صداقتِ اسلام اور ذرائع ترقیٔ اسلام (قسط نمبر 4)
(خطاب حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ، فرمودہ 22؍فروری 1920ءبمقام بندے ماترم ہال (امرتسر)
خدا تعالیٰ کا بندے سے محبت کرنا
پس سارے مذاہب تو یہ کہتے ہیں کہ ہم خدا سے انسان کا تعلق اور واسطہ پیدا کر دیتے ہیں لیکن اسلام میں یہ فضیلت ہے کہ اسلام کہتا ہے کہ مَیں وہی تعلیم نہیں دیتا جس سے خدا کی محبت تمہارے دل میں پیدا ہو سکتی ہے بلکہ یہ تعلیم بھی دیتا ہوں کہ خدا کو تمہاری محبت پیدا ہو جائے۔ پس اسلام یہی نہیں کہتا کہ تم نیک بن جاؤ بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ میری تعلیم پر عمل کر کے تم ایسے بن سکتے ہو کہ خود خدا تمہیں بلائے اور کہے کہ تم میرے محبوب ہو۔ پھر اسلام یہی نہیں کہتا کہ مرنے کے بعد تمہیں پتہ لگے گا کہ اسلام سچا مذہب ہے بلکہ اسی دنیا میں ثبوت دیتاہے کہ تم سیدھے راستہ پر ہو اور وہ اس طرح کہ فرماتا ہے۔ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: 32) کہ آؤ اسی دُنیا میں خدا کے محبوب بن جاؤ۔ محبوب کے یہ معنی ہیں کہ اگر اس کو کوئی تکلیف ہو تو محب اس کی مدد کرے اور اس سے کلام کر کے اسے تسلّی دے۔ اس کو کوئی شخص اپنا محبّ نہیں سمجھ سکتا جو یہ کہے کہ مجھے فلاں سے محبت ہے اور فلاں میرا محبوب ہے لیکن جب اسے کوئی تکلیف پہنچے تو اس کی کوئی مدد نہ کرے۔ تو خدا تعالیٰ کے محبوب ہونے کے یہ معنی ہیں کہ جب وہ دکھ اورتکلیف میں ہو تو خدا اس کی مدد کرے اور اس سے کلام کرے۔
اسلام میں خدا سے کلام کرنے کا دروازہ کُھلا ہے
اس کے ماتحت جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کے کلام کرنے کا دروازہ کُھلا بتاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے۔ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحہ: 6تا7)کہ اے مومنو! تم ہمیشہ یہ دعا کیا کرو کہ اے خدا ہمیں سیدھا رستہ دکھا۔ یعنی وہ رستہ جس پر چل کر پہلے لوگ خدا تک پہنچے ہیں اور خدا تعالیٰ انہیں یقین دلاتا رہا ہے کہ تم مجھ تک پہنچ گئے ہو۔
اسلام کی دیگر مذاہب پر فضیلت
یہ بیّن فرق ہے اسلام اور دیگر مذاہب میں۔ اخلاقی تعلیم میں مذاہب کا آپس میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ ہر ایک مذہب بُرے کام کرنےسے روکتا اور اچھے کام کرنے کی تلقین کرتا ہے لیکن اسلام کہتا ہے کہ اسی دنیا میں تم کو معلوم ہو جائے گا کہ تم خدا کے مقرب اور محبوب بن گئے ہو۔ چنانچہ اس کا ثبوت اسلام میں ملتا ہے۔کیونکہ ہر زمانہ میں ایسے لوگ آتے رہے ہیں جنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کو انہوں نے دیکھا اور خدا ان سے کلام کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت معین الدین چشتیؒ، حضرت محی الدین ابن عربیؒ، حضر ت جنید بغدادیؒ اور اَور بہت سے بزرگ اسلام میں ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنے دل میں خدا کی محبت پیدا کی اور خدا تعالیٰ نے بھی ان سے محبت کی اور انہیں اپنی محبت کا جُبہ پہنایا ان کی ہر تکلیف کو اس نے خود دُور کیا اور ہر مشکل وقت میں ان کی مدد کی۔
ہمارے زمانہ میں خدا کا ایک محبوب
پس اسلام میں بہت سے ایسے بزرگ ہوئے ہیں جو خدا تعالیٰ کے محبوب تھے۔ اور اس زمانہ میں بھی خداتعالیٰ کا ایک خاص محبوب گزرا ہے۔ خدا تعالیٰ نے اس زمانہ کے مفاسد کو دیکھ کر اور خدا تعالیٰ سے لوگوں کا بُعد اور بے رخی پا کر ایک انسان بھیجا جس نے اسلام کی خدمت کی اور اسلام کی سچائی ثابت کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو بدسے بدتر قرار دیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ سو سال تک دنیا سے مٹ جائے گی۔ اس وقت خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی اور اس نے کہا کون ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو مٹا سکے۔ پس ایسے زمانہ میں جبکہ اسلام غریب ہو چکا تھا اور ایسے وقت میں جبکہ اسلام بلحاظ تعلیم یا بلحاظ اس کے کہ سائنس اور علوم کی ترقی کی وجہ سے اس پر نئے نئے اعتراض کئے جاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ قرآن میں ایسی باتیں درج ہیں جو خلاف عقل ہیں پھر جو علم نکلتا اسلام پر حملہ آور ہوتا۔ ڈارون تھیوری [DARWIN, CHARLES ROBERT-1809- 1882]ماہر موجودات (NATURALIST)جس کے انکشافات، مشاہدات اور تحقیقات سے ارتقاء کا وہ نظریہ قائم ہوا جو ڈارونیت (DARWINISM)کہلاتا ہے۔ (اردو جامعہ انسائیکلو پیڈیا جلد 1 صفحہ 617 مطبوعہ لاہور 1987ء)]نکلی تو اس کے ذریعہ اسلام پر حملے کئے گئے۔ جیالوجی کے رُو سے اسلام کو ہدفِ اعتراضات بنایا گیا۔ اسٹرانومی کے ذریعہ اسلام میں نقص نکالے گئے۔ غرض ہر علم کی تحقیقات کا یہی نتیجہ بتایا گیا کہ اسلام نقصوں اور غلطیوں سے پُر ہے اور کسی علم کے مقابلہ پر ٹھہر نہیں سکتا۔ اس وجہ سے صاف طور پر کہہ دیا گیا کہ مسلمان جوں جوں علوم سے واقف ہوتے جائیں گے خود بخود اسلام کو چھوڑ دیں گے اور یہ خیال ایسا وسیع ہوا کہ مسلمان کہلانے والوں میں سے ایسے لوگ پید اہو گئے جنہوں نے کہہ دیا کہ اسلام کی اصلاح ہونی چاہئے اور زمانہ حال کے مطابق اس کی تعلیم کو بنانا چاہئے۔ جب یہ حالت ہو گئی تب وہ خدا جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا تھا کہ تُو میرا ایسا پیارا اور محبوب ہے کہ تیرے غلام بھی میرے محبوب ہو جائیں گے۔ اس خدا کی غیرت جوش میں آئی اور اس کی محبت فوارے کی طرح پھوٹی۔ اس نے اسلام کی عزت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو ثابت کرنے کے لئے ایک ایسے انسان کو کھڑا کر دیا جو کیا بلحاظ شان و شوکت اور کیا بلحاظ مال و دولت اور کیا بلحاظ شہرت و عزت دنیا میں کوئی حقیقت نہ رکھتا تھا اور کہا کہ مَیں اس کے ذریعہ اس زمانہ میں اسلام کو قائم کروں گا اور دنیا میں پھیلا دوں گا۔ پس خدا تعالیٰ نے ایسے نازک اور پُر خطر زمانہ میں اسلام کی صداقت ثابت کرنے کے لئے ایک دروازہ کھولا اور قادیان سے اس شخص کو چُنا اور اسے کہا کہ چونکہ تُو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا جؤا اپنی گردن میں پوری طرح ڈالا ہے اس لئے مَیں تجھے اسلام کی خدمت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے لئے کھڑا کرتا ہوں۔
حضرت مرزا صاحب کی بعثت سے اسلام کی صداقت کا ثبوت
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح معلوم ہو کہ اس شخص کو خدا تعالیٰ سے محبت تھی اور خدا تعالیٰ کو اس سے محبت تھی اور اس کا کھڑا ہونا کس طرح اسلام کی صداقت کا ثبوت ہے؟ دوسرے مذاہب والوں کا حق ہے کہ ہم سے یہ سوال پوچھیں کہ یہ کس طرح ثابت ہوا کہ اس شخص کا کھڑا ہونااسلام کی صداقت کا ثبوت ہے؟ کیوں نہ کہا جائے کہ چونکہ تم کو اسلام سے محبت ہے اس لئے تم نے یہ ڈھکوسلا بنا لیا ہے۔ اس کے لئے جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا ہے کہ جو خدا تعالیٰ کا پیارا اور محبوب ہوتا ہے خدا تعالیٰ کی تائید اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کے مطابق دیکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی تائید اس کے ساتھ تھی یا نہیں اور یہ اس طرح دیکھی جاسکتی ہے کہ جب وہ خدمت اسلام کے لئے کھڑا ہوا تو جیسا کہ مَیں نے پہلے اشارةً بتایا ہے کہ بہت معمولی حالت میں تھا اورکوئی اس کی شان و شوکت نہ تھی۔ نہ وہ دنیا میں مشہور تھا نہ اس کے پاس مال و دولت تھی نہ اس کے پاس جتھا اور طاقت تھی، مگر اس زمانہ میں اس نے اعلان کیا کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ ’’میں تیری تبلیغ کو دُنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ پھر اس نے اعلان کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے کہا ہے کہ ’’فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ‘‘ (تذکرہ صفحہ 220 ایڈیشن چہارم) وہ وقت آگیا ہے کہ تیری نصرت ہو اور تُو دُنیا میں پہچانا جائے۔ پھر اس نے خدا تعالیٰ سے خبر پاکر اعلان کیا کہ ’’دنیا میں ایک نذیر آیا۔ پر دُنیا نے اس کو قبول نہ کیا، لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔‘‘ (تذکرہ صفحہ 181، 184، ایڈیشن چہارم)
غرض اس وقت جب کہ وہ اکیلا تھا کوئی گروہ چھوڑ چند لوگ بھی اس کے ساتھ نہ تھے۔ اس کے گاؤں میں لوگ باہر سے نہ آتے تھے۔ اس کا گاؤں کوئی مشہور گاؤں نہ تھا۔ بالکل معمولی اور چھوٹا سا گاؤں تھا۔ اس وقت خدا تعالیٰ نے اسے بتایا کہ مَیں تیرا نام تمام دُنیا میں پھیلا دوں گا۔ اس وقت اس کی اپنی حالت یہ تھی کہ اسی گاؤں کے اکثر لوگ جس میں وہ پیدا ہوا اور جس میں اس نے پرورش پائی اس کا نام تک نہ جانتے تھے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس کو دُنیا میں وہی عزت اور شہرت حاصل ہوئی یا نہیں؟ اور وہی مدد اور اعانت حاصل ہوئی یا نہیں؟ جس کا خدا تعالیٰ نے اس سے وعدہ کیا تھادعویٰ سے قبل تو اس کی یہ حالت تھی کہ اپنے گاؤںسے لوگ بھی اس کو نہ جانتے تھے لیکن دعویٰ کے بعد آپ کی دنیا میں ایسی شہرت ہوئی کہ کوئی ملک اور کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں کے لوگ آپ کو نہ جانتے ہوں۔ ہر ایک قوم اور ہر ایک ملک میں آپ کا نام پھیلا اور اس طرح وہ بات پوری ہوئی جس کا اعلان اس نے خدا تعالیٰ سے خبر پاکر اس وقت کیا تھا جب کہ وہ بالکل گمنام تھا۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ چونکہ مرزا صاحبؑ نے ایک نیا دعویٰ کیا تھا اور جو لوگ نئے دعوے کیا کرتے ہیں ان کے نام پھیل ہی جایا کرتے ہیں۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ اسی نے نیا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ اسی زمانہ میں اورو ں نے بھی نئے نئے دعوے کئے تھے۔ ان کے نام کہاں پھیلے۔ پھر کوئی ایک بھی شخص تو ایسا نہیں جس نے قبل از وقت کہا ہو کہ میرا نام تمام دُنیا میں پھیل جائے گا اور پھر اس کانام پھیلا ہو۔ یہ بات صرف حضرت مرزا صاحبؑ کو ہی حاصل ہوئی ہے کہ آپ نے قبل از وقت جس طرح بتایا اسی طرح ظہور میں آیا جس سے ثابت ہے کہ آپ نے خدا تعالیٰ کی محبت کو جذب کر لیا تھا۔ ورنہ اسی پنجاب میں ایسے لوگ ہوئے ہیں جنہوں نے دعوے کئے مگر ان کے نام ہرگز نہیں پھیلے۔ اور نہ انہوں نے قبل از وقت اپنے متعلق کوئی اس قسم کا اعلان کیا جس قسم کا حضرت مرزا صاحبؑ نے کیا۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭