خلیفہ وقت کی راہنمائی سے خوف کا امن میں بدل جانا(قسط اوّل)
خلفائے راشدین اور خلفائے احمدیت کے واقعات کی روشنی میں
تاریخ اسلام اور تاریخ احمدیت گواہ ہے کہ جب بھی مومنین پر خوف کا وقت آیا تو خلیفہ وقت کے بروقت فیصلوں اور راہنمائی کے نتیجے میں حالتِ خوف امن میں بدل گئی
سورۃ النور آیت 56 جسے ہم عرف عام میں آیت استخلاف کہتے ہیں اس آیت کریمہ میں جہاں خلافت کا وعدہ اعمال صالحہ بجا لانے والے مومنین سے کیا گیا ہے وہاں قیام خلافت کے بعد اس سے وابستہ برکات کا بھی ذکر ہے۔ خلافت کی تیسری برکت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنۡۢ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا۔ اور وہ ان کی خوف کی حالت کے بعد امن کی حالت میں تبدیل کردے گا۔ تاریخ اسلام اور تاریخ احمدیت گواہ ہے کہ جب بھی مومنین پر خوف کا وقت آیا تو خلیفہ وقت کے بروقت فیصلوں اور راہنمائی کے نتیجے میں حالتِ خوف امن میں بدل گئی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسالہ الوصیت میں اس کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں: ’’ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہوجاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کرلیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہوجائےگی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑجاتے ہیں اور اُن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کرلیتے ہیں۔ تب خداتعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خداتعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہوگئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔ تب خداتعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کھڑا کرکے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنۡۢ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا(النور: 56)۔ یعنی خوف کے بعدپھر ہم اُن کے پَیر جمادیں گے۔ ‘‘(الوصیت، روحانی خزائن جلد20صفحہ 304تا305)
خوف کو امن سے بدلنے کی پیشگوئی
حضرت مصلح موعودؓ اس پیشگوئی کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’وَلَيُـبَدِّلَـنَّـهُـمْ مِّنۡۢ بَعْدِ خَوْفِهِـمْ اَمْنًا کہ وہ اُن کے خوف کے بعد اُن کے خوف کی حالت کو اَمن سے بدل دیتا ہے۔ بعض لوگ اِس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ وہ ہر تخویف سے محفوظ رہتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کو چونکہ خلافت کے بعد خوف پیش آیا اور دشمنوں نے انہیں شہید کر دیا اس لئے حضرت ابوبکرؓ کے سوا اور کسی کو خلیفہ راشد تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ شیخ عبدالرحمٰن صاحب مصری نے بھی اس بات پر بڑا زور دیا ہے اور لکھا ہے کہ اصل خلیفہ صرف حضرت ابوبکرؓ تھے۔ حضرت عمرؓ ،حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کی خلافت آیت استخلاف کے ماتحت نہیں آتی۔
سو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ غلطی لوگوں کو صرف اس لئے لگی ہے کہ وہ قرآنی الفاظ پر غور نہیں کرتے۔ بیشک خوف کا امن سے بدل جانا بھی بڑی نعمت ہے لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وَلَيُـبَدِّلَـنَّـهُـمْ مِّنۡۢ بَعْد الخَوْفِ اَمْنًاکہ جو بھی خوف پیدا ہوگا اُسے امن سے بدل دیا جائے گا بلکہ فرمایا وَلَيُـبَدِّلَـنَّـهُـمْ مِّنۡۢ بَعْدِ خَوْفِهِـمْ اَمْنًاکہ جو خوف اُن کے دل میں پیدا ہوگا اور جس چیز سے وہ ڈریں گے اللہ تعالیٰ اُسے دُور کر دے گا اور اُس کی جگہ امن پیدا کردے گا۔ پس وعدہ یہ نہیں کہ زید اور بکر کے نزدیک جو بھی ڈرنے والی بات ہو وہ خلفاء کو پیش نہیں آئے گی بلکہ وعدہ یہ ہے کہ جس چیز سے وہ ڈریں گے اللہ تعالیٰ اُسے ضرور دُور کر دے گا اور اُن کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ سانپ بظاہر ایک بڑی خوفناک چیز ہے مگر کئی لوگ ہیں جو سانپ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں ایسے لوگوں کیلئے سانپ کا خوف کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ اسی طرح فقر ایک بڑی خوف والی چیز ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اَب اگر کسی کے ذہن میں یہ بات ہو کہ کھانے کیلئے اگر ایک وقت کی روٹی بھی نہ ملے تو یہ بڑی ذلّت کی بات ہوتی ہے تو کیا اُس کے اِس خیال کی وجہ سے ہم یہ مان لیں گے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ذلت ہوئی۔ جو شخص فقر کو اپنی عزت کا موجب سمجھتا ہے، جو شخص چیتھڑوں کو قیمتی لباس سے زیادہ بہتر سمجھتا ہے اور جو شخص دُنیوی مال و متاع کو نجاست کی مانند حقیر سمجھتا ہے اُس کے لئے فقر کا خوف بالکل بےمعنی ہے۔ پس خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وَلَيُـبَدِّلَـنَّـهُـمْ مِّنۡۢ بَعْدالْخَوْفِ اَمْنًابلکہ فرمایا ہے وَلَيُـبَدِّلَـنَّـهُـمْ مِّنۡۢ بَعْدِ خَوْفِهِـمْ اَمْنًاکہ کوئی ایسی خوف والی بات پیدا نہیں ہوگی جس سے وہ ڈرتے ہوں گے۔ اس فرق کو مدنظر رکھ کر دیکھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ خلفاء پر کوئی ایسی مصیبت نہیں آئی جس سے انہوں نے خوف کھایا ہو اور اگر آئی تو اللہ تعالیٰ نے اُسے امن سے بدل دیا۔‘‘(خلافت راشدہ، انوارالعلوم جلد 15صفحہ 534تا535)
اللہ تعالیٰ اپنے خلفاء کوعام خوف سے بھی محفوظ رکھتا ہے
اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’میں نے اس آیت کے جو معنی کئے ہیں کہ اس جگہ خوف سے مراد عام خوف نہیں بلکہ وہ خوف ہے جسے خلفاء کا دل محسوس کرتا ہو اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں عام خوف ضرورہوتا ہےبلکہ عام خوف بھی اللہ تعالیٰ اُن سے دور ہی رکھتا ہے سوائے اس کے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی مصلحت ہو۔ جیسے حضرت علیؓ کے زمانہ میں جب خوف پیدا ہوا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ عام مسلمانوں کی حالت ایسی ہو چکی تھی کہ اب وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خلافت کے انعام کے مستحق نہیں رہے تھے۔ پس میرا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عام خوفوں سے محفوظ نہیں رکھتا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اصل وعدہ اس آیت میں اسی خوف کے متعلق ہے جس کو وہ خوف قرار دیں۔ اور وہ بجائے کسی اور بات کے ہمیشہ اس ایک بات سے ہی ڈرتے تھے کہ اُمتِ محمدیہ میں گمراہی اور ضلالت نہ آجائے۔ سو خدا کے فضل سے اُمتِ محمدیہ ایسی ضلالت سے محفوظ رہی اور باوجود بڑے بڑے فتنوں کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی وفات کے بعد اس کی ہدایت کے سامان ہوتے رہے۔ اور اصل معجزہ یہی ہوتا ہے کہ کسی کی وفات کے بعد بھی اس کی خواہشات پوری ہوتی رہیں۔ زندگی میں اگر کسی کی خواہشیں پوری ہوں تو کہا جا سکتا ہے کہ اس نے تدبیروں سے کام لے لیا تھا مگر جس کی زندگی ختم ہو جائے اور پھر بھی اس کی خواہشیں پوری ہوتی رہیں اس کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے کسی ظاہری تدبیر سے کام لے لیا ہو گابلکہ یہ امر اس بات کا ثبوت ہو گا کہ وہ شخص خداتعالیٰ کا محبوب اور پیارا تھا اور اللہ تعالیٰ کا اس سے گہرا تعلق تھا۔
رسول کریمﷺ کا ایک کشف جو آپؐ کی وفات کے بعد پورا ہوا
اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے رسول کریمﷺ نے کشفی حالت میں ایک شخص کے ہاتھوں میں شہنشاہِ ایران کے سونے کے کڑے دیکھے۔ اَب رسول کریمﷺ کامعجزہ یہ نہیں کہ آپؐ نے اس کے ہاتھ میں سونے کے کڑے دیکھے بلکہ معجزہ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ رسول کریمﷺ فوت ہو گئے ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد مالِ غنیمت میں سونے کے کڑے آئے اور باوجود اس کے کہ شریعت میں مردوں کو سونے کے کڑے پہننے ممنوع ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کے دل میں یہ جذبہ پیدا کر دیا کہ وہ رسول کریمﷺ کے اس کشف کو پورا کرنے کےلئے اسے سونے کے کڑے پہنائیں چنانچہ آپ نے اسے پہنا دیئے۔ پس اس واقعہ میں معجزہ یہ ہے کہ باوجودیکہ رسول کریمﷺ فوت ہو چکے تھے، اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کے دل میں رسول کریمﷺ کی ایک پیشگوئی کو پوراکرنے کا جذبہ پیدا کر دیا۔ پھر یہ بھی معجزہ ہے کہ رسول کریمﷺ کی یہ بات حضرت عمرؓ نے سن لی اور آپ کو اسے پورا کرنے کا موقع مل گیا۔ آخر حضرت عمرؓ رسول کریمﷺ کی ہر بات تو نہیں سنا کرتے تھے ممکن ہے یہ بات کسی اور کے کان میں پڑتی اور وہ آگے کسی اور کو بتانا بھول جاتا مگر اس معجزے کا ایک یہ بھی حصہ ہے کہ جس شخص کے پاس سونے کے کڑے پہنچنے تھے اُسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کشف پہنچ چکا تھا۔ پھر اُسی معجزہ کا یہ بھی حصہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ تحریک پیدا کر دی کہ وہ اس صحابیؓ کو سونے کے کڑے پہنائیں حالانکہ شریعت کے لحاظ سے مردوں کےلئے سونا پہننا ممنوع ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کو پورا کرنا چاہتا تھا اس لئے آپ کے دل کو اس نے اس طرف مائل کر دیا کہ مردوں کے سونا نہ پہننے میں جو حکمتیں ہیں وہ بھی بے شک اچھی ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کو پورا کرنے کےلئے کسی کو تھوڑی دیر کےلئے سونے کے کڑے پہنا دینا بھی کوئی بُری بات نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ انہوں نے اس صحابیؓ کو اپنے سامنے سونے کے کڑے پہنائے۔
خلفائے راشدین کی وفات کے بعد بھی اُن کا خوف امن سے بدلتا رہا
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ خلفائے راشدین فوت ہوگئے تو اُن کی وفات کے سالہا سال بعد خدا تعالیٰ نے اُن کے خوف کو امن سے بدلا۔ کبھی سَو سال کے بعد کبھی دو سَو سال کے بعد، کبھی تین سَو سال کے بعد، کبھی چار سَو سال کے بعد اور کبھی پانچ سَو سال کے بعد اور اس طرح ظاہر کر دیا کہ خدا اُن سے محبت رکھتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اُن کے ارادے رائیگاں جائیں۔ اگر اس ساری آیت کو قوم کی طرف منسوب کر دیا جائے تب بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ اس صورت میں بھی وہی معنی لئے جائیں گے جن کو مَیں نے بیان کیا ہے۔ یعنی اس صورت میں بھی ساری قوم کو اگر کوئی خوف ہو سکتا تھا تو وہ کُفّار کے اسلام پر غلبہ کا ہو سکتا تھا۔ فردی طور پر تو کسی کو خوف ہو سکتا ہے کہ میرا بیٹا نہ مر جائے یا کسی کو خوف ہو سکتا ہے کہ مجھے تجارت میں نقصان نہ پہنچ جائے مگر قوم کا خوف تو قومی ہی ہو سکتا ہے اور وہ خوف بھی پھر یہی بن جاتا ہے کہ ایسا نہ ہو اسلام پر کُفّار غالب آ جائیں سو قوم کا یہ خوف بھی اسلام کے ذریعہ ہی دور ہوا اور اسلام کو ایسا زبردست غلبہ حاصل ہوا جس کی اور کہیں مثال نہیں ملتی۔‘‘(خلافت راشدہ، انوارالعلوم جلد 15 صفحہ 538تا 540)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دَور خلافت
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دَور خلافت کی ابتدائی مشکلات و حالت خوف امن میں بدلے جانے کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں: ’’حضرت ابوبکر صدیقؓ کا دورِخلافت چاروں خلفائے راشدین میں سے مختصر دور تھا جو کہ تقریباً سوا دو سال پر مشتمل تھا لیکن یہ مختصر سا دور خلافت راشدہ کا ایک اہم ترین اور سنہری دور کہلانے کا مستحق تھاکیونکہ حضرت ابوبکرؓ کو سب سے زیادہ خطرات اور مصائب کاسامنا کرنا پڑا اور پھر خدا تعالیٰ کی غیرمعمولی تائید و نصرت اور فضل کی بدولت حضرت ابوبکرؓ کی کمال شجاعت اور جوانمردی اور فہم و فراست سے تھوڑے ہی عرصہ میں دہشت و خطرات کے سارے بادل چھٹ گئے اور سارے خوف امن میں تبدیل ہو گئے اور باغیوں اور سرکشوں کی ایسی سرکوبی کی گئی کہ خلافت کی ڈولتی ہوئی امارت مستحکم اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہو گئی۔
خلافت کے آغاز میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو جن خطرات و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کا ذکر ام المومنین حضرت عائشہؓ نے بھی فرمایا ہے جس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’(حضرت) عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، آپؓ فرماتی ہیں کہ جب میرے والد خلیفہ بنائے گئے اور اللہ نے انہیں امارت تفویض فرمائی تو خلافت کے آغازہی میں آپؓ نے ہر طرف سے فتنوں کو موجزن اور جھوٹے مدعیانِ نبوت کی سرگرمیوں اور منافق مرتدوں کی بغاوت کو دیکھا اور آپ پر اتنے مصائب ٹوٹے کہ اگر وہ پہاڑوں پر ٹوٹتے تو وہ پیوست زمین ہو جاتے اور فوراً گر کر ریزہ ریزہ ہو جاتے لیکن آپ کو رسولوں جیسا صبر عطا کیا گیا یہاں تک کہ اللہ کی نصرت آن پہنچی اور جھوٹے نبی قتل اور مرتد ہلاک کر دئیے گئے۔ (جھوٹے نبی قتل کر دئیے گئے اور مرتد ہلاک کر دئیے گئے۔ ) فتنے دُور کر دئیے گئے اور مصائب چھٹ گئے اور معاملے کا فیصلہ ہو گیا اور خلافت کا معاملہ مستحکم ہوا اور اللہ نے مومنوں کو آفت سے بچا لیا اور ان کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا اور ان کے لئے ان کے دین کو تمکنت بخشی اور ایک جہان کو حق پر قائم کر دیا اور مفسدوں کے چہرے کالے کر دئیے اور اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے (حضرت ابوبکر) صدیقؓ کی نصرت فرمائی اور سرکش سرداروں اور بتوں کو تباہ و برباد کر دیا اور کفار کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ پسپا ہو گئے اور (آخر) انہوں نے رجوع کر کے توبہ کی اور یہی خدائے قہار کا وعدہ تھا اور وہ سب صادقوں سے بڑھ کر صادق ہے۔ پس غور کر کہ کس طرح خلافت کا وعدہ اپنے پورے لوازمات اور علامات کے ساتھ (حضرت ابوبکر) صدیقؓ کی ذات میں پورا ہوا۔‘‘ (سرالخلافۃ مترجم صفحہ49-50۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ335)
حضرت ابوبکرؓ کو ابتدا میں ہی درج ذیل پانچ قسم کے ہم و غم اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ نمبر ایک۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور جدائی کا غم، [نمبر2] انتخاب خلافت اور امت میں فتنے اور اختلاف کا خوف وخطرہ، [نمبر3]لشکر اسامہ کی روانگی کا مسئلہ اور نمبر چار: مسلمان کہلاتے ہوئے زکوٰة دینے سے انکار اور مدینہ پر حملہ کرنے والے جس کو تاریخ میں فتنہ مانعین زکوٰة کہا جاتا ہے اور نمبر پانچ: فتنہ ارتداد یعنی ایسے سرکش اور باغی جنہوں نے کھلم کھلا بغاوت اور جنگ کا اعلان کر دیا۔ اس بغاوت میں وہ شامل ہو گئے جنہوں نے اپنے طور پر نبی ہونے کا بھی دعویٰ کیا۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍مارچ 2022ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل25؍مارچ2022ءصفحہ8)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام آیت استخلاف کا تفسیری ترجمہ بیان کرتے ہوئے خوف کی حالت کو امن میں بدل جانے کا تذکرہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں: ’’دیکھو اس آیت میں صاف طور پر فرما دیا ہے کہ خوف کا زمانہ بھی آئے گا اور امن جاتا رہے گا مگر خدا اس خوف کے زمانہ کو پھر امن کے ساتھ بدل دے گا۔ سو یہی خوف یشوع بن نون کو بھی پیش آیا تھا اور جیسا کہ اس کو خدا کی کلام سے تسلی دی گئی ایسا ہی ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھی خدا کی کلام سے تسلی دی گئی۔ ‘‘(تحفۂ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 188تا189)
حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انتہائی خوف اور مشکل حالات میں جرأت مندانہ اور صائب فیصلے کیے اور اللہ تعالیٰ نے ان فیصلوں میں برکت ڈالی اور خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا اور ان فیصلوں کے دور رس نتائج نکالے۔ ان کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔
آنحضرتؐ کی وفات اور انتخاب خلافت
آنحضرتؐ کی وفات ایک قیامت کا منظر تھا۔ مسلمان عشق مصطفیٰﷺ اور فرط جذبات میں آپؐ کی وفات کو ماننے کو تیار نہ تھے۔ اس وقت حضرت ابو بکر صدیقؓ مسجد نبوی میں تشریف لائے اور وہاں جمع شدہ لوگوں کو تاریخی خطاب فرمایا کہ اے لوگو! جو شخص محمد رسول اللہؐ کی عبادت کرتا تھا وہ سن لے کہ محمدؐ وفات پا گئے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ خوش ہو کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور اس پر کبھی موت نہیں آئے گی۔ پھر آپؓ نے سورت آل عمران کی آیت 145کی تلاوت کی۔ آپ کے خطاب نے لوگوں کو توحید کا درس دیا اور عشاق کے دلوں پر مرہم لگایا۔ یہ پہلا خوف تھا جو امن میں بدلااور پھر دوسرا کا م آپ نے انتخاب خلافت کے وقت امت کو وحدت کی لڑی میں پرو دیا اور سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع انصار اور مہاجرین کے اجتماع میں اپنی تقریر کر کے انصار مہاجر کے اختلاف کو ختم کر دیا اور سب نے آپ کو خلیفۃ المسلمین تسلیم کر لیا۔ اس سے مسلمانوں کی خوف کی حالت امن میں بدل گئی۔
لشکر اسامہ کی روانگی
آنحضورؐ نے شام کی سرحد پر رومیوں سے جنگ کے لیے ایک لشکر تشکیل دیا تھا اور حضرت اسامہ بن زیدؓ جو ابھی نوجوان ہی تھے(ان کے والد حضرت زیدؓ جنگ موتہ میں شہید ہو گئے تھے)ان کو لشکر کا امیر مقرر کیا۔ آنحضورؐ کی بیماری کی وجہ سے لشکر روانہ نہ ہو سکا۔ آنحضرتؐ کی وفات کے بعد عرب قبائل میں ارتداد و بغاوت اور انکار زکوٰۃ کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ ایسی حالت میں صحابہ نے حضرت ابو بکرؓ کو مشورہ دیا کہ لشکر اسامہ کو اس حالت میں روانہ نہ کریں۔ لیکن آپؓ نے فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ رسول کریمؐ کی وفات کے بعد ابو قحافہ کا بیٹا سب سے پہلے یہ کام کرے کہ جس لشکر کو رسول کریمؐ نے روانہ کرنے کا حکم دیا تھا اسے روک لے؟ میں ایسا ہرگز نہ کروں گا خواہ دشمن کی فوجیں مدینہ میں گھس آئیں اور کتے مسلمان عورتوں کی لاشیں گھسیٹتے پھریں۔ چنانچہ آپؓ نے اس خوف اور مشکل وقت میں لشکر اسامہ کو روانہ کیا۔ یہ لشکر اپنی کامیاب مہمات کے بعد چالیس سے ستّر روز تک باہر رہنے کے بعد مدینہ واپس پہنچا اور اس مہم کے بہت دور رس اثرات ظاہر ہوئے اور عرب قبائل میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی۔ رعب میں اضافہ ہوا اور بالآخر اس مہم کو فتح شام کا پیش خیمہ قرار دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اس فیصلے میں غیر معمولی برکت عطا فرمائی اور خوف کو امن میں بدل ڈالا۔
مانعین اور منکرین زکوٰۃ کا فتنہ
آنحضرتؐ کی وفات کی خبرعرب میں پھیلی تو مکہ، مدینہ اور طائف کے علاوہ ہر طرف ارتداد، بغاوت اور انکار زکوٰۃ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ بعض اپنے پرانے عقائد کی طرف لوٹ گئے۔ بعض جگہوں پر جھوٹے مدعیان نبوت ظاہر ہوئے۔ اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کرنے والے پیدا ہو گئے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فتنوں اور خوف کے ان تمام محاذوں پر ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عزم فرمایا اور زکوٰۃ کے منکرین کے خلاف بھی اعلان جنگ کیا کیونکہ یہ دراصل اسلامی حکومت کے خلاف علم بغاوت تھا جس کو کچلنا ضروری تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ اس کیفیت کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں: ’’رسول کریمﷺ کی وفات کے بعد جب بعض قبائل عرب نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کے خلاف جنگ کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔ اس وقت حالت ایسی نازک تھی کہ حضرت عمرؓ جیسے انسان نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے نرمی کرنی چاہئے مگر حضرت ابو بکرؓ نے جواب دیا ابو قحافہ کے بیٹے کی کیا طاقت ہے کہ وہ اس حکم کو منسوخ کر دے جو رسول کریمﷺ نے دیا ہے۔ خداکی قسم اگر یہ لوگ رسول کریمﷺ کے زمانہ میں اونٹ کا گھٹنا باندھنے کی ایک رسی بھی زکوٰۃ میں دیا کرتے تھے تو میں رسی بھی ان سے لے کر رہوں گا اور اس وقت تک دم نہیں لوں گا جب تک وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے۔ ‘‘آپؓ نے ساتھیوں کو کہا کہ’’اگر تم اس معاملہ میں میرا ساتھ نہیں دے سکتے تو بے شک نہ دو۔ میں اکیلا ہی ان سے مقابلہ کروں گا۔ کس قدر اتباع رسول ہے کہ نہایت خطرناک حالات میں باوجود اس کے کہ اکابر صحابہ لڑائی کے خلاف مشورہ دیتے ہیں پھر بھی رسول کریمﷺ کے حکم کو پورا کرنے کے لئے وہ ہر قسم کا خطرہ برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 8صفحہ 108تا109)
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کے فیصلوں میں برکت رکھی اور آپ کے عزم و شجاعت اور بر وقت فیصلوں نے خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دَور خلافت
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍اکتوبر2021ء میں حضرت عمر فاروق ؓکے بارے میں فرماتے ہیں: ’’حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آیت وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنۡۢ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’خلفاء پر کوئی ایسی مصیبت نہیں آئی جس سے انہوں نے خوف کھایا ہو اور اگر آئی تو اللہ تعالیٰ نے اسے امن سے بدل دیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت عمرؓ شہید ہو گئے مگر جب واقعات کو دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کو اس شہادت سے کوئی خوف نہیں تھا بلکہ وہ متواتر دعائیں کیا کرتے تھے کہ یا اللہ! مجھے شہادت نصیب کر اور شہید بھی مجھے مدینہ میں کر۔ پس وہ شخص جس نے اپنی ساری عمر یہ دعائیں کرتے ہوئے گزار دی ہو کہ یا اللہ! مجھے مدینہ میں شہادت دے۔ وہ اگر شہید ہو جائے تو ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس پر ایک خوفناک وقت آیا مگر وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے امن سے نہ بدلا گیا۔ بیشک اگر حضرت عمرؓ شہادت سے ڈرتے اور پھر وہ شہید ہو جاتے تو کہا جا سکتا تھا کہ ان کے خوف کو خداتعالیٰ نے امن سے نہ بدلا مگر وہ تو دعائیں کرتے رہتے تھے کہ یا اللہ! مجھے مدینہ میں شہادت دے۔ پس ان کی شہادت سے یہ کیونکر ثابت ہو گیا کہ وہ شہادت سے ڈرتے بھی تھے اور جب وہ شہادت سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ اس کے لئے دعائیں کرتے تھے جن کوخدا تعالیٰ نے قبول فرما لیا تو معلوم ہوا کہ اس آیت کے ماتحت ان پر کوئی ایساخوف نہیں آیا جو ان کے دل نے محسوس کیا ہو اور اس آیت میں جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں یہی ذکر ہے کہ خلفاء جس بات سے ڈرتے ہوں گے وہ کبھی وقوع پذیر نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا مگر جب وہ ایک بات سے ڈرتے ہی نہ ہوں بلکہ اپنی عزت اور بلندی درجات کا موجب سمجھتے ہوں تو اسے خوف کہنا اور پھر یہ کہنا کہ اسے امن سے کیوں نہ بدل دیا گیا بے معنی بات ہے۔ ‘‘ یہ نکتہ بھی سمجھنے والا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے تو جب حضرت عمرؓ کی اس دعا کو پڑھا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس کا بظاہر یہ مطلب تھا کہ دشمن مدینہ پر حملہ کرے اور اس کا حملہ اتنی شدت سے ہو کہ تمام مسلمان تباہ ہو جائیں۔ پھر وہ خلیفۂ وقت تک پہنچے اور اسے بھی شہید کر دے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کی دعا بھی قبول کر لی اور ایسے سامان بھی پیدا کر دیئے جن سے اسلام کی عزت قائم رہی۔ چنانچہ بجائے اس کے کہ مدینہ پر کوئی بیرونی لشکر حملہ آور ہوتا اندر سے ہی ایک خبیث اٹھا اور اس نے خنجر سے آپؓ کو شہید کر دیا۔ ‘‘(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 378)(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍اکتوبر 2021ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل5؍نومبر2021ءصفحہ8)
یا ساریۃ الجبل
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت عمرؓ کے اس واقعہ کو اپنے خطبہ 27؍اگست 2021ء میں یوں بیان فرماتے ہیں: ’’حضرت سَارِیَہ بن زُنیمؓ کو حضرت عمرؓ نے فَسَا اور دَارَابَجِرْد شہر کی طرف روانہ فرمایا۔ یہ 23؍ہجری کا واقعہ ہے۔ فَسَا فارس کا ایک قدیم شہر تھا جو شیراز سے 216میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ دَارَابَجِرْد فارس کا ایک وسیع علاقہ ہے جس میں فَسَا اور دیگر شہر تھے۔ دلائل النبوۃ میں روایت ہے۔ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ایک لشکر حضرت سَارِیَہؓ کی سرکردگی میں روانہ فرمایا۔ ایک دن جبکہ حضرت عمرؓ خطاب کر رہے تھے کہ اچانک اونچی آواز میں کہنے لگے یَا سَارِیَ الْجَبَلَ۔ اے سَارِیَہ! پہاڑ کی طرف ہٹ جاؤ۔ تاریخ طبری میں ہے حضرت عمرؓ نے حضرت سَارِیَہ بن زُنیمؓ کو فَسَا اور دَارَابَجِرْد کے علاقے کی طرف روانہ کیا۔ انہوں نے وہاں پہنچ کر لوگوں کا محاصرہ کر لیا۔ اس پر انہوں نے اپنے حمایتی لوگوں کو اپنی مدد کے لیے بلایا تو وہ مسلمان لشکر کے مقابلے کے لیے صحرا میں اکٹھے ہو گئے اور جب ان کی تعداد زیادہ ہو گئی تو انہوں نے ہر طرف سےمسلمانوں کو گھیر لیا۔ حضرت عمرؓ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ آپ نے فرمایا: یَا سَارِیَۃ بِنْ زُنَیْم! اَلْجَبَل اَلْجَبَل۔ یعنی اے سَارِیَہ بن زُنَیْم! پہاڑ پہاڑ۔ مسلمان لشکر جس جگہ پرمقیم تھا اس کے قریب ہی ایک پہاڑ تھا۔ اگر وہ اس کی پناہ لیتے تو دشمن صرف ایک طرف سے حملہ آور ہو سکتا تھا۔ پس انہوں نے پہاڑ کی جانب پناہ لے لی۔ اس کے بعد انہوں نے جنگ کی اور دشمن کو شکست دی اور بہت سا مال غنیمت حاصل کیا۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ27؍اگست 2021ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍ستمبر2021ءصفحہ8)
کس طرح خلیفۃ المسلمین حضرت عمرؓ کے فیصلہ نے مسلمانوں کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا اور شکست کی کیفیت فتح میں بدل گئی۔
حضرت مصلح موعودؓ حضرت عمرؓ کے ایک فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ کس طرح اس کے نتیجے میں مسلمانوں نے دشمن کو شکست دے دی: ’’شام کی لڑائی میں سپاہیوں کی بہت کمی تھی۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کو لکھا کہ دشمن بہت زیادہ تعداد میں ہے۔ اس لئے اَور فوج بھیجنے کا بندوبست فرما دیں۔ حضرت عمرؓ نے جائزہ لیا تو آپؓ کو نئی فوج کابھرتی کرنا ناممکن معلوم ہوا کیونکہ عرب کے اِردگرد کے قبائل کے نوجوان یا تو مارے گئے تھے یا سب کے سب پہلے ہی فوج میں شامل تھے۔ آپؓ نے مشورہ کے لئے ایک جلسہ کیا اور اس میں مختلف قبائل کے لوگوں کو بلایا اور ان کے سامنے یہ معاملہ رکھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک قبیلہ ایسا ہے جس میں کچھ آدمی مل سکتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک افسر کو حکم دیا کہ وہ فوراً اس قبیلہ میں سے نوجوان جمع کریں اور حضرت ابوعبیدہؓ کو لکھا کہ چھ ہزار سپاہی تمہاری مدد کے لئے بھیج رہا ہوں جو چند دنوں تک تمہارے پاس پہنچ جائیں گے۔ تین ہزار آدمی تو فلاں فلاں قبائل میں سے تمہارے پاس پہنچ جائیں گے اور باقی تین ہزار کے برابر عَمرو بنِ مَعْدِی کَرِب کو بھیج رہا ہوں۔ ہمارے ایک نوجوان کو اگر تین ہزار آدمی کے مقابلہ میں بھیجا جائے تو وہ کہے گا کہ کیسی خلافِ عقل بات ہے۔ کیا خلیفہ کی عقل ماری گئی ہے۔ ایک آدمی کبھی تین ہزار کا مقابلہ کر سکتا ہے! لیکن ان لوگوں کے ایمان کتنے مضبوط تھے۔ حضرت ابوعبیدہؓ کو حضرت عمرؓ کا خط ملا تو انہوں نے خط پڑھ کر اپنے سپاہیوں سے کہا خوش ہو جاؤ کل عَمرو بنِ مَعْدِی کَرِب تمہارے پاس پہنچ جائے گا۔ سپاہیوں نے اگلے دن بڑے جوش کے ساتھ عَمرو بنِ مَعْدِی کَرِب کا استقبال کیا اور نعرے لگائے۔ دشمن سمجھا کہ شاید مسلمانوں کی مدد کے لئے لاکھ دو لاکھ فوج آرہی ہے اس لئے وہ اِس قدر خوش ہیں حالانکہ وہ اکیلے عَمرو بنِ مَعْدِی کَرِب تھے۔ اس کے بعد وہ تین ہزار فوج بھی پہنچ گئی اور مسلمانوں نے دشمن کو شکست دی۔ ‘‘(سپین اور سسلی میں تبلیغ اسلام اور جماعت احمدیہ، انوار العلوم جلد18صفحہ359تا360)
حضرت عمرؓ کو اپنی شہادت سے کوئی خوف نہیں تھا حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں: ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہیدہوئے۔ مگر جب واقعات کو دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس شہادت سے کوئی خوف نہیں تھا بلکہ وہ متواتر دعائیں کیا کرتے تھے کہ یااللہ مجھے شہادت نصیب کر اور شہید بھی مجھے مدینہ میں کر۔ پس وہ شخص جس نے اپنی ساری عمر یہ دعائیں کرتے ہوئے گزار دی ہو کہ یا اللہ! مجھے مدینہ میں شہادت دے، وہ اگر شہید ہو جائے تو ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اُس پر ایک خوفناک وقت آیا مگر وہ امن سے نہ بدلا گیا۔ بیشک اگر حضرت عمرؓ شہادت سے ڈرتے اور پھر وہ شہید ہو جاتے تو کہا جا سکتا تھا کہ اُن کے خوف کو خدا تعالیٰ نے امن سے نہ بدلا مگر وہ تو دعائیں کرتے تھے کہ یا اللہ! مجھے مدینہ میں شہادت دے۔ پس اُن کی شہادت سے یہ کیونکر ثابت ہو گیا کہ وہ شہادت سے ڈرتے بھی تھے۔ اور جب وہ شہادت سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ اس کے لئے دعائیں کیاکرتے تھے جن کوخدا تعالیٰ نے قبول کر لیا تو معلوم ہواکہ اس آیت کے ماتحت اُن پر کوئی ایساخوف نہیں آیا جو اُن کے دل نے محسوس کیا ہو اور اس آیت میں جیسا کہ مَیں بیان کر چکا ہوں یہی ذکر ہے کہ خلفاء جس بات سے ڈرتے ہوں گے وہ کبھی وقوع پذیر نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اُن کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ مگر جب وہ ایک بات سے ڈرتے ہی نہ ہوں بلکہ اُسے اپنی عزت اوربلندی درجات کا موجب سمجھتے ہوں تو اُسے خوف کہنا اور پھر یہ کہنا کہ اسے امن سے کیوں نہ بدل دیا گیا بے معنی بات ہے۔ میں نے تو جب حضرت عمرؓ کی اس دعا کو پڑھا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس کا بظاہر یہ مطلب تھا کہ دشمن مدینہ پر حملہ کرے اور اس کا حملہ اتنی شدت سے ہو کہ تمام مسلمان تباہ ہو جائیں پھر وہ خلیفہ وقت تک پہنچے اور اُسے بھی شہید کر دے مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کی دعا کو قبول کرتے ہوئے ایسے سامان کر دیئے کہ بجائے اس کے کہ مدینہ پر کوئی بیرونی لشکر حملہ آور ہوتا اندر سے ہی ایک خبیث اُٹھا اور اس نے خنجر سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا۔‘‘(خلافت راشدہ، انوارالعلوم جلد 15 صفحہ535تا536)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دَورخلافت
حضرت عثمانؓ کے واقعات شہادت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں: ’’حضرت عثمانؓ کے ساتھ جو واقعات پیش آئے اُن سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اِن باتوں سے کبھی خائف نہیں ہوئے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ جب باغیوں نے مدینہ پر قبضہ کر لیا تو وہ نماز سے پہلے تمام مسجد میں پھیل جاتے اور اہلِ مدینہ کو ایک دوسرے سے جُدا جُدا رکھتے تا کہ وہ اکٹھے ہو کر ان کا مقابلہ نہ کر سکیں مگر باوجود اس شورش اور فتنہ انگیزی اور فساد کے حضرت عثمانؓ نماز پڑھانے کےلئے اکیلے مسجد میں تشریف لاتے اور ذرا بھی خوف محسوس نہ کرتے اور اُس وقت تک برابر آتے رہے جب تک لوگوں نے آپ کو منع نہ کر دیا۔ جب فتنہ بہت بڑھ گیا اور حضرت عثمانؓ کے گھر پر مفسدوں نے حملہ کر دیا تو بجائے اس کے کہ آپ صحابہؓ کا اپنے مکان کے اردگرد پہرہ لگواتے آپ نے انہیں قسم دے کر کہا کہ وہ آپ کی حفاظت کر کے اپنی جانوں کو خطرہ میں نہ ڈالیں اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں۔ کیا شہادت سے ڈرنے والا آدمی بھی ایسا ہی کیا کرتا ہے اور وہ لوگوں سے کہا کرتا ہے کہ میرا فکر نہ کرو بلکہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔
پھر اس بات کا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان واقعات سے کچھ بھی خائف نہیں تھے ایک اور زبردست ثبوت یہ ہے کہ اس فتنہ کے دوران میں ایک دفعہ حضرت معاویہؓ حج کےلئے آئے جب وہ شام کو واپس جانے لگے تو مدینہ میں وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ملے اور عرض کیا کہ آپ میرے ساتھ شام میں چلیں وہاں آپ تمام فتنوں سے محفوظ رہیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ معاویہؓ ! میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسائیگی کو کسی چیز پر ترجیح نہیں دے سکتا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اگر آپ کو یہ بات منظور نہیں تو میں شامی سپاہیوں کا ایک لشکر آپ کی حفاظت کے لئے بھیج دیتا ہوں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا میں اپنی حفاظت کےلئے ایک لشکر رکھ کر مسلمانوں کے رزق میں کمی کرنا نہیں چاہتا۔ حضرت معاویہؓ نے عرض کیا کہ امیرالمؤمنین! لوگ آپ کو دھوکا سے قتل کر دیں گے یا ممکن ہے آپ کے خلاف وہ برسرِ جنگ ہو جائیں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا مجھے اِس کی پروانہیں میرے لئے میرا خدا کافی ہے۔ آخر انہوں نے کہا اگر آپ اور کچھ منظور نہیں کرتے تو اتنا ہی کریں کہ شرارتی لوگوں کو بعض اکابر صحابہؓ کے متعلق گھمنڈ ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے بعد وہ کام سنبھال لیں گے۔ چنانچہ وہ اُن کا نام لے لے کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں آپ ان سب کو مدینہ سے رخصت کر دیں اور بیرونی ملکوں میں پھیلا دیں اس سے شریروں کے ارادے پست ہو جائیں گے اور وہ خیال کریں گے کہ آپ سے تعرّض کر کے انہوں نے کیا لینا ہے جب کہ مدینہ میں کوئی اور کام کو سنبھالنے والا ہی نہیں۔ مگر حضرت عثمانؓ نے یہ بات بھی نہ مانی اور کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا ہے میں انہیں جلا وطن کر دوں۔ حضرت معاویہؓ یہ سن کر رو پڑے اور انہوں نے عرض کیا اگر آپ اور کچھ نہیں کرتے تو اتنا ہی اعلان کر دیں کہ میرے خون کا بدلہ معاویہؓ لے گا۔ آپ نے فرمایا معاویہؓ ! تمہاری طبیعت تیز ہے میں ڈرتا ہوں کہ مسلمانوں پر تم کہیں سختی نہ کرو اس لئے میں یہ اعلان بھی نہیں کر سکتا۔ اب کہنے کو تو یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ دل کے کمزور تھے مگر تم خود ہی بتاؤ کہ اس قسم کی جرأت کتنے لوگ دکھا سکتے ہیں اور کیا ان واقعات کے ہوتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اُن کے دل میں کچھ بھی خوف تھا۔ اگر خوف ہوتا تو وہ کہتے کہ تم اپنی فوج کا ایک دستہ میری حفاظت کیلئے بھجوا دو۔ انہیں تنخواہیں میں دلا دوں گا اور اگر خوف ہوتا تو آپ اعلان کر دیتے کہ اگر مجھ پر کسی نے ہاتھ اٹھایا تو وہ سن لے کہ میرا بدلہ معاویہؓ لے گا۔ مگر آپ نے سوائے اِس کے کوئی جواب نہ دیا کہ معاویہؓ ! تمہاری طبیعت تیز ہے میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے تم کو یہ اختیار دے دیا تو تم مسلمانوں پر سختی کرو گے۔
پھر جب آخر میں دشمنوں نے دیوارپھاند کر آپ پر حملہ کیا تو بغیر کسی ڈر اور خوف کے اظہار کے آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت ابوبکرؓ کا ایک بیٹا (اللہ تعالیٰ اُس پر رحم کرے) آگے بڑھا اور اُس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ڈاڑھی پکڑ کر اُسے زور سے جھٹکا دیا۔ حضرت عثمانؓ نے اُس کی طرف آنکھ اٹھائی اور فرمایا۔ میرے بھائی کے بیٹے! اگر تیرا باپ اس وقت ہوتا تو تو کبھی ایسا نہ کرتا۔ یہ سنتے ہی اس کا سر سے لیکر پَیر تک جسم کانپ گیا اور وہ شرمندہ ہو کر واپس لَوٹ گیا۔ اس کے بعد ایک اور شخص آگے بڑھا اور اس نے ایک لوہے کی سیخ حضرت عثمانؓ کے سر پر ماری اور پھر آپ کے سامنے جو قرآن پڑا ہوا تھا اُسے اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے الگ پھینک دیا۔ وہ ہٹا تو ایک اور شخص آگے آ گیا اور اس نے تلوار سے آپ کو شہید کر دیا۔ ان واقعات کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان واقعات سے خائف تھے اورجب وہ ان واقعات سے خائف ہی نہ تھے تو مِنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًاکے خلاف یہ واقعات کیونکر ہو گئے۔ یہ لوگ تو اگر کسی امر سے خائف تھے تو اس سے کہ اسلام کی روشنی میں فرق نہ آئے۔ سو باوجود ان واقعات کے وہی بات آخر قائم ہوئی جسے یہ لوگ قائم کرنا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے خوف کو امن سے بدل دیا۔ ‘‘(خلافت راشدہ، انوارالعلوم جلد 15صفحہ 536تا 538)
خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ
حضرت علیؓ نے جب منصب خلافت سنبھالا تو یہ مسلمانوں کے لیے انتہائی پر آشوب دور تھااور خوف کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ فتنہ پردازوں نے حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا۔ صحابہ اپنے گھروں تک محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ اس حالت فساد میں آپ نے صحابہ کے اصرار پر خلافت کا بوجھ اٹھا کر مسلمانوں کو اکٹھا کر دیا اور خوف کی حالت کو امن کی طرف لے آئے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے واقعات خلافت علوی (انوارالعلوم جلد4صفحہ 635تا 637)بیان کرتے ہو ئے فرمایا کہ ایسی خطرناک حالت میں ان کا خلافت کو منظور کر لینا ایسی جرأت اور دلیری کی بات تھی جو نہایت قابل تعریف تھی کہ انہوں نے اپنی عزت اور اپنی ذات کی اسلام کے مقابلہ میں کوئی پرواہ نہیں کی اور اتنا بڑا بوجھ اٹھا لیا۔
جنگ جمل (جو کہ 36ھ میں حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کے درمیان ہوئی)کے دوران بھی حضرت علیؓ کے بروقت اور صائب فیصلوں نے مسلمانوں کو بڑے نقصان سے بچایا اور مفسدین اور سبائیوں کی طرف سے پیدا کردہ سازش کو بےنقاب کرتے ہوئے آپ نے صلح کا راستہ اختیار کیا اور مسلمانوں کو فتنے سے بچایا۔ مصالحت کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو گئے تھے لیکن رات کے وقت بعض سازشیوں نے جو شہادت عثمانؓ میں شامل تھے انہوں نے لشکر عائشہؓ پر حملہ کر وا دیا۔ حضرت علیؓ نے حکمت سے حضرت عائشہ جو کہ اونٹ پر سوار تھیں اس کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور اونٹ کے گھر جانے پر اہل جمل منتشر ہو گئے۔ حضرت علیؓ نے امن کا اعلان کروا دیا۔ جنگ کے اختتام پر حضرت علیؓ حضرت عائشہؓ کے پاس تشریف لائے ان کے لیے سواری اور زاد راہ تیار کروایا اور ان کو خود مدینہ کے لیے روانہ کیا اور کئی میل تک خود ساتھ تشریف لے گئے اور اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت عائشہؓ کے ساتھ جائیں۔ یوں آپ کی حکمت و دانائی اور پر حکمت فیصلوں کے نتیجے میں مسلمان آپس کے فتنہ سے بچ گئے اور حالت امن میں آگئے۔
جنگ صفین کے موقع پر جو کہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان 37ھ میں ہوئی حضرت علی کے پر حکمت فیصلے نے امت کو ایک عظیم فتنے سے محفوظ رکھا جب آپ نے حکمین کے خلاف شرع فیصلہ کو ماننے سے انکار کر دیا جس میں آپ کے حکم نے آپ کو معزول کرنے کا فیصلہ کیا تھا یوں آپ نے خلیفہ کو معزول کرنے کے فتنے کو جڑھ سے اکھیڑ ڈالا اور امت کو اس فتنے سے بچا لیا۔
خلفائے راشدین کا غیر مسلم بادشاہوں پر رُعب
حضرت مصلح موعود ؓبیان فرماتے ہیں :’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب مسلمانوں کے اندرونی جھگڑے اور مناقشات بہت بڑھ گئے تو ایک دفعہ روم کے بادشاہ کو خیال آیا کہ یہ وقت مسلمانوں پر حملہ کرنے کیلئے بہت اچھا ہے وہ آپس میں لڑ رہے ہیں اور اُن کی طاقت اندرونی خانہ جنگی کی وجہ سے کمزور ہو چکی ہے اس لئے مسلمانوں پر اگر حملہ کیا گیا تو وہ بہت جلد شکست کھا جائیں گے۔جب یہ افواہ اُڑتے اُڑتے حضرت معاویہؓ تک پہنچی تو انہوں نے اس بادشاہ کو کہلا بھیجا کہ یاد رکھو اگر تم نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو علیؓ کی طرف سے پہلا جرنیل جو تمہارے خلاف لڑنے کیلئے نکلے گا وہ مَیں ہونگا۔ جب یہ پیغام اسے پہنچا تو اس نے لڑائی کا ارادہ فوراً ترک کر دیا۔ یہ واقعہ بھی بتاتا ہے کہ خلفاء کا بہت بڑا رُعب تھا کیونکہ جب اسے معلوم ہوا کہ معاویہؓ بھی علیؓ کے ماتحت ہو کر مجھ سے لڑنے کیلئے آ جائے گا تو وہ دم بخود رہ گیا اور اس نے سمجھ لیا کہ لڑائی کرنا میرے لئے مفید نہیں ہوگا۔‘‘(خلافت راشدہ ، انوارالعلوم جلد 15 صفحہ 540تا541)
حضرت علیؓ کی شہادت
حضرت مصلح موعودؓ حضرت علی ؓ کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’یہی حال حضرت علیؓ کا ہے۔ اُن کے دل کا خوف بھی صرف صداقت اور روحانیت کی اشاعت کے بارہ میں تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے اس خوف کو امن سے بدل دیا۔ یہ ڈر نہیں تھا کہ لوگ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ چنانچہ باوجود اس کے کہ حضرت معاویہؓ کا لشکر بعض دفعہ حضرت علیؓ کے لشکر سے کئی کئی گنے زیادہ ہوتا تھا آپ اس کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے تھے اور یہی فرماتے تھے کہ جو کچھ قرآن کہتا ہے وہی مانوں گا اس کے خلاف میں کوئی بات تسلیم نہیں کر سکتا۔
اگر محض لوگوں کی مخالفت کو ہی خوفناک امر قرار دے دیا جائے تب تو ماننا پڑے گا کہ انبیاء (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) ہمیشہ لوگوں سے ڈرتے رہے کیونکہ جتنی مخالفت لوگ ان کی کرتے ہیں اتنی مخالفت اَور کسی کی نہیں کرتے۔ بہرحال دنیا کی مخالفت کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور نہ خداتعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وَلَيُـبَدِّلَـنَّـهُـمْ مِّنْ بَعْد الخوف اَمْنًابلکہ وَلَيُـبَدِّلَـنَّـهُـمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِـمْ اَمْنًافرمایا ہے یعنی جس چیز سے وہ ڈرتے ہوں گے اسے اللہ تعالیٰ دور کر دے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں وہ صرف اس بات سے ڈرتے تھے کہ اُمت محمدیہ میں گمراہی اور ضلالت نہ آ جائے۔ سو اُمتِ محمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس توجہ اور دعا کی برکت سے بحیثیت مجموعی ضلالت سے محفوظ رکھا اور اہل السنت و الجماعت کا مذہب ہی دنیا کے کثیر حصہ پر ہمیشہ غالب رہا۔‘‘(خلافت راشدہ ، انوارالعلوم جلد 15 صفحہ 538)
(جاری ہے)