متفرق مضامین

خلفائے احمدیت کے ارشادات امن عالم کے لیے مشعل راہ

(درِ ثمین احمد۔ جرمنی)

دنیا کے ہر فرد تک یہ پیغام پہنچادو کہ تمہاری بقاخدائے واحدو یگانہ سے تعلق جوڑنے میں ہے۔ دنیاکا امن اس مہدی و مسیح کی جماعت سے منسلک ہونے سے وابستہ ہے کیونکہ امن و سلامتی کی حقیقی اسلامی تعلیم کایہی علمبردار ہے، جس کی کوئی مثال روئے زمین پر نہیں پائی جاتی۔ آج اس مسیح محمدی کے مشن کو دنیا میں قائم کرنے اور وحدت کی لڑی میں پروئے جانےکا حل صرف اور صرف خلافتِ احمدیہ سے جڑے رہنے سے وابستہ ہے اور اسی سے خدا والوں نے دنیا میں ایک انقلاب لانا ہے۔

اسلام کی نشأۃ ثانیہ اور اس کی ترقی کے لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو کھڑا کیا ہے۔ آج مسلمانوں کی اس کھوئی ہوئی میراث کو واپس لانے کی ذمہ داری بلا شبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متبعین پر ہے جو اس بات کے علمبردار ہیں کہ اسلام تشدد کا نہیں بلکہ پیار ومحبت کا مذہب ہے اورہر سطح پر اسلام کی تعلیم بلاشبہ امن اور سلامتی کی تعلیم ہے۔ اسلام نے قومی اور ملکی سطح پر بھی امن اور سلامتی قائم کرنے کے لیے نہایت خوبصورت تعلیم دی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے قوموں کی ایک تنظیم اقوام متحدہ کے نام سے ابھری لیکن اس کا بھی وہی حشر ہوا جو ایک دنیاوی تنظیم کا ہو سکتا تھا۔ حالانکہ اس میں بڑے بڑے دماغوں نے مل کر بڑی منصوبہ بندی سے یہ تنظیم بنائی، کئی کمیٹیاں بنائی گئیں، سلامتی کونسل بنائی گئی تاکہ دنیا کا امن اور سکون قائم رکھا جا سکے، جھگڑوں سے نپٹا جائے۔ معاشی حالات کے جائزے کے لیے بھی ایک کونسل بنائی گئی، عدالتِ انصاف بھی قائم کی گئی لیکن ان سب کے باوجود آج کل دنیا میں جوکچھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اس ناکامی کا سب بڑا سبب تقویٰ کی کمی ہے۔ آج دنیا میں سلامتی اگر پھیلے گی تو اس تعلیم سے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہے جس میں تقویٰ بنیادی شرط ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری حیثیت، تمہارا دوسرے انسان سے اعلیٰ و برتر ہونا، اس کا کوئی تعلق نہ تمہاری نسل سے ہے، نہ تمہارے رنگ سے، نہ تمہاری قوم سے، نہ تمہاری دولت اور معاشرے میں اعلیٰ مقام سے ہے اور نہ کسی قوم کا اعلیٰ ہونا کمزور لوگو ں پر اس کے حکومت کرنے سے ہے۔ دنیا کی نظر میں ان دنیاوی طاقتوں اور حکومتوں کا مقام ہو گا مگر خدا تعالیٰ کی نظر میں نہیں۔ اور جو چیز خدا تعالیٰ کی نظر میں قابلِ قبول نہ ہو وہ بظاہر ان نیک مقاصد کے حصول میں ہی کامیاب نہیں ہو سکتی جس کے لیے وہ استعمال کی جارہی ہے۔ اسلام تمام انسانوں کو ایک خاندان کے افراد قرار دیتا ہے جو ایک دوسرے کی سلامتی کا خیال رکھتے ہیں اور آپس میں پیار محبت رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاک نمونے سے یہ حسین معاشر ہ تشکیل دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غریبوں سے لاڈ کیا، غلاموں کو پیار دیا۔ محروموں کو ان کے حق دلوائے ان کو معاشرے میں مقام دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کا عالمگیر درس دیا اور فرمایا: ’’تم سب آدم کی اولاد ہواس لیے نہ عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت ہے نہ عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت ہے۔ اسی طرح رنگ و نسل بھی تمہاری بڑائی کا ذریعہ نہیں ہیں‘‘ (بحوالہ سیرت خاتم النبیینﷺصفحہ686)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَلَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ وَلَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَمَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوۡا وَلَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ۔ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّاُنۡثٰی وَجَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ۔ (الحجرات: 12تا14)اے لوگو جو ایمان لائے ہو! (تم میں سے) کوئی قوم کسی قوم پر تمسخر نہ کرے۔ ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوجائیں۔ اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں )۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوجائیں۔ اور اپنے لوگوں پر عیب مت لگایا کرو اور ایک دوسرے کو نام بگاڑ کر نہ پکارا کرو۔ ایمان کے بعد فسوق کا داغ لگ جانا بہت بری بات ہے۔ اور جس نے توبہ نہ کی تو یہی وہ لوگ ہیں جو ظالم ہیں۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔ اور تجسس نہ کیا کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) ہمیشہ باخبر ہے۔

تمام مخلوق ایک کنبہ

حدیث مبارک ہے: النَّاسُ کُلُّھُمۡ عِیَالٌ(صحیح مسلم، کتاب العتق بَاب النَّھۡیُ عَنۡ بَیۡعِ الۡوَلَاءِ وَھِبَتِہِ) یعنی ساری مخلوق ایک کنبہ ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمام مخلوقات اللہ کی عیال ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص پسند ہے جو اس کے عیال (مخلوق) کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ (مشکوٰۃ باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق )

انصاف کے لیے تقویٰ کی شرط

پس یہ خوبصورت معاشرہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا یہی وہ معاشرہ ہے جو آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت نے خلافت کی برکت سے اس دنیا میں قائم کرنا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’یہ بالکل سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کا کسی کے ساتھ کوئی جسمانی رشتہ نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ خودانصاف ہے اور انصاف کو دوست رکھتا ہے۔ وہ خود عدل ہے، عدل کو دوست رکھتا ہے۔ اس لیے ظاہری رشتوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ جو تقویٰ کی رعایت کرتا ہے اسے وہ اپنے فضل سے بچاتا ہے۔ اور اس کا ساتھ دیتا ہے۔ اور اسی لیے اُس نے فرمایا: اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ(الحجرات: 14)‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ309تا310، ایڈیشن2003ء)

اسلام صلح کا مذہب

بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’اسلام وہ پاک اور صلح کا مذہب تھاجس نے کسی قوم کے پیشوا پر حملہ نہیں کیااور قرآن وہ قابل تعظیم کتاب ہے جس نے قوموں میں صلح کی بنیاد ڈالی اور ہر ایک قوم کے نبی کو مان لیا‘‘(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23صفحہ459)

نیز فرمایا: ’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا اور اس کی مخلوق کےرشتہ میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے اس کو دور کرکے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کرکے صلح کی بنیاد ڈالوں۔ ‘‘( لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد20 صفحہ180)

’’یہ زمانہ وہی زمانہ ہے جس میں خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ مختلف فرقوں کوایک قوم بنا دے۔ اور ان مذہبی جھگڑوں کو ختم کر کے آخر ایک ہی مذہب میں سب کوجمع کر دے … دنیا کے مذاہب کا بہت شور اٹھے گا ایک مذہب دوسرے مذہب پر ایسا پڑے گا جیسا کہ ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے اور ایک دوسرے کوہلاک کرنا چاہیں گے۔ تب آسمان وزمین کا خدا اس تلاطمِ امواج کے زمانہ میں اپنے ہاتھوں سے بغیر دنیوی اسباب کے ایک نیا سلسلہ پیدا کرے گا اور اس میں ان سب کو جمع کرے گا جو استعداد اور مناسبت رکھتے ہیں۔ تب وہ سمجھیں گے کہ مذہب کیا چیز ہے۔ اور ان میں زندگی اور حقیقی راستبازی کی روح پھونکی جائے گی اور خدا کی معرفت کا ان کو جام پلایا جائے گا… اورضرور ہے کہ یہ سلسلہ دنیا کا منقطع نہ ہو جب تک کہ یہ پیشگوئی کہ آج سے تیرہ سو برس پہلے قرآن شریف نے دنیا میں شائع کی ہے پوری نہ ہو جائے۔ ‘‘(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 182تا183)

’’نہ بُت رہیں گے نہ صلیب رہے گی اور سمجھدار دلوں پر سے اُن کی عظمت اٹھ جائے گی اور یہ سب باتیں باطل دکھائی دیں گی اور سچے خدا کا پھرچہرہ نمایاں ہو جائے گا۔ … خدا اپنے بزرگ نشانوں کے ساتھ اور اپنے نہایت پاک معارف کے ساتھ اور نہایت قوی دلائل کے ساتھ دلوں کو اسلام کی طرف پھیرے گا اور وہی منکر رہ جائیں گے جن کے دل مسخ شدہ ہیں۔ خدا ایک ہوا چلائے گا جس طرح موسم بہار کی ہوا چلتی ہے اور ایک روحانیت آسمان سے نازل ہوگی اور مختلف بلاد اور ممالک میں بہت جلد پھیل جائے گی اور جس طرح بجلی مشرق اور مغرب میں اپنی چمک ظاہر کر دیتی ہے ایسا ہی اس روحانیت کے ظہور کے وقت ہوگا۔ تب جو نہیں دیکھتے تھے وہ دیکھیں گے اور جونہیں سمجھتے تھے وہ سمجھیں گے اور امن اور سلامتی کے ساتھ راستی پھیل جائے گی۔ ‘‘(کتاب البریّہ، صفحہ 270حاشیہ مطبوعہ 1898ءروحانی خزائن جلد 13صفحہ 311تا312، حاشیہ)

تم امن پسند جماعت بنو

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ دنیا میں امن کے قیام کے حوالے سے فرماتے ہیں: ’’دنیا کا کام امن پر موقوف ہے۔ اگر امن دنیا میں قائم نہ رہے تو کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ جس قدر امن ہوگا اسی قدر اسلام ترقی کرے گا۔ اس لئے ہمارے نبی کریمﷺ امن کے ہمیشہ حامی رہے۔ آپﷺ نے طوائف الملوکی میں جو مکہ معظمہ میں تھی اور عیسائی سلطنت کے تحت جو حبشہ میں تھی ہم کو یہ تعلیم دی کہ غیر مسلم سلطنت کےماتحت کس طرح زندگی بسر کرنی چاہیئے۔…اگر امن نہ ہو تو کسی طرح کا کوئی کام دین و دنیا کا ہم عمدگی سے نہیں کر سکتے۔ اس واسطے میں تاکید کرتاہوں کہ امن بڑھانے کی کوشش کرو اورامن کےلئے طاقت کی ضرورت ہے۔ وہ گورنمنٹ کے پاس ہے۔ میں خوشامد سے نہیں بلکہ حق پہنچانے کی نیت سے کہتا ہوں کہ تم امن پسند جماعت بنو تا تمہاری ترقی ہو اور تم چین سے زندگی بسر کرو۔

اس کا بدلہ مخلوق سے مت مانگو۔ اللہ سے اس کا بدلہ مانگو۔ اور یاد رکھو کہ بلا امن کوئی مذہب نہیں پھیلتا اور نہ پھول سکتاہے۔ میں اس کے ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ حضرت صاحب کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کے اس احسان کے بدلہ میں ہم اگر امن کےقائم کرنےمیں کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ اس کا نتیجہ ہم کو ضرور دے گا اور اگر ہم خلاف ورزی کریں تو اس کے بد نتیجے کا منتظر رہنا پڑے گا۔ ‘‘(حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ453تا454)

اقوام عالم کےلیے صلح کے شہزادے بنو

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتےہیں: ’’یاد رکھو کہ تمہیں اس غرض سے بنایا گیا ہے کہ تم دنیا میں امن پیدا کرو۔ اس وقت ہم دنیا میں ہر طرف لڑائی دیکھتے ہیں اور فساد برپا پاتےہیں۔ ممکن ہے کہ اس لڑائی میں صلح کا انعام اور اس فساد کے فرو کرنے کی عزت ہماری اس نسل کو ملے یا ہماری آئندہ نسل کو مگر یہ ضرورہے کہ ملے گی مسیح موعود علیہ السلام ہی کی جماعت کو۔ …۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کےوقت میں افراد کو جمع کیا گیااور آپ نے ان کے سامنے صلح پر زور دیااور اس طرح صلح کرانے کی بنیاد رکھی۔ اب اس جماعت کا جسے مامور کے ہاتھ پر جمع کیا گیا ہےیہ کام ہے کہ اقوام میں صلح کرائے۔ اور ممکن ہے یہ کام تمہاری اس موجودہ نسل سے ہی لیا جائے۔

پس میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ آپس میں نہ لڑو۔ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ ایک بھائی دوسرے بھائی کے خلاف زبان درازی نہ کر ے…بلکہ میں تمہیں وہ کہتا ہوں جس کا حضرت مسیح ناصری نے ارادہ ظاہر کیا تھاکہ تم اپنے دشمنوں کے لئے مہربان اور دنیا کے لئے امن قائم کرنے والے بنو۔ مگر اس پر عمل نہ کرا سکےاور ان کی جماعت اس کی مصداق نہ بنی۔ حضرت مسیح ناصری نے خیال کیا تھا کہ شاید وہی ’’امن کا شہزادہ ‘‘ کے خطاب کے مخاطب اور اس بشارت کے مستحق ہیں۔ اس لئے انہوں نے اپنے ماننے والوں کو یہ کہا مگر ان کی قوم تو جنگ کی بانی ہوئی۔ درحقیقت یہ ان کے لئے بشارت نہ تھی بلکہ ان کے عظیم الشان مثیل کے لئے تھی جو محمدﷺ کا بھی مظہر تھا۔ پس خدا نے مسیح موعود کی جماعت کےلئے چاہا کہ وہ دشمنوں میں صلح کا موجب ہو خواہ دشمنوں کی کتنی ہی زیادہ اور اس کی جماعت کتنی ہی قلیل تعدادہو …پس میری یہ نصیحت ہے کہ تم ایک مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہو جو یہ ہے کہ تم دنیا کے فساد کو دور کرو اور دنیا میں صلح کراؤتاکہ دنیا کو پتہ لگ جائے کہ مسیح موعود محض بھائی کو بھائی بنانے نہیں بلکہ دشمن کو بھائی بنانے آیا تھا۔ ‘‘(خطبات محمود جلد 8صفحہ 226تا230)

حقیقی امن کےلیے اپنےخالق کی طرف آناہوگا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز حقیقی امن کے حصول کے ذریعے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے فرماتےہیں: ’’سب سے بڑھ کر اس امر کی ضرورت ہے کہ دنیا اس بات کا احساس کرے کہ وہ اپنے خالق کو بھلا چکی ہے اور یہ کہ اسے واپس اپنے خالق کی طرف آنا ہوگا اور یہی وہ واحد راہ ہے جس سے حقیقی امن قائم ہو سکتاہےاور اس کے بغیر امن کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ ‘‘(الفضل انٹرنیشنل 5؍دسمبر 2014ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اسی حوالے سے فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کوئی امن نصیب نہیں ہوسکتا یہی وہ راز ہے جس کو جانے بغیر نہ تو انسان کو اطمینان قلب نصیب ہوسکتا ہے اور نہ ہی معاشرہ میں امن و سکون کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ حقیقی امن اور اطمینان تک لے جانے والا اور کوئی راستہ نہیں ہے…اس سے بڑھ کر اسلام کا کوئی اور فلسفہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کئے بغیر کوئی فرد حقیقی اطمینان حاصل نہیں کرسکتا اور حقیقی اطمینان کے بغیرمعاشرہ امن و آشتی کا گہوارہ نہیں بن سکتا۔ قیام امن کے لئے تمام ایسی کوششیں جن کا محرک ذاتی اغراض ہوں یقیناً ناکام اور بےنتیجہ رہتی ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ موجود نہیں تو پھر امن بھی نہیں اور اس حقیقت کا شعور ہی دراصل دانائی کا کمال ہے۔‘‘(اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل، صفحہ314)

Love for All Hatred For None

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ محبت و شفقت کا مجسمہ تھے۔ مغربی جرمنی میں حضورؒ نے ایک موقع پر اپنی زندگی کا مطمح نظر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں نے اپنی زندگی بنی نوعِ انسان کی فلاح کے لیے وقف کر رکھی ہے میرے دل میں نوع انسان کی محبت اور ہمدردی کا ایک سمندر موجزن ہے۔ اس لیے میں انہیں فلاح کی راہ کی طرف جو بلا شبہ اسلام کی راہ ہے بلا رہا ہوں۔ یہاں بھی محبت کا پیغام لے کر آیا ہوں اور وہ یہی ہے کہ انسان، انسان سے محبت کرے۔ محبت کے نتیجہ میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ ہمیشہ محبت ہی غالب آتی ہے اور تعصب کے لیے سدا سے شکست مقدر ہے۔ ‘‘

پیدرو آباد میں مسجد کے سنگ بنیاد کے موقع پر حضورؒ نے احباب کو انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’مسجد ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمام انسان برابر ہیں۔ خواہ وہ غریب ہوں یا امیر۔ پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ۔ … اسلام ہمیں باہم محبت اور الفت سے رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ہمیں انکساری سکھاتا ہے۔ اور بتاتا ہے کہ انسانوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے وقت ہمیں مسلم اور غیر مسلم میں کسی قسم کی کوئی تمیز روا نہیں رکھنی چاہیے۔ انسانیت کا یہی تقاضا ہے۔ …میرا پیغام صرف یہ ہے کہ Love for All Hatred For None یعنی سب کے ساتھ پیار کرو، نفرت کسی سے نہ کرو۔‘‘ (حیات ناصر جلد اول صفحہ 657)

محبت کے سفیر کا دنیا کو پیغام

1980ءمیں حضورؒ نے پورے یورپ میں محبت کا پیغام دیا …فرمایا: ’’میں یورپی ممالک کا یہ دورہ اسی لیے کر رہا ہوں کہ یہاں کے لوگوں کو اسلام کی طرف سے امن کا پیغام دوں اور قیام امن کی حقیقی راہ انہیں بتائوں۔ چنانچہ میں جس ملک میں بھی جاتا ہوں لوگوں کو یہی یقین دلانے کی کوشش کرتا ہوں کہ انسانیت کی بقا کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنا سیکھو۔ اس لیے میں محبت کے ایک سفیر کی حیثیت سے یہ دورہ کررہا ہوں۔ ‘‘

انگلستان میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں ایک مذہبی آدمی ہوں میں سیاست میں دخل نہیں دینا چاہتا۔ میرا پیغام اسلام کا پیغام ہے۔ اسلام کہتا ہے انسان، انسان میں کوئی فرق نہیں ہے اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ بلا استثناء ہر انسان سے محبت کرو اور اس کے حقوق غصب نہ کرو …اس بنیادی اصل پر عمل پیرا ہو ‘‘نفرت کسی سے نہیں محبت سب کے لیے‘‘(حیات ناصر جلد اول صفحہ 657تا658)

انسانی مساوات کے ذریعہ امن کا قیام

دنیا میں بڑے بڑے فسادات کی ایک بڑی وجہ قومی تفاخرہے۔ موجودہ دَور میں بظاہر Racismکو برا خیال کیا جاتا ہے اوراسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن دنیا کے اکثروبیشتر معاشروں میں Racismنہایت بھیانک شکل میں اپنا زہر گھول رہا ہے۔ جس کی وجہ سے انسانوں کے درمیان دُوریاں بڑھ رہی ہیں اور نفرت کی چنگاریاں شعلہ ٔ جوّالا کا روپ دھار تی جا رہی ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ Racismکے نتیجے میں انسانی امن کو پیش خطرات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’آج دنیا میں جتنے فسادات ہیں اور انسان کو انسان سے جتنے خطرات لاحق ہیں ان میں جو بھی محرکات کارفرما ہیں، ان میں قومی برتری کا احساس سب سے طاقتور اور خطرناک محرک ہے۔ اس کو Racismیا Racialismکہاجاتا ہے۔ یہ Racismاگرچہ بظاہر ناپسند کیا جاتا ہے لیکن آج بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح نازی دور میں جرمنی میں ہوا کرتا تھا۔ یہ Racismسفید بھی ہے اور سیاہ بھی۔ اور سفید قوموں کے خلاف جو افریقن ممالک میں نفرتوں کے لاوے ابلتے رہتے ہیں، اس کو Blackیا سیاہ فام Racismکہا جاتا ہے۔ افسوس ہے کہ اب تک دنیا اس بھوت کے چنگل سے آزاد نہیں ہوسکی۔

یہ کوئی ایسا پودا نہیں ہے جسے آسانی سے اکھاڑ پھینک دیا جائے لیکن سب اہل حق جو سچ بات کو دیکھنا اور پہچاننا جانتے ہیں ان کو علم ہے کہ باوجود ہر قسم کی تقریروں اور Racismکے خلاف باتوں کے جگہ جگہ Racismکی جڑیں مختلف شکلوں میں مغرب کے تمام ممالک میں بھی پائی جاتی ہیں اور مشرق کے تمام ممالک میں بھی پائی جاتی ہیں۔ کوئی دنیا کا خطہ ایسا نہیں جہاں نہ پائی جاتی ہوں۔ یہ ایسا زہر اور سخت جان پودا ہے کہ یہ معاشروں میں نہیں، فلسفوں میں بھی بڑی خاموشی کے ساتھ داخل ہوجاتا ہے۔ وہ ماہرین جو گہری نظر سے مغرب اور سفید فام روس اور چین کے تعلقات کا مطالعہ کرتے ہیں، خوب جانتے ہیں کہ دونوں مغرب اور سفید فام روس سفید Racismکو اشتراکیت پر ترجیح دیں گے اگر اشتراکیت کے پھیلاؤ کے ساتھ زرد فام چین اس دنیا پر غالب آجاتا ہے۔ دونوں ہی اپنی سفید فام برتری کو اس بات پر ترجیح دیں گے کہ اشتراکیت زرد فام چین سے متعلق ہوکر دنیا پر غالب آئے۔ کسی قیمت پر بھی وہ زرد فام چین کا دنیا پر غلبہ برداشت نہیں کرسکتے۔‘‘(عدل، احسان اور ایتاء ذی القربیٰ صفحہ 229تا230خطاب بر موقع جلسہ سالانہ یوکے 24؍جولائی 1988ء)

امانت اور عہدوں کا پاس

دنیا میں قیام امن کی راہ میں ایک اور بڑی رکاوٹ معاہدوں کی پاسداری نہ کرنا ہے۔ ترقی کے اس دَور میں بظاہر مہذب کہلانے والی بڑی بڑی حکومتیں کمزور ملکوں سے جو معاہدے کرتی ہیں اُس میں ایک تو انصاف سے کام نہیں لیتیں دوسرے جب اپنا مطلب نکل آئے تو اُن معاہدوں کو یک طرفہ طور پر ختم کرکے کمزور ملکوں کو شدید نقصان سے دوچار کردیتی ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز معاشرے میں قیام امن کے حوالے سے فر ماتے ہیں: ’’…آج معاشرے کے اکثر فساد اس لئے ہیں کہ امانت کی ادائیگی صحیح طرح نہیں کی جاتی اور عہدوں کا پاس نہیں کیا جاتا۔ صرف اپنے حقوق کا خیال نہیں ہونا چاہئے بلکہ دوسروں کے حقوق کا خیال بھی ہونا چاہئے۔ جب یہ صورتحال پیدا ہو گی تو امن اور سلامتی معاشرے میں قائم ہو گی۔ پھر یہ کہ صرف حقوق کا خیال نہیں کرنا بلکہ دوسرے کا حق نہ ہونے کے باوجود احسان کرتے ہوئے، قربانی کر کے دوسرے کی ضروریات کا بھی خیال رکھنااور پھر یقیناً معاشرے میں امن اور سلامتی اور پیار پھیلانا ہے۔‘‘(الفضل انٹر نیشنل 8؍جون2007ءصفحہ7)

لالچ ،ظلم اور ہوس سے بچیں

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز موجودہ حالات کے تناظر میں عالمی جنگ کی ہولناکی سے متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’آج بھی بے چینی بڑھ رہی ہے۔ وہ جنگیں اور دیگر اقدامات جو امن کو قائم کرنے کی خاطر کیے جا رہے ہیں ایک اَور عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن رہے ہیں۔ موجودہ اقتصادی اور سماجی مسائل اس صورتحال میں اور بھی زیادہ ابتری کا باعث بن رہے ہیں۔ قرآن کریم نے دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے بعض سنہری اُصول عطا فرمائے ہیں۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہوس سے دشمنی بڑھتی ہے۔ کبھی یہ ہوس توسیع پسندانہ عزائم سے ظاہر ہوتی ہے۔ کبھی اس کا اظہار قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے سے ہوتا ہے اور کبھی یہ ہوس اپنی برتری دوسروں پر ٹھونسنے کی شکل میں نظر آتی ہے۔ یہی لالچ اور ہوس ہے جو بالآخر ظلم کی طرف لے جاتا ہے۔ خواہ یہ بے رحم جابر حکمرانوں کے ہاتھوں سے ہو جو اپنے مفادات کے حصول کے لیے لوگوں کے حقوق غصب کر کے اپنی برتری ثابت کرنا چاہتے ہوں یا جارحیت کرنے والی اَفواج کے ہاتھوں سے ہو۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مظلوموں کی چیخ و پکار کے نتیجہ میں بیرونی دُنیا مدد کے لیے آجاتی ہے۔ بہر حال اِس کا نتیجہ جو بھی ہو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سنہری اصول سکھایا ہے کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرو۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ مظلوم کی مدد کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ظالم کی مدد کس طرح کر سکتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اُس کے ہاتھوں کو ظلم سے روک کر، کیونکہ بصورتِ دیگر اُس کا ظلم میں بڑھتے چلے جانا اُسے خدا کے عذاب کا مورد بنا دے گا۔ (صحیح البخاری کتاب الاکراہ باب یمین الرجل لصاحبہ حدیث نمبر 6952)

پس اُس پر رحم کرتے ہوئے اُسے بچانے کی کوشش کرو۔ یہ وہ اُصول ہے جو معاشرہ کی چھوٹی سے چھوٹی اکائی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اطلاق پاتا ہے۔ اس ضمن میں قرآن کریم فرماتا ہے: ( ترجمہ)’’اور اگر مومنوں میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو اُن کے درمیان صلح کرواؤ۔ پس اگر اُن میں سے ایک دوسری کے خلاف سرکشی کرے تو جو زیادتی کر رہی ہے اُس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف لوٹ آئے۔ پس اگر وہ لوٹ آئے تو اُن دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘(سورۃ الحجرات: 10)

اگرچہ یہ تعلیم مسلمانوں کے متعلق ہے لیکن اِس اُصول کو اختیار کر کے عالمی امن کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ آغاز میں ہی یہ بات وضاحت سے بیان ہو چکی ہے کہ قیامِ امن کے لیے سب سے ضروری چیز عدل کا قیام ہے۔ اور اُصولِ عدل کی پابندی کے باوجود اگر قیام امن کی کوششیں ناکام ثابت ہوں تو مل کر اُس فریق کے خلاف جنگ کرو جو ظلم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ ظالم فریق امن قائم کرنے کے لیے تیار نہ ہو جائے لیکن جب ظالم اپنے ظلم سے باز آ جائے تو پھر عدل کا تقاضا ہے کہ انتقام کے بہانے نہ تلاش کرو۔ طرح طرح کی پابندیاں مت لگاؤ۔ ظالم پر ہر طرح سے نظر رکھو لیکن ساتھ ہی اُس کے حالات بھی بہتر بنانے کی کوشش کرو۔ اِس بد اَمنی کو ختم کرنے کے لیے جو آج دنیا کے بعض ممالک میں موجود ہے اور بد قسمتی سے ان میں بعض مسلمان ممالک نمایاں ہیں اُن اقوام کو جنہیں وِیٹو کا حق حاصل ہے بطور خاص اِس اَمر کا تجربہ کرنا چاہیے کہ کیا صحیح معنوں میں عدل کیا جا رہا ہے؟ مدد کی ضرورت پڑنے پر طاقتور اَقوام کو ہی مدد کے لیے پکارا جاتا ہے۔ ‘‘(خطاب فرمودہ 22؍اکتوبر 2008ء بمقام برطانوی پارلیمنٹ ہاؤس آف کامنز)

بین الاقوامی صلح کا قیام امن اور انصاف سے وابستہ ہے

حضرت مصلح موعودؓ نے اس اہم بنیادی اصول کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس آیت میں بین الاقوامی صلح کے قیام کےلیے مندرجہ ذیل لطیف گُر بتائے ہیں۔ سب سے اول جب دو قوموں میں لڑائی اور فساد کے آثار ہوں معاً دوسری قومیں بجائے ایک یا دوسری کی طرف داری کرنے کے ان دونوں کو نوٹس دیں کہ وہ قوموں کی پنچایت سے ایک جھگڑے کا فیصلہ کرائیں۔ اگر وہ منظور کرلیں تو جھگڑا مٹ جائے گا۔ لیکن اگر ان میں سے ایک نہ مانے اور لڑائی پر تیار ہوجائے تو دوسرا قدم یہ اٹھایا جائے کہ باقی سب اقوام اس کے ساتھ مل کر لڑیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ سب اقوام کا مقابلہ ایک قوم نہیں کرسکتی۔ ضرور ہے کہ جلد اس کو ہوش آجائے اور وہ صلح پر آمادہ ہوجائے۔ پس جب وہ صلح کےلیے تیار ہوتو تیسرا قدم یہ اٹھائیں کہ ان دونوں قوموں میں جن کے جھگڑے کی وجہ سے جنگ شروع ہوئی تھی صلح کرادیں۔ یعنی اس وقت اپنے آپ کو فریقِ مخالف بناکرخود اس سے معاہدات کرنے نہ بیٹھیں بلکہ اپنے معاہدات تو جو پہلے تھے وہی رہنے دیں۔ صرف اسی پہلے جھگڑے کا فیصلہ کریں جس کے سبب سے جنگ ہوئی تھی۔ اس جنگ کی وجہ سے نئے مطالبات قائم کرکے ہمیشہ کی فساد کی بنیاد نہ ڈالیں۔ چوتھے یہ امر مدنظر رکھیں کہ معاہدہ انصاف پر مبنی ہو یہ نہ ہو کہ چونکہ ایک فریق مخالفت کرچکا ہے اس لیے اس کے خلاف فیصلہ کردو بلکہ باوجود جنگ کے اپنے آپ کو ثالثوں کی ہی صف میں رکھو فریق مخالف نہ بن جاؤ۔ ‘‘(احمدیت یعنی حقیقی اسلام، انوارالعلوم جلد8 صفحہ 314)

تمہارا واحد کام امن کا فروغ ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دنیا کو اسلام کا حقیقی پیغام دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’…تمہارا واحد کام دنیا میں امن کا فروغ اور اس کا قیام ہے۔ ان کی نفرتوں اور زیادتیوں کے جواب میں تم صرف یہ کہو کہ ’’ تم پر سلامتی ہو ‘‘ اور انہیں بتائو کہ تم ان کے لئے محض سلامتی کا پیغام لائے ہو۔ … جماعت احمدیہ مسلمہ انہی تعلیمات پر کار بند ہے اور انہی کے مطابق زندگی بسر کر رہی ہے۔ یہی وہ ہم آہنگی، روا داری اور ہمدردی کی تعلیم ہے جسے دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے ہم مصروفِ عمل ہیں۔ ہم احمدی مسلمان ہی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس تاریخی، بے نظیر اور لاثانی نرمی، محبت اور شفقت کی تقلید کرتے ہیں کہ کئی سالوں پر محیط سخت تکلیف اور کرب ناک مظالم برداشت کرنے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فاتحانہ شان کے ساتھ واپس تشریف لائے۔ کئی سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو کاروں کو خوراک اور پانی جیسی انتہائی بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم کر دیا گیا اور کئی کئی دن تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاقے کاٹے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی ماننے والوں پر حملے کئے گئے۔ بعض کو تو انتہائی بہیمانہ اور ظالمانہ تشدد کر کے جان سے مار دیا گیا کہ جس کا کوئی انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ عمر رسیدہ مسلمان مردوں، خواتین اور بچوں تک کو بھی نہیں چھوڑا گیا اور وحشیانہ اور بہیمانہ بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ اس ظلم و ستم کے باوجود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کوئی بدلہ نہ لیا بلکہ اعلانِ عام کروا دیا کہ: تم میں سے کسی پر بھی کوئی پکڑ نہیں کیونکہ مَیں نے تم سب کو معاف کر دیا ہے۔ مَیں محبت اور امن و سلامتی کا نبی ہوں۔ خدا تعالیٰ کی صفت ’’السلام ‘‘ کا سب سے زیادہ علم مجھے دیا گیا ہے۔ وہی خدا ہے جو سلامتی بخشتا ہے۔ مَیں تمہاری ساری سابقہ زیادتیاں تمہیں معاف کرتا ہوں اور مَیں تمہیں سلامتی اور تحفظ کی ضمانت دیتا ہوں۔ تم مکہ میں آزادی سے رہ سکتے ہو اور تم اپنے اپنے مذہب پر بھی آزادی سے عمل پیرا ہو سکتے ہو۔ کسی کے ساتھ کسی قسم کا جبر اور زبردستی نہیں کی جائے گی۔ ‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ 127تا128ایڈیشن 2015ء)

باہمی حقوق کی ادائیگی سے دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن سکتی ہے

حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز امن و سلامتی کے بارے میں فرما تے ہیں: ’’ایک عالمگیر اسلامی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے میرا یہ فرض ہے کہ مَیں دنیا کی توجہ قیامِ امن کی طرف مبذول کروائوں۔ مَیں یہ اپنا فرض سمجھتا ہوں کیونکہ اسلام کا مطلب ہی امن اور سلامتی ہے۔ اگر بعض مسلمان ممالک نفرت انگیز اور انتہا پسند اقدامات کریں گے تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہئے کہ اسلامی تعلیم فساد اور بد امنی کو فروغ دیتی ہے۔ …مزید برآں بانیٔ اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متبعین کو یہ تعلیم دی کہ ہمیشہ سلام کیا کریں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ سلامتی کا پیغام پھیلائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ ہمارے سامنے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ تمام غیر مسلموں کو خواہ وہ یہودی ہوں عیسائی ہوں یا کسی دوسرے مذہب کے پیرو کار، سلام کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا اس لئے کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ تمام لوگ خدا کی مخلوق ہیں اور خدا کا نام ’’السلام‘‘ہے۔ لہٰذا وہ تمام بنی نوع انسان کے لئے امن اور سلامتی کا خواہش مند ہے۔ …تاریخ شاہدہے کہ بانیٔ اسلام حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس تعلیم پر عمل پیرا رہے ا ور اسے ہر سُو پھیلایااور اب اس زمانہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جان نثار بانی ٔ جماعت احمدیہ مسلمہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے اس تعلیم کو پھیلایا۔ …آپ علیہ السلام نے اپنے متبعین کو یہ بھی تاکید کی کہ بنی نوع انسان کی توجہ خدا کے حقوق کی ادائیگی اور مخلوق خدا کے حقوق کی ادائیگی کی طرف دلائیں۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ مسلمہ تمام لوگوں میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی ضرورت، اہمیت اور انصاف کے بہترین معیار کے قیام پر بھر پور زور دیتی ہے۔ میری دعا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک فرد مذہب اور عقیدہ سے بالاتر ہوکر باہمی حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ کرے تاکہ دنیا امن وآشتی کا گہوارہ بن جائے۔ ‘‘(آمین)(عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ 141تا143، ایڈیشن 2015ء)

دنیا کی سلامتی کا دارومدار انصاف پر ہے

عدل و انصاف اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے اہم اصول ہیں جن کے بغیر کسی بھی معاشرے میں حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حکم دیتا ہے کہ دنیا کی سلامتی کا دارو مدار انصاف پر ہے اور انصاف کا معیار تمہارا کتنا بلند ہو اس بارہ میں فرماتا ہے۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَلَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ المائدہ آیت نمبر9) کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جائو اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہر گز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ سے ڈرو یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ با خبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔ ‘‘(پوپ کے اسلام پر اعتراضات کا جواب صفحہ 47، ایڈیشن2008ء)

پائیدار سلامتی کے معیار

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’…اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری حیثیت، تمہارا دوسرے انسان سے اعلیٰ اور برتر ہونا اس کا کوئی تعلق نہ تمہاری نسل سے ہے نہ تمہاری قوم سے، نہ تمہارے رنگ سے ہے، نہ تمہاری دولت سے ہے، نہ تمہارے اپنے معاشرے میں اعلیٰ مقام سے ہے۔ نہ کسی قوم کا اعلیٰ ہونا، کمزور لوگوں پر اس کے حکومت کرنے سے ہے۔ دنیا کی نظر میں تو ان دنیاوی طاقتوں اور حکومتوں کا مقام ہو گا لیکن یہ خدا تعالیٰ کی نظر میں نہیں۔ اور جو چیز خدا تعالیٰ کی نظر میں قابلِ قبول نہ ہو وہ بظاہر ان نیک مقاصد کے حصول میں ہی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ جس کے لئے وہ استعمال کی جارہی ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ تمام انسان جو ہیں ایک خاندان ہیں اور جب ایک خاندان بن کر رہیں گے تو پھر اس طرح ایک دوسرے کی سلامتی کا بھی خیال رکھیں گے جس طرح ایک خاندان کے افراد، ایسے خاندان کے افراد جن میں آپس میں پیار و محبت ہو وہ رکھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قبیلوں اور قوموں کا صرف یہ تصور دیا ہے کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ یہ پاکستانی ہے۔ یہ انگریز ہے، یہ جرمن ہے، یہ افریقن ہے۔ ورنہ بحیثیت انسان تم انسان ہو۔ اور جو امیر کے جذبات ہیں، وہی غریب کے جذبات ہیں۔ جو یورپین کے جذبات ہیں، وہی افریقن کے جذبات ہیں۔ جو مشرق کے رہنے والوں کے جذبات ہیں وہی مغرب کے رہنے والوں کے جذبات ہیں۔ پس ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھو۔ اگر جذبات کا خیال رکھو گے تو سلامتی میں رہو گے۔ پس ہر قوم میں اللہ تعالیٰ نے جو خصوصیت رکھی ہیں، ہر قوم کی اپنی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں، ان سے فائدہ اٹھائو تاکہ دائمی پیار و محبت کو قائم رکھ سکو۔ پس اسلام کے نزدیک پائیدار سلامتی کے لئے یہی معیار ہے ورنہ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ جتنی بھی سلامتی کونسلیں بن جائیں، جتنی بھی تنظیمیں بن جائیں وہ کبھی بھی پائیدار امن و سلامتی قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ اور یہ قرآنی تعلیم پہلے صرف تعلیم کی حد تک ہی نہیں رہی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اس پر عمل کیا۔ غریبوں سے لاڈ کیا، غلاموں سے پیار کیا، محروموں کو ان کے حق دلوائے، ان کو معاشرے میں مقام دلوایا۔ حضرت بلالؓ ایک افریقن غلام تھے وہ آزاد کروا دیئے گئے تھے۔ لیکن اس وقت کوئی قومی حیثیت ان کی معاشرے میں نہیں تھی۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلوک نے ان کو وہ مقام عطا فرمایا کہ حضرت عمرؓ نے بھی ان کو سیّدنا بلال کے نام سے پکارا۔ پس یہ ہیں سلامتی کے معیار قائم کرنے کے طریق۔ ‘‘(پوپ کے اسلام پر اعتراضات کا جواب صفحہ40تا41، ایڈیشن2008ء)

دنیاوی امن کا قیام بھی مسیح موعود علیہ السلام سے ہی وابستہ ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز فرماتےہیں: ’’پس اب جہاں روحانی ترقیات حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے جڑنے سے وابستہ ہیں وہاں دنیاوی امن کا قیام بھی مسیح موعود سے ہی وابستہ ہے کیونکہ آپ نے ہی آنحضرتؐ کے اس ارشاد کو پورا فرمایاکہ دنیا کو پیار محبت اور صلح کی طرف بلاتے ہوئے، اسے قائم کرنے کی تلقین کرتے ہوئے اور خداتعالیٰ کے حقوق قائم کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے نور سے منور کریں اوردنیا کے امن کا ذریعہ بن جائیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍دسمبر 2009ءصفحہ 7)

خلافت احمدیہ دنیا میں حقیقی اور پائیدار امن کی ضامن

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ دنیا میں ہمیشہ امن و آشتی کی حقیقی علمبردار کے طور پر جانی جاتی رہے گی۔ احمدی جس ملک میں بھی رہتے ہوں گے وہ اپنے اپنے ملک کے وفادار شہری ثابت ہوں گے۔ خلافت احمدیہ کاکام تو صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو جاری رکھنا اور اسے آگے بڑھانا ہے…خلافت احمدیہ تمام احمدیوں کو ان ہر دو فرائض (حقوق اللہ و حقوق العباد) کی ادائیگی کی طرف مسلسل متوجہ رکھتی ہے جن کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعت دنیا میں امن و آشتی کی فضاء پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہے۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ 10)

مزید فرماتے ہیں: ’’پس اے مسیح محمدی کے ماننے والو! اے وہ لوگوجو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیار ے اور آپ کے درخت وجود کی سر سبز شاخیں ہو، اٹھواور خلافتِ احمدیہ کی مضبوطی کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہو تاکہ مسیح محمدی اپنے آقا و مطاع کے جس پیغام کو لے کر دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا، اس حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑ تے ہوئے دنیا کے کونے کونے میں پھیلادو۔ دنیا کے ہر فرد تک یہ پیغام پہنچادو کہ تمہاری بقاخدائے واحدو یگانہ سے تعلق جوڑنے میں ہے۔ دنیاکا امن اس مہدی و مسیح کی جماعت سے منسلک ہونے سے وابستہ ہے کیونکہ امن و سلامتی کی حقیقی اسلامی تعلیم کایہی علمبردار ہے، جس کی کوئی مثال روئے زمین پر نہیں پائی جاتی۔ آج اس مسیح محمدی کے مشن کو دنیا میں قائم کرنے اور وحدت کی لڑی میں پروئے جانےکا حل صرف اور صرف خلافتِ احمدیہ سے جڑے رہنے سے وابستہ ہے اور اسی سے خدا والوں نے دنیا میں ایک انقلاب لانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو مضبوطی ایمان کے ساتھ اس خوبصورت حقیقت کو دنیا کےہر فرد تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ ‘‘آمین(خطابات، امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۔ صفحہ 18تا20۔ ناشر اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز، یوکے)

اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ خلافت احمدیہ سے وابستہ رکھے۔ ہم ہمیشہ اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامنے والے ہوں۔ خلافت احمدیہ کے سلطان نصیر بننے والے ہوں اور خلافت حقہ کے زیر سایہ دنیا میں پائیدار امن کے قیام کے لیے ہمیشہ کوشاں رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطافرمائے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو حقیقی امن اور اطمینانِ قلب نصیب کرے۔ اللّٰھم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button