احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
آپ کوانگریزی حکومت کی طرف سے ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب ملا۔ یہ خطاب یقینا ًآپ کی قابلیت کی وجہ سے اور آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو دیا گیا تھا۔ لیکن آپ اس خطاب کو اپنے لیے باعث افتخار و شرف نہ گردانتے تھے۔ اور عام طور پر اپنے نام کے ساتھ ’’خان بہادر‘‘ لکھا بھی نہیں کرتے تھے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحبؒ
شادی اور اولاد
حضرت صاحبزادہ صاحب نے دوشادیاں کیں۔ پہلی بیوی ایمہ ضلع ہوشیارپور کی تھیں۔ یہ شادی نومبر1884ء میں ہوئی۔ اسی مہینہ میں جب حضرت اقدس علیہ السلام نے خدائی الہامات اورپیشگوئیوں کے مطابق دوسری شادی کی تھی۔ بلکہ انہیں دنوں میں یہ شادی ہوئی۔ چنانچہ حضرت ام المومنینؓ کی ایک روایت ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سیرت المہدی میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جس دن میں قادیان بیاہی ہوئی پہنچی تھی اسی دن مجھ سے چند گھنٹے قبل مرزا سلطان احمد اپنی پہلی بیوی یعنی عزیز احمد کی والدہ کو لے کر قادیان پہنچے تھے۔ اور عزیز احمد کی والدہ مجھ سے کچھ بڑی معلوم ہوتی تھیں …‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 211)
واضح ہو کہ یہ شادی 17؍نومبر 1884ء کو بروز سوموار ہوئی تھی۔ (ماخوذازسیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 69)
اس بیوی سے حضرت صاحبزادہ عزیزاحمدصاحبؓ کی ولادت ہوئی۔
حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمدصاحب نے اپنی پہلی بیوی کی موجودگی میں ہی ایک اورشادی بھی کی۔ یہ شادی مرزاامام الدین صاحب کی بیٹی خورشیدبیگم صاحبہ سے ہوئی۔ چنانچہ ایک روایت اس کے متعلق یہ بیان ہوئی ہے: ’’…مرزا سلطان احمدکی پہلی بیوی ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھی اور حضرت صاحب اس کو اچھا جانتے تھے۔ مرزا سلطان احمد نے اسی بیوی کی زندگی میں ہی مرزا امام الدین کی لڑکی خورشید بیگم سے نکاح ثانی کر لیا تھا اس کے بعد عزیز احمد کی والدہ جلد ہی فوت ہو گئی…‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 212)
اولاد
حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اولاد نرینہ سے نوازا۔ پہلی بیوی سے حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ اور دوسری بیوی سے صاحبزادہ مرزارشیداحمدصاحب۔
حضرت صاحبزادہ مرزاعزیزاحمدصاحبؓ 3؍اکتوبر1890ء کو پیدا ہوئے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے دستِ مبارک پربیعت کاشرف پایا اور اعلیٰ دینی ودنیاوی عہدوں پرفائزرہے۔ ایک لمبے عرصے تک ایک محنتی فرض شناس اور دیانتدار افسر کی حیثیت سے سرکاری ملازمت میں رہے اوربالآخر 1945ء میں اے ڈی ایم کے اعلیٰ عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے۔ اس کے بعد بقیہ ساری زندگی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت کے لیےو قف رکھی۔ قیام پاکستان اور ہجرت کے بعد 16؍جولائی 1949ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا ناظر اعلیٰ مقرر فرمایا۔ اس عہدے پر20سال تک فائز رہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزاعزیزاحمدصاحبؓ کی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد مارچ 1930ء میں دوسری شادی حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کی صاحبزادی محترمہ نصیرہ بیگم سے ہوئی جن کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے چار صاحبزادیاں اور دو صاحبزادے عطا فرمائے۔
آپ کے دونوں صاحبزادے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سلسلہ احمدیہ کی بیش ازپیش خدمات کرنے کی سعادت حاصل کرتے رہے اور واقفِ زندگی تھے۔ یعنی محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ایم اے ناظر اعلیٰ و صدر صدر انجمن احمدیہ وامیرمقامی اور محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ناظر اعلیٰ و صدر صدر انجمن احمدیہ وامیرمقامی۔ ماشاء اللہ ان کی اولاد دراولاد اخلاص ووفاکےساتھ خدمات دینیہ میں مصروف ہے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ کا وجود باجود اپنے نہایت اعلیٰ اوصاف اور اہم دینی خدمات کے علاوہ اس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نشان تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو بذریعہ خواب آپ کے قبول احمدیت کا نظارہ دکھایا گیا تھا جو کہ حیرت انگیز رنگ میں پورا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے والد بزرگوار سے پہلے یعنی 1906ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا شرف حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ بیعت سے سات برس قبل 20؍ اکتوبر 1899ء کو حضورؑ کو یہ خواب دکھایا گیا کہ’’ ایک لڑکا ہے جس کا نام عزیز ہے اور اس کے باپ کے نام کے سر پر سلطان کا لفظ ہے وہ لڑکا پکڑ کر میرے پاس لایا گیا اور میرے سامنے بٹھایا گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ ایک پتلا سا لڑکا گورے رنگ کا ہے۔‘‘ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 505 و تذکرہ صفحہ284 ایڈیشن چہارم)
سو اس خواب کے عین مطابق آپ کو حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کرنے اور صحابہؓ میں شامل ہونے کا خصوصی فخر حاصل ہوا۔ 25؍جنوری 1973ء کوآپ کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص میں تدفین ہوئی۔
حضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب کی دوسری بیوی سے صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب15؍جون 1905ء کو تولدہوئے۔ ان کی شادی حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ کی سب سے بڑی صاحبزادی امۃ السلام صاحبہ سے جون 1924ء میں ہوئی۔
صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب اور اعلیٰ ملازمت کے مراحل
صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب نے سرکاری ملازمت پٹواری کے عہدہ سے شروع کی اور درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کے عہدے تک پہنچے۔ پٹواری سے قانون گو، پھر نائب تحصیل دار، پھر تحصیل دار، پھر اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر اور افسر خزانہ ہوئے اور ایک دفعہ مختصر زمانے کے لیے قائم مقام حاکم ضلع یا ڈپٹی کمشنر کے فرائض بھی آپ نے انجام دیے تھے۔ پنجاب کے اکثر اضلاع میں بحیثیت افسر محکمۂ بندوبست فرائض انجام دیے، جس کا آپ نے اپنی کتاب امثال میں بھی ذکر کیا ہے۔ ایک بار گورنمنٹ کی طرف سے ریاست بہاولپور میں مشیر مال بنا کر بھی بھیجے گئے تھے، جہاں خاصی مدت تک آپ کا قیام رہا۔
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب لکھتے ہیں: ’’خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب حضرت مرزا صاحب کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے… وہ آج کل سونی پت حصہ ضلع میں سب ڈویژنل آفیسر ہیں جہاں وہ ریاست بہاولپور کی ریونیو منسٹری سے اپنی میعاد پوری کر کے گئے ہیں۔‘‘ (حیات احمد جلداوّل صفحہ 82)
’’خان بہادر‘‘ کا خطاب
آپ کو انگریزی حکومت کی طرف سے ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب ملا۔ یہ خطاب یقینا ًآپ کی قابلیت کی وجہ سے اور آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو دیا گیا تھا۔ لیکن آپ اس خطاب کو اپنے لیے باعث افتخار و شرف نہ گردانتے تھے۔ اور عام طور پر اپنے نام کے ساتھ ’’خان بہادر‘‘ لکھا بھی نہیں کرتے تھے۔
’’ایک دفعہ ایک انگریز افسر نے آپ سے پوچھا کہ خان بہادر! آپ اپنے دستخطوں کے ساتھ ’’خان بہادر‘‘ کیوں نہیں لکھتے۔ آپ نے جواباً اسے کہا۔’’ صاحب! خان بہادر کا خطاب سرکار سے مجھے اب ملا ہے اور مرزا کا لقب مجھے ابا عن جد حاصل ہے۔ خان بہادر کا خطاب مشروط ہے اور مرزا کا خطاب غیر مشروط۔ اس لئے میں وہی خطاب اپنے نام کے ساتھ لکھتا ہوں جو ہر حال میں میرے نام کے ساتھ رہا اور رہے گا۔‘‘ (حضرت مرزاسلطان احمد، مرتبہ میرانجم پرویز، صفحہ 15)
سرکاری ملازمت میں آپ نے اپنے فرائض بڑی محنت اور دیانت داری سے انجام دے۔ جس جگہ بھی رہے، نیک نام رہے۔ تدبروفراست اور امانت ودیانت آپ کی پیشہ ورانہ زندگی کازیوررہا۔ باوجودانگریزحکومت کے آپ نے ہندوستانی ہونے کے باوصف ایک وقاراورعزت وغیرت کے ساتھ اپنی ملازمت کا ساراعرصہ بسرکیا۔ بہت سے واقعات میں سے صرف دوواقعات ہدیہ قارئین کیے جاتے ہیں۔
ایک ادبی رسالہ ’’نیرنگ خیال‘‘ میں لکھاہے: ’’صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب کی ملازمت سے ان کے سبکدوش (ریٹائر) ہونے کا وقت آیا تو انہی دنوں پہلی جنگ عظیم کے اختتام کے بعد حکومت کے خلاف ترک موالات (نان کوآپریشن) کے ہنگامے شروع ہو گئے۔ پہلے لاہور اور پھر گوجرانوالہ ان ہنگاموں کی لپیٹ میں آ گیا۔ مرزا سلطان احمد گوجرانوالہ میں ڈپٹی کمشنر تھے۔ وہاں سب سے زیادہ ہنگامے ہوئے۔ عوام کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ لیڈروں کی ہدایات کے برخلاف انہوں نے آئینی حدود کو توڑ دیا۔ بعض سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچایا اور ریلوے اسٹیشن تو پورے کا پورا جلا دیا۔ ایک جم غفیر ہاتھوں میں بانس، لاٹھیاں اور اینٹ پتھر لئے ہوئے ضلع کچہری کی طرف بڑھا۔ ایسے وقت میں مرزا سلطان احمد سے کہا گیا کہ وہ عوام کے اس مشتعل گروہ کو منتشر کرنے اور آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے گولی برسانے کا حکم دے دیں۔
ایسے وقت میں اگر کوئی کمزور دل و دماغ کا انسان ہوتا تو کیا کرتا۔ لیکن اب ذرا مرزا سلطان احمد صاحب کی حالت پر بھی غور کیجئے۔ اور ان کے فیصلہ کو بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ان کی ذمہ داریوں کو بھی پیش نظر رکھئے۔ فوجی اور دیگر اعلیٰ حکام کی خواہش کو بھی ذہن میں رکھئے۔ پھر سنئے کہ مرزا سلطان احمد صاحب نے کیا کیا اور وہ کیا جس کی ایک ہندوستانی حاکم سے غالباً امید نہیں کی جا سکتی۔ آپ نے کہا میں ان معصوم بچوں اور ان بے خبر لوگوں پر گولی چلانے کا حکم نہیں دے سکتا۔ کیونکہ میرے نزدیک شورش کے ذمہ وار یہ نہیں کوئی اور ہیں۔ اور وہ جو ذمہ وار ہیں وہ لوگ اس مجمع میں موجود نہیں۔ آپ کے اس فیصلہ کی وجہ سے گوجرانوالہ دوسرا جلیانوالہ باغ بن جانے سے محفوظ رہا۔ گو عمارات وغیرہ کا نقصان ضرور کچھ نہ کچھ ہوا۔
مرزا سلطان احمد ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ اگر اپنے تدبر اور خوش بیانی سے کام نہ لیتے تو یہ مشتعل لوگ نہ جانے کیا کر کے دم لیتے۔ مرزا صاحب نے اس پُر جوش ہجوم کے سامنے ایسی سلجھی ہوئی تقریر کی کہ نفرت و غصہ کی یہ آگ ٹھنڈی ہو گئی۔ وہی جلوس مرزا سلطان احمد کی سرکردگی میں شہر کو واپس ہوا اور جن کی زبانوں پر’’انگریز مردہ باد‘‘ کے نعرے تھے، وہ اب ’’مرزا سلطان احمد زندہ باد‘‘ کے نعرے لگانے لگے۔
یہ نازک موقع گزر گیا۔ تحقیقاتی کمیٹیاں بیٹھیں آپ بھی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔ آپ کے یہ جواب پبلک میں آئے اور ان پر ولایت کے دار العوام میں سوال و جواب اور چہ میگوئیاں ہوئیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ مرزا کی پنشن اور سرکار کے عطا کئے ہوئے مربع جات ضبط ہوں گے۔ اور معتوب ٹھہرائے جائیں گے۔ مگر آپ نے کسی بات کی پرواہ نہ کی اور آخر یہ سب افواہیں بھی بے بنیاد ثابت ہوئیں۔
ترک موالات کے ہنگامے ٹھنڈے پڑ گئے تو گورنر پنجاب نے ایک ملاقات میں مرزا سلطان احمد سے کہا کہ آپ گوجرانوالہ کا انتظام ٹھیک طور پر نہ کر سکے۔ مرزا صاحب اس کے جواب میں بولے کہ لاہور میں تو ’’یور ایکسی لینسی‘‘ بہ نفس نفیس موجود تھے۔ پھر بھی یہاں کے ہنگاموں کو نہ روک سکے۔ آپ یہاں روکتے تو یہ ہنگامے وہاں نہ پہنچتے۔ مرزا صاحب کے اس جرأت مندانہ معقول جواب پر لاٹ صاحب خفیف ہو کر رہ گئے۔‘‘ (ماخوذازانجمن صفحہ 137تا138 از فقیر سید وحید الدین صاحب آتش فشاں پبلیکیشنز لاہور، ماخوذاز نیرنگ خیال جوبلی نمبر۔ مئی جون 1934ء صفحہ 287تا288)
(باقی آئندہ)