نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے
نویں شرط بیعت: ’’یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ 190 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘ اشتہار نمبر 48)
… اُس کے بندوں پررحم کرواور ان پر زبان یا ہاتھ یاکسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو اور کسی پر تکبر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ۔ … بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو نہ ان کی تحقیر اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو نہ خودنمائی سے ان کی تذلیل اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو نہ خود پسندی سے اُن پر تکبر۔
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 11-12)
… نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔ مگر مَیں دیکھتاہوں کہ اس پہلو میں بڑی کمزوری ظاہر کی جاتی ہے۔ دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔ ان پر ٹھٹھے کئے جاتے ہیں۔ ان کی خبر گیری کرنا اور کسی مصیبت اور مشکل میں مدد دینا تو بڑی بات ہے۔ جو لوگ غرباء کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کو حقیر سمجھتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ خود اس مصیبت میں مبتلا نہ ہوجاویں۔ اللہ تعالیٰ نے جن پر فضل کیا ہے اس کی شکر گذاری یہی ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ احسان اور سلوک کریں۔ اور اس خدا داد فضل پر تکبر نہ کریں اور وحشیوں کی طرح غرباء کو کچل نہ ڈالیں۔
(ملفو ظات جلد 8صفحہ 102-103، ایڈیشن 1984ء)
پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے کہ اگر انسان اُسے چھوڑدے اور اس سے دور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے۔ انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے جب تک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروت، سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے…
یاد رکھو ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے۔ کسی قوم اور فرد کو الگ نہ کرے۔ میں آج کل کے جاہلوں کی طرح یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کرو۔ نہیں میں کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو۔ خواہ وہ کوئی ہو۔ ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اَور۔ میں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں۔
(ملفوظات جلد 7صفحہ 282، ایڈیشن 1984ء)