میرے بعد بعض اَور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے
بعض ناواقف یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ مسیح موعود کا قرآن شریف میں کہاں ذکر ہے؟ اس کا یہ جواب ہے کہ خدا کی کتابوں میں مسیح موعود کے کئی نام ہیں منجملہ اُن کے ایک نام اس کا خاتم الخلفاء ہے یعنی ایسا خلیفہ جو سب سے آخر آنے والا ہے سو اس نام کے ساتھ قرآن شریف میں مسیح موعود کے بارہ میں پیشگوئی موجود ہے چنانچہ سُورۃ نور میں خداتعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ مسلمانوں میں سے آخری دنوں تک اُن کے دین کی تقویت کے لئے خلیفے پیدا کرتا رہے گا اور اُن کے ذریعہ سے خوف کے بعد امن کی صورت پیدا کردے گا۔ آخری دنوں تک خلیفوں کاپیدا ہونا اس قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بموجب نص صریح قرآن شریف کے اسلام کا دور دُنیاکے آخری دنوں تک ہے پس ماننا پڑا کہ اسلام میں بھی ایک خاتم الخلفاء ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ کے سلسلہ میں حضرت عیسیٰ خاتم الخلفاء تھے۔ اور یہ عجیب راز ہے کہ جیسا کہ حضرت عیسیٰ ؑ حضرت موسیٰ ؑ سے بموجب قول یہود کے چودہویں صدی میں پیدا ہوئے اسی طرح اسلام کا خاتم الخلفاء اسی مدت کے بعد مبعوث ہوا۔
(چشمہ ٔمعرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 333حاشیہ)
یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اُس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اِس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور اُن کو غلبہ دیتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیۡ (المجادلۃ:22)اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اُس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اِسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی اُنہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اُس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں اُن کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (۱) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور اُن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں۔ تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہوگئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اُس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا۔(النور:56) یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے۔ ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جب کہ حضرت موسٰیؑ مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اِس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچا دیں فوت ہوگئے اور بنی اسرائیل میں اُن کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا جیسا کہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بیوقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسٰیؑ کی ناگہانی جدائی سے چالیس۴۰ دن تک روتے رہے۔ ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا۔ اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تتر بتر ہوگئے اور ایک ان میں سے مرتد بھی ہو گیا۔
سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سُنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو ’۲‘ قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو’۲‘ جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا وے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت ؔ کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہےبلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اِس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اُس نے وعدہ فرمایا اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو۔ اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعامیں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھاوے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے۔ اپنی موت کو قریب سمجھو تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آ جائے گی۔
(الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304-306)