خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍مئی 2022ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
٭…جنگ یمامہ کے حالات و واقعات کا تذکرہ
٭…آنحضورﷺ نے خواب میں اپنے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن دیکھے۔اس کیفیت نے آپؐ کو فکر مند کیا۔چنانچہ خواب میں وحی الٰہی کے تابع آپؐ نے پھونک ماری تو وہ کنگن اُڑ گئے
حضورﷺ نے فرمایا :مَیں نے ان کی تعبیر دو جھوٹے شخص سمجھے جو میرے بعد ظاہر ہوں گے
٭…نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکرؓ نے حضرت عکرمہؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر مسیلمہ کی طرف بھیجا
٭…مکرم عبد السلام صاحب شہید آف ایل پلاٹ اوکاڑہ، مکرم ذو الفقار احمد صاحب آف فیصل آباد اور مکرم ملک تبسّم صاحب آف کینیڈا کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍مئی 2022ء بمطابق 20؍ہجرت 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مورخہ 20؍مئی 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔جمعہ کی اذان دینےکی سعادت صہیب احمدصاحب کے حصے میں آئی۔
تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
حضرت ابوبکرصدیقؓ کے زمانے میں جنگِ یمامہ کا ذکر ہورہا تھا۔ یمامہ یمن کا ایک مشہورشہر ہے۔آج کل یہ علاقہ سعودی عرب میں واقع ہے۔یہ ایک انتہائی سرسبز اور زرخیز علاقہ تھا۔ یہا ں سخت جنگ جُو قوم بنو حنیفہ آباد تھی۔ رسول اللہﷺ نے 6یا 7؍ ہجری میں مختلف بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھے تو ایک خط یمامہ کے بادشاہ ہوزہ بن علی اور اہلِ یمامہ کے نام بھی لکھا۔ جب 9؍ہجری میں مختلف وفود مدینہ آئے تو یمامہ سے بنو حنیفہ کا وفد بھی آیا۔ اس وفد میں مسیلمہ کذاب بھی شامل تھا۔ ابن ہشام کے نزدیک اس کا نام مسیلمہ بن ثمامہ تھا اور اس کی کنیت ابوثمامہ تھی۔ جب بنو حنیفہ ملاقات کے لیے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مسیلمہ کو اپنے سامان کی حفاظت کےلیے پیچھے چھوڑ گئے۔اسلام قبول کرنے کےبعدانہوں نے اس بات کا ذکرحضورﷺ سے کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ مرتبےمیں تم سے کم تر نہیں کیونکہ وہ اپنے ساتھیوں کےسامان کی حفاظت کر رہا ہے۔آپؐ نےمسیلمہ کے لیے بھی اسی قدرتحائف کا حکم دیا جس قدر باقی لوگوں کو دینےکا ارشاد فرمایا تھا۔
بعض روایات میں مسیلمہ کی رسول اللہﷺ سے ملاقات کا ذکر بھی ملتا ہے جس کےمتعلق کہا جاتا ہے کہ ہوسکتاہے کہ جب مسیلمہ دوسری دفعہ آیا تھا تب ملا ہو۔ صحیح بخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ خود مسیلمہ سے ملاقات کےلیے تشریف لےگئے تھے۔اس وقت آپؐ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ مسیلمہ نے حضورﷺ سے مطالبہ کیا کہ آپ اپنے بعد مجھے جانشین بنائیں اس پر حضورِاکرمﷺنےفرمایا کہ اگر تُو مجھ سے یہ چھڑی بھی مانگے تو مَیں تجھے یہ بھی نہیں دوں گا۔ مَیں تجھے وہی شخص سمجھتا ہوں جس کے بارے میں مجھے خواب دکھائی گئی تھی۔
حضرت ابوہریرہؓ سےمروی روایت کےمطابق ایک بار آنحضورﷺ نے خواب میں اپنے ہاتھ میں سونےکے دو کنگن دیکھے۔ اس کیفیت نےآپؐ کو فکرمند کیا۔چنانچہ خواب میں ہی وحی الٰہی کے تابع آپؐ نے پھونک ماری تو وہ کنگن اُڑ گئے۔حضورﷺ نے فرمایا :مَیں نے ان کی تعبیر دو جھوٹے شخص سمجھےجو میرے بعد ظاہر ہوں گے۔راوی عبیداللہ کہتے ہیں کہ اس سے اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب مراد ہیں۔حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ مسیلمہ ایک بڑی تعداد کےساتھ آیا تھا، کہا جاتا ہے کہ وہ سترہ لوگوں کے ساتھ آیا۔ یہ بھی مسیلمہ کے ایک سےزائد دفعہ مدینہ آنے کی دلیل ہے۔
جب یہ وفد واپس یمامہ پہنچا تو مسیلمہ مرتدہوگیا اور اس نے نبوت کا دعویٰ کردیا۔ مسیلمہ بناوٹ کرکے لوگوں کےلیے قرآن کریم کی نقل کرتے ہوئے کلام بنانے لگا۔اس نے نمازِ عشاء اور فجر دو نمازیں معاف کردیں اور شراب و زنا کو حلال قرار دیا۔بڑی منافقت کے ساتھ وہ یہ بھی گواہی دیتا کہ آنحضرتﷺ نبی ہیں۔ مسیلمہ کی طاقت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ رجال بن عنفوہ جسے آنحضورﷺ نے اہلِ یمامہ کی طرف معلّم بنا کر بھیجا تھا وہ مسیلمہ سے جاملا۔ اس شخص کو بھیجا تو اس لیے گیا تھا تاکہ یہ فتنے کا تدارک کرے لیکن یہ مسیلمہ کے ساتھ شامل ہوگیا اور رسول اللہﷺ کی طرف یہ جھوٹا قول منسوب کیا کہ مسیلمہ رسول اللہﷺ کے ساتھ نبوت میں شریک کیا گیا ہے۔رجال بن عنفوہ کی تصدیق کےبعد اہلِ یمامہ کےلیے انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی چنانچہ لوگ جوق در جوق مسیلمہ کی بیعت کرنے لگے۔ مسیلمہ نے حضورﷺ کو ایک خط لکھا جس کے جواب میں آپؐ نےبھی اسے خط بھجوایا۔ مسیلمہ نے حضورﷺ کے قاصد حضرت حبیب بن زید انصاری کو نہایت بےدردی سے شہید کردیا۔ مسیلمہ نے عَلَمِ بغاوت بلند کرتے ہوئے حضورﷺ کے عامل حضرت ثمامہ بن اثال ؓکو یمامہ سے نکال دیا۔
نبی کریمﷺ کی وفات کےبعدحضرت ابوبکرؓ نے حضرت عکرمہؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر مسیلمہ کی طرف بھیجا اور ان کی مددکےلیے ان کےپیچھے حضرت شرحبیل بن حسنہؓ کو روانہ فرمایا۔ حضرت عکرمہؓ نے جلدبازی میں شرحبیل کا انتظار کیے بنا ہی حملہ کردیا۔ مسیلمہ کی فوج بہت بڑی تھی چنانچہ وہ مصیبت میں پھنس گئے۔جب حضرت عکرمہ ؓنے ساری تفصیل حضرت ابوبکرؓ کو لکھی تو واضح ہدایت کی خلاف ورزی کیےجانے پر حضرت ابوبکرؓ بہت ناراض ہوئے۔ آپؓ نے شرحبیل کو ٹھہرنے کا حکم دیا اور دوسری جانب حضرت خالد بن ولیدؓ کویمامہ روانہ فرمایا۔ حضرت شرحبیل نے بھی عکرمہ کی طرح جلد بازی سے کام لیا اور خالد بن ولیدؓ کے پہنچنےسے پیشتر حملہ کردیا اور یوں انہیں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت ابوبکرؓ نے خالد بن ولیدؓکی مدد کےلیے حضرت سلیطؓ کی قیادت میں مزید کمک بھجوائی۔ بنو حنفیہ کی تعداد چالیس ہزار سے ایک لاکھ تک بیان کی جاتی ہے جبکہ مسلمان دس ہزار سے زائد تھے۔ جنگ شروع ہونے سے پہلےبڑے معرکےمیں مسلمانوں نے بنوحنیفہ کے سردار مجاعہ بن مرارہ کو گرفتار کرلیا۔ حضرت خالدؓ نے مجاعہ کو قتل نہ کیا اور اس کے ساتھ ساریہ بن مسیلمہ بن عامر کو بھی زندہ رکھا۔ جب حضرت خالد ؓمسیلمہ سے مقابلے کےلیے نکلے تو آپؓ نے بھرپور منصوبہ بندی کا اہتمام کیا۔ آپؓ نے حضرت شرحبیل بن حسنہ ؓکو آگے بڑھایا اور اسلامی فوج کو پانچ حصّوں میں تقسیم کیا۔ دوسری جانب مسیلمہ کے لشکرنے بھی پوری قوّت سے تیاری کر رکھی تھی چنانچہ گھمسان کا رن پڑا۔ ایسی سخت جنگ ہوئی کہ مسلمان پسپا ہوتے دکھائی دیے مگر ایسے میں بھی حضرت خالد بن ولیدؓ کے عزم و استقلال میں لغزش نہ آئی۔ آپؓ نے مسلمانوں کے ہرقبیلےکو الگ الگ ہوکر جنگ کرنے کا حکم دیا۔اس طرح حضرت خالدؓ نےقبائل میں مسابقت کی نئی روح پھونک دی اور ہر قبیلہ دوسرے سے بڑھ کر شجاعت اور بہادری کے جوہر دکھانے لگا۔ صحابہ کرامؓ ایک دوسرے کو جنگ پر ابھارنے لگے۔ حضرت ثابت بن قیسؓ نے بڑی جاں نثاری سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔
یہ تفصیل آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تین مرحومین کا ذکرِخیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔
1۔مکرم عبدالسلام صاحب ابن ماسٹر منور احمد صاحب صدر جماعت ایل پلاٹ اوکاڑہ۔ انہیں 17؍مئی کو 35؍سال کی عمر میں ان کے دو چھوٹے بچوں کے سامنے ایک معاندِاحمدیت حافظ علی رضا عرف ملازم حسین نے خنجر کا وار کرکے شہید کردیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے پڑداداحضرت نبی بخش صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعے ہوا تھا۔ شہید مرحوم وقفِ نو کی تحریک میں شامل تھے۔ بوقتِ شہادت بطور قائد خدام الاحمدیہ خدمت کی توفیق پارہے تھے۔ آپ نظامِ وصیت سے بھی منسلک تھے۔ نہایت ملنسار، محبت کرنے والے، ضرورت مندوں کی مدد کرنے والے، مہمان نواز، نڈر اور خلافت کے سچے وفادار تھے۔ پسماندگان میں والد،والدہ اہلیہ اور تین چھوٹے بچے قمر اسلام،عمر چھ سال، بدراسلام،عمر ساڑھے چار سال، اور بیٹی عزیزہ سحر، عمر ایک سال چھے ماہ یادگار چھوڑے ہیں۔ شہید مرحوم کے چار بھائی اور تین ہمشیرگان ہیں۔ حضورِانور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند فرمائے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ معصوم بچوں، اہلیہ، والدین اور جملہ پسماندگان کا خود حامی و ناصر ہو۔ معصوم بچوں کےسامنے ان کے باپ کو شہید کیا گیاان کے دل کی کیا کیفیت ہوگی، کیا احساسات ہوں گے۔ اللہ ہی جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان کو صبر اور سکون عطا فرمائےاور بچوں کی خود حفاظت فرمائے اور دشمن کو کیفرکردار تک پہنچائے۔
2۔عزیزم ذوالفقار احمد ابن شیخ سعیداللہ صاحب فیصل آباد۔جو گذشتہ دنوں آذربائیجان گئےہوئےتھےجہاں 36؍ سال کی عمر میں حرکتِ قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ہوٹل میں انتقال کرگئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑدادا حضرت شیخ رحمت اللہ صاحبؓ کے ذریعہ سے ہوا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ، حضرت شیخ جھنڈاصاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ مرحوم نے ٹیکسٹائل کی فیلڈ میں بی ایس آنرز کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی اور خاندانی کاروبار سنبھالتےتھے۔ دنیاوی ترقی کی انتہا کے باوجود عاجزی انکساری کی مثال تھے۔ صدقہ وخیرات میں بڑھ چڑھ کرحصّہ لیتے، ملازمین کا بہت خیال رکھتے، چندوں میں باقاعدہ اور عام ہمدردی میں بہت بڑھے ہوئے تھے۔تلاوتِ کلام پاک اور نمازوں میں بہت باقاعدہ تھے۔مرحوم اور ان کے والدین نے بیلیز میں ایک بہت وسیع اور خوبصورت مسجد بھی بنوائی ہے۔ ملائیشیا میں سیر کےلیے گئے تو وہاں کچھ دیر انہیں اسیرِ راہِ مولیٰ ہونے کی سعادت بھی ملی۔پسماندگان میں اہلیہ، دو بچے، والدین اور پانچ بھائی اور ایک بہن سوگوار چھوڑے ہیں۔
3۔مکرم ملک تبسّم مقصود صاحب کینیڈا جو گذشتہ دنوں وفات پاگئے تھے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ آپ نے 1991ء میں زندگی وقف کی اور 2006ء میں نظارت امور عامہ میں تقرری ہوئی جہاں نائب ناظر کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ 2011ء میں مشیر قانونی تحریک جدید مقرر ہوئے اور 2016ء میں شہداءکے گھرانوں کے ساتھ کینیڈا منتقل ہوئے۔ جہاں امورعامہ اورشعبہ جائیداد میں خدمت کے علاوہ ناظم دارالقضاءکےطورپر خدمت کی توفیق پائی۔ مرحوم صوم و صلوٰة کےپابند، تہجدگزار، خلافت سے وابستگی رکھنے والے، منکسرالمزاج اور پُرجوش داعی الیٰ اللہ تھے۔ پسماندگان میں والدہ کے علاوہ اہلیہ ، ایک بیٹا اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔
حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اوربلندی درجات کے لیے دعا کی۔
٭…٭…٭