متفرق مضامین

دنیاکی بقا اپنے رب کو پہچاننے اور اس کی اطاعت میں ہے (قسط دوم۔ آخری)

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

از افاضات امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

’’مُنْعَم عَلَیْھِم لوگوں میں جو کمالات ہیں اور صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ فرمایاہے ان کو حاصل کرناہر انسان کا اصل مقصد ہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہئے ‘‘(حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

انسان کے مقصد پیدائش کے حصول کے ذرائع

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے متعدد مواقع پر اپنے خطباتِ جمعہ اور خطابات میں تفصیل سے انسان کے مقصد پیدائش اور اس کے حصول کے ذرائع پر روشنی ڈالی ہے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احبابِ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ احسان عظیم ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر ایسا دماغ عطا فرمایا جس کے استعمال سے وہ خداتعالیٰ کی پیدا کردہ باقی مخلوق اور ہر چیز کو نہ صرف اپنے زیر نگیں کر لیتا ہے بلکہ اس سے بہترین فائدہ اٹھاتا ہے اور ہر نیا دن انسانی دماغ کی اس صلاحیت سے نئی نئی ایجادات سامنے لا رہا ہے۔ جو دنیاوی ترقی آج ہے وہ آج سے دس سال پہلے نہیں تھی اور جو دنیاوی ترقی آج سے دس سال پہلے تھی وہ20سال پہلے نہیں تھی۔ اسی طرح اگر پیچھے جاتے جائیں تو آج کی نئی نئی ایجادات کی اہمیت اور انسانی دماغ کی صلاحیت کا اندازہ ہو تا ہے۔ لیکن کیا یہ ترقی جو مادی رنگ میں انسان کی ہے یہی اس کی زندگی کا مقصد ہے؟ ہر زمانے کا دنیا دار انسان یہی سمجھتا رہا کہ میری یہ ترقی اور میری یہ طاقت، میری یہ جاہ و حشمت، میرا دنیاوی لہو و لعب میں ڈوبنا، میرا اپنی دولت سے اپنے سے کم ترپر اپنی برتری ظاہر کرنا، اپنی دولت کو اپنی جسمانی تسکین کا ذریعہ بنانا، اپنی طاقت سے دوسروں کو زیر نگیں کرنا ہی مقصدِ حیات ہے۔ یا ایک عام آدمی بھی جو ایک دنیا دار ہے جس کے پاس دولت نہیں وہ بھی یہی سمجھتا ہے بلکہ آج کل کے نوجوان جن کو دین سے رغبت نہیں دنیا کی طرف جھکے ہوئے ہیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ جو نئی ایجادات جوہیں، ٹی وی ہے، انٹرنیٹ ہے، یہی چیزیں اصل میں ہماری ترقی کا باعث بننے والی ہیں اور بہت سے ان چیزوں سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ پس یہ انتہائی غلط تصور ہے۔ اس تصور نے بڑے بڑے غاصب پیدا کئے۔ اس تصور نے بڑے بڑے ظالم پیدا کئے۔ اس تصور نے عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے انسان پیدا کئے۔ اس تصور نے ہر زمانہ میں فرعون پیدا کئے کہ ہمارے پاس طاقت ہے، ہمارے پاس دولت ہے، ہمارے پاس جاہ و حشمت ہے۔ لیکن اس تصور کی خداتعالیٰ نے جوربّ العالمین ہے، جو عالمین کا خالق ہے، بڑے زور سے نفی فرمائی ہے۔ فرمایا کہ جن باتوں کو تم اپنا مقصد حیات سمجھتے ہو یہ تمہارا مقصد حیات نہیں ہیں۔ تمہیں اس لئے نہیں پیدا کیا گیا کہ ان دنیاوی مادی چیزوں سے فائدہ اٹھاؤ اور دنیا سے رخصت ہو جاؤ۔ نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(الذاریات: 57) اور مَیں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔

اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اصل غرض انسان کی خلقت کی یہ ہے کہ وہ اپنے ربّ کو پہچانے اور اس کی فرمانبرداری کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ (الذاریات: 57)مَیں نے جن اور انس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ اکثر لوگ جو دنیا میں آتے ہیں بالغ ہونے کے بعد بجائے اس کے کہ اپنے فرض کو سمجھیں اور اپنی زندگی کی غرض اور غایت کو مدنظر رکھیں۔ وہ خداتعالیٰ کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور دنیا کا مال اور اس کی عزتوں کے ایسے دلدادہ ہوتے ہیں کہ خدا کا حصہ بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے دل میں تو ہوتا ہی نہیں۔ وہ دنیا ہی میں منہمک اور فنا ہو جاتے ہیں۔ انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ خدا بھی کوئی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 137)

مقصد پیدائش کا حصول قرآن کریم کی تعلیمات سے ممکن ہے

اس بات کی طرف راہنمائی کرنے کے لئے کہ اپنے مقصد پیدائش کو کس طرح پہچاننا ہے اور اس کی عبادت کے طریق کس طرح بجا لانے ہیں اللہ تعالیٰ دنیا میں انبیاء بھیجتا رہا ہے جو اپنی قوموں کو اس عبادت کے طریق اور مقصد پیدائش کے حصول کے لئے راہنمائی کرتے رہے اور پھر جب انسان ہر قسم کے پیغام کو سمجھنے کے قابل ہو گیا اس کی ذہنی جلااس معیار تک پہنچ گئی جب وہ عبادات کے بھی اعلیٰ معیاروں کو سمجھنے لگا اور اس نے دنیاوی عقل و فراست میں بھی ترقی کی نئی راہیں طے کرنی شروع کر دیں۔ آپس کے میل جول اور معاشرت میں بھی وسعت پیدا ہونی شروع ہو گئی تو انسان کامل اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو اس آخری شریعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بھیجا جس نے پھر اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر یہ اعلان کیا کہ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا(المائدہ: 4) کہ آج مَیں نے تمہارے فائدے کے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتوں اور احسان کو تم پر پورا کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا۔ اور اس قرآن میں جس کے لئے دین کو مکمل کیا اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے طریقے بتائے۔ عبادتوں کے اعلیٰ معیاروں کو چھونے کے طریق بھی بیان فرمائے۔ معاشرتی تعلقات نبھانے کے طریق بھی بیان فرمائے۔ دشمنوں سے سلوک کے طریق بھی بیان فرمائے۔ معاشرہ کے کمزور طبقے کے حقوق کی ادائیگی کے طریق بھی بیان فرمائے۔ عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کے طریق بھی بیان فرمائے۔ آئندہ آنے والی نئی ایجادات کے آنے اور ان سے انسان کے فائدہ اٹھانے کے بارہ میں بھی بیان فرما دیا۔ زمین و آسمان میں جو بھی موجود ہے اس کے بارہ میں انسانی عقل و فراست کی حدود تک جتنی بھی، جہاں تک پہنچ ہوسکتی تھی اس کے سمجھنے کے بارہ میں بھی راہنمائی فرمائی۔ ہر وہ چیز بیان فرما دی جن تک آج انسان کی عقل کی رسائی ہو رہی ہے بلکہ آئندہ پیش آمدہ باتوں کے بارہ میں بھی بیان فرما دیاجس کے بارہ میں آج سے 1400سال پہلے کا انسان سمجھ نہیں سکتا تھا اور اس سے پہلے کا انسان تو بالکل بھی نہیں سمجھ سکتا تھا گو کہ اُس وقت جب یہ باتیں قرآن کریم میں بیان ہوئیں ایک عام مسلمان مومن سمجھ نہیں سکتا تھا۔ لیکن ان سب باتوں کو انسان کامل اور حضرت خاتم الانبیاءﷺ کی فراست جو تھی اس وقت بھی سمجھتی تھی۔ پس وہ ایک ایسا نور کامل تھے جو اللہ تعالیٰ کے نور سے منور تھا اور جنہوں نے اپنے صحابہ میں ان کی استعدادوں کے مطابق بھی وہ نور بھر دیا۔ انہیں عبادتوں کے طریق بھی سکھائے۔ انہیں عبادتوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی۔ ان کو اپنے مقصد پیدائش کو سمجھنے کی طرف بھی توجہ دلائی۔ اور پھر آپﷺ سے وہ نور پا کر صحابہؓ نے اپنی استعدادوں کے مطابق پھر وہ نور آگے پھیلانا شروع کر دیا اور چراغ سے پھر چراغ روشن ہوتے چلے گے اور جن باتوں کا فہم اس وقت کا عام انسان نہیں کر سکتا تھا اس کے بارہ میں بھی بتا دیا کہ اس کامل کتاب سے تاقیامت اب چراغ روشن ہوتے چلے جائیں گے اور آئندہ زمانہ کے مومنین اللہ تعالیٰ کے ان احسانوں کو دیکھ لیں گے۔ ایک دنیا دار تو صرف دنیا کی نظر سے دیکھے گا لیکن ایک حقیقی مومن اپنے مقصد پیدائش کا حق ادا کرتے ہوئے اُن کو اس نظر سے دیکھے گا کہ خداتعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق آج ہی یہ چیزیں پیدا ہوئی ہیں۔ مومن کی نظر صرف ان ایجادات سے اور ان دنیاوی چیزوں سے دنیاوی فائدوں تک ہی محدود نہیں ہو گی بلکہ وہ اپنے مقصد پیدائش کو سمجھتے ہوئے اس حقیقی نور سے فائدہ اٹھا نے کی کوشش کرے گا جو اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے نبی اور افضل الرسلﷺ لے کر آئے تھے۔ جس طرح ضلالت اور گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکے ہوئے لوگ آج سے 14سو سال پہلے اس نبی کے نور سے فیضیاب ہوئے تھے اور ہر میدان میں اعلیٰ معیاروں کو چھونے لگے۔ اسی طرح اب تاقیامت جو بھی اس رسول اور اس کامل شریعت سے حقیقی تعلق جوڑے گا، ظلمتوں سے نور کی طرف نکلتا چلا جائے گا اور دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی جنتوں کاو ارث بنتا چلا جائے گا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍جنوری2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل5؍فروری 2010ء)

جماعت کے قیام کی غرض پیش نظر رہے

قرآن کریم مقصد پیدائش کے حصول کے انعام کا ذکر بھی کرتا ہے۔ اور حضرت مسیح موعودؑ نے منعم علیھم میں شامل ہونا بھی اس سلسلے کی غرض بیان فرمائی ہے۔ اس بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ تفصیلاً فر ماتے ہیں کہ’’ہمیشہ یادرکھیں کہ حقیقی حق ادا ہوتا ہے جب ہم ان باتوں کو سمجھیں اور اُن پر عمل کریں جو حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں کرنے کے لئے کہی ہیں۔ آپ کی بیعت میں آکر ہمیں ان باتوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو ایک حقیقی مسلمان کے لئے ضروری ہیں۔ وقتی جذبات کے تحت بعض قربانیاں اور بعض عمل بے شک بعض اوقات نیکیوں کی طرف رغبت دلانے کا باعث بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر کئے گئے ہوں تواللہ تعالیٰ کے فضلوں کوحاصل کرنے والے اور اُن کو سمیٹنے والے بھی بن جاتے ہیں لیکن ہم جو اپنے آپ کوحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہونے والا کہتے ہیں، ہمارے مقصد حقیقت میں تب حاصل ہو سکتے ہیں جب ہم مستقل مزاجی سے اپنے ہر عمل کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرنے کی کوشش کریں۔ جب ہم جماعت احمدیہ کے قیام کے مقصدکو اپنے پیشِ نظر رکھیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

’’مُنْعَم عَلَیْھِم لوگوں میں جو کمالات ہیں اور صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ فرمایاہے ان کو حاصل کرناہر انسان کا اصل مقصدہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے کوقائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیارکرے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیارکی تھی تاکہ اس آخری زمانے میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پربطورِ گواہ ٹھہرے۔‘‘(الحکم 31؍مارچ 1905ء جلد 9 شمارہ نمبر 11صفحہ 6کالم 2)

پس یہ ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے لگائی ہے کہ ہم نے اُن مقاصدکو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت نے حاصل کئے یا اُن کو حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے مسلسل جان، مال اور وقت کی قربانی دی۔ اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ڈرتے ہوئے ادا کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ڈرتے رہے اور اپنی دعائیں پیش کرتے رہے۔ کسی قربانی پر فخر نہیں کیا بلکہ یہ دعاکرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کئے توایسے کہ اپنی راتوں کو بھی عبادتوں سے زندہ رکھا اور اپنے دنوں کو بھی باوجود دنیاوی کاروباروں کے اور دھندوں کے یادِ خدا سے غافل نہیں ہونے دیا۔

پس یہ وہ مقصدہے جو ہم میں سے ہر ایک کوحاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ مقصدہے جس کے بارے میں قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم نے یہ مقصدپا لیا تو اپنی پیدائش کے مقصدکو حاصل کرلیا۔ کیونکہ انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ ہم جب مساجد بناتے ہیں یا اجتماعی عبادت کے لئے کوئی جگہ خریدتے ہیں تو یہی مقصد پیشِ نظر ہوناچاہئے کہ ہم نے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی پیدائش کے مقصد کی بلندیوں پر جانا ہے۔ دنیا میں تو جو مقاصدہیں اُن کی بعض حدودہیں۔ ایک خاص بلندی ہے جس کے بعد انسان خوش ہو جاتاہے کہ میں نے اُسے پا لیا ہے۔ یا اس دنیا میں ہی اس کے نتائج حاصل کر لئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کا مقصد تو ایساہے کہ جو اللہ تعالیٰ سے قربت کے نئے سے نئے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے اور پھر مرنے کے بعدبھی اس دنیا کے عملوں کی اگلے جہان میں جزاہے جس میں اللہ تعالیٰ کے لا محدود رحم اور فضل کے تحت ترقی ممکن ہے اور ہوتی چلی جاتی ہے اور ایسے انعامات کا انسان وارث بنتاہے جو انسان کی سوچ سے بھی باہرہیں۔ صحابہ رِضْوَانُ اللّٰہ عَلَیْھِم نے اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے ترقی کی منازل طے کیں اور ’’رضی اللہ عنہ‘‘کا اعزاز پایا۔

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میں اپنی جماعت کے افراد کو اسی طرح ترقی کی منازل طے کرتا دیکھنا چاہتا ہوں جس سے وہ اپنے مقصدِ پیدائش کوحاصل کرکے پھر اس کے مدارج میں ترقی کرتے چلے جائیں ان کے درجے بلند ہوتے چلے جائیں، اور وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کے حاصل کرنے والے بنتے چلے جائیں۔ آپؑ نے فرمایاکہ میری جماعت میں ایسے لوگ ہوں جو قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت پر بطورگواہ ٹھہریں۔ کیا قرآن کریم جو اللہ تعالیٰ کی آخری اور مکمل کتاب ہے اس کی عظمت ہماری گواہی سے ہی ثابت ہو گی؟ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کے آخری نبی، سب سے پیارے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں، اُن کی عظمت ہمارے کسی عمل کی مرہونِ منت ہے؟ نہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس سے مرادیہ ہے کہ ہمارے عملوں میں ایک انقلاب قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرکے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چل کرظاہر ہو۔ اور اس طرح ظاہر ہو کہ دنیا کہہ سکے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی زندگیوں میں یہ انقلاب قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم پرعمل کرکے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت پر چل کر آیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی جو عبادت کرنے کے اعلیٰ معیارحاصل کرنے سے ہوتی ہے، اس کا حق اداکرنے والے ہیں اور حقوق العباد کی ادائیگی جو ہر قسم کے خُلق کی اعلیٰ مثال قائم کرنے سے ہوتی ہے اُس کا حق ادا کرنے والے ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ8؍ نومبر2013ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍نومبر2013ءصفحہ6)

جماعت احمدیہ کا مقصد اور مدعا

’’ہمارا مقصد اور مدعا تو یہی ہے کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانے اور آنحضرتﷺ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے۔ چاہے جس ڈھب سے بھی کوئی سمجھے یا کسی بات سے بھی کوئی سمجھے۔ پس اس خلافت جوبلی کے جلسہ میں جس میں اپنوں اور غیروں نے وحدت کی ایک نئی شان دیکھی ہے یہ آج صرف اور صرف حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کی جماعت کا خاصّہ ہے۔ آج اس وحدت کی وجہ سے عافیت کے حصار میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق کوئی جماعت ہے تو وہ صرف اور صرف مسیح محمدی کی جماعت ہے۔ باقی سب انتشار کا شکار ہیں اور رہیں گے جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے انعام کی قدر نہیں کریں گے۔ جب تک کہ وہ آنحضرتؐ کے اس ارشاد کو نہیں مانیں گے کہ جب میرا مسیح و مہدی ظاہر ہو تو اس کومیرا سلام پہنچاؤ۔

مسلمانوں کی حالت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ غیر مذاہب کی خداتعالیٰ سے دُوری اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ شیطان کی گود میں جا پڑے ہیں۔ اپنے پیدا کرنے والے کو بھول چکے ہیں۔ اس مقصد کو بھول چکے ہیں جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے۔ بلکہ اب تو اس کا فہم و ادراک بھی ان کو نہیں رہا کہ ان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے۔

پس آج اگر کوئی جماعت ہے تو یہ مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی جماعت ہے جو اس مقصد کو جانتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرتی ہے۔ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت ہی ہے جس نے اس عُرْوَۂ وُثْقٰی کو پکڑا ہوا ہے جس سے ان کے صحیح راستوں کا تعین ہوتا رہتا ہے۔ اس مضبوط کڑے کو پکڑا ہوا ہے جس کے نہ ٹوٹنے کی ضمانت خود خداتعالیٰ نے دی۔ اللہ تعالیٰ نے آج اپنے فضل سے احمدیوں کو اس برتن کے کڑے کو مضبوطی سے پکڑایا ہوا ہے جس میں مسیح محمدی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے تازہ بتازہ روحانی پانی بھر دیا ہے۔ وہ زندگی بخش پانی جس کو پینے سے روحانیت کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار ایک مومن طے کر سکتا ہے۔ پھر اس مضبوط کڑے کو پکڑنے کا ایک یہ بھی مطلب ہے کہ اس پکڑے رہنے والوں کے ایمان ہمیشہ سلامت رہیں گے۔ مسیح محمدی کی غلامی میں آکر اس سے عہد بیعت باندھنے والے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے اپنے ایمان میں ہمیشہ ترقی کرتے چلے جائیں گے۔ ہر حالت میں ہرمخالفت کے دور میں اس کڑے کے پکڑے رہنے والوں کے ایمان محفوظ رہیں گے۔ اس کڑے سے چمٹنے والا مومن اپنی جان تو دے سکتا ہے لیکن اس کڑے کو نہیں چھوڑتا جس کے چھوڑنے سے اس کے ایمان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہو۔

چنانچہ جماعت احمدیہ کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ مخالفت کی آندھیاں حقیقی مومنین کو ان کے ایمان کو اپنی جگہ سے نہ ہلا سکیں۔ ماؤں کے سامنے بیٹے قتل کئے گئے، بیٹوں کے سامنے باپوں کو آہستہ آہستہ اذیت دے کر ماراگیا، شہید کیا گیا، باپوں کے سامنے بیٹوں کو شہید کیاگیا۔ پھر احمدیت کو چھوڑنے کے لئے انتہائی اذیت سے کئی احمدیوں کو گزرنا پڑا۔ آہستہ آہستہ ٹارچر دے کر مارا گیا۔ اور یہ دُور کے واقعات نہیں ہیں۔ اس سال بھی کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ لیکن جس ایمان پر وہ قائم ہو چکے تھے یہ اذیتیں اُن کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں لا سکیں۔

پس آج جب ہم جوبلی کی خوشی منا رہے ہیں تو دراصل یہ خوشی خلافت کے سو سال پورے ہونے پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کی خوشی ہے اور اس سو سال میں جو لہلہاتے باغ اس انعام سے چمٹے رہنے کی وجہ سے ہمیں اللہ تعالیٰ نے عطا کئے، اس کی خوشی میں ہے۔ ان لہلہاتے باغوں کو دیکھ کر جب ہم خوش ہوں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں تو ان شہدائے احمدیت کو بھی یاد رکھیں اور ان کے لئے اور ان کی اولادوں کے لئے بھی دعائیں کریں جنہوں نے اپنے خون سے ان باغوں کو سینچا ہے۔ اپنے ایمان کی مضبوطی کی وہ مثالیں قائم کی ہیں جو تاریخ کے سنہری باب ہیں۔

عُرْوَہ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ایسا سبزہ زار جو ہمیشہ سرسبز رہتا ہے۔ بارش کی کمی بھی اس پر کبھی خشکی نہیں آنے دیتی۔ پس یہ ایسا سبزہ زار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان کی وجہ سے جماعت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو عطا کیا ہے جو ہمیشہ سر سبز رہنے کے لئے ہے۔ جس کو شبنم کی نمی بھی لہلہاتی کھیتیوں میں اور سرسبز باغات کی شکل میں قائم رکھتی ہے۔ پس اس عُرْوَۂ وُثْقٰی کو پکڑے رہیں گے تو انعامات کے وارث بنتے چلے جائیں گے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ30؍ مئی 2008ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍جون2008ءصفحہ6)

مقصد پیدائش اور انصار اللہ کی ذمہ داری

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اختتامی خطاب برموقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ یوکے فرمودہ 08؍ستمبر2021ء میں انصار اللہ کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کی توجہ دلائی۔ آپ نے فرمایا کہ ’’انصار اللہ کی عمر تو ایسی عمر ہے کہ جس میں اگلی زندگی کا سفر زیادہ واضح نظر آتا ہے اور آنا چاہیے۔ جتنی عمر بڑھتی ہے موت اتنی ہی قریب ہوتی جاتی ہے۔ اس میں ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں پھر میں کہوں گا اس کا اندازہ ہم خود ہی سوچ کر لگا سکتے ہیں۔ پھر انسانی پیدائش کے مقصد کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’ایسے بنو کہ تا تم پر خدا تعالیٰ کی برکات اور اس کی رحمت کے آثارنازل ہوں۔ وہ عمروں کو بڑھابھی سکتا ہے مگر ایک وہ شخص جس کا عمر پانے سے مقصد صرف ورلی دنیا ہی کے لذائذاور حظوظ ہیں اس کی عمر کیا فا ئدہ بخش ہو سکتی ہے؟ اس میں تو خدا کا حصہ کچھ بھی نہیں۔ وہ اپنی عمر کا مقصد صرف عمدہ کھا نےکھانے اور نیندبھر کے سونے اور بیوی بچوں اور عمدہ مکان کے یا گھوڑے وغیر ہ رکھنے یا عمدہ باغات یا فصل پر ہی ختم کرتا ہے۔ وہ تو صرف اپنے پیٹ کا بندہ اور شکم کا عابد ہے۔‘‘ وہ انہی کی عبادت کرتا ہے، اللہ کی عبادت تو نہیں کرتا۔ ’’اس نے تو اپنا مقصود ومطلوب اور معبود صرف خواہشاتِ نفسانی اور لذائذِ حیوانی ہی کو بنایا ہوا ہے مگر خدا تعالیٰ نے انسا ن کے سلسلۂ پیدائش کی علت غائی صرف اپنی عبادت رکھی ہے۔ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ(الذاریات: 57)پس حصر کردیا ہے کہ صرف صرف عبادتِ الٰہی مقصد ہونا چاہیے۔‘‘محدود کر دیا ہے، انسان کو پابند کر دیا ہے کہ عبادت الٰہی تمہارا مقصد ہونا چاہیے ’’اور صرف اسی غرض کے لیے یہ سارا کارخانہ بنایا گیا ہے۔ برخلاف اس کے اَور ہی اَور ارادے اور اَور ہی اَور خواہشات ہیں۔‘‘لیکن عموماً کیا ہوتا ہے اس کے بالکل برخلاف ہو رہا ہے اور مختلف ارادے ہیں اور مختلف خواہشات ہیں۔ فرمایا ’’بھلا سوچوتو سہی کہ ایک شخص ایک شخص کو بھیجتا ہے کہ میرے باغ کی حفاظت کر۔ اس کی آبپاشی اور شاخ تراشی سے اسے عمدہ طور کا بنا اور عمدہ عمدہ پھول، بیل بوٹے لگا کہ وہ ہرابھرا ہوجاوے۔ شاداب اور سرسبز ہو جاوے مگر بجائے اس کے وہ شخص آتے ہی جتنے عمدہ عمدہ پھل پھول اس میں لگے ہو ئے تھے ان کو کا ٹ کرضائع کردے یا اپنے ذاتی مفاد کے لیے فروخت کرلے اور ناجائز دست اندازی سے با غ کو ویران کردے تو بتاؤ کہ وہ ما لک جب آوے گا تو اس سے کیسا سلوک کریگا؟ ‘‘ پس انصار اللہ کا کام تو باغ کی نگہداشت کرنا ہے۔

باغوں کے پھل پھول کی حفاظت کرنا ہے۔ باغوں کی نوجوان کلیوں کو سنبھالنا ہے نہ کہ ان میں یہ احساس پیدا کرنا کہ ہمارے بڑے غلطی کر رہے ہیں۔ پس بہت سوچنے کا مقام ہے۔ ’’خدا نے تو بھیجا تھا کہ عبادت کرے اور حق اللہ اور حق العباد کو بجا لاوے مگر یہ آتے ہی بیویوں میں مشغول، بچوں میں محو اور اپنے لذائذ کا بندہ بن گیا اور اس اصل مقصد کو بالکل بھول ہی گیا۔ بتاؤ اس کا خدا کے سامنے کیا جواب ہو گا؟ ‘‘ فرمایا ’’دنیا کے یہ سامان اور یہ بیوی بچے اور کھانے پینے تو اللہ تعالیٰ نے صرف بطور بھاڑہ کے بنائے تھے جس طرح ایک یکہ بان چند کوس تک ٹٹو سے کام لےکر جب سمجھتا ہے کہ وہ تھک گیا ہے‘‘اس کے ٹانگے کا گھوڑا تھک گیا ہے۔ ’’اسے کچھ نہاری اور پانی وغیرہ دیتا ہے اور کچھ مالش کرتا ہے تا اس کی تھکان کا کچھ علاج ہو جاوے اور آگے چلنے کے قابل ہو اور درماندہ ہو کر کہیں آدھ میں ہی نہ رہ جائے اس سہارے کے لئے اسے نہاری دیتا ہے۔ سویہ دنیوی آرام اور عیش اور بیوی بچے اور کھا نے کی خوراکیں بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھاڑے مقرر کئے ہیں کہ تا وہ تھک کراور درماندہ ہوکر بھوک سے پیاس سے مر نہ جاوے اور اس کے قویٰ کے تحلیل ہونے کی تلافی مافات ہوتی جاوے۔ پس یہ چیزیں اس حدتک جائزہیں کہ انسان کو اس کی عبادت اور حق اللہ اور حق العباد کے پورا کرنے میں مدد دیں۔‘‘دنیاوی چیزیں اس لیے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کیے جائیں، بندوں کے حق ادا کیے جائیں، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کیا جائے، اپنے مقصد پیدائش کو پہچانا جائے ’’ورنہ اس حد سے آگے نکل کر وہ حیوانوں کی طرح صرف پیٹ کا بندہ اور شکم کا عابد بنا کر مشرک بناتی ہیں اور وہ اسلام کے خلاف ہیں۔ سچ کہا ہے کسی نے

خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است

تُو معتقد کہ زیستن از بہر خوردن است‘‘

کہ کھانا تو جینے اور یاد خداوندی کے لیے ہے۔ تُو صرف یہی سمجھتا ہے کہ زندگی محض کھانے کے لیے ہے؟ نہیں ! فرمایا کہ ’’مگر اب کروڑوں مسلمان ہیں کہ انہوں نے عمدہ عمدہ کھانے کھانا عمدہ عمدہ مکانات بنانا اعلیٰ درجہ کے عہدوں پر ہونا ہی اسلام سمجھ رکھا ہے۔ مومن شخص کا کام ہے کہ پہلے اپنی زندگی کا مقصد اصلی معلوم کرے اور پھر اس کے مطابق کام کرے۔ اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے کہ قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان: 78)خدا کو تمہاری پروا ہی کیا ہے اگرتم اس کی عبادت نہ کرو اور اس سے دعائیں نہ مانگو۔ یہ آیت بھی اصل میں پہلی آیت وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57)ہی کی شرح ہے۔ جب خدا تعا لیٰ کا ارادہ انسانی خلقت سے صرف عبادت ہے تو مومن کی شان نہیں کہ کسی دوسری چیز کو عین مقصود بنالے۔ حقوقِ نفس تو جائز ہیں مگر نفس کی بے اعتدالیاں جا ئز نہیں۔‘‘نفس کے حق جائز ہیں، ادا کرو، کرنے چاہئیں لیکن حد سے بڑھ کے نہیں۔ ’’حقوق نفس بھی اس لئے جائز ہیں کہ تاوہ درماندہ ہو کر رہ ہی نہ جائے۔ تم بھی ان چیزوں کواسی واسطے کا م میں لاؤ۔ ان سے کا م اس واسطے لوکہ یہ تمہیں عبادت کے لائق بنائے رکھیں نہ اس لئے کہ وہی تمہارا مقصوداصلی ہوں۔‘‘(ملفوظات جلد5صفحہ247-249)

پس یہ ہے معیار جو ہم نے حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے اور کوشش کرنی چاہیے۔ اگر زندگی کے اس مقصد کو ہم سمجھ گئے تو ہم حقیقی انصار میں شامل ہو جائیں گے کیونکہ یہی معیار حاصل کرنے والے وہ لوگ ہیں جو نبی کے حقیقی مددگار بن سکتے ہیں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 15؍اکتوبر2021ء)

جماعت احمدیہ کی ذمہ داری

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ تمام احمدیوں کو بحیثیت جماعت نہ صرف مسلم امہ سے بلکہ غیر مسلمین سے بھی بھلائی کرنے کی اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(آل عمران: 111) یعنی تم وہ لوگ ہو جو دوسروں کی بھلائی اور فائدہ کے لئے پیدا کئے گئے ہو۔ یہ مسلمانوں کے کاموں میں سے ایک بہت بڑا کام ہے کہ دنیا ان سے فائدہ اٹھائے۔ ان سے دنیا کو خیر اور بھلائی پہنچے نہ کہ شر۔ لیکن اس وقت دنیا کی جو حالت ہے جس پر ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان حکومتوں اور گروہوں اور تنظیموں نے دنیا میں اس قدر فساد برپا کیا ہوا ہے کہ ایک دنیا اسلام کے نام اور مسلمان سے خوفزدہ ہے۔ اور اگر خوفزدہ ہونے کی حالت ہو تو پھر کون ہے جو مسلمانوں کی باتوں کو سنے یا یہ خیال کرے کہ ان سے ہمیں خیر اور بھلائی مل سکتی ہے۔ جو لوگ اپنے لوگوں کی ہی گردنیں کاٹ رہے ہوں، معصوموں کو، عورتوں کو، بچوں کو، بوڑھوں کو بلا امتیاز قتل کر رہے ہوں، بغیر کسی وجہ کے ناجائز طور پر اپنے نظریات کی پیروی نہ کرنے والوں کو غلام بنا رہے ہوں، ان سے کس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ وہ غیر مسلموں کے لئے خیر اور بھلائی چاہنے والے ہوں گے۔

پس اس عمل کا جو یہ لوگ کرتے ہیں لازمی نتیجہ یہی نکلے گا اور نکل رہا ہے کہ دنیا مسلمانوں سے خوفزدہ ہے لیکن ہم احمدیوں کے لئے اس میں شرمندگی کی بات اور غم اور تکلیف کی بات تو ضرور ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمۃٌ للعالَمین ہیں ان کی طرف منسوب ہو کر ان لوگوں کے یہ عمل ہیں کہ انہوں نے مذہب اسلام کو بھی بدنام کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک اُسوہ کو بھی دنیا کے سامنے غلط رنگ میں پیش کرنے والے بن رہے ہیں۔ لیکن ایک احمدی کی حیثیت سے ہمیں ان کے اس عمل سے مایوسی اور نا امیدی بالکل نہیں ہے۔ جب مَیں اکثر غیر مسلموں کے سامنے یہ بات رکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے یہ عمل تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور اسلام کے سچا ہونے کی دلیل ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب مسلمانوں کی یہ حالت ہو گی بلکہ عرصہ بھی بتا دیا کہ یہ عملی زوال کی حالت اتنے عرصے کے بعد شروع ہو گی اور اتنے عرصے تک یہ اندھیرا زمانہ چلتا چلا جائے گا اور پھر مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہو گا جو اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم کو دنیا میں جاری کرے گا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد6صفحہ285حدیث النعمان بن بشیر حدیث نمبر18596عالم الکتب بیروت1998ء)

وہ تعلیم جو قرآن کریم میں اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور جس کے حرف حرف پر عمل کا ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے پتا چلتا ہے۔ اور ہم احمدی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس بگڑے ہوئے زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق وہ مسیح موعود اور مہدی معہود آ گیا اور صرف دعویٰ ہی نہیں کیا بلکہ قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے آنے کے جو زمینی اور آسمانی نشان بتائے تھے وہ بھی پورے ہوئے۔ اور اس مسیح و مہدی نے ہمیں اسلام کی خوبصورت تعلیم سے روشناس کروایا، ہمارے دلوں کو روشن کیا۔ آج جماعت احمدیہ اس خوبصورت تعلیم پر عمل کر رہی ہے۔ یہ باتیں جب ان کو بتائی جائیں تو ان لوگوں کو قائل کرتی ہیں کہ اسلام غلط نہیں بلکہ ان لوگوں کے عمل غلط ہیں جو اسلام کے نام پر دنیا میں فساد پھیلا رہے ہیں۔

پس ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کو بھلائی کی طرف بلانا اور ہر ایک کی بھلائی چاہنا ہر احمدی کا فرض ہے۔ کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل اور احسان کرتے ہوئے مسیح موعود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ صرف امن سے رہنا ہی ہمارا کام نہیں ہے۔ کسی بُرے کام سے رُکنا ہی ہمارا کام نہیں۔ فسادوں سے دور رہنا ہی ہمارا کام نہیں بلکہ دنیا میں امن کا قیام اور اس کے لئے بھرپور کوشش بھی ہمارا کام ہے۔ دنیا کو برائیوں سے روکنے کی کوشش کرنا بھی ہمارا کام ہے۔ دنیا کو فسادوں سے دور رکھنے اور بچانے کی کوشش کرنا بھی ہمارا کام ہے کیونکہ یہ کام مسیح موعود کے کاموں میں شامل ہے۔ آپ کو بھلائی اور خیرخواہی کے کام کو دوبارہ اسلامی تعلیم کی روشنی میں جاری کرنے کے لئے بھیجا گیا۔

پس دنیا کی یہ خیر خواہی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت اور خدا تعالیٰ کا حکم ہم سے یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ہم میدانِ عمل میں آئیں اور دنیا کو خیر اور بھلائی پہنچانے اور شر کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ ہم مسلمانوں کے بھی خیر خواہ ہیں ان کی بھلائی چاہتے ہیں اور غیر مسلموں کے بھی خیر خواہ ہیں اور ان کی بھلائی چاہتے ہیں۔ ہم عیسائیوں کے بھی خیر خواہ ہیں اور یہودیوں کے بھی، ہندوؤں کے بھی اور دوسرے مذاہب والوں کے بھی حتی کہ ہم دہریوں کے بھی خیر خواہ ہیں کیونکہ ہم نے ان سب کو وہ راستہ دکھانا ہے جو انہیں خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والا ہو۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ31؍ اکتوبر 2014ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل21؍نومبر2014ءصفحہ5تا6)

باطن سِیہ ہیں جن کے اس دیں سے ہیں وہ مُنکر

پر اے اندھیرے والو! دل کا دیا یہی ہے

دنیا کی سب دکانیں ہیں ہم نے دیکھی بھالیں

آخر ہوا یہ ثابت دارالشفاء یہی ہے

سب خشک ہو گئے ہیں جتنے تھے باغ پہلے

ہر طرف مَیں نے دیکھا بُستاں ہرا یہی ہے

دنیا میں اس کا ثانی کوئی نہیں ہےشربت

پی لو تم اس کو یارو! آبِ بقا یہی ہے

اسلام کی سچائی ثابت ہے جیسےسورج

پر دیکھتے نہیں ہیں دشمن بلا یہی ہے

(قادیان کے آریہ اور ہم، روحانی خزائن جلد20صفحہ449)

دنیا میں انفرادی و اجتماعی امن کے قیام کی بابت اسلامی راہنما اصول

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ قادیان 2021ء کے موقع پر نے اپنے بصیرت افروز خطاب فرمودہ 26؍ دسمبر 2021ء میں دنیا میں انفرادی و اجتماعی امن کے قیام کی بابت اسلامی راہنما اصول بیان فرمائے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’پرانے زمانے کے جہالت کے رویے آج بھی ہمیں بعض قوموں میں نظر آتے ہیں اور دشمنیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل رہا ہے اور مسلمانوں کے خلاف تو بغض و کینہ انتہا تک پہنچا ہوا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے اندر بھی یہ بات ہے۔ بعض ترقی یافتہ ملکوں کے اپنے رہنے والے بعض لوگوں میں بلکہ سیاستدانوں میں بھی یہ بغض اور کینہ پل رہا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر امن قائم رکھنا ہے تو یہ تعلیم ہے، اس تعلیم کو جاری کرو گے تو یہی حقیقی سلامتی پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ اگر دنیا اس اصول کو اپنا لے تو دنیا میں حقیقی امن قائم ہو گا اور بےجا عداوت اور دشمنی دور ہو گی۔ پس کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ تعلیم ایسی ہے جس میں دشمنیوں کا مکمل خاتمہ نہیں ہے۔

پھر امن قائم رکھنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک یہ سنہری اصول بتایا کہ ظالم اور مظلوم دونوں سے ہمدردی کرو۔ اب مظلوم سے ہمدردی تو واضح ہے کہ کس طرح کرنی ہے ظالم کی ہمدردی کس طرح کی جائے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ ظالم کو ظلم سے روک کر اس سے ہمدردی کرو۔ (صحیح البخاری کتاب الاکراہ باب من الاکراہ حدیث 6952)

پس ترقی یافتہ ممالک میں بھی اور ترقی پذیر ممالک میں بھی، چاہے معاشرے کی بنیادی اور چھوٹی اکائی کو دیکھیں یا ملکوں کے اندر مختلف قومیتوں اور رنگ و نسل کے تعلقات میں دیکھیں یا ملکوں کی سطح پر بین الاقوامی تعلقات کو دیکھیں، اس چیز کی بہت بڑی کمی نظر آتی ہے۔ جو بھی فریقین میں فیصلہ کرنے والے ہیں، امن قائم کرنے والے ہیں ان کا میلان ایک طرف ہوتا ہے۔ یو این او (UNO)بنی ہوئی ہے، اس کا میلان بھی اب دیکھ لیں ایک طرف ہے۔ یا تو مظلوم سے اس حد تک ہمدردی کہ وہ ایک وقت میں آ کر ظالم بن جائے یا ظالم کی اس حد تک طرفداری کہ مظلوم کا جینا دوبھر ہو جائے۔ پس

پائیدار امن اس وقت قائم ہو سکتا ہے جب متوازن رویہ ہر سطح کے بااختیار لوگ اپنائیں۔ دونوں طرف کی باتیں اور نکتہ نظر سنیں اور پھر سمجھائیں اور کدورتوں کو دور کریں۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل 15؍فروری 2022ء)

غرض اس سے قبل کہ انسان اس دنیا میں اپنی زندگی کی بقا کی جنگ لڑے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ دنیا کو سمجھائیں کہ اس وقت اسے اپنی روحانی بقا کی ضرورت ہے۔ اور یہ بقا تب ہی ممکن ہے جب دنیا اپنے حقیقی مقصدِ پیدائش کو سمجھتے ہوئے اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانے اور اس کے تمام احکامات پر بکلی عمل پیرا ہوا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا کو عالمی جنگ سے محفوظ فرمائے اوردنیا کی بڑی بڑی سیاسی طاقتوں اور اداروں کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی جانب سے اسلام کے حقیقی پیغام امن پر مشتمل نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ یہ دنیا نہ صرف رہنے کے قابل رہے بلکہ تمام انسانیت کے لیے یہ امن و سکون کا گہوارہ بن سکے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button