میرے والدین
میرے ابا
عبدالرزاق خان 1928ء کو ہوشیارپورمیں ضلع کے ایک چھوٹے سے قصبہ کاٹھگڑھ میں چودھری عبدالحئی خان صاحب کاٹھگڑھیؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ کے گھر میں پیدا ہوئے۔ آپ کا بہن بھائیوں میں 10 میں سے 8 واں نمبر تھا۔ آپ کے والد محترم 1901ء میں FC کالج لاہور میں تھرڈ ایئر کے اسٹوڈنٹ تھے جب آپ حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کرکے سلسلے میں داخل ہوئے۔ آپ کے والد نے ایف سی کالج لاہور سے BAکیا اور مابعد ہیڈ پوسٹ ماسٹر دہلی رہے۔ اس لحاظ سے والدم کا تعلق دینی، دنیاوی، علمی و معاشی لحاظ سے متمول گھرانے سے تھا جس کا اثر ساری زندگی ہم نے ان کے عسر و یسر میں دیکھا۔
والدم نے ابتدائی تعلیم کاٹھگڑھ میں حاصل کی اور بعد ازاں میٹرک تک تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ میٹرک کے بعد ٹیکنیکل تعلیم کے لیے انگلش آرمی انڈیا سے دو سالہ ڈپلومہ حاصل کیا مگر اپنے والد صاحب کی ریٹائرمنٹ اور بزرگی کی وجہ سے خدمت کے لیے فوج سے رخصت حاصل کی۔ والدم کو ٹیکنیکلSkills اور اپنے والد کی دعائوں کے سبب مختلف گورنمنٹ محکمہ جات میں بآسانی ملازمت ملتی رہی، مگر اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے انہیں خیر باد کہہ دیا، اور ما بعد محکمہ ریلوے میں ملازمت کی جہاں سے گریڈ18میں ریٹائرڈ ہوئے۔ دوران سروس کسی فرد واحد سے اپنے احمدی ہونے کا نہ چھپایا اور جس جگہ بھی ان کی ٹرانسفر ہوئی ان کے پہنچنے سے پہلے ان لوگوں میں مشہور ہو جاتا کہ احمدی افسر آرہا ہے جو کہ بہت ایماندار ہے۔ دوران ملازمت اپنے سے کسی بڑے افسر کی ناحق بات نہ سنتے تھے اور اپنے سے ماتحت عملے کے لیے بہت ہی شفیق تھے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کو آج 35 سال گزر چکے لیکن آج بھی ان کے عملے کے لوگ خاکسار سے اچھے طور پر رابطہ میں ہیں۔ ہم آٹھ بہن بھائی تھے اور والد صاحب اس دس رکنی کنبے کے واحد کفیل تھے۔ جب بھی تنخواہ آتی سب سے پہلے وصیت کا چندہ اور اس کے بعد تحریک جدید / وقف جدید/ انصار اﷲ کے سالانہ چندہ کا ہر ماہ بارھواں حصہ علیحدہ کرتے۔ اس کے علاوہ دیگر جماعتی مالی تحریکات نگر پارکر، نادارمریضان وغیرہ کا حساب بنا کر علیحدہ کرتے، اور یہ کام تادم مرگ اس طور پر کرتے رہے۔
اپنی ملازمت کا اکثر حصہ ملتان شہر میں گزارا۔وہاں کے متعدد جماعتی پر وگرام خصوصاً لجنہ اماء اللہ کے ضلع و علاقہ جات کے اجتماعات ہمارے گھر پر ہوتے۔ گھر میں نماز کا سنٹر بھی تھا۔ متعدد بار ختم نبوت و دیگر شرپسندوں کی طرف سے دھمکی آمیز فون کالز موصول ہوتیں مگر کبھی بھی اس بات پر پریشان نہ ہوئے۔ سال 1988ء میں اوجھڑی کیمپ کا واقعہ ہوا تو ختم نبوت ملتان نے رسالے میں لکھا کہ اس میں چودھری عبدالرزاق خان ATEر یلوے ملتان بھی ملوث ہے۔ اگر انہیں شاہی قلعہ میں بند کیا جائے تو سب کچھ پتہ چل جائے گا جس پر ایک احمدی دوست نے پریشان ہو کر اس وقت کے امیر صاحب ملک فاروق کھوکھر صاحب کو بتایا تو وہ تسلی کے لیے گھر آئے تو انہوں نے فرمایا کہ آپ کو تو کوئی پریشانی نہیں لگ رہی۔
آپ جوانی میں سگریٹ نوشی کے عادی ہو چکے تھے مگرحضرت خلیفۃ المسیح ثانیؓ کے خطاب میں سگریٹ چھوڑنے اور داڑھی رکھنے کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے سگریٹ نوشی چھوڑ دی اور کبھی دوبارہ منہ نہ لگایا اور تادم مرگ داڑھی رکھی۔
ریلوے سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ ناصر آباد جنوبی ربوہ میں شفٹ ہو گئے۔ یہاں شفٹ ہونے کی اصل وجہ مرکز میں رہائش اور پنج وقتہ باجماعت نمازوں کی سہولت بتاتے تھے۔ سرکاری ملازمت میں محدود آمدنی کے باوجود تمام بیٹے اور بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ پانچ بیٹیاں تھیں جنہیں بیٹوں سے زیادہ لاڈ اور پیار سے پالا۔ بچوں کے رشتوں بالخصوص بچیوں کے رشتوں میں تقویٰ کو اولین ترجیح دی اور توکل علی اﷲ کو مد نظر رکھا اور اﷲ تعالیٰ نے تمام بچوں، بچیوں کو ان کے لیے اور جماعت کے لیے قرۃ العین بنایا اور الحمدﷲ تمام بچے موصی ہیں۔ اپنے حقیقی بچوں کے علاوہ دیگر احمدیوں کو بھی اپنے بچوں کی طرح سمجھتے تھے۔ ہمارے محلہ کی ایک خاتون کو بوجہ بیماری علیحدہ گھر کی تلاش تھی۔ اس خاتون کے اہل خانہ کو اپنا ذاتی گھر سامان سمیت بغیر کرایہ کے دیا اور خودراقم الحروف کے گھر شفٹ ہو گئے۔ مگر خود داری والدم میں اتنی تھی کہ اپنی پینشن کا اکثر حصہ مختلف بہانوں سے مجھ پر خرچ کرتے اور باقی پسران و دختران کا بھی خیال رکھتے۔
آپ کے بڑے بیٹے عبدالغفار خان آپ کی زندگی میں وفات پا گئے۔ بڑھاپے کے باوجود اس غم کو بڑے حوصلے سے اﷲ کی رضا میں راضی ہو کر صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے برداشت کیا۔
اپنی 91 سالہ زندگی میں انہیں کبھی بھی بیمار نہ دیکھا۔ صرف ہارٹ اٹیک کے 48گھنٹے بعد خالق حقیقی سے جاملے۔ اپنی زندگی میں آنکھوں کے عطیہ کا وعدہ کر رکھا تھا مگر ڈاکٹرز نے عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے لینے سے انکار کیا۔ آپ کی وفات 29؍اکتوبر 2018ء کو ہوئی اور تدفین بہشتی مقبرہ (نصیر آباد) میں ہوئی۔ آپ کے پسماندگان میں 2 بیٹے، 5 بیٹیاں، ایک بھائی اور متعددنواسے، نواسیاں، پوتے پوتیاں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ والدم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین
دنیا میں وہ انسان کی عظمت کے تھے پیکر
دیں دار تھے، تصویر حیا تھے میرے ابا
میری والدہ
تحصیل فیروز پور کے ایک قصبہ موگھا میں 14؍مئی 1938ءکو چودھری محمد ابراہیم خان صاحب ومحترمہ فتح بی بی صاحبہ کے گھر 2بیٹوں کے بعد ایک چاند سی بیٹی تولد ہوئی جس کا نام حمیدہ بشریٰ بیگم رکھا گیا۔ چودھری ابراہیم خان صاحب 1926ءمیں جب ان کی عمر صرف 14سال تھی اپنے والدچودھری محمود خان صاحب کے ہمراہ بیعت کرکے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے۔ آپ پہلے قادیان اور مابعد قیام پاکستان، ربوہ قیام پذیر رہے۔ اس طرح ا پنے پسران ودختر ان کی تربیت جماعتی مراکز میں بااحسن کی۔
میری والدہ حمیدہ بشریٰ صاحبہ اپنے 11بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پرتھیں مگر بہنوں میں سب سے بڑی ہونے کی بنا پر گھر میں ’’آپی جان‘‘کہلائیں۔ مابعد اپنے پسران و دختران، نواسے، نواسیاں، پوتے، پوتیاں اور اہل محلہ نیز ہر جاننے والے بڑے چھوٹے کی آپی جان ہوئیں مگر راقم الحروف و برادراصغر (رؤف خان ) کووالدہ محترمہ نے مختلف طریق محبت ولالچ سے ماں کہنے کوکہا۔ اس طرح ہم دونوں والدہ کواماں کہہ کرپکارتے تھے۔
اماں نے اپنی ابتدائی تعلیم قادیان سے مابعد میٹرک تک تعلیم نصرت گرلز ہائی اسکول ربوہ سے حاصل کی۔ اور اسی طرح قرآن پاک کا لفظی ترجمہ بھی ربوہ میں رہائش کے دوران ہی سیکھا۔
1956ءمیں والدہ کی چودھری عبدالرزاق خان صاحب سے شادی ہوئی۔ والدصاحب سرکاری ملازم تھے۔ اس طرح کراچی، سکھر، ملتان مختلف شہروں میں قیام رہا۔ ہرشہر میں قیام کے دوران وہاں کے غیرازجماعت اہل محلہ کو قرآن پاک و ترجمہ کی تعلیم دیتیں اور اسی ذریعہ سے جماعت کا تعارف و تبلیغ کرتیں۔ اسی طرح جب ربوہ شفٹ ہوئیں تو یہاں بھی بچوں اور بچیوں کو قرآن پاک با ترجمہ پڑھایا۔ ہر طالب علم کو قرآن پاک کا تحفہ دیتیں۔ اس کے علاوہ جب بھی جماعتی کتب شائع ہوتیں تو سب سے پہلے خرید تیں اور ہر ملنے والے کو جماعتی کتب ہی تحفہ میں دیتیں۔ دعوت الیٰ للہ کا بہت شوق رکھتی تھیں۔ دعوت الیٰ للہ کے لیے ذاتی جیب خرچ سے ہر ہفتہ محلہ کی مختلف خواتین کو ہمراہ لے کر دوروں پر جاتیں۔ اسی طرح کئی غیراز جماعت خواتین وحضرات سے حسن سلوک صرف دعوت الیٰ اللہ کی خاطر روا رکھا۔ والدہ صاحبہ کی زندگی کا اکثر حصہ ملتان میں گزرا وہاں مختلف جماعتی عہدوں پر خدمات سر انجام دیں کچھ عرصہ لجنہ اماءاللہ ضلع ملتان کی تحریک جدید کی سیکرٹری کے طورپر خدمات سرانجام دیں۔ ہفتہ وار مختلف مجالس کے دورے کرتیں۔ ہائی بلڈپریشر ودل کی مریضہ ہونے کے باوجود اپنی بساط سے بڑھ کر امورسرانجام دیتیں اور سالانہ بجٹ کی تکمیل بروقت کرتی رہیں۔ آپ بفضلہ تعالیٰ موصیہ تھیں وصیت کے چندے کے علاوہ دیگر جماعتی مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں۔ تحریک جدید ووقف جدید کے مالی سال کا اعلان ہوتے ہی اسی روز اپنے سال کا چندہ ادا کردیتی تھیں۔ اپنی وفات سے 8/9 سال قبل پہلے دو سے اڑھائی سپارہ قرآن پاک، بڑی بڑی سورتیں حفظ کیں اور عربی قصیدہ بھی حفظ کیا اور ہمیں تلقین کرتیں کہ اگر میں بوڑھی ہوکر قرآن پاک و قصیدہ وغیرہ حفظ کر سکتی ہوں تو آپ لوگ بھی ہمت کرو۔ قرآن پاک و قصیدہ کی عاشق تھیں۔ اہل محلہ کے متعدد بچوں اور ہمارے بچوں کو قرآن پاک کا ترجمہ و قصیدہ پڑھایا۔ رسول پاکﷺ سے ازحد عشق تھا۔ ہمہ وقت درود کا ورد کرتیں۔ نہایت غریب پرور خاتون تھیں۔ کئی خواتین و حضرات کی امدا د خفیہ رکھتے ہوئے کرتی تھیں جس کاکئی ایک نے بعد از وفات اظہار کیا۔ اپنے آخری ایام میں جبکہ وہ شدیدعارضہ دل سے طاہر ہارٹ داخل ہوئیں۔ ساتھ والے بیڈ پر ایک غیرازجماعت خاتون ہسپتال میں داخل تھی جس کے ساتھ دو لڑکیاں بھی آئی تھیں۔ ہسپتال کے قواعد کے مطابق صرف ایک اٹینڈنٹ رہ سکتی تھی۔ اپنی نا سازی طبع کے باوجود خاکسارکو حکم دیا کہ میں گھر جاؤں تا غیر از جماعت خاتون کی دوسری دختر بطور اٹینڈنٹ ایڈجسٹ ہوسکے۔ اسی رات دوبارہ ہارٹ اٹیک ہوا جس سے وینٹی لیٹر پر چلی گئیں اور مورخہ22؍اکتوبر2014ءکو خالق حقیقی سے جاملیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اپنی زندگی میں نورالعین کے تحت اپنی آنکھوں کے عطیہ کا وعدہ کر رکھا تھا۔ مابعد وفات جماعتی نظام کے تحت دونوں آنکھوں کاعطیہ مستحقین تک پہنچا۔ آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ نصیرآباد میں ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 3؍جنوری2015ءکو بعد نمازظہر وعصر مسجدفضل لندن میں والدہ صاحبہ کا نمازجنازہ غائب پڑھایا جس کی خبرروزنامہ الفضل پاکستان میںمورخہ 12؍جنوری2015ءکوشائع ہوئی۔ اللہ تعالیٰ میری ماں کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین
پوچھتا ہے جب کوئی کہ دنیا میں محبت ہے کہاں
مسکرادیتا ہوں میں اور یاد آجاتی ہے ماں