خلافت خامسہ کے بابرکت دَور میں امن عالم کے لیے ہونے والی کاوشوں پر ایک طائرانہ نظر
خلیفۃ المسیح کے امن کے پیغام کا ہر پہلونمایا ں طور پر مکمل بھی ہے اور منفرد بھی۔ انصاف پسند بھی ہے اور غیر جانبدارانہ بھی۔ منصفانہ بھی ہے اور مشفقانہ بھی۔ ہمدردانہ بھی ہے اور کریمانہ بھی۔
ایک بے نفس ذات کی طرف سے اٹھائی گئی آوازمحض اس واسطے ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو جائے اور بدلے میں کچھ مطالبہ نہیں
دنیا میں ہر جگہ بد امنی اور بے انصافی کا جال پھیلا ہوا ہے۔ ہر شخص اپنے مفاد کا سوچ رہا ہے اور ہر ملک اپنے مفاد کے لیے کمزور ملکوں کو لوٹ رہا ہے۔ کہیں مذہب کے نام پر ذاتی مفادکے لیے جنگیں لڑی جارہی ہیں تو کہیں دولت کی لالچ میں معصوم بے گناہوں کی جانیں لی جارہی ہیں۔ کہیں آزادی اظہار کے نام پر اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو کہیں طاقت کے استعمال سے کمزوروں کے بنیادی حقوق ہی ضبط کیے جارہے ہیں۔
یہ وہی آخری زمانہ ہے جس کی پیشگوئی آج سے 1500سال قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔ دنیا خداتعالیٰ کو بھلا چکی ہے۔ مگر ان تمام حالات کے درمیان ایک شخص ہے جو خدا تعالیٰ کے حکم پر ان تمام برائیوں کے خلاف آواز بلند کر رہا ہے اور دنیا بھر میں امن اور سلامتی کا پیغام پہنچا رہا ہے۔ وہ وجود حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے پانچویں خلیفہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا وجود ہے۔ جہاں دنیاوالے اپنے آپ کو تباہی کے کنارے پر کھڑا محسوس کررہے ہیں وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اسلام کے امن اور سلامتی کے پیغام کے ذریعہ دنیا والوں کو تباہی سے بچنے کی راہ دکھا رہے ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد دنیا میں امن اور سلامتی کا قیام بھی تھا۔ دنیا والوں کوآپس میں صلح کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ علیہ السلام اپنی تصنیف پیغام صلح میں فرماتے ہیں: ’’پیارو !!صلح جیسی کوئی بھی چیز نہیں۔ آؤ ہم اس معاہدہ کے ذریعہ سے ایک ہو جائیں۔ اور ایک قوم بن جائیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ باہمی تکذیب سے کس قدر پھوٹ پڑ گئی ہے۔ اور ملک کو کس قدر نقصان پہنچتا ہے آؤ اب یہ بھی آزما لو کہ باہمی تصدیق کی کس قدر برکات ہیں۔ ‘‘(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 456)
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جانشینی میں جن اشخاص کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کے منصب پر فائز کرنا تھا، ان کے کاموں میں بھی انہی مقاصد کی جھلک نظر آنا ایک لازمی امر تھا۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیزکو 2003ء میں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی تو دنیا بھر میں اسلام کی حقیقی تعلیم کے پھیلانے کے ساتھ ساتھ آپ کی نظر دنیا میں پھیلی ہوئی بد امنی کی طرف بھی تھی۔ 2001ء میں امریکہ میں ہونے والےحملوں کے نتیجے میں ہر طرف ایک بے چینی نظر آرہی تھی جو کہ اندرہی اندر نفرت کی آگ کےبیج بو رہی تھی۔ مختلف ملکوں، قوموں اور رنگ و نسل کے لوگوں کا آپس میں عدم اعتما داُبھر کر سامنے آرہا تھا۔ اس آگ کو بجھانے کے لیے ایک آواز کی شدت سے ضرورت تھی۔ ایسے وقت میں خدا تعالیٰ کی قائم کردہ خلافت ہی وہ آواز بن کر سامنے آئی جس نے امن کے حقیقی پیغام کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔
یہاں بے شک ایک کم نظر رکھنے والاشخص یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ دنیا میں بے شمار لوگ امن کی تلقین کرتے ہیں پھر خلیفۃ المسیح کے پیغام کو ہی کیوں خاص فوقیت دی جائے؟ یوں تو جنگ کرنے والے بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم صرف امن کے قیام کی غرض سے میدان جنگ میں اترے ہیں پھر خلیفۃالمسیح کے الفاظ میں وہ کیا خاص بات ہے جس بنیاد پر اس کا اعلیٰ ہونا تسلیم کیا جائے؟ تاہم اگر بغورجائزہ لیا جائے تو خلیفۃ المسیح کے امن کے پیغام کا ہر پہلونمایا ں طور پر مکمل بھی ہے اور منفرد بھی۔ انصاف پسند بھی ہے اور غیر جانبدارانہ بھی۔ منصفانہ بھی ہے اور مشفقانہ بھی۔ ہمدردانہ بھی ہے اور کریمانہ بھی۔ ایک بے نفس ذات کی طرف سے اٹھائی گئی آوازمحض اس واسطے ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو جائے اور بدلے میں کچھ مطالبہ نہیں۔
آپ کی یہ نصائح انصاف پسند ان معنوں میں ہیں کہ ان کی بنیاد انسانی سوچ پر نہیں جومحدود ہے بلکہ رب العالمین کے قائم کردہ قوانین پر مبنی ہیں۔ یہ غیر جانبدارانہ ان معنوں میں ہیں کہ اس کے ذریعہ آپ نے سب سے پہلے اپنوں کی غلطی کو تسلیم کیا اور اصلاح کی نصیحت فرمائی۔ مگر نہیں کہہ سکتے کہ ان میں خوشامد کی ذرہ بھر بھی ملونی ہے کیونکہ جہاں ضرورت تھی وہاں آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے ایک نڈر جرنیل کی طرح غیر کے کیمپ میں گھس کر اس کی غلطیوں کی نشاندہی اور تنبیہ کی۔ یہ ہمدردانہ ان معنوں میں ہیں کہ جس جماعت میں یہ خیال پایا جاتاہو کہ ایک جنگ کے ذریعہ دنیا میں تباہی ہو گی مگراس کے بعد اس جماعت کی فتح ہو گی اور باوجود اس وعدہ کے وہ شخص دن رات دعاؤں اور کوشش میں مصروف رہے کہ کسی طرح دنیا والے اپنی اصلاح کرلیں اور جنگ ٹل جائے تو یقیناًمحبت انسانیت کی یہ ایک ایسی مثال ہے جس کی نظیر نہیں۔
خلافت خامسہ میں ہونے والی امنِ عالم کے لیے کاوشوں پر ایک مختصر نظر مارنے والا بھی اس بات کو قبول کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ حضور تو دن رات کوشش میں ہیں کہ دنیا والے کسی طرح اس رسی کو تھامیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو عطا ہوئی ہے اور اپنے آپ کو اس تباہی کے کنارے سے بچالیں۔ آپ کی دن رات کی یہ کوشش حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس کیفیت کی یاد دلاتی ہے جب آپؑ نے فرمایا کہ ’’میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں۔ کس دف سےمیں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں اورکس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 22)
2003ء میں خلافت کے منصب پر فائز ہوتے ہی پہلے ہی سال حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر امن، باہمی محبت اور ایک دوسرے کی عزت نفس کا خیال رکھنے پر خطاب فرمایا۔ 2004ء میں آپ نےNational Peace Symposiumکی بنیاد رکھی جس کا مقصد دنیا میں مختلف مکتبہ ہائے فکر اور شعبہ جات کے لوگوں کو دعوت دے کر ان کے ساتھ دنیا میں امن قائم کرنے کے طریق پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ یہ Peace Symposiumہر سال منعقد کیا جاتا ہے اور الا ماشاءاللہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بنفس نفیس تشریف لا کراپنے خطابات کے ذریعہ خصوصی طور پر موجود مہمانو ں کو اور عمومی طور پر پوری دنیا کو اسلامی تعلیم کی روشنی میں قیام امن کے راہنما اصول بیان فرماتے ہیں اور دنیا کے موجودہ مسائل کے حل پیش کرتے ہیں۔ Peace Symposiumمیں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نےآزادی اظہار، رواداری، امن کے قیام کے لیے خدا تعالیٰ کی پہچان، ایٹمی جنگ کےتباہ کن نتائج، انصاف کی ضرورت اور انصاف پر مبنی تعلقات جیسے اہم موضوعات پر راہنمائی فرمائی ہے۔
Peace Symposiumکے علاوہ بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے برطانیہ میں بھی اورمختلف ممالک میں دورہ کر کے امن کی ضرورت اور امن قائم کرنے کے طریق کار پر راہنما ئی فرمائی ہے۔ ستمبر 2005ءمیں ڈنمارک میں اسلام کی حقیقی تعلیم کے موضوع پر خطاب فرما کر ان ممالک میں اسلامو فوبیا کو دور کرنے کی مساعی فرمائی۔ اپریل 2006ء میں سڈنی آسٹریلیا میں امن قائم کرنے کی ضرورت اور طریق کار کے متعلق خطاب فرمایاجس سے ملک کے مختلف سیاسی سربراہان اور معززین نے استفادہ کیا۔ 2007ء میں ماحولیاتی امن کے قیام کی اہمیت پرRoehampton University Londonمیں تقریر فرمائی۔ 2008ء میں برطانوی پارلیمنٹ میں اپنے تاریخی خطاب کے ذریعہ قرآن کریم سے موجودہ عالمی و معاشی بحران کے حل پیش کیے۔ اسی سال کیرالہ ہندوستان میں امن کے قیام، آپس میں محبت اور ہم آہنگی کے قیام کے اصول کے متعلق نصائح فرمائیں۔ 2009ء میں گلاسگو میں خطاب کے ذریعہ یہ راہنما اصول بیان فرمایا کہ اقتصادی ترقی کا انحصار امن پر اور امن کا انحصار انصاف پرہے۔
2010ءمیں جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر مہمانان سے امن کے ذرائع کے موضوع پر خطاب فرمایا۔ 2011ءمیں ہیمبرگ جرمنی میں گرین پارٹی کے ممبران سے خطاب فرماتے ہوئے امن اور قدرتی توازن کو قائم رکھنے کی اہمیت بیان فرمائی۔ 2012ء میں امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں کیپٹل ہل کے مقام پر کانگریس و سینیٹ کے بعض اراکین، سفیروں، وائٹ ہاؤس و سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سٹاف اور دیگر معززین کے آگے ’’انصاف کی راہ۔ قوموں کے مابین انصاف پر مبنی تعلقات ‘‘کے نام سے تاریخی خطاب فرمایا۔ 2012ء کے اختتام پر ہی آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے برسلز بیلجیم میں یورپین پارلیمنٹ سے بین الاقوامی اتحاد کی اہمیت پر خطاب فرمایا۔ آپ کے اس خطاب سے 30ممالک کے 350نمائندگان نے استفادہ کیا۔
2013ء میں نیوزی لینڈ کی نیشنل پارلیمنٹ میں ’’امن عالم۔ وقت کی ضرورت‘‘ کے نام سے تقریر فرمائی۔ 2014ء میں عالمی مذاہب کی کانفرنس پرفرمایا کہ جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے باوجود مخالفین کے ظلم و ستم کے دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ 6؍اکتوبر 2015ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ڈچ قومی پارلیمنٹ میں خطاب فرمایاجس کے ذریعہ امن عالم کی راہ میں درپیش مسائل کے حل پیش کیے۔ 2016ء میں آپ نے کینیڈا کا دورہ فرمایا جہاں مختلف مقامات پرجن میں کینیڈا کی نیشنل پارلیمنٹ میں تقریر بھی شامل تھی، خطابات کے ذریعہ قیام امن کی ضرورت اور طریق کار پر نصائح فرمائیں۔ ستمبر 2017ء میں لجنہ اماء اللہ یوکے کے اجتماع پر عورتوں کامقام اور حقوق بیان فرمائے۔ 2018ء میں جنوبی ورجینیا، امریکہ میں مسجد مسرور کے افتتاح پرمذہبی آزادی اور رواداری کے موضوع پر روشنی ڈالی۔ 2019ء میں پیرس میں UNESCOکے ہیڈکوارٹرز میں خطاب فرمایا جہاں اسلامی تعلیم کی روشنی میں تعلیم اور خدمت انسانیت پر زور دیا۔
2020ء وہ سال تھا جب دنیا بھر میں کورونا وبا اپنے عروج پر تھی اور معمول کے کام رک سے گئےتھے مگر ان حالات میں بھی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی توجہ امن عالم کےقیام پر مرکوز رہی اور اس دوران بھی آپ بار بار احباب جماعت کو تلقین فرماتے رہے کہ وہ دنیا کے حالات کے لیے دعائیں کریں کہ دنیا کی اصلاح ہو جائے اور وہ خدا تعالیٰ کو پہچاننے والے بنیں کیونکہ اصل امن قائم کرنے کا ذریعہ یہی ہے۔ اسی طرح 2021ء کے اختتام پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ قادیان کے شاملین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’آج کل امن و سلامتی کی باتیں ہوتی ہیں کہ کس طرح دیرپا امن قائم کیا جائے۔ مقامی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک فتنہ و فسا د اور جنگوں کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ یہ بیماری جس نے تمام دنیا کو آج کل ہلا کر رکھ دیا ہے یعنی کووِڈ 19کی بیماری، اس نے بھی دلوں کی کدورتیں دور نہیں کیں، قوموں کے ایک دوسرے پر فوقیت کے خناس کو دور نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کی اس وارننگ سے انسان کوئی سبق نہیں حاصل کر رہا اور اگر یہ رویہ اسی طرح قائم رہا جو لوگوں کا، قوموں کا ہے تو بڑے خطرناک نتائج پیدا ہوں گے۔ بہرحال اس وقت میں اسلام کی امن و سلامتی کی تعلیم کے بارے میں چند پہلوبیان کروں گا جن پر اگر حقیقت میں عمل ہو تو دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ یہی باتیں ہیں جو دنیا کے امن کی ضمانت ہیں جو اسلام نے پیش کی ہیں۔‘‘ (اختتامی خطاب بر موقع جلسہ سالانہ قادیان 2021ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍فروری2022ءصفحہ12)
امن کے قیام کی غرض سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے متعدد خطوط کے ذریعے بھی عالمی لیڈرز اور سربراہان کو اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس دلانے کی کاوش فرمائی۔ اس سلسلے کا آغاز 2011ء میں ہی ہو چکا تھا جب آپ نے پوپ بینیڈکٹ XVIکے نام خط تحریر فرمایا۔ اس کے بعد دیگر لیڈرز کو بھی آپ نے مخاطب فرمایا جن میں ملکۂ برطانیہ، صدر امریکہ، صدر روسی فیڈریشن، چین، برطانیہ اور کینیڈا کے وزیر اعظم، سعودی عرب کے بادشاہ، ایران کے صدر، فرانس کے صدر اور جرمنی کی چانسلر وغیرہ شامل تھے۔ ملکۂ برطانیہ کو خط میں آپ تحریر فرماتے ہیں: ’’خدا کرے کہ جنگ، بد امنی، اور دشمنیوں میں گھری ہوئی دنیا امن، محبت، اخوت، اور اتحاد کا گہوارہ بن جائے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ ملکہ معظّمہ کی سوچ اور سعی اس اہم اور عالی مقصد کے حصول کے لئے نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے…میں ملکہ معظّمہ سے ملتمس ہوں کہ ڈائمنڈ جوبلی کے اس پر مسرت موقع کو بنی نوع انسان کے لئے ایک انعام کے طور پر استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو نصیحت کریں کہ بڑے اور چھوٹے تمام ممالک باہمی محبت، امن، اور رواداری کو فروغ دیں۔ ‘‘
الغرض حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف خود براہ راست لوگوں کو تلقین فرمائی کہ وہ اپنے اپنے دائرہ میں امن کے قیام کی کاوش فرمائیں بلکہ دنیا کے بڑے سربراہان اور معززین کو بھی بار بار اس بات کی توجہ دلائی کہ وہ اس کام میں اپنا کردار ادا کریں۔
اسی طرح ایسے افرادجو دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے کوشش میں ہیں ان کی خدما ت کو سراہنے کے لیے 2009ءمیں حضور انورنے Ahmadiyya Muslim Prize for the Advancement of Peace کے نام سے ایک انعام بھی جاری فرمایا۔ یہ انعام ہر سال ایسے لوگوں کو دیا جاتا ہے جو اپنی فیلڈ میں امن کے قیام کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلا پرائزان کی انسانی حقوق کی خدمات کو سراہتے ہوئے لارڈ ایرک ایوبری کو دیا گیا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ بدستور جاری رہا اور مختلف مر د و خواتین جنہوں نے قیام امن کے لیے اپنی زندگیاں وقف رکھیں کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے پیش کیا جاتا ہے۔
یہ وہ کام ہیں جو براہ راست خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قیام امن کی غرض سے کرتے رہے ہیں۔ تا ہم ہزاروں کام ایسے بھی ہیں جو حضور کے ارشاد پر جماعت احمدیہ کے رضاکاران سر انجام دے رہے ہیں۔ ان میں ہر سال مختلف مقامات پر peace pamphlets کی تقسیم ہے۔ مقامی اور ملکی سطح پرپالیسی ساز احباب سے ملاقات اور ان کو امن کے قیام کے لیے تلقین کرنا۔ اسی طرح مختلف ممالک میں امن کانفرنس کا انعقاد ہے۔ یہ ان کاموں پر ایک سرسری نظر ہے۔
ہیومینٹی فرسٹ اور IAAAEکے تحت خدمت انسانیت کے جو کام ہو رہے ہیں جن میں پانی کی فراہمی، ماڈل گاؤں کا قیام، مفت تعلیم کی فراہمی، آپریشنز کے ذریعہ نظر کی بحالی، یتیم بچوں کی دیکھ بھال، صحت کی فراہمی وغیرہ شامل ہیں، وہ الگ ہیں۔ ان تمام کاموں کے ذریعہ جماعت احمدیہ معاشرے میں موجود بے چینیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
غرض یہ کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس براہ راست خود بھی اور آپ کی نگرانی میں احباب جماعت بھی دنیا بھر میں اپنی آواز اور عمل کے ذریعہ قیام امن کی کاوش میں دن رات ایک کر رہے ہیں۔ تاہم یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ تعلیم کیا ہے جو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزدنیا کو پیش کررہے ہیں؟ لہٰذا خلاصۃً اس تعلیم پر بھی نظر ڈالنا ضروری ہے۔
جیسا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ قادیان 2021ءکے موقع پر فرمایا کہ ہر ایک دیر پا امن کےقیام کا حل تلاش کر رہا ہے۔ مگر وہ امن کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟ 16؍اپریل 2007ءکو Roehampton University Londonسے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ امن کے قیام کے لیے بنیادی ضرورت انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔
اسی موضوع پر 2005ء کے Peace Symposium میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ امن اور ہمدردی خلق کے قیام کے لیے خدا تعالیٰ کی پہچان ضروری ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تقویٰ یہ ہے کہ دل میں خدا تعالیٰ کا خوف ہو تا ہمیشہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ کیونکہ دنیا کو تو دھوکا دیا جاسکتا ہے مگر خدا کو نہیں دیا جاسکتا۔ لہٰذاانصاف کے قیام کے لیے خدا کا خوف لازمی ہے۔ 2012ء میں کیپٹل ہل، یو ایس اےکے خطاب میں اسی موضوع پر مزید روشنی ڈالی اورفرمایا کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ امن اور انصاف کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ یہ وہ اصول ہے جسے دنیا کے تمام باشعور اور دانا لوگ سمجھتے ہیں ‘‘مزید فرمایا: ’’ باوجود اس کے کہ قیام امن کو سبھی اپنا اولین مقصد قرار دیتے ہیں اس امر میں کوئی شک نہیں کہ بالعموم دنیا میں بے چینی اور اضطراب بڑھ رہا ہے اورنتیجۃًً فساد پھیل رہا ہے۔ اس سے یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں انصاف کے تقاضے پامال ہو رہے ہیں۔‘‘
فرمایا: ’’یہ بہت اہم بات ہے جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ انسانی علم اور عقل کامل نہیں ہے بلکہ یقیناً محدود ہے…لیکن خدا کا قانون ناقص نہیں ہے اس لیے اس میں کوئی ذاتی مفادات یا ناانصافی کے امکانات موجود نہیں ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ خدا کو بہر حال اپنی مخلوق کی بھلائی اور بہبود عزیز ہے اس لیے اس کا قانون کلیۃ ً انصاف پر مبنی ہے۔ جس دن لوگ اس اہم حقیقت کو شناخت کر لیں گے اور اسے سمجھ لیں گے یہ وہ دن ہو گا جب حقیقی اور دائمی امن کی بنیاد رکھی جائے گی۔ بصورت دیگر ہم یہ دیکھیں گے کہ قیام امن کے لیے مسلسل کوششیں تو ہورہی ہوں گی مگر یہ کوئی قابل قدر اور ٹھوس نتائج پیدا نہیں کر رہی ہوں گی‘‘۔ (عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ73تا74)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے مندرجہ بالا ارشاد کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ امن کے قیام کے لیے انصاف کا قیام پہلی شرط ہے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے خدا تعالیٰ پر ایمان اور اس کے بتائے گئے قوانین پر عمل ضروری ہے۔ اب اگلاسوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس بارے میں کیا راہنمائی ہے؟ چنانچہ مختلف مقامات پرحضور انور عدل کی تعریف پر بھی روشنی ڈالتے رہے ہیں۔ کیپٹل ہل کے خطاب کے دوران ہی آپ نے شاملین کی توجہ اس طرف پھیری کہ ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح طور پر فرمادیا ہے کہ ہماری قومیتیں اور نسلی پس منظر ہماری شناخت کا ذریعہ تو ہیں لیکن وہ ہمیں کسی قسم کی برتری اور فوقیت کا مستحق نہیں بناتیں۔ چنانچہ قرآن کریم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ تمام لوگ بحیثیت انسان برابر ہیں ‘‘۔ حضور انور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا حوالہ دے کر فرمایا کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی واضح فرمایا کہ سب لوگوں کو بلا امتیاز اور بلا تعصب یکساں حقوق ملنے چاہئیں۔ یہ وہ بنیادی اور سنہری اصول ہے جو بین الاقوامی امن اور ہم آہنگی کی بنیاد رکھتا ہے‘‘۔ (عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ74)
اسی طرح 2012ء میں برسلز میں یورپین پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے ہر امن پسند محفوظ ہو۔ یہ مسلمان کی وہ تعریف ہے جو بانئ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرمائی ہے…چنانچہ مقامی سطح سے لے کر عالمی سطح تک اگر تمام فریق اس سنہری اصول کی پابندی کرنے لگیں تو ہم دیکھیں گے کہ کبھی بھی مذہبی فساد پیدا نہ ہو گا اور کبھی بھی سیاسی مسائل پیدا نہ ہوں گے اور نہ ہی لالچ اور اقتدار کی ہوس کے باعث فساد پیدا ہوگا‘‘۔ (عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ93تا94)
2019ء میں سالانہ Peace Symposiumکے موقع پر آپ نے انصاف کے موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے قرآن کریم کے اس راہنما اصول کو بیان فرمایا کہ انصاف قائم رکھنے کی خاطر اگر کسی شخص کو اپنے خلاف یا اپنے والدین یا اقربا کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو سچائی کی خاطر وہ اس سے رکنے والا نہ ہو۔ اسی طرح متعدد مقامات پرحضور انورنے قرآن کریم کی یہ تعلیم بھی پیش کی کہ’’اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہر گز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو…‘‘(المائدۃ: 9)
2008ء میں اسی آیت کریمہ کی روشنی میں یوکے کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ وہ تعلیم ہے جو معاشرہ میں امن قائم کرتی ہے‘‘۔ اور پھر آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے فتح مکہ کے وقت پر عمل کی مثال دے کر یہ ثابت کیا کہ ایسا ممکن بھی ہے۔ فرمایا: ’’حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے کوئی انتقام نہیں لیا تھا جنہوں نے آپ کو شدید تکالیف دی تھیں۔ آپ نے نہ صرف انہیں معاف کر دیا تھا بلکہ اجاز ت دی تھی کہ وہ اپنے اپنے دین پر قائم رہیں ‘‘۔ (عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ14تا15)
بدلے کے فلسفے پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور انورنے 2006ء میں سڈنی آسٹریلیا میں فرمایا کہ اسلام کی تعلیم کا اصل مقصد بدی کو ختم کرنا ہےلہٰذا اگرعفو اور معاف کرنے سے اصلاح ممکن ہوتو یہ بہتر ہے۔ تا ہم اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر معاملہ کو قانون کے حوالہ کر دینا چاہیے تا بدی کرنے والے کو سزا دی جاسکےمگرسزا میں کسی قسم کی زیادتی کا عنصرنہیں ہونا چاہیے کیونکہ اصل مقصد اصلاح ہے نہ کہ انتقام۔ فرمایایہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے۔
مذہبی رواداری کے حوالے سے بھی امن قائم رکھنے کے لیے آپ مختلف مقامات پر اسلامی تعلیم پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ 25؍جون 2008ءکو کینیڈین معززین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایک مذہب کو پرکھنے کے لیے اس کے بانی کی تعلیم اور عمل پر نظر ڈالی جائے نہ کہ بعد میں آنے والوں کے عمل کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے۔ اسی طرح یورپین پارلیمنٹ میں 2008ءمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’حقیقی عدل کا تقاضا ہے کہ ان لوگوں [مسلمانوں]کے جذبات اور مذہبی سرگرمیوں کا بھی احترام کیا جائے۔ یہ وہ طریق ہے جس کو اختیار کر کے لوگوں کے ذہنی اطمینان کو قائم رکھا جاسکتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب کسی فرد کا ذہنی اطمینان اٹھتا ہے تو پھر معاشرہ کا امن بھی متاثر ہوتا ہے‘‘۔ (عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ13)
الغرض حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسلامی تعلیم کی روشنی میں یہ واضح کیا کہ انصاف کن بنیادوں پر قائم کیا جاسکتا ہے۔ تاہم کیا دیر پا امن اور خوشحال معاشرے کے لیےانصاف کا واحد ذریعہ ہے؟ نہیں بلکہ پہلا اور بنیادی قدم ہے۔ اس کی تفصیل میں جاتے ہوئے 16؍اپریل 2007ءکو Roehampton University Londonمیں خطاب فرماتے ہوئے آپ نے سورۃ النحل کی آیت نمبر91پیش فرمائی جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’یقیناً اللہ عدل کا اور احسان کا اوراقرباء پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم عبرت حاصل کرو‘‘۔
فرمایا کہ یہ آیت تین اچھائیوں اور تین برائیوں کا ذکرکرتی ہے۔ تین اچھائیوں میں (1)عدل، (2)لوگوں کے ساتھ احسان سے پیش آنا اور (3)رشتہ داروں کو عطا کرنا شامل ہے۔ اور تین برائیاں (1)بے حیائی (2)ناپسندیدہ عمل اور (3)بغاوت ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر غور کیا جائے تو یہ تین اچھائیاں ہی معاشرے میں امن کے قیام کے لیے بنیادی جزو ہیں جبکہ اس کے برعکس یہ تین برائیاں ایسی ہیں جو امن کو تباہ کرتی ہیں۔
6؍مئی 2006ء کو آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ نیوزی لینڈ کے موقع پر باہمی محبت کے تعلق پر فرمایا کہ مخلوق کے مابین محبت اور ہمدردی کا ایسا جذبہ ہو نا چاہیے کہ کسی کی ہلکی سی تکلیف پر بھی درد محسوس کرنے والے ہوں۔ پھر خواہ سامنےمخالف ہو، جو ہر وقت تکلیف پہنچانے کی کوشش میں ہوتا ہے، اس کوبھی کبھی کوئی مشکل آجائے تو تم اس کے لیے دعا کرو کہ اس کی تکلیف دور ہو جائے اور اس کی اصلاح ہو۔
8؍نومبر 2008ء کو بیت العافیت شیفیلڈ ،یوکےکے افتتاح پر فرمایا کہ اس وقت دنیا کو سب سے زیادہ ضرورت رواداری کی ہے۔ جیسےجیسے دنیا آپس میں قریب ہو رہی ہے اور ایک گلوبل ولیج بنتی جارہی ہے، اس بات کی ضرورت ہے کہ نفرت اور بدنیتی کی جگہ پیار، محبت اور تحمل کو اختیار کیا جائے۔ ہمیں ایک دوسرے کے احساسات کا خیال رکھنا ہوگااور ایک دوسرے کے مذہب سے احترام اور تعظیم سے پیش آنا ہوگا۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ فرمایا ہمارا یہ نعرہ کہ محبت سب کے لیے اور نفرت کسی کے لیے نہیں دراصل اسی تعلیم پر مبنی ہے یعنی جہاں نفرت اور بدنیتیں موجود ہوں وہاں حقوق کی حفاظت نہیں کی جاسکتی۔
ساتویں سالانہ Peace Symposiumکے موقع پر فرمایا کہ اگر کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے قربانی کرنی پڑتی ہے اور جتنا بڑا مقصد ہو اتنی بڑی قربانی کی ضرورت ہے۔ جب یہ سنہری اصول بھول جائے کہ اپنے بھائی کے لیے وہ ہی خواہش کرو جو اپنے لیے کرو، تو یہ اور اس سے ملتی جلتی وجوہات ہیں جن سے امن کی دھجیاں اڑا ئی جاتی ہیں۔
عالمی سطح پر ملکوں کے آپس میں امن قائم کرنے کے حوالے سے فرمایا کہ امن عالم کی ضمانت کے لیے ضروری ہے کہ ہر ملک اپنے ذرائع سے استفادہ کرے اور دوسرے ملکوں کی دولت کو حاسدانہ رنگ میں نہ دیکھے۔ (کینیڈین معززین سے خطاب فرمودہ25؍جون 2008ء)ترقی یافتہ ممالک کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کی مدد کریں تا وہ اقتصادی طور پرآزاد ہو سکیں اور اپنے ہی ذرائع استعمال کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں اور اپنی معیشت کو مضبوط کر سکیں۔ مزید فرمایا کہ جب ہر ملک دوسرے ملک کو برابر سمجھے گا تو اجارہ داری کا خیال نہ پیدا ہوگا اور نہ یہ خیال پیدا ہوگا کہ ہم نے غریب ملک کی صرف تب مدد کرنی ہے جب وہ بالکل تباہی کے کنارے کھڑے ہوں اور ہم کچھ امداد کر کے یہ اعلان کرتے پھریں کہ دیکھو ہم غریب ممالک کی کتنی امداد کرتے ہیں۔ فرمایا: جب تک یہ سوچ ختم نہ ہوگی، بے چینی اور امن کا فقدان قائم رہے گا۔ (خطاب Roehampton University London فرمودہ 16؍اپریل2007ء)
اسی موضوع پر کیپٹل ہل کے خطاب کے موقع پر فرمایا: ’’غریب اور کمزور ممالک کو نہیں چاہیے کہ وہ طاقتور اور امیر ممالک کو نقصان پہنچانے کے موقع کی تلاش میں رہیں بلکہ دونوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ انصاف کے اصولوں کی پوری پوری پابندی کریں۔ درحقیقت مختلف ممالک کے مابین پر امن تعلقات قائم رکھنے کے لیے یہ ایک بہت ہی اہم بات ہے۔
…گزشتہ چھ سات عشروں میں اقوام متحدہ نے کئی ایسے پروگرام شروع کئے ہیں اور کئی ایسی فاؤنڈیشنز بنائی ہیں جن کا مقصد غریب ممالک کی مدد کرنا ہے تا کہ وہ ترقی کرسکیں۔ اس کوشش میں انہوں نے ترقی پذیر ممالک کے قدرتی وسائل کو چھان مارا ہے لیکن ان کوششوں کے باوجود ان ممالک میں سے کوئی ایک ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کی سطح تک نہیں پہنچا ہے۔ اس کی ایک وجہ یقیناً ان غریب ممالک کی حکومتوں کی وسیع کرپشن ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اس کے باوجود اپنے مفادات کے حصول کے لیے اس قسم کی حکومتوں کے ساتھ چلتے جارہے ہیں۔ تجارتی و کاروباری معاہدے بھی ہورہے ہیں اور امداد بھی فراہم کی جارہی ہے۔ اس کے نتیجہ میں معاشرہ کے غریب اور محروم طبقات کی بےاطمینانی اور بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور یہ صورت حال ان ممالک میں اندرونی فساد اور بغاوت پر منتج ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے عوام اس قدر مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے رہنماؤں کے بلکہ بڑی طاقتوں کے بھی خلاف ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ شدت پسندوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جنہوں نے ان کی مایوسیوں کا فائدہ اٹھایا ہے اور ان کی اس امر میں حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور ان کے نفرت انگیز نظریات کو آگے بڑھائیں۔ اس کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کا امن تباہ ہو چکا ہے‘‘۔ (عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ76تا77)
غرض یہ کہ بعض اوقات اچھے کاموں میں بھی اگر بری نیت کی ملونی ہو تو اس کا نتیجہ خطرناک نکل سکتا ہے۔ فرمایا کہ اگر غریب ممالک امیر ملکوں کی مدد چاہتے ہیں تو چاہیے کہ اپنے تنظیمی ڈھانچے میں بہتری لائیں، تعلیم کی دستیابی میں آسانی پیدا کریں اور غربت کو دور کرنے میں مدد کریں۔ وہ تمام ممالک جن کی امداد کی جارہی ہے ان کو ایک مدت کے لیے کام کا ہدف دینا چاہیے اور تنبیہ کرنا چاہیے کہ اگر وہ اس ہدف کو پورا نہیں کریں گے تو ان کی امداد کو روک دیا جائے گا۔ اس سے ان ممالک کے لوگوں میں احساس ذمہ داری پیدا ہوگی اور ان کے ساتھ یہ ایک نیکی ہوگی جس سے ان ممالک میں امن کے قیام میں مدد ملے گی۔ (خطاب برموقع Peace Symposium 2007)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطابات کے ذریعہ یہ بھی واضح کیا کہ اسلامی تعلیم کے مطابق جنگ کی اجازت صرف تب ہے جب آپ پر حملہ کیا جائے یا آپ کے حقوق ضبط کیے جارہے ہوں اور اس صورت میں بھی کسی قسم کے تجاوز کی اجازت نہ ہے۔ (خطاب کینیڈین معززین، 25؍جون2008ء)اس نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اگر انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں تو کبھی جنگ کی نوبت ہی نہ آئے۔ تاہم اگر پھر بھی دو ممالک کے بیچ میں جنگ ہو جائے تو اس حوالے سے راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ایسا ملک جو تمام حدود سے تجاوز کرتا ہے، اس کے ساتھ جنگ کی جاسکتی ہے مگر یہ جنگ صر ف تب تک کی جائے جب تک ایسا ملک ظلم کرنے سے باز نہ آجائے اور جب وہ ظلم سے رک جائے تو پھر اس ملک کے تمام لوگوں کو سابقہ غلطیوں پر سزا دیتے چلے جانے اور ان سے انتقام لینے کے بہانے تلاش نہیں کرنے چاہئیں۔ (خطاب برموقع Peace Symposium 2007)
مزید فرمایا کہ یہ خوبصورت تعلیم دنیا میں امن قائم کرسکتی ہے بشرطیکہ ہم اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات سے بالا ہو کر سوچیں۔ صرف تب ہی ہم اس تعلیم پر عمل کر سکتے ہیں۔ جب یہ سوچ قائم ہو جائے گی تو اگر ایک ملک آپ کے خلاف جنگ کرے خواہ وہ پڑوسی ملک ہو یا دور کا ہو تو تمام ممالک کو مل کر اس کو تنبیہ کرنی چاِہیے کہ اگر تم نے جنگ کی یا کسی دوسرے ملک کے امن کو برباد کرنے کی کوشش کی تو ہم سب مل کر تم سے جنگ کریں گے۔ فرمایا اگر آج United Nationsاس اصول کو تمام ممالک کے لیےاپنائے چاہے وہ کمزور ہو یا طاقتور، تو تمام ایسی سازشیں جن کا مقصد دوسرے ملکوں کے وسائل پر قبضہ کرنا یا ان کو زیر کرنا ہے، کو جڑ سے اکھیڑا جاسکتا ہے۔
مزید فرمایا کہ اگر دوممالک میں کسی اختلاف پر جنگ ہو جائے تو بقیہ تمام ممالک کو مل کرانصاف کے تمام تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ہر تعصب سے ہٹ کر مسئلہ کا حل تلاش کر نا چاہیے۔ اگر یہ معیار رکھا جائے توجنگ میں ملوث ممالک کو ایسے ثالثی کا فیصلہ ماننا پڑے گا۔ اگر ان میں سے کوئی ملک ماننے سے انکار کرے اور جنگ پر بضد ہو تو تمام بقیہ ممالک مل کر اس کے ساتھ جنگ کا اعلان کریں۔ تا ہم کوئی ملک بھی تمام دنیا کی متحدہ فوج سے نہیں لڑ سکے گالہٰذا اس کو ہتھیار ڈالنے پڑیں گے۔ پھر جب وہ امن پر رضامند ہو جائے تو انصاف اور مساوات کی روح کو قائم رکھتے ہوئے بنیادی مسئلہ کو اس طریق پر حل کیا جائےکہ اس میں کسی ملک کو کوئی شکایت کا موقع نہ ملے۔
مزید فرمایا کہ League of Nationsنے ان اصولوں کی پیروی نہیں کی اور اسی وجہ سے ناکام رہی۔ آج United Nations Organizationبھی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ مختلف ممالک اور مختلف بر اعظموں کے لیے انصاف کے فرق معیار قائم کیے جاتے ہیں۔ فرمایا جب تک کہ تمام ممالک کے ساتھ یکساں اور برابر سلوک نہیں کیا جائے گا، جب تک رنجشوں اور ناانصافی کے احساس کو نہیں ختم کیا جائے گا، جتنی مرضی تنظیمیں قائم کر لی جائیں، دنیا میں امن نہیں قائم کر سکیں گی۔ (خطاب برموقع Peace Symposium 2007)
United Nationsکی ویٹو پاور پر تنقید کرتے ہوئے جلسہ سالانہ جرمنی 2010ء کے موقع پر فرمایا کہ United Nationsایک ایسا ادارہ ہے جس کے بدارادے اسی سے واضح ہو جاتے ہیں کہ بعض سپر پاورز کو ویٹو پاور دی گئی ہے۔ ان سپر پاورز نے اپنے لیے فرق اصول اپنائے ہیں اور کمزور ممالک کے لیے فرق۔ کیا امن اس طرح قائم ہو سکتا ہے؟ 2012ء میں یورپین پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’ویٹو پاور کا اختیار کسی بھی صورت امن قائم نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے مطابق واضح طور پر تمام ممالک برابری کی سطح پر نہیں ہیں ‘‘۔ یورپین پارلیمنٹ سے ہی خطاب میں فرمایا کہ مختلف تنازعوں میں دنیا کی بڑی طاقتوں کے رویہ میں دوغلہ معیار نظر آتا ہے جس سے بے چینی پیدا ہورہی ہے اور دنیا کا امن خراب ہورہا ہے۔ لہٰذا اس دوغلہ پن کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا میں اتحاد قائم کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: ’’درحقیقت اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہمیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ تمام دنیا باہم ایک ہو جائے۔ کرنسی کے معاملہ پر ساری دنیا کو متحد ہونا چاہیے، فری بزنس اور ٹریڈ میں بھی تمام دنیا کو متحد ہونا چاہیے اور آمد و رفت کی آزادی اور امیگریشن کے متعلق ٹھوس اور قابل عمل پالیسیاں بنانی چاہئیں تاکہ دنیا باہم مل جائے۔ درحقیقت ممالک کو ایک دوسرے سے تعاون کے مواقع تلاش کرنے چاہئیں تا کہ تفریق کو اتحاد میں بدلا جاسکے ‘‘۔ (عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ93)
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اب جبکہ دنیا کے حالات انتہائی تیزی سے بگڑتے جارہے اور اکثر تبصرہ نگار تیسری جنگ عظیم کی باتیں کر رہے ہیں، حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دور بین نگا ہ نے ایک لمبا عرصہ پہلے اس خطرہ کوبھانپ لیا تھا اور دنیا والوں کو متعدد موقعوں پر اس حوالے سے تنبیہ بھی کرتے رہے۔ چنانچہ 22؍اکتوبر 2008ء کو ہاؤس آف پارلیمنٹ یوکے سے خطاب کے دوران آپ نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ جس سمت میں دنیا جارہی ہےاور ملکوں کے جو سیاسی اور اقتصادی حالات ہیں، یہ ہمیں جنگ عظیم کی طرف نہ لے جائیں۔ اس سے صرف غریب ممالک متاثر نہیں ہورہے بلکہ امیر ممالک بھی زیر اثر ہیں۔ لہٰذا یہ سپر پاورز کا فرض ہے کہ وہ مل بیٹھ کر کوئی حل تلاش کریں تا انسانیت کو تباہی سے بچا سکیں۔
اس حوالے سے مزید تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسی جنگ کے اثرات صرف جنگ یا ایک نسل تک محدود نہ ہوں گے بلکہ اس کے خطرناک نتائج کا اثر اگلی کئی نسلوں تک ہو گا۔ ایسی جنگ کا ایک المناک اثر نئے پیدا ہونے والے بچوں پر ہو گا۔ آج کل جو ہتھیار موجود ہیں اتنے تباہ کن ہیں کہ اگلی کئی نسلوں میں پیدا ہونے والے بچوں میں جسمانی نقائص پیدا کرسکتے ہیں۔ پینے کا پانی، خوراک، زراعت سب تابکاری کے باعث آلودہ ہو جائیں گے۔ فرمایا کہ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں جاپان میں 30لاکھ افراد مارے گئے جو ان کی آبادی کا 4فیصدتھا اور باوجود اس کے کہ بعض اور ممالک میں اس سے زیادہ موتیں ہوئیں جو جنگ کے لیے نفرت جاپان میں نظر آتی ہے وہ کہیں اور نہیں نظر آتی اور اس کی بنیادی وجہ وہ ایٹمی بم ہیں جو جاپان پر پھینکے گئے اور اس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ فرمایا جاپان نے تو اپنی عظمت اور محنت کے نتیجے میں جلد اپنے علاقوں کی بحالی کو یقینی بنا لیا تا ہم اگر آج ایٹمی بم کا استعمال کیا جائے تو عین ممکن ہے کہ بعض ممالک دنیا کے نقشہ سے ہی مٹا دئے جائیں۔ ان کا وجود ہی ختم ہو جائے۔ (خطاب برموقع Peace Symposium 2012)
اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےدنیا والوں کی توجہ اس طرف بھی پھیری کہ کسی بھی مسئلہ کو چھوٹا نہ سمجھا جائے بلکہ چھوٹے اور بظاہر معمولی مسئلے ہی اگر وقت پرحساس طریق پر حل نہ کیے جائیں تو بڑھتے بڑھتے خطر ناک نتائج پیدا کر دیتے ہیں۔ فرمایا: تاریخ اس بات کی گواہ ہے اور پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں یہی کچھ ہوا تھا۔ (خطاب برموقع Peace Symposium 2013)
اسی موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ
’’…امن و سلامتی کے بہت سے پہلو ہیں، جہاں ہر ایک پہلو اپنی ذات میں اہمیت کا حامل ہے وہاں یہ بھی نہایت اہم ہے کہ ہر پہلو دوسرے پہلو سے باہمی ربط رکھتا ہے‘‘فرمایا: ’’ایک شہر کی امن کی صورتحال پورے ملک کی مجموعی صورتحال پر اثر انداز ہوگی اور پھر پورے ملک کی صورتحال ریجن یا تمام دنیا کے امن و سکون پر اثر ڈالے گی ‘‘۔ (عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ90)
لہٰذا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس پہلوکی طرف بھی توجہ دلائی کہ امن عالم کے لیے ملکوں میں اندرونی طور پر بھی امن کا قیام ضروری ہے۔ اس کے لیے آپ نے حکومت کو بھی اور شہریوں کو بھی ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا۔ چنانچہ آپ نے حکومتوں کو تلقین فرمائی کہ اپنے ملکوں میں برابری کی سطح پر انصاف قائم کریں۔ بنیادی سہولیات مثلاً خوراک، تعلیم اور صحت کو مہیا کرنے کی کوشش کریں۔ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال دی کہ جب قحط آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام افراد کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے گھر کا تمام سامان لے کر آئیں جس کے بعد سارا کھانا تمام شہریوں میں برابری کے تناسب سے تقسیم کر دیا گیا تا ایک مشکل وقت میں مصلحت کے تحت بے چینی کو ختم کیا جاسکے۔ (خطاب برموقع Peace Symposium 2009)
اسی طرح فرمایا کہ حکومتوں کوایسے موقعوں پر دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے جہاں پر حقوق ضبط نہ کیے جارہے ہوں اور نہ ہی ایسے معاملات کے متعلق قوانین تشکیل دیے جائیں جو امن کو نقصان پہنچانے کا باعث نہ ہوں۔(خطاب برموقع Peace Symposium 2013)
آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےملک کے عوام کو بھی نصیحت فرمائی کہ ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ چنانچہ 28؍اکتوبر 2016ء کوYork University Torontoمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم مسلمانوں کو اپنی امانتوں کے حق ادا کرنے کی تلقین فرماتا ہےچاہے وہ ذاتی سطح پر ہوں یا اجتماعی۔ ذاتی امانتوں میں ایک شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ دوسرے کی جائیداد یا حقوق کو ضبط کرلے یا ان کی طرف جو اس کی ذمہ داریاں ہیں ان کے ادا کرنے میں غفلت کا مظاہرہ کرے۔ اجتماعی امانتوں میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ہر ایک شہری کا فرض ہے کہ وہ ایسے عہدیداران کا انتخاب کرے جو ان کے ملک کی بہتری کے لیے سب سے زیادہ مفید ہوں۔ جب انتخابات اور نامزدگیوں کا وقت آئے تو خود بخود اپنے اتحادی یا پارٹی ممبر کے لیے ووٹ نہ دے بلکہ یہ دیکھا جائے کہ اس کام کے لیے سب سے زیادہ اہل اور موزوں کون ہے۔ اور جب کوئی منتخب کیا جائے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایمانداری، سالمیت اور انصاف سے حکومت کرے۔
اسی طرح فرمایا کہ عوام کو بھی یہ مشورہ دیا جائے کہ وہ کسی قسم کا فساد نہ کریں اور نہ ہی ایسا قدم اٹھائیں جس سے ان کے ملک کی معیشت کونقصان ہو۔ فرمایا پاکستان میں مئی(2010ء)میں 86احمدی مسلمانوں کو نماز جمعہ ادا کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔ ہم نےاس سانحہ کو صبر سے برداشت کیا۔ انڈونیشیا میں، ہمارے احمدیوں کو انتہائی وحشیانہ طریق پراور بے دردی سے شہید کر دیا گیا مگر ہم نےکسی قسم کے جوابی تشدد کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی خفیہ حملوں کی منصوبہ بندی کی۔ فرمایا خدا کی رضا کی خاطر احمدی مسلمان ہر قسم کے فساد سے دور رہتے ہیں اور یہی طرز عمل ایک دن دنیا کو انارکی سے بچائے گا بلکہ امن کی ضمانت ہو گا۔ مزید فرمایا کہ دنیا کے لوگوں کو صرف اپنے حقوق کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ دوسروں کے فرائض اور فلاح و بہبود کے لیےبھی فکر مند رہنا چاہیے۔ (خطاب برموقع Peace Symposium 2011)
یہ اس تعلیم کا مختصر خلاصہ ہے جو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے دَور میں قیام امن کے لیے پیش کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف اٹھنے والے مسائل پر بھی آپ ہمیشہ دنیا والوں کی راہنمائی فرماتے رہے ہیں۔ مثلاً جہادی تنظیموں پر واضح کیا کہ ایک شخص جو فوج کا حصہ نہ ہو اور کسی پر حملہ کرے تو اس کو جہاد نہیں بغاوت کہتے ہیں۔ بین الاقوامی معاشی بحران پر آپ نے اسلامی تعلیم کی روشنی میں فرمایا کہ دراصل اس کی بنیادی وجہ سودہےجس کی اللہ تعالیٰ نے ممانعت فرمائی ہے۔ عورتوں کے حقوق پر گفتگوکرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورتوں پر فرق فرق ذمہ داریاں عائد فرمائی ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ برابر نہیں۔ آزادیٔ اظہار کے موضوع پر فرمایا کہ اس کی آڑمیں مذہبی پیشواؤں پر طنز کرنا آزادی اور دانائی نہیں بلکہ انسانیت کے نام پر دھبہ ہے۔ Radicalizationکے حوالے سے فرمایا کہ اس کی ایک بڑی وجہ تعلیم یافتہ لوگوں کو روزگار نہ ملنا ہے۔ Immigrationکے حوالے سے فرمایا کہ حکومتوں کو آنے والے مہاجرین کی تسلی کر لینی چاہیے کہ کہیں مخالفت کا بہانہ بنا کر انتہا پسند لوگ ان ملکوں میں داخل تو نہیں ہو رہے؟ مزید فرمایا کہ Immigrationکے حوالے سے جو مشکلات پیدا ہورہی ہیں ان کو بھی حل کرنے کی ضرورت ہے جس میں مقامی لوگ اور مہاجرین دونوں قصور وار ہیں۔ فرمایا: ’’جہاں تک مہاجرین کا تعلق ہے انہیں بخوشی نئے معاشرہ میں ہم آہنگ ہونا چاہیے اور مقامی افراد کو چاہیے کہ وہ نئے آنے والوں کے لیے اپنا دل کھولیں اور برداشت کا مظاہرہ کریں۔ ‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ92)
داعش کے قیام کے حوالے سے فرمایا کہ دنیا کو یہ امر دیکھنا چاہیے کہ ایسے گروپس کے پاس فنڈز کہاں سے آتے ہیں؟ اتنے اعلیٰ ہتھیار کہاں سے آتے ہیں؟ فرمایا کہ کیا ان کے پاس اس کے کارخانے یا فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں؟ فرمایا واضح ہے کہ بعض بڑی طاقتیں ان کی امداد اور حمایت کر رہی ہیں۔ (خطاب برموقع Peace Symposium 2014)ہتھیاروں کی تجارت کے بارے میں فرمایا کہ چاہیےکہ طاقتور ممالک اپنے عارضی مفاد کی خاطرہر ایک سےبغیر کسی روک کے معاہدے نہ کرتے پھریں کہ اس سے دنیا کا امن خراب ہورہاہے۔
الغرض دنیا میں کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں جس پر خلیفۃالمسیح کی نظر نہ ہو اور جس کے لیے آپ دنیا والوں کی راہنمائی نہ فرمارہے ہوں۔ آج کل ایک بار پھر دنیا انتہائی تیزی سے تیسری جنگِ عظیم کی طرف اپنے قدم بڑھا رہی ہے۔ روس اور یوکرائن کی جنگ دنیا میں انتہائی بے چینی کے سامان پیدا کر رہی ہے۔ اس حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’گزشتہ کئی سالوں سے میں دنیا کی بڑی طاقتوں کو متنبہ کرتا چلا آیا ہوں کہ انہیں تاریخ سے، بالخصوص بیسویں صدی میں ہونے والی دو تباہ کن عالمی جنگوں سےسبق حاصل کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں میں نے مختلف اقوام کے سربراہوں کو خطوط لکھ کر پُر زور توجہ دلائی کہ اپنےقومی اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر معاشرے کی ہر سطح پر حقیقی انصاف کو قائم کرتے ہوئے دنیا کے امن و سلامتی کو ترجیح دیں …اب بھی وقت ہے کہ دنیا تباہی کے دہانےسے پیچھے ہٹ جائے۔ میں روس، نیٹو، اور تمام بڑی طاقتوں کو پر زور تلقین کرتا ہوں کہ وہ اپنی تمام تر کوششیں انسانیت کی بقا کی خاطر تنازعات کو ختم کرنے میں صرف کریں اور سفارتی ذرائع سے پر امن حل تلاش کریں۔ ‘‘(پریس ریلیز 24؍فروری 2022ءبحوالہ الفضل انٹرنیشنل یکم مارچ2022ءصفحہ1تا2)
اللہ کرے کہ دنیا والے اب بھی آپ کے پیغام کی قدر کریں اور اپنے آپ کو تباہی سے بچالیں۔ مضمون کا اختتام میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعا کے الفاظ میں کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں: ’’مَیں دعا کرتا ہوں کہ آج بھی اور آئندہ بھی دنیا کے راہ نما جنگ، خون ریزی اور تباہی کے عذاب سے بنی نوع انسان کو محفوظ رکھنے کے لیے بھر پور کردار ادا کریں۔ اور میں دل کی گہرائی سے دعا گو ہوں کہ بڑی طاقتوں کے سربراہ اور ان کی حکومتیں ایسے اقدامات نہ اٹھائیں جو ہمارے بچوں اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو تباہ کرنے والے ہوں۔ بلکہ ان کی ہر کوشش اور جد و جہد اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہونی چاہیے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لیے خوشحال اور پر امن دنیا چھوڑ کر جائیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ عالمی راہ نما وقت کی نزاکت کا احساس کرنے والے اور دنیا میں قیام امن اور استحکام کو یقینی بنانے کی ذمہ داری کو بہترین انداز سے نبھانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ تمام معصوم اور نہتے لوگوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور دنیا میں حقیقی اور پائیدار امن قائم ہو۔ آمین‘‘(پریس ریلیز 24؍فروری 2022ءبحوالہ الفضل انٹرنیشنل یکم مارچ2022ءصفحہ2)
٭…٭…٭