احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
آپؑ اس زمانے میں بھی الله تعالیٰ کی محبت اور اتباع نبی کریمﷺ میں کچھ ایسے محو اور متوجہ رہتے تھے کہ پاس ہونے والے واقعات کا بھی علم نہیں ہوتاتھا
سادہ اور پر وقار شادی
(حصہ دوم)
آپؑ کی یہ شادی دراصل آپؑ کے حصول تعلیم کے زمانہ میں ہی ہوگئی تھی۔ آپؑ کی اس زندگی میں جو بات نمایاں ہوکر نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپؑ اس زمانہ میں بھی مطالعہ اور ذکرالٰہی میں مستغرق رہے۔ یہ مقدس نوجوان اپنی جوانی کے شب وروز حجر ۂ عروسی کی بجائے اس حجرہ میں گزار رہا تھا جہاں صرف وہ ہوتا تھا اوراس کا خداہوتا تھا جس کی یاد میں وہ ماہیٔ بے آب کی طرح بے چین و بےقرار رہتاتھا۔ مطالعہ کتب تھا اور ان کتابوں میں سب سے افضل اور مقدم قرآن کریم تھا جسے وہ سامنے رکھ کے زار زار روتے اور اس کی تلاوت میں مگن رہتے۔ یا پھر اپنے خالق ومالک کی تسبیح وتہلیل میں مصروف رہتے اور یوں ساری جلوتوں کو تج کر وہ اس خلوت نشینی کو اختیارکیے ہوئے تھے۔ لیکن اس خلوت میں بھی ایک جلوت ضو فگن تھی۔ اس کاایک نظارہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ نے یوں پیش کیا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں:
’’ اس عہد تأَھُّلمیں آپ نے خلوت کو جلوت پر ترجیح دی۔ اور باوجودیکہ آپؑ ایک رفیع المنزلت خاندان کے ممبر تھےمگر اپنی اس گوشہ گزینی کی وجہ سے وہ کسی کے آشنا نہ تھے اور کوئی شخص آپ کو جانتا نہ تھا۔ اس تنہائی اور تخلیہ کی زندگی میں آپ کے رفیق بعض چھوٹے چھوٹے بچے تھے جن میں سے اکثر یتامیٰ ہوتے تھے۔ آپ کے کھانے میں وہ برابر کے شریک ہوتے تھے اور ان میں سے کوئی کھانے کے وقت موجود نہ ہوتا تھاتو اس کو اس بات کا غم نہ ہوتا تھاکہ اس کا حصہ نہ ملے گا۔ پہلے سے اس کا حصہ نکال کر رکھ لیا جاتا تھا۔ اسی زمانہ میں آپ بعض کو سبق بھی پڑھادیا کرتے تھےمگر عام طور پر آپ کا کام یہ ہوتا تھا کہ ان کو نماز کی تلقین کریںاور زیادہ تر درود شریف پڑھنے کی تاکید کیا کرتے تھے۔ اور خود بھی کثرت سے درود شریف پڑھا کرتے تھے۔ جن کو اس قابل پاتے کہ وہ سمجھ سکتے ہیں ان کو طریق استخارہ بھی سمجھاتے تھے۔ اور ان کو ہدایت فرماتے کہ اگروہ کوئی خواب دیکھیں۔ تو صبح کو بیان کریں۔ آپ ان کے خواب سنتے اور تعبیریں بتاتے تھے۔‘‘ (حیات احمدؑ جلداول صفحہ 314-315)
آپؑ اس زمانے میں بھی الله تعالیٰ کی محبت اور اتباع نبی کریمﷺ میں کچھ ایسے محو اور متوجہ رہتے تھے کہ پاس ہونے والے واقعات کا بھی علم نہیں ہوتاتھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر وقت رو بخدا رہتے اور باوجود دنیا میں ہونے کے دنیا سے الگ رہتے۔ ایک واقعہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے بیان کیا ہے جو آپؑ کے یادالٰہی میں مستغرق ہونے کی اس کیفیت کا مظہر ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ
’’ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعوؑد ایک دالان میں ٹہل رہے تھے اس دالان میں ایک اوکھلی تھی۔ مرزا سلطان احمد صاحب چھوٹے بچے تھے کوئی تین ایک برس کے ہوں گے بلکہ اس سے بھی شائد کچھ کم ہی ان کی عمر ہو گی وہ بھی وہیں زمین پر بیٹھے کھیل رہے تھے۔ کھیلتے کھیلتے اتفاقاًسر کے بل اس اوکھلی میں گِر پڑے۔ اب اس میں سے نکل تو وہ سکتے نہیں تھے سیدھے بھی نہیں ہو سکتے تھے۔ تھوڑی دیر تک وہ اس حالت میں پڑے رہے آخر بچہ اپنی رہائی کی کوششوں میں ناکامیاب رہ کر رو پڑے۔ مگر نہ تو اس کے گرنے اور نہ رونے نے حضرت مسیح موعود ؑکی توجہ میں کوئی خلل پیدا کیا یہ اپنے خیالات میں مست اور غرق اسی طرح اطمینان سے پھرتے رہے بچہ کے رونےکی آواز نے حضرت والدہ مکرّمہ رضی الله عنہا (یعنی دادی صاحبہ )کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی۔ وہ دوڑتی ہوئی آئیں اور مرزا سلطان احمد صاحب کو نکال کر پیار کے ساتھ اٹھایا اور حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ بھی چونکہ انہیں بڑی محبت اور شفقت تھی اس لئے انہیں اور تو کچھ نہ کہہ سکیں یہ کہا کہ ان کے پاس تو کوئی مر بھی جاوے تو ان کو پتہ نہیں ہو سکتا کہ کیا واقع ہوا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ اپنی والدہ مکرّمہ کے ان الفاظ کو سن کر ان کی طرف متوجہ ہوئے اور جب انہوں نے آپ کو اس واقعہ سے اطلاع دی تو ہنس کر کہہ دیا کہ مجھے تو کچھ بھی خبر نہیں۔‘‘ (حیات احمدؑ جلداول صفحہ 216)
یاد الٰہی میں غرق رہنے کے بہت سے واقعات ہم بزرگان سلف کی زندگیوں میں پڑھتے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارہ میں آتاہے کہ ایک جنگ میں انہیں تیر لگا مرہم پٹی کرنے والوں نے وہ تیر نکالناچاہا لیکن وہ تیرنکلتانہیں تھا اور بہت تکلیف کا باعث تھا۔ بہت کوشش کے باوجود جب نہ نکلا تو حضرت علیؓ نے فرمایا کہ رہنے دو جب میں نماز کے لیے کھڑاہوں گا تو نکال لینا۔ کیونکہ یادِ الٰہی میں مَیں اتنا غرق ہوتاہوں کہ مجھے کچھ ہوش نہیں رہتا۔ چنانچہ جب آپؓ نمازکے لیے کھڑے ہوئے تو طبیب آیا اور تیر نکال لیا۔ نمازکے بعد آپؓ نے پوچھا کہ تیرنکال لیا تھا؟ اثبات میں جواب ملنے پر فرمایا کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا۔ ( مأخوذ از ارجح المطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب صفحہ 284-285)
حضرت امام بخاریؒ کے متعلق آتاہے کہ وہ نمازکے لئے کھڑے ہوتے تو انہیں کچھ ہوش نہیں رہتاتھا۔ ایک بار نمازکے بعد اپنے ایک شاگردکوکہنے لگے کہ دیکھنا ذرا میری پشت پر کچھ تپش سی محسوس ہورہی ہے اس نے دیکھا تو ایک زنبور تھا جو کہ نہ جانے کتنی مرتبہ ڈنگ مارمارکے خود ہی مرگیا تھا۔ لیکن دوران نماز امام صاحب کو کچھ پتہ نہ چلا۔ ( تاریخ بغداد جلد2صفحہ 12-13؛ تذکرہ مصنفین صحاح ستہ صفحہ 103)
تو یادِالٰہی میں یہ لوگ ایسے محو ہوتے ہیں کہ دنیا ومافیہا سے بے خبر ہوتے ہیں انہیں کچھ خبر نہیں ہوتی کہ ان کے ارد گرد کیاہورہاہے۔ عشق کی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ صوفیاء کی کتابوں میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک عورت اپنے محبوب کی یاد میں بے چین اس کو ڈھونڈتے بے اختیار دوڑی چلی جاتی تھی کہ راستے میں ایک شخص نمازپڑھ رہاتھا وہ اس کے آگے سے جو گزری تو اس نے اس کو روک کرکہا کہ بے تمیز تم دیکھتی نہیں میں نماز پڑھ رہاہوں اور تُونمازی کے آگے سے گزررہی ہے جو کہ گناہ ہے۔ اوراس طرح سے نمازی کی نمازمیں حرج ہوتاہے۔ اس عورت نے کہا کہ نمازکیاہوتی ہے؟ اس نے کہا کہ نمازیہ ہے کہ بندہ اپنے آقا اور محبوب کے حضور کھڑاہواوراس کی عبادت کرے۔ اس نے کہا کہ مجھے تعجب ہے۔ یہ کیسی تمہاری محبت اورکیسی تمہاری عبادت! مجھے تو اپنے محبوب کی وجہ سے تم کیا کوئی بھی نظر نہیں آیااورمیں اسکی تلاش میں بھاگی پھر رہی ہوں۔ تمہارا محبوب کیسا ہے کہ اس کو سامنے دیکھنے اور پانے کے باوجود مَیں تجھے نظرآگئی۔ حالانکہ تم مجھے دکھائی ہی نہیں دیے تھے۔
تو عشق ومحبت کی یاد میں ایسی ہی کیفیت ہواکرتی ہے۔ جس میں خداکے یہ عاشق محو اور مستغرق ہواکرتے ہیں۔ وہ
گہے بر طارمِ اعلیٰ نشینم
گہے بر پُشتِ پائے خود نہ بینم
کے مصداق ہوتے ہیں۔
(شیخ سعدیؒ نے ایک رباعی لکھی ہے جو اسی مضمون کو بیان کرتی ہے اس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ کسی شخص نے اس دانا بزرگ(حضرت یعقوبؑ ) سے پوچھا کہ اے نیک سرشت دانا بزرگ! مصر سے اس(حضرت یوسفؑ ) کے پیراہن کی خوشبو تُو نے سونگھ لی۔ اسے چاہِ کنعان میں کیوں نہ دیکھا۔ اس نے کہا ہمارے حالات دنیا کی بجلی کی مانند ہیں۔ ابھی ظاہر اور اگلے لمحہ پوشیدہ ہیں۔ کبھی میں اعلیٰ مقام پر بیٹھتا ہوں اور کبھی اپنے پاوٴں کی پشت پر نہیں دیکھ پاتا۔ )
مذکورہ بالاتفصیلات میں حضرت اقدسؑ کے برادرنسبتی مرزاعلی شیرصاحب کاذکرہواہے۔ ان کی بابت یہ بھی ذکر کرتاچلوں کہ بعدمیں یہ بھی حضورؑ کے مخالف بلکہ اشدمخالف رشتہ داروں کی صف میں کھڑے ہوگئے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ان کی مخالفت کا ایک دلچسپ واقعہ بیان فرمایاہے۔ آپؓ فرماتے ہیں:
’’ مرزا علی شیر صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سالے اور مرزا فضل احمد صاحب کے خسر تھے۔ انہیں لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس جانے سے روکنے کا بڑا شوق تھا۔ رستہ میں ایک بڑی لمبی تسبیح لے کر بیٹھ جاتے،تسبیح کے دانے پھیرتے رہتے اور منہ سے گالیاں دیتے چلے جاتے۔ بڑا لٹیرا ہے لوگوں کو لوٹنے کے لئے دکان کھول رکھی ہے بہشتی مقبرہ کی سڑک پر دارالضعفاء کے پاس بیٹھے رہتے۔ اس وقت یہ تمام زمین زیر کاشت ہوتی تھی، عمارت کوئی نہ تھی، بڑی لمبی سفید ڈاڑھی تھی سفید رنگ تھا، تسبیح ہاتھ میں لئے بڑے شاندار آدمی معلوم ہوتے تھے اور مغلیہ خاندان کی پوری یادگار تھے، تسبیح لئے بیٹھے رہتے جو کوئی نیا آدمی آتا اسے اپنے پاس بُلا کر بٹھا لیتے اور سمجھانا شروع کر دیتےکہ مرزا صاحب سے میری قریبی رشتہ داری ہے آخر میں نے کیوں نہ اسے مان لیا؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ میں اس کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ ایک دکان ہے جو لوگوں کو لوٹنے کے لئے کھولی گئی ہے۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ باہر سے پانچ بھائی آئے غالباً وہ چک سکندر ضلع گجرات کے رہنے والے تھے اب تو لوگ جلسہ کے دوران میں بھی باہر پھرتے رہتے ہیں لیکن ان پہلے لوگوں میں اخلاص نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا اور قادیان میں دیکھنے کی کوئی خاص چیز نہ تھی، نہ منارۃ المسیح تھا، نہ دفاتر تھے، نہ مسجد مبارک کی ترقیاں ایمان پرور تھیں، نہ مسجد اقصیٰ کی وسعت اس قدر جاذب تھی، نہ محلوں میں یہ رونق تھی، نہ کالج تھا نہ سکول تھے۔ ان دنوں لوگ اپنے اخلاص سے خود ہی قابل زیارت جگہ بنا لیا کرتے تھے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد صاحب کا باغ ہے اسے دیکھو اور یہ حضرت صاحب کے لنگر کا باورچی ہے اس سے ملو اور اس سے باتیں پوچھو ان کا ایمان اسی سے بڑھ جاتا تھا۔ان دنوں ابھی بہشتی مقبرہ بھی نہ بنا تھا صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد کا لگایا ہوا باغ تھا۔ لوگ وہاں برکت حاصل کرنے کے لئے جاتے اور علی شیر صاحب رستہ میں بیٹھے ہوئے ہوتے۔ وہ پانچوں بھائی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا باغ دیکھنے کے لئے گئے تو ان میں سےایک جو زیادہ جوشیلا تھا وہ کوئی دو سو گز آگے تھا اور باقی آہستہ آہستہ پیچھے آرہے تھے علی شیر نے اسے دیکھ کر کہ یہ باہر سے آیا ہے اپنے پاس بلا لیا اور پوچھا کہ مرزا کو ملنے آئے ہو؟ اس نے کہا ہاں مرزا صاحب کو ہی ملنے آیا ہوں۔ علی شیر نے اس سے کہا ذرا بیٹھ جاؤ اور پھر اسے سمجھانا شروع کیا کہ میں مرزا کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہوں میں اس کے حالات سے خوب واقف ہوں، اصل میں آمدنی کم تھی بھائی نے جائداد سے بھی محروم کر دیا اس لئے یہ دکان کھول لی ہے۔ آپ لوگوں کے پاس کتابیں اور اشتہار پہنچ جاتے ہیں آپ سمجھتے ہیں کہ پتہ نہیں کتنا بڑا بزرگ ہو گا پتہ تو ہم کو ہے جو دن رات اس کے پاس رہتے ہیں۔ یہ باتیں میں نے آپ کی خیرخواہی کے لئے آپ کو بتائی ہیں۔ چک سکندر سے آنے والے دوست نے بڑے جوش کے ساتھ مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ علی شیر صاحب سمجھے کہ شکار میرے ہاتھ آگیا ہے۔ اس دوست نے علی شیر صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا اور پکڑ کر بیٹھ گیا گویا اسے ان سے بڑی عقیدت ہوگئی ہے۔ علی شیر صاحب دل میں سمجھے کہ ایک تو میرے قابو میں آگیا ہے۔ اس دوست نے اپنے باقی بھائیوں کو آواز دی کہ جلدی آؤ جلدی آؤ۔ اب تو مرزا علی شیر پھولے نہ سمائے کہ اس کے کچھ اور ساتھی بھی ہیں وہ بھی میرا شکار ہوجائیں گے اور میں ان کو بھی اپنا گرویدہ بنا لوں گا۔ اس دوست کے باقی ساتھی دوڑ کر آگئے تو اس نے کہا۔ میں نے تمہیں اس لئے جلدی بلایا ہے کہ ہم قرآن کریم اور حدیث میں شیطان کے متعلق پڑھا کرتے تھے مگر شکل نہیں دیکھی تھی آج اللہ تعالیٰ نے اس کی شکل بھی دکھا دی ہے تم بھی غور سے دیکھ لو یہ شیطان بیٹھا ہے۔ مرزا علی شیر غصہ سے ہاتھ واپس کھینچتے لیکن وہ نہ چھوڑتا تھا اور اپنے بھائیوں سے کہتا جاتا تھا دیکھ لو اچھی طرح دیکھ لو شاید پھر دیکھنا نہ ملے یہ شیطان ہے۔ پھر اس نے اپنے بھائیوں کو سارا قصہ سنایا۔‘‘ ( نبوت اورخلافت اپنے وقت پر ظہور پذیرہوجاتی ہیں، انوار العلوم جلد18صفحہ 237تا 239)
(باقی آئندہ)