وہ سمندر بخش دے اُس کا اگر ہو اختیار
وہ جو ہے محوِ دعا سب کے لیے لیل و نہار
جس کی صورت دیکھتے ہی دل کو آ جائے قرار
جس کے آنے سے چلے نوروں دُھلی بادِ بہار
منتظر جس کے رہیں عشاق سب دیوانہ وار
کون کرتا ہے کسی سے جتنا وہ کرتا ہے پیار
ہیں درندے ہر طرف وہ عافیت کا ہے حصار
رہنما جس کا خدا ہے پیشوا قرآن ہے
خامشی جس کی دعا ہے گفتگو آذان ہے
جس کے سینے میں محمد مصطفیٰؐ ہر آن ہے
وہ جو اِس جنگ و جدل میں امن کی پہچان ہے
آنکھ جس کو دیکھ کر بولے کہ دیکھو بار بار
ہیں درندے ہر طرف وہ عافیت کا ہے حصار
سو خطائیں ایک دن میں درگزر کرتا ہے وہ
پیار سب سے اور ہم سے خاص کر کرتا ہے وہ
بے ثمر اجڑے ہووں کو باثمر کرتا ہے وہ
جب ملو سو سو دعائیں ہمسفر کرتا ہے وہ
وہ چنیدہ برگزیدہ ہے سراپا انکسار
ہیں درندے ہر طرف وہ عافیت کا ہے حصار
با ادب اور با وضو جانا وصالِ یار کو
اُس کے کوچے میں بھلا دینا غمِ اغیار کو
چشمِ تر قدموں میں رکھنا اِس دلِ نادار کو
دیکھنا سو سو عقیدت سے گُل و گُلزار کو
وہ مسیحا ہے ہمارا باعثِ رضوانِ یار
ہیں درندے ہر طرف وہ عافیت کا ہے حصار
ہاں وہی جس نے مِرے آنسو بھی گوہر کر دئیے
سب خزاں موسم مِرے اُس نے معطر کر دئیے
در بدر کتنے ہی تھے اُس نے سِکندر کر دئیے
اُس نے دنیا دار شاعر بھی قلندر کر دئیے
وہ سمندر بخش دے اُس کا اگر ہو اختیار
ہیں درندے ہر طرف وہ عافیت کا ہے حصار
ہے دعا میری رہے وہ کامیاب و کام گار
وہ نہ آئے دن کبھی دیکھوں اُسے میں سوگوار
وہ جدھر جائے فرشتے ساتھ ہوں خدمت گزار
اس پہ پھولوں کی کرے برسات وہ پروردگار
جان و مال و آبرو قدموں پہ اُس کے ہیں نثار
ہیں درندے ہر طرف وہ عافیت کا ہے حصار
(مبارک صدیقی )