہر ہال میں مکرم امیر صاحب جماعت احمدیہ برطانیہ کی زیرِ صدارت ہوا۔ مکرم معاذ احمد صاحب نے سورۃ اٰل عمران کی آیات 160 و 161 کی تلاوت کی۔ ان آیات کا انگریزی ترجمہ مکرم Kemo Kasama صاحب نے پیش کیا۔ دعا کے بعد مکرم امیر صاحب نے نمائندگان شوریٰ سے خطاب کیا۔
بعد ازاں خاکسار نے چند اعلانات کرنے کے بعد امسال مجلس شوریٰ میں نہ شامل کی جانے والی تجاویز اور ان کی وجوہات کے متعلق رپورٹ پیش کی۔ جس کے بعد سیکرٹریان تبلیغ، تربیت، امور خارجہ اور مال نے گذشتہ سال کی مجلس شوریٰ کی تجاویز اور ان پر عملدرآمد سے متعلق اپنی اپنی رپورٹس پیش کیں۔
بعد ازاں امسال کی مجلس شوریٰ میں پیش ہونے والی تجاویز پر غوروفکر کے لیے شعبہ امورِعامہ، شعبہ تربیت اور شعبہ مال کے تحت سب کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ شعبہ امورِعامہ کے تحت قائم ہونے والی سب کمیٹی کے صدر مکرم سید مظفر احمد صاحب مقرر ہوئے جبکہ مکرم شیخ طارق صاحب (سیکرٹری امور عامہ یوکے) اس کمیٹی کے سیکرٹری تھے۔ شعبہ تربیت کے تحت تشکیل پانے والی سب کمیٹی کے صدر مکرم ڈاکٹر زاہد خان صاحب مقرر ہوئے جبکہ مکرم نثار آرچرڈ صاحب (سیکرٹری تربیت یوکے) نے بطور سیکرٹری کےفرائض سرانجام دیے۔ اور شعبہ مال کے تحت قائم کی جانے والی سب کمیٹی کے صدر مکرم ظہیر احمد خان صاحب تھے جبکہ مکرم سلطان لون صاحب (سیکرٹری مال یوکے) اس کمیٹی کے سیکرٹری تھے۔ اس اجلاس کا اختتام دعا کے ساتھ ہوا جو مکرم امیر صاحب نے کروائی۔
بعد ازاں وقفہ برائے نمازِ ظہر و عصر اور طعام ہوا جس کے بعد مجلس عاملہ جماعت احمدیہ برطانیہ کا انتخاب ہوا جس کی صدارت مکرم عطاء المجیب راشد صاحب مبلغ انچاچ و نائب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ نے کی۔ انتخاب کا آغاز اجتماعی دعا کے ساتھ ہوا جو امام صاحب نے کروائی۔ انتخاب کا کُل دورانیہ تقریباً چار گھنٹے تھا۔ ووٹوں کو گننے کے لیے ایک counting software تیار کیا گیا تھا۔ جامعہ احمدیہ یوکے کے طلباء جو ووٹ گننے کے لیے مقرر تھے ان کو ایک ایک ٹیبلٹ دی گئی تھی جن کی مدد سے ووٹوں کی گنتی کی گئی۔ اس سلسلہ میں مجلس خدام الاحمدیہ کی معاونت بھی حاصل رہی۔
انتخاب کے بعد ممبرانِ شوریٰ کے اعزاز میں عشائیہ پیش کیا گیا جس میں ممبرانِ شوریٰ کے علاوہ دیگر معزز مہمانانِ کرام کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ بعد عشائیہ نماز مغرب و عشاء ادا کی گئیں اورسب کمیٹیوں نے مقررہ مقامات پر اپنے اپنے اجلاسات کا آغاز کر دیا جو رات گئے تک جاری رہے۔
مورخہ 22؍مئی کو مجلس شوریٰ کی کارروائی کا آغاز ساڑھے گیارہ بجے مکرم امیر صاحب کی صدارت میں ہوا۔ مکرم طاہر احمد خالد صاحب نے سورۃ النساء کی آیات 59و 60کی تلاوت کی اور ان کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔ بعد ازاں تینوں سب کمیٹیز نے اپنی اپنی رپورٹس پیش کیں۔ اس کے بعد مکرم امیر صاحب نے تقریر کی اور دعا کے ساتھ اس اجلاس کا اختتام ہوا جس کے بعد نمائندگان شوریٰ کی خدمت میں دوپہر کا کھانا پیش کیا گیا۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتدا میں نماز ظہر و عصر ادا کی گئیں اور مجلس شوریٰ کا اختتامی اجلاس منعقد ہوا جس کی تفصیل اوپر آچکی ہے۔
مجلس شوریٰ کی سوسالہ تاریخ کے متعلق امسال شوریٰ پر ایک نمائش بھی لگائی تھی جو مکرم ارشد احمد ی صاحب (سیکرٹری اشاعت یوکے) کی زیر نگرانی مکرم راحیل احمد صاحب مربی سلسلہ اور مکرم ولید احمد صاحب نے تیار کی تھی۔ اسی طرح اس سلسلہ میں ایک ویڈیو بھی تیار کی گئی تھی۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجلس شوریٰ جماعت احمدیہ برطانیہ 2022ء میں 525 نمائندگان نے شامل ہونے کی توفیق پائی۔
ادارہ الفضل انٹرنیشنل امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو مجلسِ شوریٰ کے باقاعدہ قیام پر سو سال مکمل ہونے پر عاجزانہ مبارکباد پیش کرتا ہے نیز دعا گو ہے کہ خلافتِ احمدیہ کے زیرِ سایہ یہ ادارہ ترقی کرتا چلا جائے اور اسلام احمدیت کے حقیقی غلبہ اور ممبرانِ جماعت احمدیہ کی تربیت و ترقی میں خلیفۂ وقت کے دستِ راست کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق پاتا چلا جائے۔ آمین