احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
آپؑ خود بھی اپنے بچوں کو پڑھاتے اور اتالیق کا انتظام بھی کیا گیا جو قادیان میں ان بچوں کو پڑھانے پر مقررکیاگیا تھا
بیٹوں کی تعلیم وتربیت
جیساکہ بیان ہواہے کہ حضورعلیہ السلام کے دوبیٹے تھےصاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحبؓ اور صاحبزادہ مرزا فضل احمدصاحب، حضرت اقدسؑ نے اپنے دونوں بیٹوں کی تعلیم وتربیت کا اس ماحول کے مطابق بہترین انتظام فرمایا۔ آپؑ خود بھی اپنے بچوں کو پڑھاتے اور اتالیق کا انتظام بھی کیا گیا جو قادیان میں ان بچوں کو پڑھانے پر مقررکیاگیا تھا۔ جو استاد اس کام کے لئے مقرر کیا گیا ان میں سے ایک مولوی اللہ دتہ صاحب ساکن لودھی ننگل بھی تھے۔ (ماخوذاز حیات احمدؑ جلداول صفحہ 327)
آپؑ خود بھی گاہے گاہے اپنے بچوں کو پڑھاتے رہے۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحبؒ خود بیان فرماتے ہیں کہ
’’ میں بچپن میں والد صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تا ریخ فرشتہ، نحو میر اور شائد گلستان، بوستان پڑھا کرتا تھا اور والدصاحب کبھی کبھی پچھلا پڑھا ہوا سبق بھی سنا کرتے تھے۔ مگر پڑھنے کے متعلق مجھ پر کبھی ناراض نہیں ہوئے۔ ‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 186)
حضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحبؓ اپنے والد بزرگوارکے علاوہ اپنے دادا حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب سے بھی پڑھتے رہے۔(ماخوذاز سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر186)
حضرت اقدسؑ کا اعلیٰ اندازتعلیم وتربیت ہی تھا کہ جس نے آپؑ کے بیٹوں خصوصاً مرزاسلطان احمدصاحبؓ کے شوق مطالعہ کو خوب مہمیزکا کام دیا۔ انہیں مطالعہ کا ایسا شوق پڑا کہ اس کا ذکر کرتے ہوئے وہ بیان فرماتے ہیں کہ
’’دادا صاحب کی ایک لائبریری تھی جو بڑے بڑے پٹاروں میں رہتی تھی۔ اور اس میں بعض کتابیں ہمارے خاندان کی تاریخ کے متعلق بھی تھیں۔ میری عادت تھی کہ میں دادا صاحب اور والد صاحب کی کتابیں وغیرہ…لے جایا کرتا تھا۔ چنانچہ والد صاحب اور دادا صاحب بعض وقت کہا کرتے تھے کہ ہماری کتابوں کو یہ ایک چوہا لگ گیا ہے۔ ‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 227)
بہرحال یہ دونوں بیٹے اپنی اپنی استعدادوں اورصلاحیتوں کےموافق بڑے ہوئے۔ اور برسرِ روزگارہوئے۔ ان دونوں کا تفصیلی ذکر ذیل میں کیاجاتاہے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحبؒ
جیساکہ ذکر ہواہے کہ آپ اندازاً 1853ء میں پیدا ہوئے۔ آپ حضرت اقدسؑ کے سب سے بڑے فرزند تھے۔
تعلیم
مرزا سلطان احمد صاحبؒ نے آج کل کی اصطلاح میں جسے باقاعدہ یا سکول کی تعلیم کہا جاتا ہے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ البتہ آپ کی مشرقی طریق پر تعلیم ہوئی تھی۔ بچپن میں آپ نے اپنے والد ماجد یعنی حضرت مسیح موعودؑ سے بھی چند کتب سبقاً پڑھی تھیں جن میں تاریخ فرشتہ، نحو میر اور گلستان و بوستان شامل ہیں۔ آپ خود بیان کرتے ہیں کہ والد صاحب پچھلا پڑھا ہوا سبق بھی سنا کرتے تھے مگر پڑھنے کے متعلق مجھ پر کبھی ناراض نہیں ہوئے، حالانکہ میں پڑھنے میں بے پرواہ تھا… (ماخوذاز سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 186)
اردو تو خیر آپ کی اپنی زبان تھی۔ فارسی میں بھی ادیبانہ شان تھی۔ یوں نہیں کہ عربی سے بیگانہ تھے۔ بلکہ اس زبان کی ادبیات پر بھی عبور تھا۔ انگریزی زبان سے بھی ضروریات زمانہ کے لحاظ سے بہت حد تک واقف تھے۔
تحصیلداری کا امتحان اور کامیابی
1884ء میں آپ نے تحصیلداری کا امتحان دیا۔ اس موقع پر آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں دعا کے لیے ایک رقعہ بھی لکھ کر بھیجا۔ گو کہ حضرت اقدسؑ کو ان کا دنیاوی امورمیں اتنا دلچسپی لینا اچھا نہیں لگتا تھا اسی لیے دعاکے لیے بھی شرح صدرکچھ ایسا نہ تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کونہ جانے کون سی اداپسندتھی کہ اس وقت یہ الہام ہوا’’پاس ہو جائے گا۔ ‘‘
حضورؑ نے اس واقعہ اور الہام کی تفصیل انہی دنوں نواب علی محمدصاحب آف جھجر کے نام ایک خط میں تحریر فرمائی یہ خط 11مئی 1884ء کولکھاگیاتھا۔ اس خط میں آپ رقم فرماتے ہیں: ’’مجھ کو یاد ہے اور شاید عرصہ تین ماہ یا کچھ کم و بیش ہوا ہے کہ اس عاجز کے فرزندنے ایک خط لکھ کر مجھ کو بھیجا کہ جو میں نے امتحان تحصیلداری کا دیا ہے اُس کی نسبت دعا کریں کہ پاس ہوجاؤں اور بہت کچھ انکسار اور تذلّل ظاہر کیا کہ ضرور دعا کریں۔ مجھ کو وہ خط پڑھ کر بجائے رحم کے غصہ آیاکہ اس شخص کو دنیا کے بارے میں کس قدر ہم اور غم ہے۔ چنانچہ اس عاجز نے وہ خط پڑھتے ہی بہ تمام تر نفرت و کراہت چاک کردیا اور دل میں کہا کہ ایک دنیوی غرض اپنے مالک کے سامنے کیا پیش کروں۔ اس خط کے چاک کرتے ہی الہام ہوا کہ
’’پاس ہوجاوے گا۔ ‘‘
اور وہ عجیب الہام بھی اکثر لوگوں کو بتلایا گیا۔ چنانچہ وہ لڑکا پاس ہوگیا۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ۔ ‘‘ ( تذکرہ صفحہ 95 (ا ز مکتوب مورخہ11؍مئی 1884ء بنام نواب علی محمد خانصاحب جھجر۔ الحکم جلد3نمبر34 مؤرخہ 23؍ستمبر1899ء صفحہ 1، 2))
جس آدمی کے ہاتھ یہ رقعہ بھیجا گیا تھا اس نے صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو آ کر سارا واقعہ بتا دیا۔ چنانچہ اسی طرح ہوا اور آپ امتحان میں پاس ہو گئے۔ (ماخوذاز سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 208)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ حیات احمد جلد دوم میں یہی واقعہ بیان کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:
’’ خدا تعالیٰ کی شان کریمی کے قربان! مرزا سلطان احمد صاحب نے اس ایمان سے محرک ہو کر جو ان کو حضرت کی دعاؤں کی قبولیت پر تھا خط تحریر کیا۔ خدا تعالیٰ نے ان کے حسن ظن کو ضائع نہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مقام کہ دنیا کی اغراض کے لئے بیٹے کے واسطے بھی دعا پسند نہ کی۔ اللہ تعالیٰ کو باپ اور بیٹے کا یہ فعل پسند آیا اور نماز میں آپ کو بشارت مل گئی کہ پاس ہو جائے گا۔ آپ نے مسکرا کر اس کو بیان کیا کہ ہم نے تو دعا نہیں کی مگر خدا تعالیٰ نے کامیابی کی بشارت دے دی چنانچہ اسی کے موافق وہ پاس ہو گئے اور ان کی ترقیات کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ ‘‘ (حیات احمد جلد دوم صفحہ 397)
امتحانE.A.C
مشہور صحافی حضرت سید شفیع احمد صاحب محقق دہلوی کی ایک قدیم روایت کے مطابق حضرت مرزا سلطان احمد صاحب جب ای۔ اے۔ سی (ایکسٹرااسسٹنٹ کمشنر)کا امتحان دینے کے لیے قادیان سے لاہور تشریف لے گئے تو دوسرے امیدواروں نے آپ کا خوب مذاق اڑایا کہ ان کو بھی امتحان کا شوق چرایا ہے۔ گویا یہ تاثر قائم کیا کہ آپ کی کامیابی سراسر محال ہے یہ سن کر آپ نے دل میں کہا کہ میں حضرت والد صاحب کی خدمت میں دعا کی درخواست کر کے آیا ہوں اور آپ نے دعا کا وعدہ بھی کیا ہے خدا کرے کہ میں کامیاب ہو جاؤں۔ انہی خیالات کے ہجوم میں آپ سو گئے اور قریباً چار بجے صبح خواب دیکھا کہ حضرت صاحب تشریف لائے اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر کرسی پر بٹھا دیا۔ اس خواب کی آپ نے یہ تعبیر فرمائی کہ میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا اور یہی بات آپ نے تحدی کے ساتھ مذاق اڑانے والوں سے بھی کہہ ڈالی چنانچہ آپ بفضلہ تعالیٰ کامیاب ہو گئے۔(ماخوذاز سیرت المہدی جلد اول روایت 834)
علم طب
علم طب آپ کا خاندانی علم تھا۔ آپ کے باپ دادا علم طب میں خاصی دسترس رکھتے تھے اورہمیشہ مفت علاج کرتے تھے۔ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے بھی طب پڑھی تھی لیکن اسے بطور پیشہ اختیار نہیں فرمایا۔ حضرت مسیح موعودؑ اپنی اولاد کو علم طب پڑھنے کی بطور خاص تاکید فرمایا کرتے تھے۔ (ماخوذاز سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر50)
تعلیم ومطالعہ کاشوق
حضرت صاحبزادہ صاحب کو بچپن ہی سے مطالعہ اور کتب بینی کا بے حد شوق تھا۔ آپ کی ایک روایت ہے کہ’’داداصاحب کی ایک لائبریری تھی جو بڑے بڑے پٹاروں میں رہتی تھی اور اس میں بعض کتابیں ہمارے خاندان کی تاریخ کے متعلق بھی تھیں۔ میری عادت تھی کہ میں دادا صاحب اور والد صاحب کی کتابیں ……لے جایا کرتا تھا۔ چنانچہ والد صاحب اور دادا صاحب بعض وقت کہا کرتے تھے کہ ہماری کتابوں کو یہ ایک چوہا لگ گیا ہے۔ ‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 227)
مزیدتعلیم
’’ نیرنگ خیال‘‘ جوبلی نمبر کی مئی و جون 1934ء کی اشاعت میں آپ کے حصول تعلیم کی مزید تفصیلات بیان ہوئی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کچھ دنوں تک دیوبند میں بھی پڑھتے رہے اور دیوبند ہی سے نکل کر گھر والوں کو اطلاع کے بغیر آپ نے سرکاری نوکری بھی کر لی تھی۔ دہلی میں بھی اسی سلسلۂ حصول تعلیم میں آپ کا قیام رہا۔ 1899ء میں جب آپ پہلی بار بسلسلہ ملازمت لاہور وارد ہوئے ان دنوں میں آپ نے حصول تعلیم کے بارہ میں کہا تھا کہ آپ نے شاہی طریقہ سے تعلیم نہیں پائی بلکہ طالب علمی کی ہے۔ آپ دہلی کی کسی مسجد میں رہتے تھے اور تعلیم پاتے تھے۔ (ماخوذاز نیرنگ خیال جوبلی نمبر مئی جون 1934ء صفحہ 285-286)
نیرنگ خیال رسالہ کایہ لکھنا کہ 1899ء میں جب آپ پہلی بار بسلسلہ ملازمت لاہور میں وارد ہوئے، خاکساررسالہ کی بیان کردہ اس تحریرسے متفق نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے بہت پہلے آپ لاہورمیں بسلسلہ ملازمت مقیم رہ چکے تھے۔ اوراس زمانے میں آپ نائب تحصیلدار تھے اورآپ کی رہائش چونہ منڈی لاہورمیں ہواکرتی تھی۔ اوران دنوں میں حضرت مسیح موعودؑ جب لاہور تشریف لاتے تواپنے انہی صاحبزادے کے ہاں قیام فرماتے۔ چنانچہ3؍مئی 1890ء میں ایک مکتوب میں حضرت اقدسؑ تحریرفرماتے ہیں: ’’میں بمقام لاہور بغرض علاج کرانے کے آیا ہوں ……… والسلام خاکسار غلام احمد۔ ازلاہور۔ مکان مرزا سلطان احمد نائب تحصیلدار لاہور۔ ‘‘ ( مکتوبات احمد۔ جلد2۔ صفحہ 576 مکتوب نمبر 179بنام منشی رستم علی صاحبؓ )
(جاری ہے)