خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 17؍جون 2022ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭…حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دَور خلافت میں مختلف جنگی مہمات میں مسلمانوں کے لشکر وں کی فتوحات کا تفصیلی تذکرہ

٭…حضرت عمرو بن عاصؓ کی تبلیغ اسلام کے نتیجے میں عمان میں اسلامی سلطنت مستحکم ہوئی اور بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا

٭…مہرہ میں مرتدین اور باغیوں میں اختلافات کی وجہ سے مسلمانوں کے لشکر کواللہ تعالیٰ کی مدد اور فتح نصیب ہوئی

٭…حضرت ابوبکر صدیق ؓنےفوج کے ایک حصہ کی ناراضگی کے باوجود دورانِ جنگ حضرت عکرمہ ؓکی شادی کو جائز قرار دیا

٭…رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن عاص کو عمان کا امیر مقرر فرمایا ۔آپؐ عسکری مہمات میں ان پر اعتماد فرماتے تھے

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 17؍جون 2022ء بمطابق 17؍احسان 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مورخہ 17؍جون 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔

تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:گذشتہ خطبے میں حضرت ابوبکرؓ کے دور میں مرتدین ، مسیلمہ کذاب اور منافقین کاقصہ ختم ہوگیا تھا البتہ ہتھیار اُٹھانے والے مرتدین کا ذکر ابھی چل رہا ہے۔دس مہمات میں سےپہلی کابیان ہوچکا ہے جبکہ دوسری اور تیسری حضرت حذیفہؓ اور حضرت عرفجہؓ کے ذریعہ عمان کے مرتد باغیوں کےخلاف کی گئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ ہجری میں حضرت ابوزید انصاریؓ کو تبلیغ اسلام اور حضرت عمرو بن عاصؓ کو عمان کے دو رئیس بھائیوں جیفرجلندی اور عباد جلندی کے نام خط بھیجا کہ اگر اسلام قبول کرلو گے تو امن میں رہو گے ورنہ ریاست چھن جائے گی۔ کچھ دنوں کی بحث کے بعد دونوں بھائیوں نے اسلام قبول کرلیالیکن دونوں بھائیوں کے اس خدشے پر کہ زکوٰۃ کا مال اکٹھا کرنے پر لوگ اُن کے خلاف ہوجائیں گے حضرت عمرو بن عاصؓ نے اجازت دی کہ یہاں سے زکوٰۃ کا جو بھی مال اکٹھا کیا جائے گا وہ مقامی لوگوں پر ہی خرچ کیا جائے گا۔حضرت عمرو بن عاصؓ یہاں دو سال مقیم رہے اور اُن کی تبلیغ اسلام کے نتیجے میں یہاں کے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عمان میں بھی بغاوت ہوگئی اور لقیط بن مالک نے نبوت کا دعویٰ کردیا اور عمان کے جاہلوں نے اُس کی پیروی کی جن کی مدد سے وہ عمان پر قابض ہوگیا۔ان حالات میں جیفر جلندی اور عباد جلندی کو پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی۔حضرت ابوبکرؓ نے حضرت حذیفہؓ،حضرت عرفجہؓ اور بعد ازاں حضرت عکرمہؓ کو اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے روانہ فرمایا۔حضرت حذیفہؓ نے مختلف سرداروں کو خطوط لکھے جس کی وجہ سے بہت سے سردار لقیط سے علیحدہ ہوگئے۔شدید جنگ کے بعد لقیط کو شکست ہوئی اور عمان میں اس فتنہ کا خاتمہ ہوگیا۔جنگ کے بعد حضرت حذیفہؓ نے یہاں قیام کیا اور مسلمانوں کی حکومت کے استحکام میں مدد دی جبکہ حضرت عرفجہؓ مالِ غنیمت لےکر مدینہ چلے گئے اور حضرت عکرمہؓ اپنا لشکر لےکر مہرہ میں بغاوت کے فتنے کا سدِباب کرنے کے لیے روانہ ہوگئے۔

حضرت عکرمہؓ کی مہرہ کے قبیلہ کی جانب پیش قدمی کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نےاہلِ عمان اور اور اِرد گِرد کے لوگوں سے اس مہم کے لیے مدد طلب کی۔مختلف قبائل کے لوگ اُن کے ساتھ ہوگئے۔حضرت عکرمہؓ نے مہرہ اور مضافاتی علاقوں کے قبائل پرچڑھائی کردی۔ ان کے مقابلہ کے لیے مہرہ کے لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک گروہ بمقام جیروت میں شخریت اور دوسرا گروہ نجد میں بنو محارب کے ایک شخص مُصَبَّح کی سربراہی میں تھا۔دونوں سردار ایک دوسرے کے مخالف تھے اور چاہتے تھے کہ ان کو ہی کامیابی حاصل ہو۔اسی بات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کی اور دشمنوں کو کمزور کردیا۔حضرت عکرمہؓ نے شخریت کے لشکر کی کم تعداد کو دیکھتے ہوئے اُسےدوبارہ اسلام لانے کی دعوت دی جسے اُس نے قبول کرلیا جس کی وجہ سے مُصَبَّح مزید کمزور ہوگیا۔حضرت عکرمہؓ نے مُصَبَّح کو بھی اسلام لانے کی دعوت دی لیکن وہ اپنے لوگوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے جنگ پرآمادہ ہوا۔نجد کے مقام پر مُصَبَّح سے شدید مقابلہ ہوا۔ مُصَبَّح اس جنگ میں مارا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے مرتدین باغیوں کے لشکر کو شکست سے دوچار کیا۔ جنگ کے بعد بے بہا مالِ غنیمت کی وجہ سے مسلمانوں کا لشکر مزید طاقتور ہوگیا۔یہاں کے لوگوں کی اکثریت نے اسلام قبول کرلیا اور حضرت عکرمہؓ نے فتح کی خوشخبری حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھجوادی۔

حضرت ابوبکرؓ کے حکم کے مطابق حضرت عکرمہؓ نے مہرہ سے فارغ ہوکرایک بہت بڑے لشکر کے ہمراہ یمن کی طرف پیش قدمی کی۔قبیلہ نخع اور حمیر کے لوگوں نے حضرت عکرمہؓ کی دعوت اسلام پر آمادگی ظاہر کی اور حضرت عکرمہؓ نے اُن کو ارتداد کے الزام سے بری قرار دے دیا۔یمن کے علاقہ ابین میں قیس اور عمرو بند معدی کرب قتال یعنی جنگ پر آمادہ تھے لیکن دونوں میں جلد ہی اختلاف کی وجہ سے حضرت عکرمہ کو مرتدین کے خاتمہ میں کامیابی ملی۔یمن کے ساتھ ہی حضر موت کے علاقہ میں کندہ قبیلہ آباد تھا ۔ اس علاقہ میں حضرت زیاد بن لبیدؓ امیر تھے جن کی زکوٰۃ کے معاملہ میں سختی کی وجہ سے یہاں بھی بغاوت ہوگئی تھی ۔چنانچہ حضرت عکرمہؓ اور حضرت مہاجر بن ابو امیہؓ نے اس موقع پر ان کی مدد کی۔

حضرت عکرمہؓ نے مرتدین کی مہمات سے فارغ ہوکر مدینہ کی طرف روانہ ہونے کی تیاری کی تو اُن کے ہمراہ نعمان بن جون کی بیٹی اسماء بنت نعمان بن جون بھی تھیں جن کے ساتھ انہوں نے دورانِ جنگ شادی کرلی تھی جس کی وجہ سے اُن کی فوج کے کئی افراد نے اُن سے علیحدگی اختیار کرلی تھی ۔بعض لوگوں کی ناراضگی کا پس منظر یہ تھا کہ نعمان بن جون نے ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنے کی درخواست کی تھی لیکن رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمادیا تھا۔لہذا ناراض لوگوں کا خیال تھا کہ حضرت عکرمہ کو بھی اُسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اس لڑکی سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔اس معاملہ پر حضرت مہاجر بن ابو امیہ بھی جب کوئی فیصلہ نہ کرسکےتو یہ معاملہ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھجوایا گیا ۔ حضرت ابوبکرؓ نے ناراض افراد کی دلیل کو تسلیم نہیں کیا اور حضرت عکرمہ کی شادی کو جائز قرار دیا۔حضرت عکرمہؓ جب مدینہ پہنچے تو لشکر کا وہ حصہ جو خفا ہو کر علیحدہ ہوگیا تھادوبارہ حضرت عکرمہؓ سے مل گیا ۔

حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ کے متعلق بیان فرمایا ہے کہ جب عمان فتح ہوا تو کندہ قبیلہ کی ایک عورت اسماءکا بھائی ایک وفد کے ہمراہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ہمشیرہ کی شادی کی درخواست کردی۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف قبائل عرب کے اتحاد کی وجہ سے اُس کی درخواست قبول کرکے اُس کی ہمشیرہ سے نکاح کرلیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسماء کو کندہ قبیلہ سے لانے کے لیے حضرت ابو اُسیدؓ کو مقررکیا۔ اسماء کو لانے کے بعد ایک مکان میں ٹھہرایاگیا جہاں کچھ عورتیں اُسے دیکھنے کے لیے آئیں اور اُسے یہ مشورہ دیا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آئیں تو تم اُنہیں کہنا کہ میں آپؐ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں اس طرح پہلے دن ہی تمہارا رعب اُن کے دل میں بیٹھ جائے گا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اسماء کے پاس آئے تو اُس نے اسی طرح کہہ دیا ۔ یہ بات ایک نبی کی شان کے انتہائی خلاف تھی لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُسید کو ہی دوبارہ اس خاتون کودو چادروں کے ساتھ واپس اس کے قبیلہ میں پہنچانے کا حکم دے دیا ۔ اُس کے قبیلے کے لوگوں کو جب اس بات کا علم ہوا تو اُسے لعن طعن کی لیکن اسماء نے کہا یہ میری بدبختی ہے اور مجھے ورغلایا گیا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ کچھ بعید نہیں کہ کسی منافق نے اسماءکو ورغلانے کے لیے کسی عورت کا استعمال کیا ہو۔

حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عکرمہ کو یمامہ کی طرف بھیجا اور بعد میں حضرت شرحبیلؓ بن حسنہ کو حضرت عکرمہؓ کی مددکے لیے روانہ کیا۔حضرت شرحبیلؓ ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے ۔ آپؓ نے اپنے بھائیوں کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ آپ مشہور سپہ سالاروں میں سے تھے۔18؍ ہجری میں ان کی وفات ہوئی تھی۔جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ حضرت عکرمہؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے حکم کے باوجود حضرت شرحبیل بن حسنہؓ کا انتظار نہ کیا اور مسیلمہ پر حملہ کردیا تاکہ فتح کا سہرا اُنہی کے سر بندھے۔تاہم مسیلمہ نے حضرت عکرمہؓ کے لشکر کو پیچھے دھکیل دیا۔ حضرت ابوبکر کو جب اس ناکامی کی اطلاع پہنچی تو حضرت ابوبکرؓ نے اُنہیں تنبیہی خط لکھا کہ اس ناکامی کا داغ کا لےکر مدینہ نہ آنا کہ کہیں لوگوں میں بددلی نہ پھیل جائے اور اُنہیں عمان جانے کا حکم دیاجبکہ حضرت شرحبیلؓ کو اپنے دوسرے حکم کا انتظار کرنے کا فرمایا۔بعد ازاں حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد بن ولید کو مسیلمہ کے مقابلے کے لیے روانہ کیا تو حضرت شرحبیل کو اُن کی مدد کرنے کا حکم دیا۔حضرت شرحبیلؓ نے حضرت خالدؓ کے ساتھ یمامہ کی جنگ میں حصہ لیا اور بعد ازاں حضرت ابوبکرؓ کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئےحضرت عمرو بن عاصؓ کے ساتھ مل کر بنو قضاعہ کے باغیوں کا مقابلہ کیا۔

حضرت عمرو بن عاصؓ نے آٹھ ہجری میں فتح مکہ سے چھ ماہ پہلے اسلام قبول کیا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ ہجری میں آپؓ کو عمان کا امیر مقرر فرمایا اور آپؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک اس منصب پر فائز رہے۔اس کے بعد شام کی فتوحات میں شامل ہوئے۔فلسطین اور مصر کے حاکم بھی رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عسکری مہمات میں ان پر اعتماد فرماتے تھے۔

حضور انور نے آخر میں فرمایاکہ باقی مہمات کا ذکر انشاء اللہ بعد میں ہوگا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button