ارض مقدسہ کے اہم دینی و تاریخی مقامات کا تعارف (قسط دوم۔ آخری)
کلیسائے مقبرہ مقدس
Church of the Holy Sepulcher
احاطہ مسجد اقصیٰ سے تقریباً نصف کلومیٹر دور مسیحیت کا متبرک ترین مقام واقع ہے، جسے کلیسائے مقبرہ مقدس یا Church of the Holy Sepulcher کہا جاتا ہے۔ مسیحیوں کے عقیدے کے مطابق یہاں حضرت عیسیٰؑ کو مصلوب کیا گیا تھا اور یہیں ان کا خالی مقبرہ ہے اور یہیں حضرت مسیح کا جی اٹھنا ہوا تھا۔ اس میں تین عیسائی مزارات واقع ہیں: ہولی سیپلچر، گولگوٹھہ، مسح کرنے والی پلیٹ۔ یہ چرچ یروشلم کے عیسائی کوارٹر میں واقع ہے۔ دنیا بھر سے بکثرت عیسائی عازمین ہر سال اس چرچ پر جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ اسے دنیا کی سب سے مقدس مسیحی سائٹ سمجھتے ہیں۔
جبل زیتون (Mount of Olives)
جبل الزیتون یا Mount of Olivesیروشلم کے مشرق میں واقع ایک پہاڑی ہے اور اس کا نام جبل الزیتون (زیتون کا پہاڑ) اس نسبت سے پڑا کہ یہاں کسی زمانے میں زیتون کے درخت بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے۔ جبل الزیتون وہ مقام یا پہاڑ ہے جو یروشلم شہر کو صحرائے یہود اسے الگ کرتا ہے اور حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے سے مشرقی سرحد کے طور پر یروشلم کی نگہبانی کرتا چلا آ رہا ہے۔
پہاڑیوں پر آباد یروشلم شہر کے مکمل اور خوبصورت نظارے کے لیے یہ جگہ بہترین ہے۔ اونچی فصیلوں کے دامن میں پھیلا قدیم یروشلم شہر، بل کھاتی سڑکیں، سرسبز درختوں کے آنچل میں کسی موتی کی طرح جگمگاتا گنبد ِصخرہ اور گنبد ِصخرہ کے اُس پار دکھائی دیتی عمارتیں۔ ’جبل الزیتون‘پر کھڑے ہو کر مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
جبل الزیتون دنیا بھر میں یہودیوں کے بڑے قبرستانوں میں سے ایک ہے اور یہودی یہاں پر زمانہ بابل (ساتویں صدی قبل از مسیح) سے ہی دفن ہونا اعزاز سمجھتے آئے ہیں۔ یہودی عقیدے کے مطابق قیامت کے دن رب کا ظہور اسی پہاڑ پر ہوگا۔
عیسائی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی زندگی کی آخری شب اسی پہاڑ کے ایک حصے میں دعاؤں میں گزاری جہاں کلیسائے آلام (Church of all nations) واقع ہے۔ اور یہیں سے انہیں مختلف راستوں سے گزارتے ہوئے کنیسۃ القیامہ (Church of the Holy Sepulcher) لے جایا گیا تھا جہاں واقعہ صلیب عمل میں آیا۔ آج بھی مسیحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے جبل الزیتون پر پیدل چڑھتے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یاد میں اسی راستے پر چلتے چلتے کنیسۃ القیامہ پہنچتے ہیں۔ مسیحی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ نزول جبل الزیتون پر ہوگا جہاں سے وہ یروشلم کی طرف جائیں گے۔
جبل الزیتون کی سڑک پر ہی ڈھلان اترتے ہوئے ایک کنیسہ Church of Mary نظر آتا ہے جو مسیحی عقیدے کے مطابق حضرت مریم کا مرقد ہے، اور اسی غار میں آدھی سیڑھیاں اترنے پر کہا جاتا ہے کہ وہاں حضرت مریم کے والدین کی قبور بھی ہیں۔ البتہ قرآن مجید کی روشنی میں ہمیں یقین ہے کہ حضرت مریم نے حضرت عیسیؑ کے ساتھ مشرقی ممالک کی طرف ہجرت اختیار فرمائی تھی۔
راہ غم (Via Dolorosa)
راہ غم یا راہ درد یا وائیا دولوروسا (Via Dolorosa) جسےعربی میں طريق الآلام کہا جاتا ہے قدیم یروشلم میں دو حصوں میں منقسم ایک گلی ہے، جہاں یسوع مسیح قید خانے سے اپنی صلیب اٹھا کر چلتے ہوئے مقام مصلوبیت پر آئے۔ راستے کی لمبائی تقریباً 600میٹر ہے۔ مقام مصلوبیت پر اب کلیسائے مقبرہ (کنیسۃ القیامہ) قائم ہے۔ موجودہ راستے پر نو جگہ پر اسٹیشن صلیب نشان زدہ ہیں۔ اسٹیشن صلیب سے مراد وہ مقامات ہیں جہاں یسوع مسیح صلیب اٹھا کر چلتے ہوئے رکے یا گرے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسٹیشنوں کی تعداد چودہ ہے، جس میں نو راہ غم پر جبکہ پانچ کلیسائے مقبرہ کے اندر ہیں۔
قبر البستان (Garden Tomb)
یعنی باغ والی قبر
یوں تو عیسائی عقیدے کے مطابق ان کے مقدس ترین چرچ ( چرچ آف ہولی سیپلچر )میں تین مزارات واقع ہیں: ہولی سیپلچر، گولگوٹھہ، مسح کرنے والی پلیٹ۔ کچھ علماء کا کہنا ہے کہ یہ مقام دمشق کے دروازے کے قریب قریب یروشلم کے شمال میں واقع تھا۔ اور اسی کو وہ لوگ گولگوتھا والی جگہ بتاتے ہیں۔ اسے 1867ء میں دریافت کیا گیا تھا اور کچھ پروٹسٹنٹ اسے یسوع کی تدفین اور جی اٹھنے کی جگہ سمجھتے ہیں۔ یہ خوبصورت مقبرہ اور اردگرد کا باغ 1894ء میں ایک برطانوی ٹرسٹ نے خریدا تھا جو اس جگہ کو محفوظ رکھنا چاہتا تھا، کیونکہ وہ اسے ارمتیاہ کے جوزف کا مقبرہ سمجھتے تھے، جیسا کہ متی باب 27میں درج ہے: ’’جب شام ہوئی تو یوسف نام ارمتیاہ کا ایک دولتمند آدمی آیا جو خود بھی یسوع کا شاگرد تھا۔ اُس نے پیلاطس کے پاس جا کر یسوع کی لاش مانگی۔ اِس پر پیلاطس نے دے دینے کا حکم دیا۔ اور یوسف نے لاش کو لے کر صاف مہین چادر میں لپیٹا۔ اور اپنی نئی قبر میں جو اُس نے چٹان میں کھدوائی تھی رکھّا۔ پھر وہ ایک بڑا پتھر قبر کے منہ پر لڑھکا کر چلا گیا۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ اناجیل کے مطابق یہ قبر ایک باغیچے میں ہونی چاہیے۔ یہاں کھدائی سے ثابت ہوا کہ یہ ایک باغ ہے اور وہیں پانی کا ایک حوض بھی ملا تھا۔ یہ جگہ یروشلم کی پرانی دیواروں کے باہر ہے جو واقعہ صلیب کے عقب میں پیش آنے والے خطرات سے کسی قدر محفوظ سمجھی جاسکتی ہے۔ قریب ہی ایک پہاڑی چٹان ہے جس میں کھوپڑی کی صورت قدرتی طور پر منقوش ہے جو بائبل کی دیگر روایات کے مطابق مقام مصلوبیت کی نشاندہی کرتا ہے۔
یہ مقبرہ شہر کے دروازے (دمشق گیٹ) کے باہر چند سو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ بہر حال عیسائیت کے بنیادی عقیدہ کےمحل وقوع میں بہت بڑا اختلاف نظر آرہا ہے۔
الخلیل (Hebron)
الخلیل فلسطین کا وہ تاریخی شہر ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی ہجرت کے بعد تشریف لائے تھے۔ حضرت ابراہیمؑ کی اس شہرمیں آمد نے الخلیل کوایک نئی شناخت دی اور ابراہیم خلیل اللہ کے نام سے نسبت ہونے کی بدولت یہ شہر’’مدینۃ الخلیل‘‘قرار پایا۔ تاریخی مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ الخلیل شہر میں جہاں آج مسجد ابراہیمی بنائی گئی ہے اس کے نیچے ایک غار تھی جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام، آپؑ کی اہلیہ حضرت سارہ، حضرت اسحٰق اوران کی بیوی حضرت رفقہ اور حضرت یعقوب علیہ السلام آسودہ خاک ہیں۔ غالباً جو مقامات اسی مسجد کے احاطے میں بنائے گئے ہیں وہ نیچے غار کی اصل قبروں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
فتح فلسطین کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر انبیائے کرام کے مقابر کےگرد اونچی فصیل تعمیر کرنے کے ساتھ وہاں ایک مسجد بنائی گئی جسے ’ مسجد ابراہیمی‘ کا نام دیا گیا۔ یہودی روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس غار میں حضرت ابراہیم اور دیگر انبیا ئےکرام آسودہ خاک ہیں وہ مرور زمانہ کے ساتھ ختم ہوگئی تھی اور اس غار کے گردو پیش بھاری پتھروں اور چٹانوں کی دیوار تعمیر ہوئی تھی۔ بعد میں صلیبیوں کے غاصبانہ تسلط سے بھی گزرنا پڑا۔ چنانچہ بعض فلسطینی مؤرخین کا کہنا ہے کہ سنہ 492ھ میں صلیبیوں کے حملے کے بعد مسجد ابراہیمی بھی ان کے تسلط میں آگئی اور انہوں نے اس مسجد کو فلسطین کے ایک بڑے گرجا گھر میں تبدیل کردیا۔ کئی سال تک یہ مسجد عیسائی پادریوں کا مرکز رہی جس کی وجہ سے اسے’سینٹ ابراہام‘ کا نام دیا گیا۔ قریباً 90سال تک مسجد ابراہیمی صلیبیوں کے قبضے میں رہی۔ پھر مسلمان سپہ سالار صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد مسجد ابراہیمی کو آزاد کرایا اور اسے نماز کے لیے دوبارہ سے کھول دیا اور ایک خوبصورت منبر اس میں تعمیر کرایا جو اب تک اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔ مسجد اقصیٰ القدس میں بھی انہی کی طرف منسوب اس سے مشابہ ایک منبر ہے۔ مسجد ابراہیمی کو مقامی مسلمان ’حرم ابراہیمی‘ بھی کہتے ہیں جو محض ایک استعارہ ہے، ورنہ یہ مسجد مکہ مکرمہ میں موجود مسجد حرام کی طرح حرم نہیں ہے۔
اب یہ مسجد مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان دو حصوں میں منقسم ہے۔ حضرت یعقوبؑ کی قبر ( آپؑ کی وفات چونکہ مصر میں ہوئی تھی اور کہا جاتا ہے کہ بعد میں آپ کی نعش کو الخلیل میں منتقل کیا گیا) یہودیوں والے حصے میں ہے جبکہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت سارہؓ کی قبر والےحصہ کی ایک کھڑکی یہودیوں والے حصے میں اور دوسری مسلمانوں کے لیے کھلی ہوئی ہے۔ دیگر قبروں والے مقامات مسلمانوں کے حصے میں ہیں۔
شہر الخلیل کے احاطے میں بہت سی تاریخی جگہیں ہیں اور مختلف مقامات بھی ہیں۔ مگر تمام باتوں کی تصدیق کے لیے ہمارے پاس بین دلائل نہیں ہیں۔
بیت لحم (Bethlehem)
عبرانی میں بیت لحم کا مطلب ہے ’’روٹی کا گھر‘‘۔ فلسطین کی یہ بستی حضرت مسیحؑ کی جائے پیدائش کے طورپرسمجھی جاتی ہے۔ یہ شہر فصیل کے اندر سفید پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے اور یروشلم کے قدیم شہر سے تقریباً 9کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ اس جگہ حضرت یسوع مسیح کی روایتی جائے پیدائش کے اوپر ایک گرجا بنا ہوا ہے۔ اس کو کنیستہ المہد یا Church of Nativityکہا جاتا ہے۔ جس کے نیچے ایک تہ خانہ ہے۔ اسی جگہ کو عالم عیسائیت میں جائے پیدائش کے اعتبار سے مقدس ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔ بستی کے رہنے والے عام طور پر مسیحی ہیں اور مسلمانوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ یہ شہر اس وقت ویسٹ بانک فلسطین کے اندر واقع ہے۔
بحر مردار ( Dead Sea)
یہ اردن اور فلسطین کے درمیان واقع ایک سمندر ہے اور یہ ایسا مقام ہے کہ جہاں بارش اور آس پاس سے زمین کے اندر اور اوپر سے پانی نیچے کی طرف آتا ہے۔ یہاں پانی آتا تو ہے لیکن یہاں سے کہیں جاتا نہیں، چاروں طرف سے ایک طرح سے بند ہے اور اس پانی کا مقدر صرف بخارات بن کر اڑنا ہی ہے۔ صدیوں سے پانی کے یوں اوپر اڑنے کی وجہ سے نیچے صرف معدنیات اور نمکیاتی مادہ ہی رہ گیا ہے جو صدیوں کے اس عمل سے اتنا نمکین ہو چکا ہے کہ اس میں جاندار چیزوں جیسے کہ مچھلیاں یا پودوں کا رہنا ناممکن ہے۔ ہاں کئی ایسے بیکٹیریا ضرور ہیں جو ہر طرح کا ماحول برداشت کر لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے اسے بحرمردار کہتے ہیں یعنی مری ہوئی چیزوں کا سمندر یا وہ سمندر جہاں کوئی چیز زندہ نہیں رہ سکتی۔ اس میں اترنے والا انسان بھی ڈوبتا نہیں بلکہ اوپر سطح پر تیرتا نظر آتا ہے۔ اگر انسانی بدن کے کسی زخم پر یا آنکھ میں اس کا پانی چلا جائے تو شدید جلن کا سامنا کرنا پڑےگا۔ اس سمندر کی ریت جو دراصل ایک قسم کی نرم سیاہ کیچڑ ہے جلدی بیماری کے لیے بہترین تریاق سمجھی جاتی ہے۔
یہ سطح سمندر سے تقریباً 420 میٹر (1380 فٹ) نیچے ہے اور پانی میں نمک کی کثافت کے حوالے سے دنیا کا سب سے گہرا مقام ہے۔
وادی قمران کے طومار یا مخطوطات
(Dead Sea Scrolls)
قمران ایک وادی کا نام ہے جو بحیرہ مردار کی فلسطینی جانب پہاڑی میں واقع ہے۔ یروشلم سے جاتے وقت جہاں بحر مردار کا آغاز ہوتا ہے وہاں سے صرف تین کلومیٹر کے فاصلے پر دائیں جانب یہ مشہور وادی نظر آتی ہے۔ بحیرہ مردار کے علاقے میں ایسی غاروں میں یہود اور بعد میں نصاریٰ کے بہت سے حق پرست افراد چھپ کر زندگی گزار رہے تھے جو اپنے مذہب اور اس کے نام لیوائوں کے ظلم اور خوف سے چھپ کر یہاں مقیم ہو گئے تھے اور انہی کے پاس تحریرشدہ اصل تورات اور انجیل موجود تھیں۔ وادی قمران سے جنوب کی طرف جانے سے اور بھی بڑے غاروں والی جگہیں نظر آتی ہیں۔
1947ء کی گرمیوں کی ایک دوپہر تھی۔ وادی قمران میں دو چرواہے اپنی بھیڑیں چرانے یہاں نکل آئے ان میں سے ایک چرواہے کی بھیڑ ایک غار میں گر گئی جس کی تلاش میں وہ چرواہا اس غار میں اتر گیا۔ یہاں اسے دیگر اشیاء کے ساتھ ساتھ بڑے حجم کے قدیم مرتبان نظر آئے وہ سمجھا کہ شاید اسے یہاں سے کوئی قدیم سونے کا خزانہ مل گیا لیکن اسے اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب ان مرتبانوں سے چمڑے پر لکھے ہوئے مخطوطات برآمد ہوئے۔ ان چرواہوں نے ان میں سے کچھ مخطوطات نکال کر اپنے علاقے کے علماء ومشائخ کے حوالے کردیے تاکہ معلوم ہوسکے کہ ان پر کیا تحریر ہے لیکن اس وقت کے علماء کو بھی اس پر لکھی لغت یا تحریر سمجھ نہ آسکی سوائے اس ایک بات کے کہ یہ طومار یا مخطوطات انتہائی قدیم زمانے کے ہیں۔ ان علماء نے یہ مخطوطات قریبی علاقوں یعنی بیت لحم اور بیت المقدس ارسال کردیے تاکہ وہاں ان پر تحقیق ہوسکے وہاں جاکر معلوم ہوا کہ یہ طومار، آرامی اور عبرانی زبان میں تحریر کیے گئے تھے جو قدیم لغوی اسلوب میں ہیں۔ یہ مخطوطات تقریباً 900مسودوں کا مجموعہ ہیں، جو 1947ء اور 1956ء کے درمیانی عرصے میں دریافت ہوئے تھے۔ رولز کی صورت میں لپیٹے ہوئے بائبل کے قلمی نسخوں کی یہ باقیات انجیل کی آج تک ملنے والی قدیم ترین تحریری باقیات میں شمار ہوتی ہیں۔
ہمارے محققین نے بھی صحائف قمران پر تحقیقی مقالے لکھے ہیں جن کے مطالعے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وادی قمران میں مشہور یہودی فرقہ ایسینی رہا کرتا تھا۔ ان میں اکثریت وہ نوجوان تھے جو ایک سال کی سخت مشق کے بعد اپنے آپ کو ایک تنظیم کے تحت دینی خدمت کے لیے وقف کرتے تھے۔ ان کی زندگی باقاعدہ منظم ہوتی تھی اور ان پر بہت سی پابندیاں عائد تھیں۔ غالبا ًشادی نہیں کرتے تھے۔ سفید لباس پہنا کرتے تھے۔ رہائش والی جگہ پر نہانے کا خاص انتظام ہوتا تھا جو ان کی ظاہری پاکیزگی کی طرف اشارہ ہے۔ بائبل اور تفاسیر کو وہ لکھا کرتے تھے۔ کھنڈرات قمران کی کھدائی کے بعد اب تمام تاریخی حقائق ہمارے زمانے میں کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ان صحائف سے یہ حقیقت بھی کھل گئی کہ نیا عہد نامہ کلیۃً یہودی پس منظر میں لکھا گیا اور ابتدائی مسیحی یہی ایسینی لوگ ہوتے تھے اور وہ اپنے آپ کو یہودی ہی سمجھتے تھے۔ موجودہ مسیحیت اور اس کے عقائد سے ان ابتدائی مسیحیوں کا کوئی تعلق نہ تھا۔ وادی قمران میں ایسینیوں کی رہائش کا زمانہ 125قبل مسیح سے 68 عیسوی کا بتایا جاتا ہے۔ ان کی تحریرات میں مذکور ’’استاذ صادق‘‘سے مراد حضرت عیسیؑ ہیں۔ آپؑ بھی جوانی میں اسی تنظیم کے تحت انہی میں رہتے تھے اور جب آپ نے دعوائے نبوت فرمایا تو انہوں نے آپ کو قبول کیا۔ وادی قمران سے موصولہ ان تاریخی مخطوطات پر ان کی واردات کے زمانے میں محققین کی رپورٹس آتی رہیں مگر بعد ازاں اصل صحائف کا بیشتر حصہ عوام الناس سے پوشیدہ رکھا گیا۔
اریحا (یریحو) Jericho
جیریکو کو دنیا کے قدیم ترین آباد شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ مغربی کنارے میں وادی اردن، دریائے اردن اور بحر مردار کے قریب واقع ہے جو سیاحوں کے لیے ایک بہت بڑا مذہبی اور تاریخی اہمیت کا مقام ہے۔ حالیہ کھدائی کے نتیجے میں اس شہر کو دنیا کے قدیم ترین شہر خیال کیا جاتا ہے۔ یہ شہر اور آس پاس کے علاقوں کا ذکر بائبل میں ملتا ہے۔ حضرت یحیٰؑ زیادہ تر ان علاقوں میں دعوت الی اللہ کے کام میں مصروف تھے۔ حسب روایات حضرت عیسیٰؑ کی زندگی کے کئی واقعات انہی علاقوں میں ہوئے تھے۔
جیریکو کے پاس دریائے اردن پر (اردن اور فلسطین کی حدود میں ) ایک جگہ ’’قصر الیہود‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں حضرت عیسیٰؑ نےحضرت یحیٰؑ (یوحنا بپتسمہ دینے والے)کے دست مبارک پر بیعت توبہ کی اور بپتسمہ والے واقعہ کے بارہ میں عموماً یہی بتایا جاتا ہے کہ وہ اسی جگہ پر ہوا تھا۔
ناصرہ(Nazareth)
ناصرہ یا ناصرت شمالی اسرائیل کا ایک بڑا شہر ہے۔اس وقت عرب اسرائیل کا مرکزی علاقہ جانا جاتا ہے۔آبادی کی اکثریت اسرائیل کے عرب شہری ہیں۔جو زیادہ تر مسلمان یا مسیحی ہیں۔ بائبل کے نئے عہد نامہ یعنی عہد نامہ جدید میں ناصرہ کا ذکر بطور ناصرت یسوع مسیح کے بچپن کے شہر کے طور پر ہے۔اسی وجہ سے سیدنا مسیح کو یسوع ناصری یا مسیح ناصرت والا کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ روایات کے مطابق یہیں اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعہ حضرت مریمؑ کو بیٹے کی بشارت دی۔ حضرت مریمؑ کے شوہر یوسف یہیں پر بڑھئی کا کام کرتے تھے۔یہاں مسیحیت کی متعدد جگہیں ہیں جن کی زیارت کی جاتی ہے۔ بائبل کے بہت سے ایسے واقعات ہیں جو یہاں سے منسوب ہیں۔
قانا (Cana of Galilee)
قانا گلیل کا ایک گاؤں ہے۔ حسب روایات حضرت مسیحؑ نے اپنے شاگردوں کے ساتھ یہاں ایک شادی کی دعوت میں شرکت کی۔ آپ کی والدہ حضرت مریم مہمان نوازی میں مصروف تھیں۔ دعوتوں میں مے نوشی اس وقت مہمان نوازی کا لازمی حصہ تھا۔ جب مے ختم ہوگئی اور بہت مہمان اب باقی تھے تو حضرت مریمؑ کی تجویز کے مطابق لوگوں نے حضرت مسیحؑ سے راہنمائی طلب کی۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح کی برکت اور راہنمائی سے معجزانہ رنگ میں پانی مے میں تبدیل ہوگیا اور سب نے اپنی ضرورت پوری کی۔ موضع قانا ناصرت سے کفرناحوم کے راستے میں آتا ہے۔
طبریہ (Tiberias)
بحیرہ طبريہ یا بحیرہ گلیل (Sea of Galilee) جسے جھیل کنیسرت (Lake of Generate) بھی کہا جاتا ہے، یہ اسرائیل میں سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیل ہے۔ اس کا محیط تقریباً 53 کلومیٹر (33 میل)ہے۔ اس کی لمبائی 21 کلومیٹر (13 میل) اور چوڑائی 13 کلومیٹر (8.1 میل) ہے۔اور زیادہ سے زیادہ گہرائی تقریباً 43 میٹر (141 فٹ) ہے۔ مذاہب اور تاریخی کتابوں میں اس بحیرہ کا ذکر ملتا ہے۔ بعض حدیثوں میں بھی مسیح موعود کے نزول کے زمانےکی پیشگوئیوں میں یاجوج ماجوج کے ساتھ چسپاں اس جھیل کا ذکر ملتا ہے۔ اناجیل میں مذکور حضرت مسیح کے پانی پر چلنے کا معجزانہ واقعہ بھی اسی بحیرہ میں ہوا ہے جو غالباً ایک مشترکہ کشفی نظارہ تھا۔ بحیرہ طبریہ اور اس کے شمالی علاقے پہلے سوریا کے حصے شمار ہوتے تھے۔
کفر ناحوم کی بستی (Capernaum)
بحیرہ طبریہ کے ارد گرد آبادیاں ہیں۔ایک طرف باقاعدہ طبریہ شہر واقع ہے۔ کفر ناحوم (Capernaum) (عبرانی Kfar Nahum) ایک ماہی گیروں کا گاؤں تھا جو بحیرہ طبريہ کے شمالی کنارے پر واقع ہے۔ جہاں حضرت مسیحؑ اپنے حواریوں کے ساتھ جایا کرتے تھے اور رہا کرتے تھے۔ اس کو مسیح کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔یہ بستی بالکل جھیل کے کنارہ پر واقع ہے۔حضرت مسیحؑ کے متعلق بائبل میںمذکور بہت سےواقعات کا یہ گاؤں گواہ رہا۔اور اسی علاقے میں متعدد مشہور کلیسیا نظر آتے ہیں۔
بحیرہ گلیل کے شمالی کنارے پر مقام تبغہ واقع ہے۔ یہاں دو مشہور چرچ ہیں۔ روایتی طور پر ایک وہ جگہ ہے جہاں یسوع نے ایک کثیر تعداد لوگوں کو پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں کے ساتھ کھلایا (متی 13:14-21)۔ اسی واقعہ کی یاد میں اس جگہ ایک چرچ بنایا گیا۔ دوسرا چرچ تبغہ میں سینٹ پیٹر کے چرچ کے طور پر مشہور ہے جہاں روایت ہے کہ مسیح واقعہ صلیب کے بعد اپنے حواریوں کے ساتھ ظاہر ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ بحیرہ طبریہ کے کنارے اور بھی بعض مشہور چرچ نظر آتے ہیں جو بعض حواریوں کی طرف منسوب ہیں اور ان جگہوں کی طرف منسوب بعض روایتیں بھی حضرت مسیحؑ کے بارہ میں عیسائی کتب میں درج ہیں۔
بعض متفرق مقامات
ارض فلسطین میں بہت سے ملوک بھی گزرے ہیں۔ ان عظیم بادشاہوں کی یادگاریں اور محلات کے کھنڈرات بھی جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ سلطنت روم کے آثار ان میں نمایاں ہیں۔مثال کے طور پر ہیروڈین کا ایک مشہور قلعہ بیت لحم سے چھ کلومیٹر جنوب میں ایک پہاڑی پر بنایا گیا تھا۔ یہ قلعہ ایک بہت بڑے محل کی باقیات پر مشتمل ہے جسے بادشاہ ہیروڈ نے 37 قبل مسیح میں اپنی بیوی کے لیے بنوایا تھا اور اس محل میں عالیشان عمارتیں، گول دیواریں، قلعہ بند کمرے، غسل خانے اور باغات تھے۔ اس طرح کے بعض اور قلعوں کے آثار طبریہ کے ارد گرد، قیصریہ ، الخلیل کے مضافات اور یروشلم کے آس پاس بکثرت نظر آتے ہیں۔
بعض نبیوں کے مقامات بھی جگہ جگہ بتائے جاتے ہیں۔ جیساکہ الخلیل سے ملحقہ شہر حلحول میں حضرت یونسؑ کا مقام، جلیل اور بیت المقدس میں حضرت زکریاؑ کا مقام وغیرہ۔اول تو ہمارے پاس اس کے بین ثبوت نہیں ہیں۔ اگر یہ درست بھی ہو تو اس سے اتنا سمجھا جائے گا کہ ان جگہوں سے کسی وقت ان انبیاء کا گزر ہوا ہے۔ جیریکو کے نزدیک جہاں مقام النبی موسیٰؑ بتایا جاتا ہے بالکل بے دلیل ہے۔اس طرح بعض اور جگہیں بھی ہیں جو کسی بھی طرح درست نہیں ہوسکتیں۔
کرمل پہاڑ (Mount Carmel)
کوہ کرمل یا جبل الكرمل شمالی اسرائیل میں بحیرہ روم سے جنوب مشرق کی طرف پھیلا ہوا ہے۔ بائبل اور تاریخ کے مطالعہ سے ایلیاء (حضرت الیاس علیہ السلام) کا اس پہاڑ میں قیام کرنے اور دشمنوں کے سامنے خدا تعالی سے نشان ظاہر کرنے کا ذکر ملتا ہے۔
مقام محرقہ (Muhraka)
مورخین نے لکھا ہےکہ یہ وہ زمانہ تھا، جب بنی اسرائیل کی سلطنت دو حصّوں میں بٹ چکی تھی۔ایک حصّہ یہودا یا یہودیہ کہلاتا تھا اور اس کا مرکز، بیت المقدِس تھا اور دوسرا حصّہ اسرائیل کہلاتا تھا ۔ اُس وقت اسرائیل میں جو بادشاہ حکمران تھا، اُس کا نام اخی اب تھا۔ اُس کی بیوی، ایزبل،’’ بعل‘‘ نامی بُت کی پرستار تھی اور اُس نے بعل کے نام پر ایک بڑی قربان گاہ تعمیر کر کے بنی اسرائیل کو بُت پرستی کی راہ پر لگا دیا تھا۔ حضرت الیاس علیہ السّلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ وہ اس خطّے میں جا کر توحید کی تعلیم دیں اور اسرائیلیوں کو بُت پرستی سے روکیں۔
حضرت الیاس علیہ السّلام نے اسرائیل کے بادشاہ’’اخی اب‘‘ اور اُس کی رعایا کو بعل نامی بُت کی پرستش سے روکا اور انہیں توحید کی دعوت دی مگر انہوں نے آپؑ کی بات نہیں مانی، بلکہ آپؑ کو طرح طرح سے پریشان کرنے لگے، یہاں تک کہ اخی اب اور اُس کی بیوی ایزبل نے آپؑ کو شہید کرنے کے بھی منصوبے بنائے، جس پر آپؑ نے وہاں سے دور ایک غار میں پناہ لی اور وہیں مقیم رہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہےاس پر اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے دشمنوں کو شدید قحط کے ذریعہ آزمایا۔ اس کے بعد حضرت الیاس علیہ السّلام نےاللہ تعالیٰ کے حکم سے بادشاہ کو پھر متنبہ کیا اور بت پرستی سے باز آنے کی تلقین کی۔اور یہ پیشکش کی کہ تم کہتے ہو کہ اسرائیل میں تمہارے معبود، بعل کے ساڑھے چار سو نبی ہیں، تم ایک دن اُن سب کو میرے سامنے جمع کر لو۔ وہ بعل کے نام پر قربانی پیش کریں اور مَیں اللہ کے نام پر قربانی کروں گا، جس کی قربانی کو آسمانی آگ آ کر بھسم کر دے گی اُس کا دین سچّا ہو گا۔ سب نے اس تجویز کو خوشی خوشی مان لیا۔ چنانچہ کوہِ کرمل کے ایک مقام پر یہ اجتماع ہوا۔ بعل کے جھوٹے نبیوں نے اپنی قربانی پیش کی اور صبح سے دوپہر تک بعل سے التجائیں کرتے رہے،مگر کوئی جواب نہ آیا۔ اس کے بعد حضرت الیاس علیہ السّلام نے اپنی قربانی پیش کی۔ اس پر آسمان سے آگ نازل ہوئی، جس نے حضرت الیاس علیہ السّلام کی قربانی کو جلا کر بھسم کر دیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں حضرت الیاسؑ کی دعا قبول فرماکر دشمنوں میں اتمام حجت قائم فرمایا۔ یہ واقعہ جبل الکرمل کے جنوب میں دالیۃ الکرمل کی بستی سے ملحق موضع ’’محرقہ‘‘ میں ہوا تھا۔ محرقہ (جلانے کی جگہ)کا نام اس واقعہ سے نکلا ہے۔ اور جس غار میں حضرت الیاس نے قیام فرمایا تھا اس کے بارہ میں بتایا جاتا ہے کہ وہ کرمل پہاڑ پر ہی (ان دنوں حیفا شہر کے تقریبا ًدرمیانی حصہ میں)واقع ہے۔ ان دونوں جگہ پربعد میں عیسائیوں نے چرچ تعمیر کیا ہے۔
حیفا ( Haifa)
یروشلم اور تل ابیب کے بعد حیفااسرائیل کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ حیفا کرمل پہاڑ پر واقع ہے اور نصف دائروی شکل میں سمندر سے محیط بڑا پیارا منظر حیفا میں دیکھا جاسکتا ہے۔یہاں ایک بڑی بندرگاہ بھی ہے، اسرائیل کی معاشیات میں حیفا کا بہت اہم کردار ہے ۔
بہائی مذہب کا عالمی مرکز حیفا میں ہے جو بہت خوبصورت باغ کی شکل میں کرمل پہاڑ کے اوپر سے نیچے سمندری ساحل کے قریب تک نظر آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بہائی مرکز کے وسط میں بابیت کے بانی علی محمد باب کی قبر ہے۔بہائی مذہب کے ماننے والے یہاں کی مقدس زیارت کو آتے ہیں۔ البتہ قریب کے شہر عکا میں واقع بہاء اللہ کی قبر ان کے لیے زیادہ مقدس ہے۔ ہمارے لیے یہ بات قابل ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شہر حیفا میں جماعت احمدیہ کا ایک بڑا مرکز قائم فرمایا ہے جو بلاد عربیہ میں 1928ء(قیام اسرائیل سے بیس سال قبل) سے تبلیغ کا اہم کردار ادا کرتا چلا آرہا ہے۔
جامع سیدنا محمود الکبابیر حیفا
(Mahmood Mosque-Haifa )
کبابیر میں جماعت احمدیہ کا قیام 1928ءمیں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کے ذریعہ ہوا تھا۔ کبابیر کی جماعت شروع سے سو فیصد عرب احمدیوں پر مشتمل چلی آرہی ہے جن میں سے اکثریت باہم رشتہ دار بھی ہیں۔ 1931ءمیں یہاں مسجد کی بنیاد رکھی گئی جو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بلاد عربیہ میں بنائی جانے والی پہلی مسجد ہے۔ اس مسجد کا نام حضرت مصلح موعودؓ کی طرف منسوب ’’جامع سیدنا محمود‘‘ ہے جو کرمل پہاڑ کے اوپر سمندر سے قریب واقع ہے۔ 1979ء کے بعد اس مسجد کی توسیع جدید عمارت کی صورت میں ہوئی اوراب اس مسجد کے دو بلند مینار ہیں جو تل ابیب حیفا مین سڑک پر بہت دور سے نظر آتے ہیں۔ یہاں کثرت سے زائرین تشریف لاتے ہیں اور اسلام احمدیت کا تعارف حاصل کرتے ہیں نیز اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہم نےاس خوبصورت مقام پر آکر خوبصورت مسجد میں حقیقی اسلام کی خوبصورتی پائی ہے۔
تاریخ کبابیر کی ایک قابل ذکر بات
کبابیر کو آباد کرنے والی فیملی کا نام ’’عودہ‘‘ ہے۔ عثمانی دَور خلافت کے اخیر میں 1850ء کے آس پاس ایک شخص مسمی عودہ ندی صاحب نےاپنے پانچ بیٹوں کو لےکر یروشلم کے قریب نعلین نامی ایک گاؤں سے ہجرت کرکے کرمل پہاڑ پر ایک جگہ گوشہ نشینی اختیار کی۔ ہجرت کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس زمانے میں نوجوان بچوں کو زبردستی فوج میں داخل کرایا جاتا تھا۔ مکرم عودہ صاحب نے نہیں چاہا کہ ان کے بیٹے فوج میں شامل ہوں بلکہ وہ خود انہیں بہتر رنگ میں تعلیم وتربیت دینا چاہتے تھے، چنانچہ بعد میں انہوں نے اپنے بچوں کو مختلف پیشوں میں فعال بنایا۔ کسی کو تجارت میں ، کسی کو تربیت مویشی اور زراعت میں اور ایک کو مصر کے الازہر یونیورسٹی میں بھیج کر اعلیٰ دینی تعلیم دلائی۔ بہر حال انہوں نے جس جگہ سکونت اختیار کی وہ کبابیر کہلائی جہاں پہاڑ کے نیچے وادی میں میٹھے پانی کا چشمہ بھی پایا گیا۔
رسول کریمﷺ کی پیشگوئی کے مطابق خلافت علیٰ منہاج النبوت سے پہلے ملک جبریہس (جبر کرنے والے حکمرانوں) کا دور دورہ رہا۔ اسی جبریت سے بچنے کے لیے مکرم عودہ صاحب نے بچوں کے ساتھ ہجرت کی۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے اسی خاندان کو خلافت علیٰ منہاج النبوت کے زمانے میں قبول احمدیت کی توفیق عطا فرمائی۔ چنانچہ عودہ صاحب کے بیٹوں میں سے ایک نے سو سال سے زائد عمر پائی اور اپنے بچوں کے ساتھ بیعت کی توفیق پائی، جبکہ آئندہ چند سالوں میں مرحوم عودہ صاحب کے تمام پوتے اور ان کے بچگان سب بیعت کرکے امام الزمان کی جماعت میں شامل ہوئے۔
جماعت کا پیغام موصول ہونے سے کافی سال پہلے عودہ صاحب مرحوم کے ایک بیٹے کو جو الازہر سے فارغ التحصیل عالم دین تھے خواب آئی کہ امام مہدی کا ظہور ہوا ہے اور یہاں ہماری ایک قطعہ زمین میں آپؑ کے لیے خیمہ تیار ہوا ہے۔ چنانچہ بعد میں 1931ءمیں اسی جگہ اللہ تعالیٰ نےکبابیر کے احمدیوں کو جماعت کی پہلی مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی۔ ایک معمر گوشہ نشین صوفی طبع مخلص احمدی مکرم الحاج محمد المغربی ہوتے تھے جنہوںنے اپنی جوانی میں حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں بعض عربی تصانیف پڑھ کر اپنے بعض اساتذہ کے ساتھ مکہ مکرمہ میں بیعت کی توفیق پائی تھی، جو زمانے کے چکروں میں جگہ جگہ گھوم پھر کر بالآخر یہاں کبابیر کی جانب وادی سیاح میں مقیم ہوئے اور ان کی بینائی بھی تقریباً ضائع ہوچکی تھی۔ پھر حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ کے زمانے میں یہاں ان کی آپ سے ملاقات ہوئی اور اس طرح المغربی صاحب نے عرصہ چوبیس سال کے بعد تجدید بیعت کی اور کبابیر میں رہنے لگے۔
کبابیر چونکہ عربوں پر مشتمل ایک جماعت تھی جہاں باقاعدہ احمدی مبلغ کی موجودگی رہی۔ چنانچہ شروع سالوں میں زیادہ تر زور تبلیغ پر رہا۔سلسلے کے بزرگ علماء نےجو یہاں مبلغ رہے ہیں کبابیر کو مرکز بناکر بہت بڑے علمی اور تبلیغی کام سر انجام دیے۔ 1932ءمیں محترم مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری کے ذریعہ کبابیر سے پہلا عربی رسالہ ’’البشارۃ الاسلامیہ الاحمدیہ‘‘ شائع ہوا اور پھر وہی رسالہ 1935ء سے ’’البشریٰ‘‘کے نام سے شائع ہوتا رہا جو تا حال جاری ہے۔اس کے بعد بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے با قاعدہ ایک ادارہ ’’مدرسہ احمدیہ ‘‘ کے نام سے قائم کیا گیا۔
جامع محمود کے احاطے میں ہر سال جلسہ سالانہ منعقد ہوتا ہے جو عموماً جولائی کے مہینے میں ہوتا ہے۔ کثرت سے شامل ہونے والے مختلف مذاہب کی طرف منسوب ہونے والوں کی شرکت اس جلسے کو بہت پر رونق بنادیتی ہے۔
کبابیر مشن میں مسجد کے علاوہ دار الضیافت، ایم ٹی اے سٹوڈیو، جماعتی دفاتر، ہال،آڈیٹوریم، کتب خانہ اور نمائش کتب بھی موجود ہیں۔ کبابیر کی مرکزی جماعت کے تحت ویسٹ بینک فلسطین میں دو جماعتیں قائم ہیں جن میں سے شمالی جماعت کے ہاں بمقام کفرصور (طولکرم )میں باقاعدہ مشن ہاؤس اور دار الضیافت ’’دار الامن‘‘ کے نام سے موجود ہے۔
عکا (Acre- Akko)
عکّا شمالی اسرائیل کا ایک ساحلی عرب شہرہے۔ طویل عرصے تک یہ شہر ’’کلیدِ فلسطین‘‘ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس شہر کا قدیم علاقہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے تعلیم، ثقافت و سائنس (یونیسکو) کے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیے گئے علاقوں میں شامل ہے۔
نائٹس ہاسپٹلرز کے تعمیر کردہ قلعے کی بنیادوں پر عثمانیوں نے موجودہ قلعہ تعمیر کیا جو شہر کے آثار قدیمہ میں اہم مقام رکھتا ہے اور 20 ویں صدی کے بیشتر حصے میں یہ قید خانے کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ اس کے علاوہ بھی یہاں کئی قابل دید مقامات ہیں۔ بہائی مذہب کا قبلہ اور بہاء اللہ کا مقبرہ بنام ’’بہجہ‘‘بھی یہیں واقع ہے۔
اسرائیل میں اگرچہ بہائیت کا عالمی مرکز اور مقدس ترین مقام موجود ہے مگر یہاں بہائیوں کی تعداد بہت کم ہیں۔
راس الناقورہ (Rosh HaNikra)
یہ شمالی اسرائیل میں مغربی گلیلی میں بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ہے۔ یہ لبنانی سرحد کے ساتھ رابطے کا واحد مقام ہے جہاں زائرین راس الناقورہ رینج پر غروب آفتاب کے دلکش نظارے اور اس کی چمک دمک دیکھنے آتے ہیں، جہاں ایک ہوائی ٹرین ہے جو زائرین کو غاروں کو دیکھنے کے لیے نیچے لے جاتی ہے، جہاں پانی پتھروں پر گر کر ایک انوکھا تجربہ پیدا کرتا ہے ۔ اس جگہ کے پیچھے کوئی دینی اہمیت نہیں ہے۔
تل ابیب (Tel Aviv-Yafo)
تل ابیب اسرائیل کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس شہر کا کل رقبہ 51.8 مربع کلومیٹر ہے ۔ تل ابیب کو کوئی مذہبی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ تل ابیب کی بنیاد 1909ء میں تاریخی ساحلی شہر یافا کے باہر بحیرہ روم کے ساحلوں پررکھی گئی تھی۔ اس کا پرانا نام یافہ ہے۔اور اب بھی تل ابیب یافو کے نام سے معروف ہے۔البتہ یافا سے اس وقت مراد تل ابیب سے ملحقہ عرب آبادی ہے۔ یہاں کوئی پہاڑ نہیں ہے۔
تل ابیب کا شمار عالمی شہروں میں کیا جاتا ہے، جو اسرائیلی معیشت کا بڑا مرکز اور ملک کا امیر ترین شہر ہے۔ یہاں بین الاقوامی اہمیت کے حامل دفاتر اور تحقیق کے شعبہ جات واقع ہیں۔ یہاں کے خوبصورت ساحل، دکانیں، چائے خانے، ریستوران، تجارتی مراکز، موسمی حالات اور نہایت جدید طرز زندگی نے اسے ایک معروف سیاحتی مرکز کا درجہ دلایا ہے۔ یہ اسرائیلی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے اور اس کی خاصیت فنون اور تجارتی مرکز کے طور پر عیاں ہے۔ تل ابیب دنیا کا 17 واں مہنگا ترین شہر ہے۔ موجودہ اسرائیل سیاحوں کے لیے ایک مہنگا ملک شمار ہوتا ہے۔
ویسٹ بانک اور غزہ
(West Bank and Gaza)
سیاسی تقسیم اور متعدد جنگوں کے بعد اس وقت ملک کے مشرقی حصہ ویسٹ بانک (مغربی پٹی) میں رام اللہ، الخلیل، بیت لحم، نابلس، طول کرم اور جنین وغیرہ شہر شامل ہیں جہاں سے وہاں کے مقیم عربوں کو اسرائیل میں بغیر کاغذی کارروائیوں کی منظوری کے داخلہ منع ہے۔ البتہ اسرائیل میں مقیم عرب وہاں جاتے آتے رہتے ہیں۔ اسرائیل میں داخل ہوتے وقت باقاعدہ پوچھ تاچھ اور حسب ضرورت تفتیش کی جاتی ہے۔
غزہ فلسطین کا وہ علاقہ ہے جو بحر روم کے کنارے اسرائیل سے ملحق واقع ہے جس کی سرحد مصر سے ملتی ہے۔ اس علاقہ کو اسرائیل نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور اس کی تجارت اور خارجی معاملات بھی آزاد نہیں۔ اس علاقے میں اسرائیل نے 38سال قبضہ کرنے کے بعد 2005ءمیں اسے چھوڑا ، مگر اس وقت سے اب تک کئی جنگیں ہوئی ہیں۔
دروز ( Druze)
دروزیوں کا مذہبی عقیدہ اسماعیلی مذہب سے وجود میں آیا ہے اور اسلام سے علیحدہ ہوکر اپنا ایک مذہب بنایا گیا ہے۔ اسرائیل میں دروز اسرائیل کی عربی النسل اقلیت کا حامل مذہبی گروہ ہے۔ 1957ء میں حکومت اسرائیل نے دروزی راہنماؤں کی درخواست پر ان کو ایک الگ نسلی گروہ کی شناخت دی۔ دروز عربی زبان بولتے ہیں۔ مذہبی طور پر اپنے آپ کو موحدین شمار کرتے ہیں۔ ان کے لیے بھی نماز، روزہ اور حج وغیرہ ہیں مگر ان کی کیفیت اور تفصیل مسلمانوں سے علیحدہ بتائی جاتی ہے۔ اسرائیلی دفاعی فوج میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ اسرائیل میں مقیم دروز ملک کے شمالی علاقوں میں رہتے ہیں۔ شہر حیفا سے قریب کرمل پہاڑ سے ملحقہ عسفیا اور دالیۃ الکرمل میں کثرت سے دروز رہتے ہیں۔
زائرین کی سہولت کے لیے بعض شہروں کےکادرمیانی فاصلہ ذیل میں لکھا جاتا ہے:
تل ابیب سے: یروشلم 54 کلومیٹر، حیفا 85 کلومیٹر، ناصرت 105 کلومیٹر، عکا 98 کلومیٹر۔
القدس یروشلم سے: بیت لحم 9 کلومیٹر، الخلیل 30 کلومیٹر، بحر مردار 34 کلومیٹر۔
٭…٭…٭