سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

جب حضرت مسیح موعودؑ کی شادی کی تجویز ہوئی تو اس کے ساتھ ہی نکاح ہو گیا۔ کوئی دھوم دھام اور کوئی رسم آپ کے نکاح میں عمل میں نہ آئی

شادی

جیساکہ اس زمانے میں متمول اور رئیس خاندانوں میں رواج تھا کہ بچوں کی شادی عموماًچھوٹی عمر میں ہی کردی جاتی تھی۔ چنانچہ آپؑ ابھی پندرہ سولہ برس کے ہی ہوں گے کہ آپؑ کی شادی کردی گئی۔ آپؑ کی شادی اندازاً 1850ء یا 1851ء میں ہوئی ہوگی جبکہ آپؑ کی عمر مبارک 15/16 برس تھی۔

حضرت مرزا سلطان احمدصاحبؒ کی ایک روایت ہے کہ’’ میں نے سنا ہے کہ والد صاحب کی عمر میری ولادت کے وقت کم وبیش اٹھارہ سال کی تھی۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر185)

ایک اور روایت اس طرح ہے کہ ’’بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے تھے کہ جب سلطان احمد پیدا ہوا اس وقت ہماری عمر صرف سولہ سال کی تھی۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر283)

ایک دوسری روایت یوں ہے: ’’حافظ نور محمد صاحب متوطن فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کئی دفعہ فرمایا کرتے تھے کہ سلطان احمد(یعنی مرزا سلطان احمد صاحب )ہم سے سولہ سال چھوٹا ہے اور فضل احمد بیس برس اورا س کے بعد ہمارا اپنے گھر سے کوئی تعلق نہیں رہا۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر385)

’’حیات احمد‘‘کے مصنف حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کی رائے ہے کہ ’’چودہ پندرہ برس کی عمر میں ہی آپؑ کی شادی ہوگئی۔ اورعمر کے سولہویں سال خداتعالیٰ نے ایک بیٹا عطا فرمایا…‘‘(حیات احمدجلداوّل صفحہ82)

’’لائف آف احمد‘‘کے مصنف کا بیان ہے کہ تقریباً سولہ برس کی عمر مبارک تھی کہ آپؑ کی شادی ہوگئی:

“When Ahmadas was about 16 years of age he was married ….The first son was born when Ahmadas was about 18 or 19 years of age. The child was named Mirza Sultan Ahmad. Two years later was born the second son, Mirza Fazl Ahmad”(Life of Ahmad by A.R.Dard, page 31)

مصنف’’مجدد اعظم‘‘ محترم ڈاکٹر بشارت احمدصاحب کی رائے یہ ہے کہ حضرت مرزا صاحبؑ کی شادی انیس سال کی عمر میں آپؑ کے والد صاحب نے کردی اور اس سے کم عمر میں شادی کی وہ تردید کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو ’’مجدداعظم ‘‘جلد اول صفحہ25 مع حاشیہ)

خاکسار عرض کرتاہے کہ ہمارے پاس اس وقت کا کوئی بھی معین ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ جس کسی مصنف نے بھی اس موضوع پرقلم اٹھایاہے تفصیلی بحث نہیں کی۔ شادی کی تاریخ معین ہے اورنہ ہی تاریخ پیدائش معین ہے۔ جب تک کم ازکم تاریخ پیدائش معین نہ ہوتب تک کوئی حتمی بات کیسے ہوسکے گی۔ اس لیے جو کوئی بھی اس موضوع پر قلم اٹھائے گا یا تحقیق کرے گا وہ قرائن وقیاسات کے سہارے ہی کچھ بیان کرے گا اور وہ جو بھی ہوگا بہرحال ایک تخمینہ اور اندازہ ہوگا اوراس اندازے اور قیا س کو حتمی قراردینا ایک مشکل امرہے۔ البتہ وہ اندازہ زیادہ قابل قبول ہوگا جس کی دیگر قرائن زیادہ تائید کرتے ہوں گے۔ خاکسار عرض کرتاہے کہ کچھ آرا اوپر بیان ہوچکی ہیں ان کے علاوہ بھی اس موضوع پر جو کچھ لکھا گیا ہے اس کی روشنی میں آپؑ کی شادی کے وقت عمر پندرہ یا سولہ سال زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

آپؑ کی یہ شادی آپؑ کے ننھیال میں ہی آپؑ کی ماموں زاد محترمہ حرمت بی بی صاحبہ کے ساتھ ہوئی جو کہ محترم مرزاجمعیت بیگ صاحب آف ایمہ ضلع ہوشیارپور کی صاحبزادی تھیں۔

روایات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ گھرانہ بھی اس زمانے میں قادیان میں ہی رہائش پذیر تھا۔ جیساکہ حیات احمدؑ میں درج اس اقتباس سے ظاہر ہے: ’’والدہ صاحبہ مرزا سلطان احمد صاحب جو ابھی بچہ ہی تھیں۔ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم ہی کے گھر رہا کرتی تھیں کیونکہ ان کے والد مرزا جمعیت بیگ صاحب بھی یہاں ہی رہتے تھے وہ بھی حضرت مرزاغلام احمد صاحب کو کبھی کبھی استاد کے پاس پڑھنے کے لئے چھوڑ نے جایا کرتی تھیں۔ یہ مکتب کہیں باہر نہ تھا بلکہ گھر ہی کے ایک حصہ میں تھا یعنی دیوان خانہ کے ایک حصہ میں اس وقت نہ تو ان کے بچوں کی عمر شادی کے قابل تھی اور نہ گھر بھر میں کسی کے وہم و گمان میں تھا کہ آئندہ یہ دونوں بچے نکاح کے سلک میں منسلک ہوں گے۔‘‘(حیات احمدؑ جلداوّل صفحہ 245)

آپؑ کی عمر مبارک تقریباً اٹھارہ سال ہوگی کہ 1853ء میں آپؑ کے سب سے پہلے صاحبزادے حضرت مرزاسلطان احمدصاحبؓ کی ولادت ہوئی۔ اور ان کے دو سال بعد 1855ء میں آپؑ کے دوسرے صاحبزادے، محترم صاحبزادہ مرزا فضل احمدصاحب مرحوم کی ولادت ہوئی۔

حضرت اقدسؑ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’خداتعالیٰ نے پندرہ یا سولہ برس کی عمر کے درمیان ہی اولاد دے دی تھی۔ یہ سلطان احمداور فضل احمد قریباً اسی عمر میں پیداہوگئے تھے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ372ایڈشن1984ء)

سادہ اور پُروقار شادی

جیسا کہ بیان ہوچکاہے کہ آپؑ کی شادی آپ کی ماموں زاد سے ہوئی تھی۔ ایمہ ضلع ہوشیارپور کا یہ ایک معزز خاندان تھا اور حضرت اقدسؑ کے خاندان میں ان کی رشتہ داریاں ہوتی چلی آرہی تھیں۔ آپؑ کے ماموں مرزا جمعیت بیگ صاحب کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا۔ بیٹی کا نام تو حرمت بی بی صاحبہ تھا جو کہ اس عقدمبارک میں بندھ گئی۔ اور بیٹے کانام مرزا علی شیر تھاان کی شادی مرزا احمدبیگ صاحب ہوشیارپوری کی بہن حرمت بی بی صاحبہ سے ہوئی جس سے ایک لڑکی عزت بی بی پیداہوئی اور ان عزت بی بی صاحبہ کی شادی حضرت اقدسؑ کے چھوٹے صاحبزادے مرزافضل احمدصاحب کے ساتھ ہوئی۔ (ماخوذ از سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر212)

ناموں کے سلسلہ میں ایک عجیب اتفاق ہے کہ حرمت بی بی نام کی تین خواتین ہمارے اس مضمون میں مذکور ہیں ایک جو حضرت اقدسؑ کی پہلی بیوی تھیں، ایک صاحبزادہ مرزا فضل احمدصاحب کی خوشدامنہ اور تیسری صاحبزادہ مرزاغلام قادرصاحب کی اہلیہ صاحبہ جو کہ ’’تائی‘‘ کے نام سے معروف ہوئیں۔

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ ایک جگہ آپؑ کی شادی کے متعلق ایک ایمان افروز نوٹ میں فرماتے ہیں: ’’یہ ایک عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پہلی شادی جس شان سے ہوئی وہ اس خاندان کے اس وقت کے موجودہ رسم و رواج کے لحاظ سے بالکل نرالی اور انوکھی شادی تھی۔ وہ زمانہ جو…ہندوستان کے مسلمانوں پر عجیب ابتلا کا زمانہ تھا۔ سکّھا شاہی کے سبب سے مسلمانوں میں نہ صرف دین و مذہب کی طرف سے بے پروائی پیدا ہو گئی تھی بلکہ اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ کے لحاظ سے ان کے طرز بود ماند اور لباس و وضع میں سکھیت پیدا ہو چلی تھی۔ اسلامی شعائرکی بجائے عجیب و غریب رسوم قائم ہو چکی تھیں۔ بیاہوں اور شادیوں پر ایسے ایسے امور ہوتے تھے جو اسلام کے لئے باعث شرم ہوں۔ اور وہ اعلیٰ تمدن اور اعلیٰ درجہ کے تمول اور خاندان کا نشان سمجھے جاتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے بھائی جناب مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی شادی اس دھوم دھام سے کی گئی تھی کہ اس کی نظیر گرد و نواح میں اب تک بھی پیدا نہیں ہوئی۔ ہر قسم کے سائلین اور غرباء کی جماعت یہاں جمع تھی ایک مہینے تک یہ جشن رہا بعض حاملہ عورتیں جو تقریب پر مانگنے کھانے کے لئے آئی ہوئی تھیں یہاں ہی بچے جن بیٹھیں۔ جن میں سے ایک ساہنسی مَیں نے بھی دیکھا ہے دروازو نام کا۔ اور اب تک زندہ ہے۔ راگ رنگ کی محفلیں گرم تھیں اور 18طائفے ارباب نشاط کے جمع تھے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ شادی کس پیمانہ اور کس رنگ کی تھی مگر حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے ہر رنگ میں ہرقسم کی بدعات اور خلاف شریعت رسوم سے بچا لیا آپ کی شادی کے سوال کا حل آپ کے اختیار میں نہ تھا۔ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کے اختیار میں تھا جو اپنی شان و شوکت کے لحاظ سے اس وقت کے حالات کے موافق ہرقسم کے رسوم کے پابند ہو سکتے تھے چنانچہ جناب مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی شادی میں اس کا نمونہ نظر آتا ہے۔ مگر قدرت الٰہی کا کرشمہ دیکھو کہ حضرت مسیح موعودؑ کی شادی کے وقت خود بخود ان رسوم خلاف شریعت میں سے ایک بھی ہونے نہیں پائی یہ تصرف الٰہی تھا آپ چونکہ مامور ہونے والے تھے اگر اس وقت آپ کے متعلق کوئی رسم ایسی ہو بھی جاتی تو بھی آپ عندالناس بری الذمہ تھے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے اس پہلو سے بھی آپ پر کوئی اعتراض آنے نہیں دیا۔ وہ شادی سادگی اور اسلامی نکاح کا ایک نمونہ تھی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ ا لسلام کےخُسراول آپ کے ماموں تھے اور وہ قادیان میں ہی رہتے تھے۔ اس خاندان کے ساتھ آپ کے خاندان کے تعلقات دیرینہ چلے آتے تھے۔ چونکہ وہ خاندان اپنے صحیح النسب ہونے کے لحاظ سے ممتاز اور مشار الیہ تھا۔ اگرچہ دولت و اقبال کے لحاظ سے وہ اس خاندان کے ساتھ کوئی لگّا نہیں کھاتا تھا تاہم وہ چیز جو خاندانی شرافت اور نجابت کے لئے ضروری سمجھی گئی ہے اس میں موجود تھی۔ مرزا جمعیت بیگ صاحب آپ کے ماموں اور خُسر یہاں ہی رہتے تھے اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شادی کی تجویز ہوئی تو اس کے ساتھ ہی نکاح ہو گیا۔ کوئی دھوم دھام اور کوئی رسم آپ کے نکاح میں عمل میں نہ آئی۔

اس طرح پر جیسے ابتدائے زمانہ ہوش سے آپ کو الله تعالیٰ نے ہر قِسم کے مکروہات سے بچایا اور آپ کی تربیت فرمائی۔ اس موقعہ پر بھی خلاف شرع امور کے وقوع سے بچا لیا۔‘‘ (حیات احمدؑ جلداول صفحہ213، 212)

اس اقتباس میں ایک شادی جس میں طائفوں کی شمولیت کا ذکر ہواہے اس کی بابت ایک روایت سیرت المہدی میں بھی ہے۔ جس میں حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ فرماتے ہیں: ’’بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔ اے کہ تایا صاحب کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی تھی اور کئی دن تک جشن رہا تھا اور 22طائفے ارباب نشاط کے جمع تھے مگر والد صاحب کی شادی نہایت سادہ ہوئی تھی۔ اور کسی قسم کی خلاف شریعت رسوم نہیں ہوئیں۔

خاکسارعر ض کرتا ہے کہ یہ بھی تصرف الٰہی تھا ورنہ دادا صاحب کو دونوں بیٹے ایک سے تھے۔ (نیز یہ طائفے ان لوگوں کی وجہ سے آئے ہوں گے جو ایسے تماشوں میں دلچسپی رکھتے ہیں ورنہ خود دادا صاحب کو ایسی باتوں میں شغف نہیں تھا۔)‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 229)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button