مقام وعظمتِ خلافت (قسط اوّل)
رہ تکتے تکتے جن کی کروڑوں ہی مرگئے
وہی رحمان خداجوبنی نوع انسان پرمحض اپنے لطف وکرم سے نبی کوبھیجتاہے وہی رحیم وکریم اپنے نیک بندوں کی خاطر نبوت کی برکات اور فیوض کوجاری رکھنے کے لیے خلافت کے سلسلے کوقائم فرما دیتا ہے
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِم۪ۡ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔ وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مُعۡجِزِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَمَاۡوٰٮہُمُ النَّارُ ؕ وَلَبِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ۔ (النور: 56تا58) اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا۔ جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا۔ اور جو دین اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے وہ ان کے لئے اُسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کے لئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے (اور) کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دیئے جائیں گے۔ اور تم سب نمازوں کو قائم کرو اور زکوٰتیں دو، اور اس رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔ (اور اے مخاطب) کبھی خیال نہ کر کہ کفار زمین میں ہمیں اپنی تدبیروں سے عاجز کر دیں گے اور ان کا ٹھکانا تو دوزخ ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی جماعت کوایک عظیم الشان نعمت کی خوشخبری دیتے ہوئے گویا روحانی آب حیات کے چشمہ پر لاکرکھڑاکردیا۔ اور نبوت جیسی نعمت عظمیٰ کے تسلسل کو ہمیشہ کے لیے جاری رکھنے کی نویدمسرت سنا دی۔
خلفاء نبی کے کمالات لیے ہوئے ہوتے ہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ جب اپنی مخلوق کو دیکھتا ہے کہ وہ اپنے خالق حقیقی سے منہ موڑچکے ہوتے ہیں اور مخلوق اور خالق کے مابین رشتۂ عبودیت میں رخنہ واقع ہوجاتاہے تب اس کی رحمانیت جوش میں آتی ہے اوروہ نبی کوبھیجتاہے کہ تا اس رشتہ میں پیدا ہونے والی کدورتوں کو ختم کیاجاسکے۔ جیساکہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی بعثت کامقصدبیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’وہ کام جس کے لیے خدا نے مجھے مامور فرماياہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس كی مخلوق كے رشتہ ميں جو كدورت واقعہ ہوگئی ہے اس كو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں‘‘ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ180) لیکن ظاہرہے کہ نبی بھی بنی نوع انسان میں سے ہی ایک ہوتاہے اور ہمیشہ کی عمر لے کرتونہیں آتا۔ اور کچھ دیرکے بعد اس کوبھی کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ کے قانون قدرت کے تحت اس دنیاسے جاناہی ہوتاہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ نبی کی اس کمی کومحسوس کیاجاتاہے اور فطرت انسانی تقاضاکرتی ہے کہ اس نعمت غیرمترقبہ اور بےشماربرکتوں کےحامل وجودکو دیر تک ہمارےاندر رہنا چاہیے تھا۔ اوروہی رحمان خدا جوبنی نوع انسان پرمحض اپنے لطف وکرم سے نبی کوبھیجتاہے۔ وہی رحیم وکریم اپنے نیک بندوں کی خاطر نبوت کی برکات اور فیوض کوجاری رکھنے کے لیے خلافت کے سلسلے کوقائم فرمادیتاہے۔ چنانچہ اس کریمانہ حکمت کوبیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام تحریرفرماتے ہیں: ’’اول یہ کہ اس بات کو عقل ضروری تجویز کرتی ہے کہ چونکہ الٰہیات اور امور معاد کے مسائل نہایت باریک اور نظری ہیں گویا تمام امور غیر مرئی اور فوق العقل پر ایمان لانا پڑتا ہے نہ خدا تعالیٰ کبھی کسی کو نظر آیا نہ کبھی کسی نے بہشت دیکھی اور نہ دوزخ کا ملاحظہ کیا اور نہ ملائک سے ملاقات ہوئی اور علاوہ اس کے احکام الٰہی مخالف جذبات نفس ہیں اور نفس امارہ جن باتوں میں لذت پاتا ہے احکام الٰہی ان سے منع کرتے ہیں لہٰذا عندالعقل یہ بات نہ صرف احسن بلکہ واجب ہے کہ خدا تعالیٰ کے پاک نبی جو شریعت اور کتاب لے کر آتے ہیں اور اپنے نفس میں تاثیر اور قوت قدسیہ رکھتے ہیں یا تو وہ ایک لمبی عمر لے کر آویں اور ہمیشہ اور ہر صدی میں ہریک اپنی نئی امت کو اپنی ملاقات اور صحبت سے شرف بخشیں اور اپنے زیر سایہ رکھ کر اور اپنےپُرفیض پروں کے نیچے ان کو لے کر وہ برکت اور نور اور روحانی معرفت پہنچاویں جو انہوں نے ابتدا زمانہ میں پہنچائی تھی اور اگر ایسا نہیں تو پھر ان کے وارث جو انہیں کے کمالات اپنے اندر رکھتے ہوں اور کتاب الٰہی کے دقائق اور معارف کو وحی اور الہام سے بیان کرسکتے ہوں اور منقولات کو مشہودات کے پیرایہ میں دکھلا سکتے ہوں اور طالب حق کو یقین تک پہنچا سکتے ہوں ہمیشہ فتنہ اور فساد کے وقتوں میں ضرور پیدا ہونے چاہیئے تا انسان جو مغلوب شبہات و نسیان ہے ان کے فیض حقیقی سے محروم نہ رہے۔‘‘
(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد6صفحہ345)
اپنی اسی تصنیف میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’پھر بعض اور آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرور خداوند کریم نے یہی ارادہ فرمایا ہے کہ روحانی معلم جو انبیاء کے وارث ہیں ہمیشہ ہوتے رہیں اور وہ یہ ہیں۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ (النور:56) وَلَا یَزَالُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا تُصِیۡبُہُمۡ بِمَا صَنَعُوۡا قَارِعَۃٌ اَوۡ تَحُلُّ قَرِیۡبًا مِّنۡ دَارِہِمۡ حَتّٰی یَاۡتِیَ وَعۡدُ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ (الرعد: 32) وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا (بنی اسرائیل: 16) یعنی خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے اے مومنان امت محمدیہ وعدہ کیا ہے کہ تمہیں بھی وہ زمین میں خلیفہ کرے گا جیسا کہ تم سے پہلوں کو کیا اور ہمیشہ کفار پر کسی قسم کی کوفتیں جسمانی ہوں یا روحانی پڑتی رہیں گی یا ان کے گھر سے نزدیک آجائیں گی۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ آپہنچے گا۔ اور خدا تعالیٰ اپنے وعدوں میں تخلف نہیں کرتا۔ اور ہم کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتے جب تک ایک رسول بھیج نہ لیں۔
ان آیات کو اگر کوئی شخص تامل اور غور کی نظر سے دیکھے تو میں کیونکر کہوں کہ وہ اس بات کو سمجھ نہ جائے کہ خدا تعالیٰ اس امت کے لئے خلافت دائمی کا صاف وعدہ فرماتا ہے اگر خلافت دائمی نہیں تھی تو شریعت موسوی کے خلیفوں سے تشبیہہ دینا کیا معنی رکھتا تھا اور اگر خلافت راشدہ صرف تیس برس تک رہ کر پھر ہمیشہ کے لئے اس کا دور ختم ہوگیا تھا تواس سے لازم آتا ہے کہ خداتعالیٰ کا ہرگز یہ ارادہ نہ تھا کہ اس امت پر ہمیشہ کے لئے ابواب سعادت مفتوح رکھے کیونکہ روحانی سلسلہ کی موت سے دین کی موت لازم آتی ہے اور ایسا مذہب ہرگز زندہ نہیں کہلا سکتا جس کے قبول کرنے والے خود اپنی زبان سے ہی یہ اقرار کریں کہ تیرہ سو1300 برس سے یہ مذہب مرا ہوا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس مذہب کے لئے ہرگز ارادہ نہیں کیا کہ حقیقی زندگی کا وہ نور جو نبی کریم کے سینہ میں تھا وہ توارث کے طور پر دوسروں میں چلا آوے۔
افسوس کہ ایسے خیال پر جمنے والے خلیفہ کے لفظ کو بھی جو استخلاف سے مفہوم ہوتا ہے تدبّر سے نہیں سوچتے کیونکہ خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہوکیونکہ خلیفہ درحقیقت رسول کاظلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کیلئے تاقیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تادنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے پس جو شخص خلافت کو صرف تیس برس تک مانتا ہے وہ اپنی نادانی سے خلافت کی علت غائی کو نظر انداز کرتا ہے اورنہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تو ہرگز نہیں تھا کہ رسول کریم کی وفات کے بعد صرف تیس برس تک رسالت کی برکتوں کو خلیفوں کے لباس میں قائم رکھنا ضروری ہے پھر بعد اس کے دنیا تباہ ہو جائے تو ہوجائے کچھ پرواہ نہیں بلکہ پہلے دنوں میں تو خلیفوں کا ہونا بجز شوکت اسلام پھیلانے کے کچھ اور زیادہ ضرورت نہیں رکھتا تھا کیونکہ انواررسالت اور کمالات نبوت تازہ بتازہ پھیل رہے تھے اور ہزارہا معجزات بارش کی طرح ابھی نازل ہوچکے تھے اور اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو اس کی سنت اور قانون سے یہ بھی بعید نہ تھا کہ بجائے ان چار خلیفوں کے اس تیس برس کے عرصہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کوہی بڑھا دیتا اس حساب سے تیس برس کے ختم ہونے تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کل 93 برس کی عمر تک پہنچتے اور یہ اندازہ اس زمانہ کی مقررہ عمروں سے نہ کچھ زیادہ اور نہ اس قانون قدرت سے کچھ بڑھ کر ہے جو انسانی عمروں کے بارے میں ہماری نظر کے سامنے ہے۔
پس یہ حقیر خیال خدا تعالیٰ کی نسبت تجویز کرنا کہ اس کو صرف اس امت کے تیس30 برس کا ہی فکر تھا اور پھر ان کو ہمیشہ کے لئے ضلالت میں چھوڑ دیا اور وہ نور جو قدیم سے انبیاء سابقین کی امت میں خلافت کے آئینہ میں وہ دکھلاتا رہااس امت کے لیے دکھلانا اس کو منظور نہ ہوا۔ کیا عقل سلیم خدائے رحیم و کریم کی نسبت ان باتوں کو تجویز کرے گی ہرگز نہیں اور پھر یہ آیت خلافت اَئمہ پر گواہ ناطق ہے۔ وَلَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ (الانبیاء: 106)کیونکہ یہ آیت صاف صاف پکار رہی ہے کہ اسلامی خلافت دائمی ہے اس لئے کہ یَرِثُہَا کا لفظ دوام کو چاہتا ہے وجہ یہ کہ اگر آخری نوبت فاسقوں کی ہوتو زمین کے وارث وہی قرار پائیں گے نہ کہ صالح اور سب کا وارث وہی ہوتا ہے جو سب کے بعد ہو۔‘‘
(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ352تا354)
آیت استخلاف میں بیان فرمودہ امور
اس آیت میں جوکہ آیت استخلاف کہلاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تفصیل سے بیان فرمایاہے کہ میری طرف سے کھڑے ہونے والے خلیفہ کی کیاکیاعلامات ہیں۔ علامات تو کیاگویا اس مقام ومرتبہ کابیان ہے کہ جس سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتاہے کہ اس کوخدانے کھڑاکیا ہے اور خدااس کے ساتھ کھڑاہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس آیت کی تفسیربیان کرتے ہوئے ان علامات کاذکرفرمایا ہے جواختصارکے ساتھ ہدیۂ قارئین ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں: ’’یہ آیت جو آیت ِاستخلاف کہلاتی ہے اس میں مندرجہ ذیل امور بیان کئے گئے ہیں۔ اوّل جس انعام کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ ایک وعدہ ہے۔ دوم یہ وعدہ امت سے ہے جب تک وہ ایمان اور عمل صالح پر کا ربندر ہے۔ سوم اس وعدہ کی غرض یہ ہے کہ (الف) مسلمان بھی وہی انعام پائیں جو پہلی اُمتوں نے پائے تھے کیونکہ فرماتا ہے لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ۔ (ب)اس وعدہ کی دوسری غرض تمکین دین ہے۔ (ج) اس کی تیسری غرض مسلمانوں کے خوف کو امن سے بدل دینا ہے۔ (د) اس کی چوتھی غرض شرک کا دُور کرنا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کا قیام ہے۔
نعمت خلافت کی ناشکری کرنے والے فاسق
اس آیت کے آخر میں وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس کے وعدہ ہونے پر زور دیا اور وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراہیم)کے وعید کی طرف توجہ دلائی کہ ہم جو انعامات تم پر نازل کرنے لگے ہیں اگر تم اُن کی ناقدری کرو گے تو ہم تمہیں سخت سزا دیں گے۔ خلافت بھی چونکہ ایک بھاری انعام ہے۔ اس لیے یاد رکھو جو لوگ اس نعمت کی ناشکری کریں گے وہ فاسق ہو جائیں گے۔
یہ آیت ایک زبر دست شہادت خلافتِ راشدہ پر ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور احسان مسلمانوں میں خلافت کا نظام قائم کیا جائے گا جو مؤید من اللہ ہوگا۔ جیسا کہ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ مِنْکُمْ وَعَمِلُو الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ اور وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ سے ظاہر ہے اور مسلمانوں کو پہلی قوموں کے انعامات میں سے وافر حصہ دلانے والا ہوگا۔ پھر اس آیت میں خلفاء کی علامات بھی بتائی گئی ہیں جن سے سچے اور جھوٹے میں فرق کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہیں:
اوّل۔ خلیفہ خدا بناتا ہے یعنی اس کے بنانے میں انسانی ہاتھ نہیں ہوتا۔ نہ وہ خود خواہش کر تا ہے اور نہ کسی منصوبہ کے ذریعہ وہ خلیفہ ہوتا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ تو ایسے حالات میں وہ خلیفہ بنتا ہے جبکہ اس کا خلیفہ ہونا بظاہر ناممکن سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ الفاظ کہ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ مِنْکُمْ وَعَمِلُوالصّٰلِحٰتِ خود ظاہر کرتے ہیں کہ خلیفہ خداہی بناتا ہے کیونکہ جو وعدہ کرتا ہے وہی دیتا بھی ہے۔ نہ یہ کہ وعدہ تو وہ کرے اور اُسے پورا کوئی اور کرے۔ پس اس آیت میں پہلی بات یہ بتائی گئی ہے کہ سچے خلفاء کی آمد خداتعالیٰ کی طرف سے ہوگی۔ کوئی شخص خلافت کی خواہش کر کے خلیفہ نہیں بن سکتا اور نہ کسی منصوبہ کے ماتحت خلیفہ بن سکتا ہے۔ خلیفہ وہی ہوگا جسے خدا بنانا چاہے گا بلکہ بسا اوقات وہ ایسے حالات میں خلیفہ ہوگا جبکہ دنیا اُس کے خلیفہ ہونے کو ناممکن خیال کرتی ہوگی۔
دوسری علامت اللہ تعالیٰ نے سچے خلیفہ کی یہ بتائی ہے۔ کہ وہ اُس کی مدد انبیاء کے مشابہ کرتا ہے کیونکہ فرماتا ہے کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کہ یہ خلفاء ہماری نصرت کے ایسے ہی مستحق ہوں گے جیسے پہلے خلفاء…۔
…تیسری بات اس آیت سے یہ نکلتی ہے کہ یہ وعدہ امت سے اس وقت تک کےلئے ہے جب تک کہ امت مومن اور عمل صالح کرنے والی رہے۔ جب وہ مومن اور عمل صالح کرنے والی نہیں رہے گی تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے اس وعدہ کو واپس لے لےگا…
…چوتھی علامت خلفاء کی اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ ان کے دینی احکام اور خیالات کو اللہ تعالیٰ دنیا میں پھیلائےگا۔ چنانچہ فرماتا ہے وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ کہ اللہ تعالیٰ اُن کے دین کو تمکین دےگا اور باوجود مخالف حالات کے اُسے دنیا میں قائم کر ے گا۔ یہ ایک زبردست ثبوت خلافتِ حقہ کی تائید میں ہے اور جب اس پر غور کیا جاتا ہے تو خلفاء کی صداقت پر خداتعالیٰ کا یہ ایک بہت بڑا نشان نظر آتا ہے…دین کے ایک معنے سیاست اور حکومت کے بھی ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے سچے خلفاء کی اللہ تعالیٰ نے یہ علامت بتائی کہ جس سیاست اور پالیسی کو وہ چلائیں گے اللہ تعالیٰ اُسے دنیا میں قائم فرمائےگا۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ذاتی معاملات میں خلیفۂ وقت سے کوئی غلطی ہو جائے۔ لیکن ان معاملات میں جن پر جماعت کی روحانی اور جسمانی ترقی کا انحصار ہو اگر اُس سے کوئی غلطی سرزد بھی ہوتو اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کی حفاظت فرماتا ہے اور کسی نہ کسی رنگ میں اُسے اس غلطی پر مطلع کر دیتا ہے۔ صوفیاء کی اصطلاح میں اسے عصمت صغریٰ کہا جاتا ہے۔ گویا انبیاء کو تو عصمت ِکبریٰ حاصل ہوتی ہے لیکن خلفاء کو عصمتِ صغریٰ حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن سے کوئی ایسی اہم غلطی نہیں ہونے دیتا جو جماعت کےلئے تباہی کا موجب ہو۔ اُن کے فیصلوں میں جزئی اور معمولی غلطیاں ہوسکتی ہیں۔ مگر انجام کا ر نتیجہ یہی ہو گا کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہو گا۔اور اُس کے مخالفوں کو شکست ہوگی۔ گویا بوجہ اس کے کہ ان کو عصمتِ صغریٰ حاصل ہوگی۔ خداتعالیٰ کی پالیسی بھی وہی ہوگی جو اُن کی ہوگی۔ بیشک بولنے والے وہ ہوں گے۔ زبانیں انہی کی حرکت کریں گی۔ ہاتھ انہی کے چلیں گے۔ دماغ انہی کا کام کرےگا۔ مگر ان سب کے پیچھے خداتعالیٰ کا اپنا ہاتھ ہوگا…۔
پانچویں علامت اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا۔ یعنی جب بھی قومی طور پر اسلامی خلافت کےلئے کوئی خوف پید ا ہوگا اور لوگوں کے دلوں میں نورِ ایمان باقی ہوگا اللہ تعالیٰ اس خوف کے بعد ضرور ایسے سامان پیدا کر دےگا کہ جن سے مسلمانوں کا خوف امن سے بدل جائےگا۔ …بعض لوگ غلطی سے اس آیت کا یہ مفہوم سمجھتے ہیں کہ خلفاء راشدین ہر تخویف سے محفوظ رہتے ہیں۔ اور یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ۔ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کو چونکہ خلافت کے بعد مختلف حوادث پیش آئے اور دشمنوں نے انہیں شہید کر دیا۔ اس لئے حضرت ابوبکرؓ کے سوا اور کسی کو خلیفۂ راشد تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ غلطی انہیں اس لئے لگی ہے کہ انہوں نے قرآنی الفاظ پر غور نہیں کیا۔ بیشک خوف کا امن سے بدل جانا بھی بڑی نعمت ہے۔ لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ الْخَوْفِ اَمْنًا۔ کہ جو بھی خوف پیدا ہوگا اُسے امن سے بدل دیا جائےگا۔ بلکہ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا فرمایا ہے۔ کہ جو خوف اُن کے دل میں پیدا ہوگا اور جس چیز سے وہ ڈریں گے اللہ تعالیٰ اُسے دُور کر دےگا۔ اور اس کی جگہ امن پیدا کر دےگا۔ پس وعدہ یہ نہیں کہ زید اور بکر کے نزدیک جو بھی ڈرنے والی بات ہو وہ خلفاء کو پیش نہیں آئےگی۔ بلکہ وعدہ یہ ہے کہ جس چیز سے وہ ڈریں گے۔ اللہ تعالیٰ اُسے ضرور دُور کردےگا۔ اور ان کے خوف کو امن سے بدل دےگا۔ مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ سانپ بظاہر ایک بڑی خوفناک چیز ہے مگر کئی لوگ ہیں جو سانپ کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کےلئے سانپ کا خوف کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ اسی طرح فقر ایک بڑی خوف والی چیز ہے مگر رسول کریمﷺ کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ چنانچہ رسول کریمﷺ فرماتے ہیں اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ فقر میرے لئے ذلت کا موجب نہیں بلکہ فخر کا موجب ہے۔ اب اگر کسی کے ذہن میں یہ بات ہو کہ کھانے کےلئے اگر ایک وقت کی روٹی بھی نہ ملے تو یہ بڑی ذلّت کی بات ہوتی ہے تو کیا اس کے اس خیال کی وجہ سے ہم یہ مان لیں گے کہ نعوذباللہ رسول کریمﷺ کی بھی ذلت ہوئی؟ جو شخص فقر کو اپنی عزت کا موجب سمجھتا ہے۔ جو شخص چیتھڑوں کو قیمتی لباس سے زیادہ بہتر چیز سمجھتا ہے اور جو شخص دنیوی مال ومتاع کو نجاست کی طرح حقیر سمجھتا ہے اُس کےلئے فقرکا خوف بالکل بے معنے ہے۔ پس خداتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ الْخَوْفِ اَمْنًا بلکہ فرمایا ہے وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا کہ کوئی ایسی خوف والی بات پیدا نہیں ہوگی جس سے وہ ڈرتے ہوں گے۔ اس فرق کو مدّنظر رکھ کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ خلفا ء پر کوئی ایسی مصیبت نہیں آئی جس سے انہوں نے خوف کھایا ہو اور اگر آئی تو اللہ تعالیٰ نے اسے امن سے بدل دیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت عمرؓ شہید ہوئے۔ مگر جب واقعات کو دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کو اس شہادت سے کوئی خوف نہیں تھا۔ بلکہ وہ متواتر دعائیں کیا کرتے تھے کہ یا اللہ مجھے شہادت نصیب کر اور شہید بھی مجھے مدینہ میں کر۔ پس وہ شخص جس نے اپنی ساری عمر یہ دعائیں کرتے ہوئے گذار دی ہو کہ یا اللہ مجھے مدینہ میں شہادت دے وہ اگر شہید ہو جائے تو ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس پر ایک خوفناک وقت آیا مگر وہ خداتعالیٰ کی طرف سے امن سے نہ بدلا گیا۔ بیشک اگر حضرت عمرؓ شہادت سے ڈرتے اور پھر وہ شہید ہو جاتے تو کہا جا سکتا تھا کہ اُن کے خوف کو خداتعالیٰ نے امن سے نہ بدلا۔ مگر وہ تو دعائیں کرتے رہتے تھے کہ یا اللہ ! مجھے مدینہ میں شہادت دے۔ پس اُن کی شہادت سے یہ کیونکر ثابت ہوگیا کہ وہ شہادت سے ڈرتے بھی تھے اور جب وہ شہادت سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ اس کےلئے دعائیں کرتے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا تو معلوم ہوا کہ اس آیت کے ماتحت اُن پر کوئی ایسا خوف نہیں آیا جو اُن کے دل نے محسوس کیا ہو او ر اس آیت میں جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں یہی ذکر ہے کہ خلفاء جس بات سے ڈرتے ہو ں گے وہ کبھی وقوع پذیر نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اُن کے خوف کو امن سے بدل دےگا مگر جب وہ ایک بات سے ڈرتے ہی نہ ہوں بلکہ اپنی عزت اور بلندیٔ درجات کا موجب سمجھتے ہوں تو اُسے خوف کہنا اور پھر یہ کہنا کہ اسے امن سے کیوں نہ بدل دیا گیا بےمعنی بات ہے۔ مَیں نے تو جب حضرت عمرؓ کی اس دعا کو پڑھاتو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس کا بظاہر یہ مطلب تھا کہ دشمن مدینہ پر حملہ کرے اور اُس کا حملہ اتنی شدت سے ہو کہ تمام مسلمان تباہ ہو جائیں پھر وہ خلیفۂ وقت تک پہنچے اور اُسے بھی شہید کر دے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کی دعا بھی قبول کر لی۔ اور ایسے سامان بھی پیدا کر دئے جن سے اسلام کی عزت قائم رہی۔ چنانچہ بجائے اس کے کہ مدینہ پر کوئی بیرونی لشکر حملہ آور ہوتا اندر سے ہی ایک خبیث اٹھا اور اُس نے خنجر سے آپ کو شہید کر دیا پھر حضرت عثمانؓ کے ساتھ جو واقعات پیش آئے ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں سے کبھی خائف نہیں ہوئے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ جب باغیوں نے مدینہ پرقبضہ کر لیا تو وہ نماز سے پہلے تمام مسجد میں پھیل جاتے۔ اور اہل مدینہ کو ایک دوسرے سے جدا جدا رکھتے تاکہ وہ اکٹھے ہو کر اُن کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ مگر باوجود اس شورش اور فتنہ انگیزی اور فساد کے حضرت عثمانؓ نمازپڑھانے کے لئے اکیلے مسجد میں تشریف لاتے اور ذرا بھی خوف محسوس نہ کرتے اور اس وقت تک برابر آتے رہے جب تک لوگوں نے آپ کو منع نہ کردیا۔ جب فتنہ بہت بڑھ گیا اور حضرت عثمانؓ کے گھر پر مفسدوں نے حملہ کر دیا تو بجائے اس کے کہ آپ صحابہؓ کا اپنے مکان کے گرد پہرہ لگواتے۔ آپ نے انہیں قسم دے کر کہا کہ وہ آپ کی حفاظت کر کے اپنی جانوں کو خطرہ میں نہ ڈالیں اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں۔ کیا شہادت سے ڈرنے والا آدمی بھی ایسا ہی کیا کرتا ہے؟ اور وہ لوگوں سے کہا کرتا ہے کہ میرا فکر نہ کرو بلکہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ؟ پھر اس بات کا کہ حضرت عثمانؓ ان واقعات سے کچھ بھی خائف نہیں تھے ایک اور زبردست ثبوت یہ ہے کہ اس فتنہ کے دوران میں ایک دفعہ حضرت معاویہؓ حج کرنے آئے۔ جب وہ شام کو واپس جانے لگے تو مدینہ میں وہ حضرت عثمانؓ سے ملے اور عرض کیا کہ آپ میرے ساتھ شام میں چلیں۔ وہاں آ پ تمام فتنوں سے محفوظ رہیں گے آپ نے فرمایا کہ معاویہ ! میں رسول کریمﷺ کی ہمسائیگی پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اگر آپ کو یہ بات منظور نہیں تو میں شامی سپاہیوں کا ایک لشکر آپ کی حفاظت کےلئے بھیج دیتا ہوں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا میں اپنی حفاظت کےلئے ایک لشکر رکھ کر مسلمانوں کے رزق میں کمی کرنا نہیں چاہتا۔ حضرت معاویہؓ نے عرض کیا کہ امیر المومنین لوگ آ پ کو دھوکا سے قتل کر دیں گے۔ یا ممکن ہے آپ کے خلاف وہ بر سرِ پیکار ہو جائیں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ میرے لئے میرا خدا کافی ہے۔ آخر انہوں نے کہا اگر آپ اور کچھ منظور نہیں کرتے تو اتنا ہی کریں کہ شرارتی لوگوں کو بعض اکا بر صحابہؓ کے متعلق گھمنڈ ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے بعد وہ کام سنبھال لیں گے۔ چنانچہ وہ ان کا نام لے لے کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ آپ ان سب کو مدینہ سے رخصت کردیں اور بیرونی ملکوں میں پھیلا دیں۔ اس سے شریروں کے ارادے پست ہو جائیں گے اور وہ خیال کریں گے کہ آپ سے تعرض کر کے انہوں نے کیا لینا ہے جبکہ مدینہ میں کوئی اور کام کو سنبھالنے والا ہی نہیں۔ مگر حضرت عثمانؓ نے یہ بات بھی نہ مانی اور کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جن کو رسول کریمﷺ نے جمع کیا ہے۔ میں اُن کو جلا وطن کردوں۔ حضرت معاویہؓ یہ سُن کر رو پڑے اور انہوں نے عرض کیا۔ اگر آپ اور کچھ نہیں کرتے تو اتناہی اعلان کر دیں کہ میرے خون کا بدلہ معاویہؓ لےگا۔ مگر آپ نے فرمایا معاویہؓ ! تمہاری طبیعت تیز ہے میں ڈرتا ہوں کہ مسلمانوں پر تم کہیں سختی نہ کرو۔ اس لئے میں یہ اعلان بھی نہیں کر سکتا۔ اب کہنے کو تو یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ دل کے کمزور تھے مگر تم خود ہی بتاؤ کہ اس قسم کی جرأت کتنے لوگ دکھا سکتے ہیں اور کیا ان واقعات کے ہوتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اُن کے دل میں کچھ بھی خوف تھا۔ اگر خوف ہوتا تو وہ کہتے کہ تم اپنی فوج کا دستہ میری حفاظت کےلئے بھجوادو۔ انہیں تنخواہیں میں دلواؤں گا۔ اور اگر خوف ہوتا تو آپ اعلان کر دیتے کہ مجھ پر کسی نے ہاتھ اٹھایا تو وہ سُن لے کہ میرا بدلہ معاویہؓ لےگا۔ مگر آپ نے سوائے اس کے کوئی جواب نہ دیا کہ معاویہ ! تمہاری طبیعت تیز ہے۔ میں ڈرتاہوں کہ اگر میں نے تم کو یہ اختیار دے دیا تو تم مسلمانوں پر سختی کرو گے۔ پھر جبکہ آخر میں دشمنوں نے دیوار پھاند کر آپ پر حملہ کیا تو کس دلیر ی سے آپ نے مقابلہ کیا۔ بغیر ڈر اور خوف کے اظہار کے آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے… ان واقعات کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان واقعات سے خائف تھے۔ اور جب وہ ان واقعات سے خائف ہی نہ تھے تو مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا کے خلاف یہ واقعات کیونکر ہوگئے۔ یہ لوگ تو اگر کسی امر سے خائف تھے تو اس سے کہ اسلام کی روشنی میں فرق نہ آئے۔ سو باوجود ان واقعات کے وہی بات آخر قائم ہوئی جسے یہ لوگ قائم کرنا چاہتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اُن کے خوف کو امن سے بدل دیا…… اگر محض لوگوں کی مخالفت کو ہی خوفناک امر قرار دے دیا جائے تب تو ماننا پڑے گا کہ انبیاء (نعوذ باللہ ) ہمیشہ لوگوں سے ڈرتے رہے ہیں کیونکہ جتنی مخالفت لوگ اُن کی کرتے ہیں اتنی مخالفت اور کسی کی نہیں کرتے بہر حال دنیا کی مخالفت کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور نہ خداتعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنۡۢ بَعْدِ الْخَوْفِ اَمْنًا بلکہ فرمایا ہے وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنۡۢ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا فرمایا ہے۔ کہ جس چیز سے وہ ڈرتے ہوں گے اُسے اللہ تعالیٰ دور کر دے گا اور اُن کے خوف کو امن سے بدل دےگا اور جیسا کہ میں بتاچکا ہوں وہ صرف اس بات سے ڈرتے تھے کہ امتِ محمدیہ میں گمراہی اور ضلالت نہ آ جائے۔ سو امتِ محمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے اُن کی اس توجہ اور دعا کی برکت سے بحیثیت مجموعی ضلالت سے محفوظ رکھا اور اہل السنت والجماعت کا مذہب ہی دنیا کے کثیر حصہ پر ہمیشہ غالب رہا۔ میں نے اس آیت کے جو یہ معنے کئے ہیں کہ اس جگہ خوف سے مراد عام خوف نہیں بلکہ وہ خوف ہے جسے خلفاء کا دل محسوس کرتا ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں عام خوف ضرور ہوتا ہے بلکہ عام خوف بھی اللہ تعالیٰ ان سے دور ہی رکھتا ہے۔ سوائے اس کے کہ اس میں کوئی مصلحت ہو جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب خوف پیدا ہوا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ عام مسلمانوں کی حالت ایسی ہو چکی تھی کہ اب وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خلافت کے انعام کے مستحق نہیں رہے تھے۔ پس میرا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عام خوفوں سے محفوظ نہیں رکھتا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اصل وعدہ اس آیت میں اُسی خوف کے متعلق ہے جس کو وہ خوف قرار دیں اور وہ بجائے کسی اور بات کے ہمیشہ اس ایک بات سے ہی ڈرتے تھے کہ اُمت محمدیہ میں گمراہی اور ضلالت نہ آجائے سو خدا کے فضل سے امتِ محمدیہ ایسی ضلالت سے محفوظ رہی اور باوجود بڑے بڑے فتنوں کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کی وفات کے بعد اس کی ہدایت کے سامان ہوتے رہے۔ اصل معجزہ یہی ہوتا ہے کہ کسی کی وفات کے بعد اس کی خواہشات پوری ہوتی رہیں۔ زندگی میں اگر کسی کی خواہشیں پوری ہوں تو کہا جا سکتا ہے کہ اُس نے تدبیروں سے کام لیا تھا۔ مگر جس کی زندگی ختم ہو جائے اور پھر بھی اس کی خواہشیں پوری ہوتی رہیں اس کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ اُس نے کسی ظاہر ی تدبیر سے کام لے لیا ہوگا۔ بلکہ یہ امر اس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ شخص خداتعالیٰ کا محبوب اور پیارا تھا اور اللہ تعالیٰ کا اُس سے گہرا تعلق تھا جیسے رسول کریمﷺ نے کشفی حالت میں سراقہ بن مالک کے ہاتھوں میں سونے کے کڑے دیکھے۔ ا ب رسول کریمﷺ کا معجزہ صرف یہ نہیں کہ آپ نے اُس کے ہاتھ میں سونے کے کڑے دیکھے بلکہ معجزہ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ رسول کریمﷺ فوت ہوگئے ایک لمبا عرصہ گذرنے کے بعد مالِ غنیمت میں سونے کے کڑے آئے اور باوجود اس کے کہ شریعت میں مردوں کو سونے کے کڑے پہننے ممنوع ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ جذبہ پیدا کر دیا کہ وہ رسول کریمﷺ کے اس کشف کو پورا کرنے کےلئے اُسے سونے کے کڑے پہنائیں۔ چنانچہ آپ نے اُسے پہنائے۔ پس اس واقعہ میں معجزہ یہ ہے کہ باوجود یہ کہ رسول کریمﷺ فوت ہو چکے تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کے دل میں رسول کریمﷺ کی ایک پیشگوئی کو پورا کرنے کا جذبہ پیدا کر دیا۔ پھر یہ بھی معجزہ ہے کہ رسول کریمﷺ کی یہ بات حضرت عمرؓ نے سُن لی۔ اور آپ کو اس کے پورا کرنے کا موقع مل گیا۔ آخر حضرت عمرؓ رسول کریمﷺ کی ہر بات تو نہیں سنا کرتے تھے۔ ممکن ہے یہ بات کسی اور کے کان میں پڑتی اور وہ آگے کسی اور کو بتانا بھول جاتا۔ مگر اس معجزہ کا یہ بھی ایک حصہ ہے کہ جس شخص کے پاس سونے کے کڑے پہنچنے تھے اسے رسول کریمﷺ کا یہ کشف بھی پہنچ چکا تھا۔ پھراس معجزے کا یہ بھی حصہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ تحریک پیدا کر دی کہ وہ اس صحابی کو سونے کے کڑے پہنائیں حالانکہ شریعت کے لحاظ سے مردوں کے لئے سونا پہننا ممنوع ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ رسول کریمﷺ کی اس پیشگوئی کو پورا کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے آپ کے دل کو اس نے اس طرف مائل کر دیا کہ مردوں کے سونا نہ پہننے میں جو حکمتیں ہیں وہ بھی بیشک اچھی ہیں مگر رسول کریمﷺ کی پیشگوئی کو پورا کرنے کےلئے کسی کو تھوڑی دیر کے لئے سونے کے کڑے پہنا دینا بھی کوئی بری بات نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ انہوں نے اس صحابی کو اپنے سامنے سونے کے کڑے پہنائے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ خلفاء راشدین فوت ہوگئے تو ان کی وفات کے سالہا سال بعد خداتعالیٰ نے اُن کے خوف کو امن سے بدلا۔ کبھی سو سال بعد کبھی دو سو سال بعد۔ کبھی تین سو سال بعد۔ کبھی چار سو سال بعد اور کبھی پانچ سو سال کے بعد اور اس طرح ظاہر کر دیا کہ خداتعالیٰ اُن سے محبت رکھتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ ان کے ارادے رائیگا ں جائیں لیکن اگر اس ساری آیت کو ساری قوم کی طرف منسوب کر دیا جائے تب بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ اس صورت میں بھی وہی معنے کئے جائیں گے جن کو میں نے بیان کیا ہے یعنی اس صورت میں بھی ساری قوم کو اگر کوئی خوف ہو سکتا تھا تو وہ کفار کے اسلام پر غلبہ کا ہو سکتا تھا۔ فردی طور پر تو کسی کو یہ خوف ہو سکتا ہے کہ میرا بیٹا نہ مر جائے۔ کسی کو یہ خوف ہو سکتا ہے کہ مجھے تجارت میں نقصان نہ ہو جائے۔ مگر قوم کا خوف تو ایسا ہی ہو سکتا ہے جو اپنے اندر قومی رنگ رکھتا ہو اور وہ خوف بھی پھر یہی ماننا پڑتا ہے کہ ایسا نہ ہو اسلام پر کفار غالب آجائیں۔ سو قوم کا یہ خوف بھی اسلام کے ذریعہ ہی دور ہوا اور اسلا م کو ایسا زبردست غلبہ حاصل ہوا جس کی اور کہیں مثال نہیں ملتی۔
خلفاء کی چھٹی علامت اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ یَعْبُدُوْ نَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا وہ خلفاء میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ یعنی اُن کے دلوں میں خداتعالیٰ جرأت اور دلیری پیدا کردےگا اور خداتعالیٰ کے مقابلہ میں کسی کا خوف اُن کے دل میں پیدا نہیں ہوگا۔ وہ لوگوں کے ڈر سے کوئی کام نہیں کریں گے بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیں گے اور اُسی کی خوشنودی اور رضا کےلئے تمام کام کریں گے۔ یہ معنے نہیں کہ وہ بُت پرستی نہیں کریں گے۔ بُت پرستی تو عام مسلمان بھی نہیں کرتے کجا یہ کہ خلفاء کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ بُت پرستی نہیں کریں گے۔ پس یہاں بُت پرستی کا ذکر نہیں بلکہ اس امر کا ذکر ہے کہ وہ بندوں سے ڈر کر کسی مقام سے اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹائیں گے بلکہ جو کچھ کریں گے خداتعالیٰ کے منشاء اور اس کی رضا کو پورا کرنے کےلئے کریں گے اور اس امر کی ذرا بھی پرواہ نہیں کریں گے کہ اس راہ میں انہیں کن بلاؤں اور آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ……تمام خلفاء کے حالات میں ہمیں یَعْبُدُوْ نَنِیْ لَایُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا کا نہایت اعلیٰ درجہ کا نظارہ نظر آتا ہے جو اس بات کا یقینی اور قطعی ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خود مقامِ خلافت پر کھڑا کیا تھا اور وہ آپ اُن کی تائید اور نصر ت کا ذمہ دار رہا۔‘‘ (تفسیر کبیرجلد6صفحہ370تا387)
(جاری ہے)