ہمت کرے انسان تو کیا نہیں ہو سکتا
یہ مقو لہ بہت عمدہ اور آب زر سے لکھنے کے قا بل ہے اور اگر انسان تھو ڑی سی بھی ہمت کرے تو کیا نہیں کر سکتا۔
ہما ری بعض بہنیں خیا ل کر تی ہیں کہ ہم دو سرے کو نیکی نہیں سمجھا سکتے۔ اور یہ نہیں کر سکتے۔ وہ نہیں کر سکتے۔ حا لا نکہ عملی مزاج میں لا ئق فا ئق ہو کر قرآن حمید اور حدیث شر یف پڑھ کر مو من بن کر سست ہو نا اپنی استعداد نہ بڑھا نا یہ بہت بد بختی کی د لیل ہے۔ میں نے پڑ ھا ہے کہ معمولی طرز کی خو اتین نے محض اپنی تھو ڑی سی ہمت سے اس قدر قا بلیت بڑھا لی کہ شا ہی در بار اور شاہی گھرو ں کے قا بل ہو گئیں۔ اسی طر ح انسان تھو ڑی سی بھی تو جہ کر ے تو کیا نہیں بن سکتا۔
چنا نچہ میں نے سنا ہے کہ آنند ابا ئی جو نتی ابھی تھو ڑی مدت گزری کہ ایک قا بل ہندو مذ ہب کی بی بی گذ ری ہے اس کا باپ شہر پو نا کا معمو لی ز میندا ر تھا۔ پا نچ بر س کی عمر میں اس کی نسبت ایک کلر ک گو پا ل جو شی سے ہو ئی۔ مگر اس کے خاوند نے نو جوان بیو ی کو سنسکرت کا علم پڑ ھا یا۔ اور اس کی علمی خواہشوں کو پو را کرتا ر ہا۔ بیا ہ سے پہلے اس کا نا م جمنا تھا۔ بیا ہ کے بعد آنند ابا ئی نا م رکھا گیا۔ خیر اس کا اکلوتا بچہ مر گیا۔ اس کے صدمے کی و جہ سے اسےایسی تحر یک پیدا ہو ئی کہ ڈا کٹری سیکھنے پر آمادہ ہو گئی اور دوسری بہنو ں کی حا لت زار سے بھی متاثر ہوئی تاکہ انہیں ہی فا ئدہ پہنچا ئے۔ خا وند تھا نیک مزا ج اس نے معا ونت کی ولا ئیت قا بل جگہ میں خط و کتا بت کی۔ کو ئی لیڈی مسز کا رنیٹر ہے۔ اُسے تر س آیاکہ ہندو ستان کی ایک جا ہل عورت تعلیم کی خاطر انگلستان آنا چا ہتی ہے۔ اُس نے ا مریکہ آنے کی تحریک کی مگر لطف تو یہ کہ رو پیہ کا صرفہ تھا۔ یعنی دو نو ں میا ں بی بی کا کرا یہ خرچ و غیرہ پا س نہیں اس لئے بی بی ا کیلی انگلستان روانہ ہوئی۔ مگر اپنے ہم قو مو ں کو کہہ گئی تھی کہ میں ہندوہی امر یکہ جا تی ہوں اور ہندو ہی واپس آوٴں گی۔ چنا نچہ اس کا میاب بی بی نے ایسا ہی کر دکھا یا۔ جب واپس آئی۔ وہی سا ڑھی، وہی ماتھے کی تلک، وہی سبزی کا کھا نا۔ غر ض کہ اپنی کوئی مذ ہبی حالت تبدیل نہ کی اور اپنی تعلیم میں کا میاب ہو کر آئی۔ کہتے ہیں اسے چند ماہ بعد ہی چار سو ڈا لرکا و ظیفہ بھی مل گیا تھا۔ اور تین بر س کےبعد اس کوڈا کٹر آف میڈ یسن (ایم۔ ڈی ) کا ڈپلو ما ملا۔پھر اس کی بے و طنی میں ہی قدر نہیں ہو ئی۔ بلکہ اپنے ہی و طن کو لھا پو ر میں 30روپیہ کی آسامی مل گئی جو 400روپیہ تک تر قی کا عہدہ تھا۔ اگر چہ وہ بیما ر رہتی مگر حسن نیت د یکھو کہ اپنے ہموطنوں کو عملی فائدہ پہنچا نے کا شو ق اسے دا منگیر تھا۔ پھر اس نے جو شا ید نیک نیتی سے کا م شروع کیا تھا۔ ہندو پنڈتوں اور مذ ہبی پیشواؤں نے بھی خلا ف امید اس کی تو قیر و عزت کی۔ آخیرکے الفا ظ اس ہو نہار بی بی کے یہ تھے۔ جتنا میں کر سکی میں نے کیا۔ یہ ایک خیر مسلم بی بی کا حا ل ہے۔ پھر جو مومن ہو وہ کیوں حرا ساں ہو۔ کچھ نہ کچھ ضرو ری ہے اپنا کام، اپنے معلوما ت، اپنی استعداد بڑھا ئے۔ بیکا ر بیٹھنا اور ہمت چھوڑ دینا کیا کرایا کا م بھی چھو ڑ بیٹھنا یہ مو من کی شا ن سے بعید ہے۔ بلکہ مسلم کو تو خا ص حکم ہے کہ وہ ہر گز سستی نہ کرے، ہمت نہ چھوڑ بیٹھے، الوالعزمی د کھلا ئے تا کہ ہر طر ح فا ئز المرام رہے۔ پس خاص کر ہما ری مسلما ن بہنوں کو تو غیر معمو لی طور سے کو شش کرنی چاہیے تا کہ ان کی اولا دیں بھی سنوریں اور اپنی حا لت نا کامی بھی کامیابی میںبدل جا ئے۔ وہ پر دہ کی ر عا یت سے اسی ہندوستان میں ا حکام الٰہی کے ماتحت بہت تر قی کر سکتی ہیں۔ (سکینة النسا ء از قادیان، الفضل قادیان 4؍فروری 1914ءصفحہ 11)
ماں باپ بچوں کو بزدل بناتے ہیں
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’جب تک ماں باپ یہ نہ سمجھیں کہ بچہ کا دلیری اور جر أ ت کا کام کرتے ہوئے مر جانا اچھا ہے بہ نسبت اس کے نکما بن کر زندہ رہنے کے۔ اس وقت تک اصلی جرأت اور دلیری بچوں میں پیدا نہیں کی جاسکتی مگر بڑی خرابی یہ ہے کہ ماں باپ خود بچوں کو نکما اور بزدل بناتے ہیں۔ ذرا اندھیرا ہو تو کہتے ہیں باہر نہ جانا، ذرا کوئی مشقت کا کام کرنے لگیں تو روک دیتے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ چھوئی موئی بنا رہے۔ اور اس طرح بچے کسی کام کے نہیں رہتے۔ ماں باپ کا تو یہ کام ہونا چاہیے کہ … ہر طرح جراٴت اور دلیری سکھائیں۔‘‘( اوڑھنیوں والیوں کے لئے پھول خطابات حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ حصہ اول صفحہ 132)