الفضل پڑھنا کیوں ضروری ہے
الفضل ایک فضل ہے جو سیدنا محمودؓ کے ذریعہ 18؍جون 1913ء کو عالم احمدیت پرحضرت حکیم مولوی نورالدین خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی اجازت اور دعاؤں کے جلو میں ظاہرہوا ، جنہوں نے اس کو الفضل کا بابرکت نام عطا فرمایا
ہم لوگوں کی ایک بڑی تعداد جسمانی غذا، اس کی قلت اور اس قلت کے مضمرات کو سمجھتی ہے ، مگر اس حقیقت کا ادراک کرنے میں ناکام ہے کہ انسان کو جس طرح جسمانی غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی، ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی غذا بھی درکار ہوتی ہے، اور مطالعہ اس غذا کی فراہمی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ مطالعہ خودآگہی اور ماحول شناسی کا ذریعہ ہے اور ان دونوں چیزوں کے بغیر انسان اپنی زندگی کی معنویت کا تعین نہیں کرسکتا۔
اخبار الفضل اردو صحافت میں برصغیر کا سب سے قدیم اخبار ہے۔اس اخبار کی بنیاد 2مقدس خلفائے احمدیت کے ہاتھوں سے رکھی گئی۔ یہ اخبار بعد میں آنے والے خلفاء کی خاص شفقتوں اور عنایتوں کابھی موردبنتا رہا، ان کی گود میں پھلا پھولا اور پروان چڑھا۔ اس کے سو سال سے زائد کا عرصہ محض ان کی دعاؤں اور برکتوں سے عبارت ہے۔
خاکسار کا الفضل سے جب پہلا تعارف ہوا اس وقت میں ایک چھوٹا سا بچہ تھا۔اس وقت ربوہ کے ایک محلہ کوارٹرز صدر انجمن احمدیہ کے ایک گھرانے میں الفضل کا ذکر سنا اور اسے دیکھا۔ میری دادی جان محترمہ سردار بانو صاحبہ مرحومہ جو کہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتی تھیں صبح اٹھ کر بلاناغہ مجھ سے پنجابی میں مخاطب ہو کر کہتی تھیں کہ دیکھنا الفضل آیا ہے کہ نہیں اور پھر مجھ سے ان کا یہ کہنا مجھے کبھی نہیں بھول سکتا کہ ادھر میری چارپائی پر بیٹھ کر مجھے الفضل پڑھ کر سناؤ۔ الفضل ہمارے گھر میں ہمہ وقت میسر رہتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی گھر میں اس کے مضامین اور اعلانات کا چرچارہتا تھا ہر مہینے کے الفضل اکٹھے کرکے ترتیب دے کر جلد بندی کروائی جاتی اور انہیں ادب کے ساتھ الماری میں محفوظ کر لیا جاتا ۔
الفضل ایک فضل ہے جو سیدنا محمودؓ کے ذریعہ 18؍جون 1913ء کو عالم احمدیت پرحضرت حکیم مولوی نورالدین خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ عنہ کی اجازت اور دعاؤں کے جلو میں ظاہرہوا ، جنہوں نے اس کو الفضل کا بابرکت نام عطا فرمایا۔
الفضل کے نام رکھے جانے کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح بیان فرمائی: ’’حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سے میں نے اخبار کی اجازت مانگی اور نام پوچھا۔آپ نے اخبار کی اجازت دی۔اور نام’’الفضل‘‘ رکھا۔چنانچہ اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام ’’الفضل‘‘فضل ہی ثابت ہوا۔اسی زمانہ میں ’’پیغام صلح‘‘ لاہور سے شائع ہوا۔تجویز پہلے میری تھی مگر’’پیغام صلح‘‘ ’’الفضل‘‘ سے پہلے شائع ہوا۔کیونکہ ان لوگوں کے پاس سامان بہت تھے۔‘‘(یادایام،انوارالعلوم جلد8صفحہ371۔372)
حضرت مصلح موعودؓ الفضل کے اجرا کا پس منظر اس طرح بیان فرماتے ہیں: ’’بدر‘‘ اپنی مصلحتوں کی وجہ سے ہمارے لئے بندتھا ’’الحکم‘‘ اول تو ٹمٹماتے چراغ کی طرح کبھی کبھی نکلتا تھا۔ اور جب نکلتا بھی تھا تو اپنے جلال کی وجہ سے لوگوں کی طبیعتوں پر جو اس وقت بہت نازک ہوچکی تھیں۔ بہت گراں گزرتا تھا۔ ’’ریویو‘‘ ایک بالا ہستی تھی جس کا خیال بھی نہیں کیاجاسکتا تھا۔ میں بے مال و زر تھا۔ جان حاضر تھی مگر جو چیز میرے پاس نہ تھی وہ کہاں سے لاتا۔ اس وقت سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی جو احمدیوں کے دلوں کو گرمائے۔ان کی سستی کو جھاڑے۔ان کی محبت کو ابھارے۔ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور یہ اخبار ثریا کے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا۔اس کی خواہش میرے لئے ایسی ہی تھی جیسے ثریا کی خواہش،نہ وہ ممکن تھی نہ یہ۔آخر دل کی بے تابی رنگ لائی۔امید بر آنے کی صورت ہوئی اور کامیابی کے سورج کی سرخی اُفقِ مشرق سے دکھائی دینے لگی۔‘‘(یادایام،انوارالعلوم جلد8صفحہ369)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سوانح فضل عمر میں زیور کے فروخت کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’یہ زیورحضرت صاحبزادہ صاحب (خلیفۃ المسیح الثانیؓ ) نے خود لاہور جاکر پونے پانچ سوروپے میں فروخت کئے۔یہ تھا الفضل کا ابتدائی سرمایہ جیسی قیمتی امداد تھی اس کا اندازہ حضرت صاحبزادہ صاحب (خلیفۃ المسیح الثانیؓ)کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتاہے:“اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دیئے جن سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوااور میرے لئے زندگی کے لئے ایک نیا ورق الٹ دیا بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے بھی ایک بہت بڑا سبب پیدا کردیا۔‘‘
(الفضل28دسمبر1939ء۔سوانح فضل عمر جلداول صفحہ 240)
حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے عظیم احسان کا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اس طرح ذکر فرماتے ہیں:
’’دوسری تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کے دل میں پیدا کی اور آپ نے اپنی ایک زمین جو قریباً ایک ہزار روپیہ میں بکی الفضل کے لئے دے دی۔ مائیں دنیا میں خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں مگر ہماری والدہ کو ایک خصوصیت ہے اور وہ یہ کہ احسان صرف ان کے حصہ میں آیا ہےاور احسان مندی صرف ہمارے حصہ میں آئی ہے۔ دوسری ماؤں کے بچے بڑے ہو کر ان کی خدمت کرتے ہیں۔مگر ہمیں یا تو اس کی توفیق ہی نہیں ملی کہ ان کی خدمت کر سکیں یا شکر گزار دل ہی نہیں ملے جو ان کا شکریہ ادا کر سکیں۔ بہرحال جو کچھ بھی ہو اب تک احسان کرنا انہیں کے حصے میں ہے۔اور حسرت و ندامت ہمارے حصے میں۔وہ اب بھی ہمارے لئے تکلیف اٹھاتی ہیں اور ہم اب بھی کئی طرح ان پر بار ہیں۔دنیا میں لوگ یا مال سے اپنے والدین کی خدمت کرتے ہیں یا پھر جسم سے خدمت کرتے ہیں۔کم سے کم میرے پاس دونوں نہیں۔مال نہیں کہ خدمت کر سکوں۔یا شاید احساس نہیں کہ سچی قربانی کر سکوں۔جسم ہے مگر کیاجسم؟صبح سے شام تک جس کو ایک نہ ختم ہونے والے کام میں مشغول رہنا پڑتا ہے بلکہ راتوں کو بھی۔پس بارمنت کے اٹھانے کے سوا اور کوئی صورت نہیں۔میں جب سوچتا ہوں حسرت و ندامت کے آنسو بہاتا ہوں کہ خدایا میرے جیسا نکما وجود بھی دنیا میں کوئی ہوگا جس نے خود تو کبھی کسی پر احسان نہیں کیا۔مگر چاروں طرف سے لوگوں کے احسانات کے نیچے دبا ہوا ہے۔کیا میں صرف احسانوں کا بوجھ اٹھانے کے لئے ہی دنیا میں پیدا ہوا تھا۔‘‘
(انوارالعلوم جلد8صفحہ370۔371)
آج کی تاریخ میں الفضل کل عالمِ انسانیت اور خصوصاً عالم اسلام کے لیے نہایت بابرکت اور نفع مند اخبار ہے ۔یہ حقیقت میں حضرت مسیح موعود ؑ کے ذریعہ جاری ہونے والے علوم کی وہ نہر ہے جس نے علم ، اخلاق اور روحانیت کی ترویج کرتے ہوئے صحافت کے ایک نئےدور کی بنیاد ڈالی ہے۔ الفضل کی ایک عظیم الشان علمی تاریخ ہے سر تا بہ فلک اور ہر دریائے علم ومعرفت کا شناور۔
مطالعہ الفضل حصولِ معرفت کا ذریعہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان کتاب کے مطالعے سے آغاز کرتا ہے پھر کائنات کے مطالعہ مشاہدہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور پھر اُس پر درجہ بدرجہ کائنات کے سربستہ رازوں کے پردے کھلتے چلے جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ انسان معرفتِ نفس و جہاں سے ترقی کرتے کرتے معرفتِ باری تعالیٰ کے راستوں کو حاصل کرلیتا ہے گویا کہ مطالعہ معرفت کے لیے سیڑھی کا کام کرتا ہے۔معرفتِ الٰہی اور نفس کو بیکار بنانے کے لیے احیاء العلوم کا مطالعہ بے حد مفید ہے۔
الفضل کا پڑھنا ہمارے لیے متاع علم حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے اور علم سے انسان صحیح اور غلط کی پہچان رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک علم والوں کا مرتبہ عام لوگوں سے زیادہ ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ (الزمر:10)تو پوچھ کہ کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے برابرہو سکتے ہیں ؟
علم ایک ایسا نور اور روشنی ہے جس سے جہالت کے اندھیرے دور ہوتے ہیں اور انسان کا دل اور دماغ منور ہوتا ہے۔ علم کے ذریعے ہی انسان نیکی اور بدی میں فرق کرتا ہے۔ انہی کے ذریعے دماغ کی پوشیدہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔ اسی کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ کی قدرت چاند اور سورج اور رات اور دن کی تبدیلی وغیرہ میں غور کرنے کی سعادت حاصل ہوتی ہے جس کا اللہ پاک نے قرآن پاک میں ذکر فرمایا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ(آل عمران : 191)یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میںاور رات اوردن کی ادلنے بدلنے میں صاحبِ عقل لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
دین کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ علم ہے اور علم حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ دینی مطالعہ ہے جو کہ ہم الفضل کے باقاعدہ قاری بن کر حاصل کر سکتے ہیں اور جو علم حاصل کرنے کی جستجو رکھتا ہے، علم حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد (مصلح موعود)رضی اللہ عنہ نے 18؍جون 1913ء کو الفضل جاری فرمایا اور اس کے پہلے پرچہ میں اس کے مقاصد اور ان کی قبولیت کے لیے دعائیں کرتے ہوئے تحریر فرمایا:’’خدا کا نام اور اس کے فضلوں اور احسانوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے اس سے نصرت و توفیق چاہتے ہوئے میں الفضل جاری کرتا ہوں… میں بھی اپنے ایک مقتدر اور راہنما اپنے مولا کے پیارے بندے کی طرح اس بحر ناپیدا کنار میں الفضل کی کشتی کے چلانے کے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور بصد عجز و انکسار یہ دعا کرتا ہوں کہ بِسۡمِ اللّٰہِ مَجۡؔرٖٮہَا وَمُرۡسٰٮہَا ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ(سورۃ ھود۔42) کہ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اور اس کی برکت سے اس کا چلنا اور لنگر ڈالنا ہو۔ تحقیق میرا رب بڑا بخشنے والا اور رحیم ہے۔ اے میرے قادر مطلق خدا۔ اے میرے طاقتور بادشاہ۔ اے میرے رحمان رحیم مالک اے میرے رب۔ میرے مولا۔ میرے ہادی۔ میرے رازق۔ میرے حافظ۔میرے ستار۔ میرے بخشنہار۔ ہاں اے میرے شہنشاہ !جس کے ہاتھوں میں زمین و آسمان کی کنجیاں ہیں اور جس کے اذن کے بغیر ایک ذرہ اور ایک پتہ نہیں ہل سکتا جو سب نفعوں اور نقصانوں کا مالک ہے۔ جس کے ہاتھ میں سب چھوٹوں اور بڑوں کی پیشانیاں ہیں۔ جوپیدا کرنے والا اور مارنے والا ہے۔ جو مار کر پھر جلائے گا اور ذرہ ذرہ کا حساب لے گا۔ جو ایک ذلیل بوند سے انسان کو پیدا کرتا ہے۔ جو ایک چھوٹے سے بیج سے بڑے بڑے درخت اگاتا ہے۔ ہاں اے میرے دلدار میرے محبوب خدا تو دلوں کا واقف ہے۔ اور میری نیتوں اور ارادوں کو جانتا ہے۔ میرے پوشیدہ رازوں سے واقف ہے۔ میرے حقیقی مالک۔ میرے متولی تجھے علم ہے کہ محض تیری رضا حاصل کرنے کے لئے اور تیرے دین کی خدمت کے ارادہ سے یہ کام میں نے شروع کیا ہے۔ تیرے پاک رسول کے نام کے بلند کرنے اور تیرے مامور کی سچائیوں کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے یہ ہمت میں نے کی ہے۔ تو میرے ارادوں کا واقف ہے۔ میری پوشیدہ باتوں کا راز دار ہے۔ میں تجھی سے اور تیرے ہی پیارے چہرہ کا واسطہ دے کر نصرت و مدد کا امیدوار ہوں۔ تو جانتا ہے کہ میں کمزور ہوں میں ناتواں ہوں۔ میں ضعیف ہوں۔ میں بیمار ہوں۔ میں تو اپنے پہلے کاموں کا بوجھ بھی اٹھا نہیں سکتا۔ پھر یہ اور بوجھ اٹھانے کی طاقت مجھ میں کہاں سے آئے گی۔ میری کمر تو پہلے ہی خم ہے۔ یہ ذمہ داریاں مجھے اور بھی کبڑا کر دیں گی۔ ہاں تیری ہی نصرت ہے جو مجھے کامیاب کر سکتی ہے۔ صرف تیری ہی مدد سے میں اس کام سے عہدہ برآ ہو سکتا ہوں۔ تیرا ہی فضل ہے۔ جس کے ساتھ میں سرخرو ہو سکتا ہوں اور تیرے ہی رحم سے میں کامیابی کا منہ دیکھ سکتا ہوں۔ دین اسلام کی ترقی اور اس کی نصرت خود تیرا کام ہے اور تو ضرور اسے کرکے چھوڑے گا مگر ثواب کی لالچ اور تیری رضا کی طمع ہمیں اس کام میں حصہ لینے کے لئے مجبور کرتی ہے۔ پس اے بادشاہ ہماری کمزوریوں پر نظر کر اور ہمارے دلوں سے زنگ دور کر۔ اسلام کی ترقی کے دن پھر آئیں اور پھر یہ درخت بارآور ہو اور اس کے شیریں پھل ہم کھائیں اور تیرا نام دنیا میں بلند ہو تیری قدرت کا اظہار ہو۔ نور چمکے اور ظلمت دور ہو۔ ہم پیاسے ہیں اپنے فضل کی بارش ہم پر برسا اور ہمیں طاقت دے کہ تیرے سچے دین کی خدمت میں ہم اپنا جان و مال قربان کریں اور اپنے وقت اس کی اشاعت میں صرف کریں۔ تیری محبت ہمارے دلوں میں جاگزیں ہو اور تیرا عشق ہمارے ہر ذرہ میں سرایت کر جائے۔ ہماری آنکھیں تیرے ہی نور سے دیکھیں اور ہمارے دل تیری ہی یاد سے پُرہوں اور ہماری زبانوں پر تیرا ہی ذکر ہوتو ہم سے راضی ہو جائے اور ہم تجھ سے راضی ہوں تیرا نور ہمیں ڈھانک لے اے میرے مولا اس مشت خاک نے ایک کام شروع کیا ہے اس میں برکت دے اور اسے کامیاب کر۔ میں اندھیروں میں ہوں تو آپ ہی رستہ دکھا۔ لوگوں کے دلوں میں الہام کر کہ وہ الفضل سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے فیض کو لاکھوں نہیں کروڑوں تک وسیع کر اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی اسے مفید بنا۔ اس سبب سے بہت سی جانوں کوہدایت ہو۔ میری نیتوں کا تو واقف ہے، میں تجھے دھوکا نہیں دے سکتا۔ کیونکہ میرے دل میں خیال آنے سے پہلے تجھے اس کی اطلاع ہوتی ہے۔ پس تو میرے مقاصد و اغراض کو جانتا ہے اور میری دلی تڑپ سے آگاہ ہے لیکن میرے مولا! میں کمزور ہوں اور ممکن ہے کہ میری نیتوں میں بعض پوشیدہ کمزوریاں بھی ہوں تو ان کو دور کر اور ان کے شر سے مجھے بچالے اور میری نیتوں کو صاف کر اور میرے ارادوں کو پاک کر تیری مددکے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ پس اس ناتوان و ضعیف کو اپنے دروازہ سے خائب و خاسر مت پھیریو کہ تیرے جیسے بادشاہ سے میں اس کا امیدوار نہیں تو میرا دستگیر ہو جا اور مجھے تمام ناکامیوں سے بچالے۔ آمین ثم آمین ثم آمین‘‘(الفضل 18؍جون 1913ء صفحہ3)
الفضل اس وقت اردو زبان میں شائع ہونے والا سب سے طویل اور سب سے قدیم اخبار ہے جو اپنی ایک صدی مکمل کر چکا ہے اور اس عرصہ میں اس فضلِ خداوندی نے خدا تعالیٰ کی دوسری قدرتِ آزمائش سے بھی حصہ لیا۔ اس اخبار کی کئی خصوصیات ہیں۔ یہ وہ واحد اردو اخبار ہے جو پاکستان و ہندوستان کی تقسیم کے بعد 15؍ اگست 1947ء کو بیک وقت دو ملکوں سے شائع ہوا۔ اور ایک عرصہ تک بیک وقت پاکستان سے روزنامہ اور برطانیہ سے ہفت روزہ اور پھر سہ روزہ شائع ہونے والا اردو اخبار ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’خصوصیات سلسلہ کے لحاظ سے یہاں کے اخباروں میں سے دو اخبار الفضل و مصباح کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس سے نظام سلسلہ کا علم ہو گا۔ بعض لوگ اس وجہ سے ان اخباروں کو نہیں پڑھتے کہ ان کے نزدیک ان میں بڑے مشکل اور اونچے مضامین ہوتے ہیں ان کے سمجھنے کی قابلیت ان کے خیال میں ان میں نہیں ہوتی۔ اور بعض کے نزدیک ان میں ایسے چھوٹے اور معمولی مضامین ہوتے ہیں وہ اسے پڑھنا فضول خیال کرتے ہیں۔ یہ دونوں خیالات غلط ہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو کبھی کوئی لائق استاد بھی ملا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ایک بچے سے زیادہ کوئی نہیں ملا۔اس نے مجھے ایسی نصیحت کی کہ جس کے خیال سے میں اب بھی کانپ جاتا ہوں۔ اس بچے کو بارش اور کیچڑ میں دوڑتے ہوئے دیکھ کر میں نے اسے کہا۔ میاں کہیں پھسل نہ جانا۔ اس نے جواب دیا ۔امام صاحب! میرے پھسلنے کی فکر نہ کریں اگر میں پھسلا تو اس سے صرف میرے کپڑے ہی آلودہ ہوں گے مگر دیکھیں کہ کہیں آپ نہ پھسل جائیں آپ کے پھسلنے سے ساری امت پھسل جائے گی۔ پس تکبر مت کرو اور اپنے علم کی بڑائی میں رسائل اور اخبار کو معمولی نہ سمجھو۔ قوم میں وحدت پیدا کرنے کے لئے ایک خیال بنانے کے لئے ایک قسم کے رسائل کا پڑھنا ضروری ہے۔‘‘(مستورات سے خطاب، انوارالعلوم جلد 11 صفحہ 67)
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے الفضل کے 100سال پورے ہونے پر اسے یہ اعزاز بخشاکہ اس کی صد سالہ تقریبات میں ایک خاص نمبر شائع کرنے کی منظوری عطا فرمائی تاکہ اس کی تاریخ اور خدمات کو اجاگر کیا جائے اورنئی نسلوں کو اس سے زیادہ تعلق اور دلچسپی پیدا ہو۔ اس کے مطالعہ کی طرف توجہ ہو۔ اس کے علمی خزانوں سے استفادہ کا موقع میسر آئے۔
احباب جماعت جانتے ہیں کہ الفضل خلافت احمدیہ کی 100 سالہ تجلیات اور جماعت کی والہانہ عقیدت کا آئینہ دار ہے اور اس کا ہر صفحہ اس دو طرفہ محبت کے عطر سے مملو ہے۔الفضل حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے پہلے دورہ یورپ سے لے کر آج تک خلفائے سلسلہ کے سفروں کی روداد کا حامل ہے۔ خلفاء نے کس طرح ایشیا،یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور افریقہ کو ہوشیار کیا، انہیں مسیح موعوؑد کا پیغام پہنچایا۔ کس طرح اشاعت حق کے منصوبے بنائے اور قضیہ زمیں بر سر زمین طے کیا۔
آج دنیا کے 213 ممالک میں احمدیت کا نفوذ ہو چکا ہے۔ الفضل نے ہر ملک اورہر بڑے چھوٹے شہر میں پیغام حق پہنچانے کی تاریخ محفوظ کی ہے۔
الفضل نے ہی خلفاء کے مقدس ارشادات کو لفظ بہ لفظ محفوظ کیا اور یہ روحانی دودھ ہمیشہ اس نہر میں بہتا رہے گا اور بڑھتا رہے گا۔
خلافت رابعہ کےدورمیں ہجرت لندن کے بعد بھی الفضل جماعت کو خلافت کے نئے نئے پروگراموں سے باخبر کرتا رہا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ہجرت کے ابتدائی سالوں سے ہی الفضل سے گہری وابستگی رکھتے چلے آئے اور گاہےبگاہے اس سے پیار اور محبت کا اظہار فرمایا۔ متعدد بار جدائی کے اس دور میں اپنے پیارے آقا کا محبت بھرا سلام الفضل کے ذریعہ ہی دیار مشرق کے باسیوں کو پہنچتا رہا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے اپنے ایک مکتوب گرامی میں فرمایا کہ ’’قارئین الفضل کی کثیر تعداد میں میں بھی شامل ہوں۔‘‘(مطبوعہ الفضل سالانہ نمبر 1990ءصفحہ 11)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی الفضل پر شفقتیں، عنایتیں اور محبتیں اپنے دور خلافت کے آغاز سے ہی ہوتی چلی آرہی ہیں۔ بصیرت افروز اور پُر تاثیر محبت بھرے پیغامات اور حضور انور کی طرف سے تحفے میں موصول ہونے والی خوبصورت تصاویر الفضل کو چار چاند لگا کر اس کے مقام و مرتبہ کو بلند تر کر کے ساتویں آسمان پر بٹھاتی رہیں۔ خلافت خامسہ کے گزشتہ 19 سالوں میں حضور پُر نور ایدہ اللہ تعالیٰ کی عنایات کے مزے الفضل لوٹتا رہا ہے۔
الفضل کی صد سالہ جوبلی کے موقع پر حضور انور کی طرف سے جو محبت بھرا پیغام موصول ہوا اس کا ایک حصہ برکت کی خاطر یہاں پیش ہے۔فرمایا:“یہ دور دور آخرین ہے۔ قرآن کریم کی پیشگوئی وَاِذَا لصُّحُفُ نُشِرَتْ کے مطابق دور آخرین کتب و رسائل کی نشر واشاعت کا دور ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے عہد مبارک میں 1913ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے استخارہ کر کے ’’الفضل‘‘ کا اجراء فرمایا۔پہلے ہندوستان سے اور پھر تقسیم ہند کے بعد پاکستان سے باقاعدگی سے شائع ہونے والا جماعت کاا یک قدیم اور اہم اخبار ہے۔ اس کا آغاز بڑی قربانیوں سے ہوا۔اس کے اجراء کے وقت حضرت اماں جانؓ نے اپنی ایک زمین عنایت فرمائی۔حضرت ام ناصر نے اپنے دو زیورات پیش فرمائے جس میں سے ایک انہوں نے اپنے لئے اور ایک ہماری والدہ حضرت صاحبزادی سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کے استعمال کے لئے رکھا ہوا تھا۔اسی طرح حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بھی نقد رقم اور زمین پیش فرمائی ۔
الفضل انٹرنیشنل کا نیا روپ جہاں ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہا ہے وہاں احباب جماعت کی تعلیم و تربیت کے لیے ہمارے روایتی طریق کو قائم بھی رکھے ہوئے ہے۔
خلافت ثانیہ تا خلافت خامسہ کے قیام پر جو خدائی نشان ظاہر ہوئے جو خدائی بشارات ملیں۔ جس طرح دشمن کی جھوٹی خوشیاں پامال ہوئیں وہ سب الفضل کے حافظے میں ہے۔ سب سے بڑھ کر خلیفۂ وقت کی جانب سے احباب کی تسلی و تشفی کے سامان بہم پہنچاتا چلا جارہا ہے۔ اللہ کرے کہ جماعت احمدیہ کا یہ عضوِ بدن مزید ترقیات کی منازل طے کرتا ہوا سہ روزہ سے روزنامہ کی شکل میں جلوہ گر ہو اور یہ فضلِ خداوندی ہمیشہ قائم و دائم رہے اور مخالفین کے تمام مکر اور تمام ریشہ دوانیاں ان پر الٹا دے اور ان کو اس عظیم الشان فضل ِخداوندی کو دیکھ کر ہدایت پانے والا بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے علم و عمل میں برکت بخشےاور ایمان و ایقان میں بڑھائے۔آمین‘‘
٭…٭…٭