اطاعت خلافت اور نعمائے الٰہی کا نزول
خلیفہ ٔوقت کی زبان مبارک سے جو بات نکلتی ہے خدا تعالیٰ کی تقدیرِ غالب اسے ضرور ثمرآور کرتی ہے۔
اطاعت خلافت سے متعلق ایک واقعہ قارئین الفضل انٹرنیشنل کے لیے اختصار سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں، اس واقعہ کامیں عینی شاہد ہوں۔ مقصد یہ ہے کہ جن دوستوں کا ان میں ذکر ہے احباب انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ یہ واقعہ 24؍مئی 1970ء کا ہے جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ مغربی افریقہ کے دورہ سے فارغ ہوکر لندن تشریف لائے اور حضور نے نصرت جہاں سکیم(Leap forward) کے تحت افریقہ میں اسکولوں اور طبی مراکز کے منصوبہ کا اعلان مسجد فضل لندن میں فرمایا۔ خاکسار ان دنوں نائب امام مسجد فضل لندن اور سیکرٹری مال یوکے کے فرائض بھی دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ادا کر رہا تھا۔ جماعت چھوٹی سی تھی۔ سوائے چند ایک کے اکثر احمدی احباب کا مشاہرہ ان دنوں میں 2 پاؤنڈ یومیہ تھا۔ برٹش ایئرلائنز میں بھاری تعداد میں احباب ملازم تھے۔ احمدی خواتین اپنے گھروں اور بچوں کی تربیت کی طرف توجہ کرتی تھیں۔ احمدیوں کا ماحول بالعموم بہت پاکیزہ تھا۔ سب سادگی اور غربت کے ساتھ اپنے دین کی حفاظت کے امین تھے۔ شادی بیاہ کے مسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔ ہماری مالی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سردیوں میں جماعت مسجد فضل لندن میں ہیٹنگ کے نظام کی موجودگی کے باوجودہیٹنگ استعمال نہیں کر سکتی تھی کیونکہ اس کے بھاری بل کی متحمل نہیں تھی۔ مسجد فضل کے اندر داخل ہوتے ہوئے بائیں طرف عورتوں کے لیے ایک مستقل لکڑی کی پارٹیشن بنوائی ہوئی تھی۔ جمعہ پر عورتوں کی حاضری زیادہ ہوتی تھی کیونکہ وہ کام نہیں کرتی تھیں۔ مرد پندرہ یا بیس آجاتے تھے اور عورتیں قدرے زیادہ۔ سردیوں میں مسجد میں صرف جمعہ ادا ہوتا تھا باقی نمازیں 63میلروز روڈ (مشن ہاؤس )میں ادا ہوتی تھیں۔ گنتی کے چند احمدیوں کے پاس کاریں تھیں جو اگر جمعہ پر آتے تو مسجد کے جنوبی جانب کاریں پارک کرتے تھے۔ بالعموم دوکاروں سے زیادہ نہیں ہوتی تھیں۔ کاروں والے احباب مکرم عزیز دین صاحب، مکرم مولوی عبدالکریم صاحب، مکرم مولوی عبدالرحمٰن اور چودھری محمد اشرف صاحب تھے۔ یہ سبھی لوگ مسجد کے قریب SW 18 میں رہنے والے تھے سوائے ایک دوست کے جو Battersea Rise میں مقیم تھے اس لیے اکثر پیدل ہی اپنی بیویوں کے ہمراہ آ جاتے تھے۔ بچے اسکولوں میں ہوتے تھے۔ یہ لمبی تمہید اس لیے بیان کی ہے تا آپ کو علم ہو سکے کہ اس غربت کے زمانے میں بڑی مالی قربانی کرنے والے دوست کس اعلیٰ روحانی مقام پر فائز تھے۔ مجھے یاد ہے 1968-69ء میں خان بشیر احمد صاحب رفیق امام مسجد فضل لندن چند ماہ کی رخصت پر پاکستان گئے ہوئے تھے۔ خاکسار قائم مقام امام کے طور پر خدمت کر رہا تھا۔ سارے یوکے میں صرف 3 مبلغین تھے۔ مکرم بشیر احمد صاحب آرچرڈ گلاسگو( سکاٹ لینڈ) میں متعین تھے۔ ایک دن انہوں نے فون کرکے مجھے بتایا کہ انہوں نے اپنی وصیت 3/1 حصہ کی کر دی ہے۔ انہیں نہایت معمولی گزارہ الاؤنس ملا کرتا تھا۔ حضرت چودھری محمد ظفر اللہ صاحبؓ اس وقت خاکسار کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ خاکسار نے انہیں یہ اطلاع دی تو پنجابی محاورہ میں فرمانے لگے: گنجی نہانا کی تے نچوڑنا کی۔ یعنی پہلے ہی محدود گزارہ الاؤنس مل رہا تھا اب ایک بٹا تین حصہ آمد ادا کرکے باقی کیا رہےگا۔
آمدم بر سر مطلب خاکسار سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کیا یوکے جماعت 10 ہزار پاؤنڈ ادا کرسکے گی؟ خلیفہ ٔوقت کی زبان مبارک سے جو بات نکلتی ہے خدا تعالیٰ کی تقدیرِ غالب اسے ضرور ثمرآور کرتی ہے۔ چنانچہ اس غریب جماعت نے اس سے بڑھ کر اپنے آقا کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ جیسا کہ اوپر خاکسار ذکر کرآیا ہے کہ اس زمانے میں سوائے چند ایک ڈاکٹروں اور اساتذہ یا ذاتی کاروبار کرنے والوں یا اچھے عہدوں پر کام کرنے والوں کے اکثر احباب 2 پاؤنڈز یومیہ یا اس سے کم مشاہرہ لیتے تھے۔ جماعت میں یہ تحریک کی گئی کہ جو احبابِ جماعت دو سو پاؤنڈ زکا وعدہ کریں گے وہ ایک غیر معمولی قربانی کے طور پر شمار ہوگا۔ یہ تحریک حضرت خلیفہ ثالث رحمہ اللہ کے ایما پر کی گئی تھی۔ میرے ایک ہردلعزیز دوست یعنی سید خورشید احمد صاحب جو بعد میں برمنگھم سے Woking آ گئے تھے جن کی تنخواہ بہت معمولی تھی اور آخر تک معمولی گزراوقات تنگدستی سے کرتے رہے۔ انہوں نے اپنی شادی کے لیے پیسہ پیسہ جوڑ کر دو صد پاؤنڈز جمع کیے ہوئے تھے۔ بیگم کو پاکستان سے بلوانا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ یہ رقم نصرت جہاں اسکیم کے لیے ادا کر رہے ہیں اور شادی کا ارادہ فی الحال ملتوی کر رہے ہیں۔ اس عاجز نے حضور رحمہ اللہ کی خدمت اقدس میں اس قربانی کا ذکر کیا اور درخواست دعا کی۔ مجھے یاد پڑتا ہےکہ حضورؒ نے اس قربانی کا اغلباً اپنی تقریر میں بھی ذکر فرمایا تھا۔ مکرم خورشید احمد صاحب کی بعد میں شادی ہوئی۔ آپ کو ووکنگ کے صدر جماعت، سیکرٹری رشتہ ناطہ یو کے اور ریجنل امیر کے طور پر لمبے عرصے تک خدمت کی توفیق ملی۔ ان کی بڑی بیٹی منورہ، بیٹا قمر احمد مخلص احمدی ہیں۔ سید خورشید احمد صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ وفات پا چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو ہمیشہ خدمت دین کی توفیق سے نوازتا رہے اور اطاعت خلافت کی سعادت و برکت ان کی اولاد در اولاد میں جاری و ساری رہے۔ آمین اللّٰہم آمین
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد سعادت مآب میں جن صحابہ کرام نےدو دو چارچار آنے کی قربانی کی تھی وہ قیامت تک امر ہو گئے۔ اصل بات تو روح اطاعت کی ہے۔ سید خورشید احمد صاحب نے کئی سال تک اپنی شادی ملتوی کیے رکھی۔ عجیب جاں نثار، سرفروش، عجز و انکسار کی درخشندہ مثال تھے۔ ان کے ذکر کے ساتھ یہ شعر میری زبان پر آجاتا ہے
یہ کس دیار میں کن ہستیوں کی یاد آئی
کہ جل اٹھے میری پلکوں پہ آنسوؤں کے چراغ
٭…٭…٭