غیبت، حسد اور غرور
معا شرتی بیما ریا ں جو تعلقات کو ختم کر تی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں
وَلَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ ۔(القمان:19)اور(نخوت سے) انسانوں کے لئے اپنے گال نہ پھُلا اور زمین میں یونہی اکڑتے ہو ئے نہ پھر۔اللہ کسی تکبر کرنے والے (اور) فخرومباہات کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
ان آ یات میں جہا ں اللہ تعا لیٰ نے اپنے بندوں کے لیے حسد و غرور اور تکبر کو نا پسند فر ما کر انہیں خبر دار کیا ہے وہا ں دوسری طرف اللہ تعا لیٰ نے جب آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلا ق عا لیہ کی تعریف میں اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ فرما یا تو ہمارے آقا و مولا، رہبرِ کا ئنات، فخر موجودات حضرت محمدﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد ان الفاظ میں فرمایاکہ میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ اخلاق عالیہ کی تکمیل کروں۔چنا نچہ اسی مقصد کی تکمیل کے لیے جہاں آپ نے اپنے اسوۂ حسنہ اور نیک نمونہ سے اخلاق فا ضلہ قوم میں پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی وہاں آپ نے ان بنیادی امور کی بھی نشان دہی کی جو انسان کو گنا ہوں کے گہرے سمندر میں دھکیل دیتی ہیں اور اخلاق فاسدہ سے بچاؤ کے لئے دعائیں بھی سکھا ئیں تا ان دعاؤں کے ذریعے اپنی پیدا ئش کے مقصد کو پورا کر سکیں۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اخلاق کی اعلیٰ تکمیل کے لیے ہمیں یہ دعا سکھائی: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الصِّحَّۃَ وَ العِفَّۃَ وَ الْاَ مَا نَۃَ وَ حُسْنَ الْخُلْقِ وَ الرّ ضَی بِالقَدَ رِ ۔( مشکوٰۃ کتاب الدعوات )یعنی اے اللہ میں تجھ سے صحت اور پاکدامنی اور امانت اور اخلاق حسنہ اور قضا و قدر پر را ضی رہنے کی دعا کرتا ہوں۔
لیکن ساتھ ہی ہمارے آ قا نے ہمیں بُرے اخلاق سے بچنے کے لیے یہ دعا سکھا ئی: اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْ اَعُوْ ذُ بِکَ مِنْ مُنکَرَاتِ الْاَ خْلَاقِ وَا لْاَعْمَالِ و الْاَ ھْوَاء۔(حدیقۃ الصالحین 799-800 حدیث نمبر848)یعنی اے اللہ میں تیری پناہ اور حفا ظت چا ہتا ہوں برے اخلاق،برے اعمال اور بری خواہشات سے۔
لہٰذا ہم سب کا اولین فرض ہے کہ ہم ان دونوں دعاؤں کو باقا عدگی سے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کی عادت ڈا لیں تاکہ ہم ان با توں سے بچ سکیں جو انسان کو گنا ہ کی طرف لے جاتی ہیں اور خدا سے دور کر تی ہیں۔اللہ تعا لیٰ نے اس دنیا کو ایک خا ص حکمت کے ساتھ مقا صد کے تا بع پیدا کیا ہے مگر انسانوں کا ایک بڑا طبقہ ان مقا صد کو سمجھنے سے بالکل قاصر ہے اور اس عالم کو محض دنیا وی زینت اور لذت یا بی کا سامان سمجھتا ہے مگر اللہ تعا لیٰ اپنے مومن بندوں سے یہ تو قع رکھتا ہے کہ وہ نفس امارہ کو کچلتے ہو ئے اور شیطان کی آواز کو رد کر تے ہوئے اپنے رب کی طرف قدم بڑ ھا ئیں اور نہ صرف نیکی کی راہوں پرگامزن ہو ں اور برا ئیوں کی دلدل سے بچیں اور اپنی را ہوں میں آنے والے کیچڑ سے دور رہیں۔ انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ اُس میں حسد و تکبر جیسے گناہ کیسے جنم لیتے ہیں یہ بیماریاں خا ص طور پر عورتوں میں پا ئی جا تی ہیں۔مال کی حرص، دنیا کی بھاگ دوڑ میں محض آ گے بڑھنے اور خود کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش میں عور توں نے اپنے عقل و شعور کو کچل کر رکھ دیا ہے۔جہاں محنت اپنی اولا دوں کو دین کے ساتھ جو ڑنے میں کرنی چا ہیے وہاں اولادوں کو کچھ اور ہی تحفے دیے جا رہے ہیں۔ مثلاً وہ اپنے آپ کو اچھا لگنے کی کوشش میں دوسرے سے بہتر گاڑی رکھنے، برینڈڈ کپڑے پہننے، چاہے ایسی خواہشات انسان کی چادر سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو بہت فخر سے پیسہ پانی کی طرح بہاتی جا تی ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فر ما تے ہیں:’’عورتوں میں چند عیب بہت سخت ہیں اور کثرت سے ہیں۔ ایک شیخی کرناکہ ہم ایسے اور ایسے ہیں۔ پھر یہ کہ قوم پر فخر کرنا کہ فلاں تو کمینی ذات کی عورت ہے یا فلاں ہم سے نیچی ذات کی ہے۔ پھر یہ کہ اگر کو ئی غریب عورت ان میں بیٹھی ہو ئی ہے تو اس سے نفرت کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارہ شروع کر دیتی کہ کیسے غلیظ کپڑے پہنے ہیں۔ ز یور اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔ …دیکھو کہ مو چی ایک جُوتی میں بد دیانتی سے کچھ کا کچھ بھر دیتا ہے صرف اس لیے کہ اس سے کچھ بچ رہے تو جو رو بچوں کا پیٹ پا لوں۔ سپاہی لڑ ائی میں سَر کٹا تے ہیں صرف اس لیے کہ کسی طرح جورو بچوں کا گذارہ ہو۔بڑے بڑے عہدیدار رشوت کے الزام میں پکڑے ہو ئے دیکھے جا تے ہیں۔ وہ کیا ہوتا ہے؟عورتوں کے لیے ہو تا ہے۔ عورت کہتی ہے کہ مجھ کو زیور چاہیے کپڑا چاہیے۔ مجبورًا بیچارے کو کرنا پڑ تا ہے۔ لیکن خدا تعا لیٰ نے ایسی طرزوں سے رزق کمانا منع فرما یا ہے۔(ملفوظات جلد5 صفحہ 29-30،ایڈ یشن 1888ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرما تے ہیں:’’بعض دفعہ عورتیں اپنی محبت کی حکومت کو بڑے خطر ناک طریق سے چلاتی ہیںچنا نچہ رشوتیں بھی اکثر عورتوں کی وجہ سے لی جا تی ہیں کہ جب عورتیں مردوں کو دق کر تی ہیں کہ ہمیں یہ چاہیے یہ چا ہیے تو مرد کو مجبوراً نا جائز طریق سے رو پیہ کما نا پڑ تا ہے۔یہ عورت کا اثر ہو تا ہے۔دُ نیا میںاکثر خرا بیاں مر د عورت کی ضرورت پوری نہ ہو نے کی وجہ سے کر تے ہیں۔‘‘(اوڑھنیوں والیوں کے پھول صفحہ 59)
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطر ناک بیماری کا ان الفاظ میں ذکر فرما یا ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ بیان فرما تے ہیں کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کواس طرح بھسم کر دیتا ہے جس طرح آگ ایند ھن اور گھاس کو بھسم کر دیتی ہے۔‘‘(حدیقۃ الصالحین 814حدیث نمبر860)
عام زندگی میں جب غور کریں اس کی مثال ایک کسان سے لےسکتےہیں جب وہ اپنی زمین میں عمدہ پو دوں کی خاطر اس میں اُ گنے والے ناکارہ اور بے کار چیزوں کو اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے جس کے نتیجہ میں فصل اچھی ہو تی ہے اور اس کسان کو اس کا بہترین پھل نصیب ہو تا ہے۔ اسی طرح اگر انسان چاہے اپنی دینی اور دنیاوی ترقی میں حا ئل ہو نے والی ان لغو امور کو اپنے اندر سے نکال پھینک دے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کامیابی کے را ستوں سے دور رہ جا ئے۔پس یہ ایک آگ ہے جس سے ہمیں بچنا ہے خا ص طور پر احمدی ما ؤں کو جن سے آگے ایک نسل کی کاشت ہو تی ہے، پھر دوسری نسل کی کاشت ہو تی ہے، پھر تیسری، پھر آگے سے آگے یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اس لیے اپنی اصلا ح کی طرف غور کرنا چا ہیے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما تے ہیں :’’حسد انسان میں ایک بہت بُرا خُلق ہے جو چا ہتا ہےجو ایک شخص سے ایک نعمت زائل ہو کر اس کو مل جائے لیکن اصل کیفیت حسد کی صرف اس قدر ہے کہ انسان اپنے کسی کمال کے حصول میں یہ روا نہیں رکھتا کہ اس کمال میں اس کا کو ئی شریک بھی ہوپس در حقیقت یہ صفت خدا تعالیٰ کی ہے جو اپنے تئیں ہمیشہ وحدہ لا شریک دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘( نسیم دعوت، روحا نی خزائن جلد 19صفحہ390)
حضرت خلیفۃ المسیح الخا مس ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصرہ العزیز عو رتوں کو وعظ کرتے ہو ئے فر ما تے ہیں:’’…اب حسد کی آگ بھی ایسی آگ ہے جس میں حسد کرنے وا لا خود جل رہا ہوتا ہے۔اپنا نقصان اٹھا رہا ہو تا ہے۔ دوسرے کو کو ئی نقصان شاید اتنا نہ پہنچے۔ اپنے آپ کو زیادہ نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔…قرآن پڑ ھنے اور سمجھنے اور اس پر عمل کر نے کی بھی کوشش کریں۔ جب سمجھیں گی اور عمل کر نے کی کوشش کریں گی تو پھر آپ دوسروں سے مزید ممتاز ہو کر مزید علیحدہ ہو کر نکھر کر اُ بھریں گی۔اور اس معاشرے میں بھی آ پ کی ایک پہچان ہو گی۔…‘‘(اوڑ ھنیو ں والیوں کے پھول جلد سوم حصہ اوّل صفحہ 194-195)
حضرت مسیح موعودؑ مزید فرما تے ہیں:’’سو اگر تم اپنے آپ کو درندوں کی مانند بے کار اور لا پروا بنا ؤ گے تو تمہارا بھی ایسا ہی حا ل ہو گا۔چا ہئے کہ تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہو جا ؤتا کہ کسی وبا کو یا آفت کو تم پر ہا تھ ڈا لنے کی جرأت نہ ہو سکے کیو نکہ کو ئی بات اللہ تعا لیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پر ہو نہیں سکتی۔ہر ایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میںسے اٹھادو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنیٰ با توں سے اعرا ض کر کے اہم اور عظیم الشان کا موں میں مصروف ہوجاؤ۔‘‘(ملفوظات جلد1صفحہ175ایڈیشن1988ء)
پڑ جائے ایسی نیکی کی عادت خدا کرے
سر زد نہ ہو کوئی بھی شرارت خدا کرے
انسان کی زندگی محدود ہے اور رو حا نی تر قیات کا سفر لامتناہی ہے اس لیے قرآن کریم انسان کی ہر صلا حیت اور قابلیت کے ذرّہ ذرّہ کو اور اس کے وقت کے ہر لمحہ کو سفر سعادت میں صرف کر نا چا ہتا ہے اور اسے ہر لغو اور غیر متعلق امر سے رکنے کی تلقین کر تا ہے۔
اللہ تعا لیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: وَاَنۡ لَّیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی۔ وَاَنَّ سَعۡیَہٗ سَوۡفَ یُرٰی ۔ ثُمَّ یُجۡزٰٮہُ الۡجَزَآءَ الۡاَوۡفٰی ۔(النجم:40-42)یعنی انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور انسان اپنی کوشش کا نتیجہ ضرور دیکھ لے گا اور اس کو پوری جزا مل جا ئے گی۔
چنا نچہ آ نحضرت ﷺ نے فرما یا:مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْ کُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ۔ (حدیقۃ الصالحین649حدیث نمبر688) انسان کے اسلام کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ انسان لایعنی، یعنی بےکار فضول با تو ں کو چھوڑ دے۔
یعنی انسان جتنا ان بڑائیوں کو چھوڑ دے گااس کا اسلام خو بصورتی اور زینت پا تا چلا جا ئے گا اور ایک دن آ جائے گا کہ خدا اور اس کے بندہ کے ما بین اور کو ئی چیز حا ئل نہ ہو گی۔آنحضرت ﷺ کی مسلسل تر بیت ہی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ ؓلغو قول اور بے معنی گفتگو سے حتی الامکان احتراز کرتے تھے۔بہت سے جھگڑو ں کی بنیاد اس طرح پڑ تی ہے کہ انسان دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑا تا ہے اور غیر منا سب گفتگو کر تا ہے۔ جس کے ردعمل کے طور پر جوابی کا رروائی ہو تی ہے اور دلوں میں میل آ نے لگتا ہے۔ یا یوں کہہ لیں جس کا دل صا ف نہیں ہو تا وہ دوسروں کے متعلق غیر حکیما نہ بلکہ دل آ زار گفتگو کر تا ہے یو ں سارا معاشرہ ایک فساد میں مبتلا ہو جا تا ہے اور غیبت اور بہتان کا بند نہ ہو نے والا دروازہ کھل جا تا ہے۔اور افسوس کی بات ہے کہ یہ عادات زیادہ تر عورتوں میں پائی جاتی ہیں۔جس کی وجہ سے ہماری آ ئندہ نسلوں پر بہت ما یوس کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جہاں کوشش بچوں کی حقیقی دینی تر بیت پر ہو نی چاہیے وہاں فارغ اوقات ذاتی رابطوں کے ذ ریعے ایک دوسرے کی ٹوہ رکھنے کے ساتھ لغو باتوں کو کوسوں دُور تک پھیلایا جا تا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ سلام فر ماتے ہیں: ’’غیبت کرنے والے کی نسبت قرآن کریم میں ہے کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھا تا ہے۔ عورتوں میں یہ بیماری بہت ہے۔ آدھی رات تک بیٹھی غیبت کرتی ہیں اور پھر صُبح اُ ٹھ کر وہی کام شروع کر دیتی ہیں۔ لیکن اس سے بچنا چا ہیے۔‘‘(ملفو ظات جلد پنجم صفحہ29، ایڈ یشن 1888ء)
اسی طرح حرص یا حسد جو کہ انسانی تر قی کی ر کا وٹ میں غرور کے بعد دوسرا بڑا فتنہ ہے۔ در حقیقت مال جمع کرنے کی حرص کی صورت میں پیدا ہو تی ہے اس وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے، یہاں تک کہ وقت کی قربانی دینے میں بھی سستی کرتا ہے اور دنیاوی آ سائشوں کا اتنا عادی ہو جاتا ہے کہ وہ کسی بھی چیز کی پروا نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ مال حلال طریق سے آ رہا ہے یا حرام اور نا جا ئز طریق سے، اس کا احساس بھی اُس کے دل و دما غ سے کو سوں دور چلا جاتا ہے اور وہ گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے۔یہ سب باتیں آ ہستہ آہستہ انسان کو نیک را ہوں سے روکتی ہیں۔جو کہ ایمان کی ترقی کی راہوں سے موسوم ہیں۔ حد یث میں آ تا ہےکہ حضرت انس رضی اللہ تعا لیٰ عنہ بیان فرما تے ہیں کہ آ نحضرت ﷺ نے فرمایا ایک دوسرے سے بُغض نہ رکھو، حسد نہ کرو،بے رُخی اور بے تعلقی اختیار نہ کرو،با ہمی تعلقات نہ توڑو بلکہ اللہ تعا لیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے اور اس سے قطع تعلق رکھے۔(حدیقۃ الصالحین 815حدیث نمبر862)
پس ان احا دیث اور ارشادات کی رو شنی میں یہ بات انسان کی عقل پر ایسے کھلتی ہے کہ ہر وہ انسان جو اپنے بھائی کی کسی بھی طرح پردہ پو شی نہیں کرتا، یا اپنے آپ کو ہر طرح سے دوسروں سے بہتر سمجھتا، یا ہر چھو ٹی سی چھو ٹی بات پر کسی دوسرے کو ذلیل و رُسوا کرتا ہے وہ حسد و غرور کی چادر میں اپنے آپ کولپیٹ کر پھرتا ہے اس کی لا کھو ں کو ششیں بھی اس کو اُس کی منزل ِمقصود تک نہیں پہنچنے دیتی جس کی تمنا لیے وہ اس دنیا میں ایسے گنا ہوں کا مرتکب بن رہا ہوتا ہے۔وہ انسان یہ نہیں سمجھتا کہ اس کی یہ تمام طاقتیں جو وہ کسی کے نقصان پہنچاکر حاصل کرنے میں لگا رہا آیا ان باتو ں سے وہ خود کو ہی دوزخ کی آگ میں جلا رہا ہو تا ہے۔اللہ تعا لیٰ ہمیشہ اُن لو گو ں کو پسند کرتا ہے جو ہر مو قع و محل پر صبر کریں اور عاجزی اختیار کریں۔ ایسے ہی لوگ دنیا و آ خرت میں تر قی پا تے ہیں۔
ایک روایت میں بیان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے لو گوں کو مخا طب کر کے بڑے دردِ دل سے فرمایا:’’میرے آنے کی اصل غرض یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت تیار ہو جا وے جو سچی مو من ہو اور خدا پر حقیقی ایمان لائےاور اس کے ساتھ حقیقی تعلق رکھے اور اسلام کو اپنا شعار بنا ئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر کار بند ہواور اصلا ح و تقویٰ کے رستہ پر چلے اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ قائم کر ے تا پھر ایسی جماعت کے ذ ریعہ دنیا ہدا یت پا وے اور خدا کا منشاء پورا ہو۔پس اگر یہ غرض پوری نہیں ہو تی تو اگر دلا ئل و برا ہین سے ہم نے دشمن پر غلبہ بھی پا لیا اور اس کو پو ری طرح زیر بھی کر لیا تو پھر بھی ہماری فتح کو ئی فتح نہیں کیو نکہ اگر ہماری بعثت کی اصل غرض پوری نہ ہو ئی تو گویا ہما را سا را کام را ئیگا ں گیا مگر میں دیکھ رہا ہو ں کہ دلا ئل و برا ہین کی فتح کے تو نما یا ں طور پر نشانات ظاہر ہو رہے ہیں اور دشمن بھی اپنی کمزوری محسوس کر نے لگا ہے لیکن ہماری بعثت کی اصل غرض ہے اس کے متعلق ابھی تک جماعت میں بہت کمی ہے اور بڑی تو جہ کی ضرورت ہے پس یہ خیال ہے جو مجھے آج کل کھا رہا ہے اور یہ اس قدر غالب ہورہا ہے کہ کسی وقت بھی مجھے نہیں چھو ڑتا۔‘‘(سیرت المہدی حصّہ اوّل صفحہ 235-236روایت نمبر258)
اللہ تعالیٰ ہمیں ان چیزوں سے ہمیشہ بچا ئے رکھے تاکہ ہم خدا کی راہ میںدن دوگنی رات چو گنی تر قی کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق عطا فرما ئے۔ آمین