احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب ابن’’سلطان القلم‘‘تھے۔ قلم ہاتھ میں پکڑتے تو سینکڑوں صفحات بے تکان لکھتے چلےجاتے
خان بہادر کا خطاب
(گذشتہ سے پیوستہ)اب آپ کی جرأت وبے باکی کاایک اور واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیے اور خداکے اس بندے کے پاک کانشنس اورغیرت کی گہرائی کودیکھیے۔ محترم چودھری محمد علی صاحب ایم اے مرحوم سابق وکیل التصنیف بیان کرتے ہیں: ’’ایک مرتبہ لاہور میں پنجاب کے سینئر افسران کی دعوت تھی۔ جس میں علاوہ دیگر افسران کے صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب بھی مدعو تھے۔ بشپ آف لاہور بھی وہاں موجود تھے۔ صاحبزادہ صاحب نے چونکہ حضرت اقدس مسیح موعوؑد کی بیعت نہیں کی تھی بشپ صاحب نے غالباً اس خیال سے کہ یہ بھی حضرت اقدس کے مخالفین میں شامل ہیں آپ(یعنی حضرت بانئ سلسلہ) کے خلاف زبان درازی کرنی چاہی۔ صاحبزادہ صاحب نے انہیں دو ایک بار ایسا کرنے سے روکا لیکن وہ باز نہ آئے۔ جس پر صاحبزادہ صاحب نے کھانے سے بھری پلیٹ بشپ صاحب کو دے ماری۔ آپ اگرچہ ابھی تک حضرت اقدس کی بیعت سے مشرف نہ ہوئے تھے لیکن آپ کے لئے دل میں ایک غیرت اور احترام کا تعلق رکھتے تھے۔ لہٰذا آپ نے اس بات کی کوئی پروا نہ کی دعوت میں موجود حاضرین و بشپ کے رویے کے خلاف آپ کے اس رد عمل پر کیا کہیں گے۔ ‘‘(روزنامہ الفضل جلد58-93 نمبر 139 مورخہ 20؍جون 2008ء صفحہ4 کالم 4)
امانت ودیانت میں بھی آپ کانمونہ قابل رشک وتقلیدتھا۔ محترم سید میر محمود احمد صاحب ناصر نے ایک بار بیان فرمایا: ’’میں نے سنا ہے کہ صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کا قلم اس قدر رواں تھا کہ دو مقدموں کے دوران جو تھوڑا سا وقت ملتا تھا اس میں مضمون لکھ لیتے تھے اور خاص طور پر قابل ذکر بات یہ ہے کہ مضمون وغیرہ لکھنے کے لئے سرکاری قلم استعمال نہیں فرماتے تھے بلکہ ذاتی قلم دوات رکھی ہوئی تھی۔ دفتر کا قلم صرف دفتری امور کے لئے مختص تھا۔ ‘‘(حضرت مرزا سلطان احمد مرتبہ میر انجم پرویز صفحہ 87)
ابھی چندسال ہوئے محترم صاحبزادہ مرزاغلام احمدصاحب نے مجلس انصاراللہ پاکستان کی ایک تقریب میں ’’کچھ یادیں کچھ باتیں ‘‘ کے عنوان سے ایک خطاب فرمایایہ ماہنامہ انصاراللہ ربوہ اکتوبر 2009ء میں اورالفضل انٹرنیشنل 25-31مئی 2012ء شمارہ 21جلد19 صفحہ 13کالم 1، 2میں بھی شائع ہوا۔ اس میں ایک واقعہ کاذکرکرتے ہوئے انہوں نے بیان فرمایا: ’’میرے والدمرزاعزیزاحمدصاحبؓ اپنی سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں سیالکوٹ میں تعینات رہے۔ ان سے قبل میرے دادا حضرت مرزاسلطان احمدصاحبؓ بھی وہاں سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں مقیم رہے تھے۔ …میرے والدصاحب بتاتے تھے کہ جب سیالکوٹ سے ان کی تبدیلی ہوئی تووہاں سے روانگی کے وقت ایک آدمی جومیرا واقف بھی نہ تھا میرے پاس آیا۔ ا س نے مٹی کے بنے ہوئے دوگلدان مجھے دئے اورکہنے لگا کہ یہ میں اپنی خوشنودی کے سرٹیفیکیٹ کے طورپردے رہاہوں۔ میں نے آپ کے داداکوکچہری میں کام کرتے دیکھا اورپھرآپ کے والدکواور اب آپ کو۔ اور مجھے خوشی ہے کہ جس دیانت اورمحنت سے بڑے مرزاصاحب نے اپنے فرائض سرانجام دئے تھے اُسی محنت اوردیانت سے آپ کے والد اورآپ نے کام کیاہے۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل 25-31مئی 2012ء شمارہ 21جلد19صفحہ 13)
ایک صاحب طرزادیب، شاعراورفلسفی
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب ابن’’سلطان القلم‘‘تھے۔ قلم ہاتھ میں پکڑتے تو سینکڑوں صفحات بے تکان لکھتے چلےجاتے۔ ابھی محترم میرمحموداحمدصاحب کی روایت درج ہوئی ہے کہ دومقدموں کے درمیان تھوڑے سے وقفہ میں آپ مضمون لکھناشروع کردیاکرتے تھے۔ درجنوں کتب تصنیف کیں اور سینکڑوں مضامین مختلف اخبارات ورسائل میں شائع ہوئے۔ اس زمانے میں شایدہی کوئی ادبی رسالہ اور اخبارہوگاکہ جس کی خواہش اور تمنا یہ نہ ہوکہ کاش میرے رسالے میں خان بہادرمرزاسلطان احمدصاحب کامضمون شائع ہو۔ اوران رسالوں کے مدیر درخواست کرکے یہ مضامین لکھواتے اورفخرسے شائع کرتے۔ یونیورسٹیوں میں آپ کی کتب بطورنصاب شامل کی جاتیں۔
ذوق ِشعروسخن اس کے سواتھاجوکہ آپ کو وراثت میں ملا تھا۔ آپ کےو الد ماجد حضرت مسیح موعود بھی اردو، عربی اور فارسی میں نہایت بلند پایہ شعر کہتے تھے۔
آپ کی منظومات و غزلیات پر مشتمل ایک کتابچہ ’’چند نثری نظمیں ‘‘کے عنوان سے شائع شدہ ہے۔ علاوہ ازیں آپ اردو وفارسی شاعری کا نہایت گہر امطالعہ اور انتہائی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ اپنی رواں تحریر میں نہایت عمدہ اشعار اور مصرعوں کا بے ساختہ اور برمحل استعمال اس بات کا واضح ثبوت پیش کرتا ہے۔ آپ کی تحریریں پڑھ کر دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ کسی ماہر سنار نے سونے کے زیورات میں نگینے جڑ دیے ہوں۔ آپ کے شعری ذوق کی وسعت و عظمت اور گہرائی کا اندازہ آپ کے ان سینکڑوں مضامین سے بخوبی ہو سکتا ہے جو آپ نے زبان و ادب اور شعر کے متعلق تحریر کیے۔ علاوہ ازیں آپ نے ’’فن شاعری‘‘ کے عنوان سے ایک انتہائی شاندار کتاب تحریر کی جس میں فن شعر پر فلسفیانہ تنقید و تبصرہ کیا ہے۔
ایک ادبی جریدہ نیرنگ خیال آپ کے ادبی مقام ومرتبہ کاذکرکرتے ہوئے لکھتاہے: ’’اردو زبان کا وہ زبردست فلسفی، مضمون نگار اوربلند پایہ مصنف جو قریباً نصف صدی تک اردو کی ادبی دنیا پر چھایا رہا اور جس کے زمانہ میں اردو کا کوئی ادبی اور علمی رسالہ اپنی ابتدانہیں کیا کرتا تھا اور نہ کر سکتا تھا جب تک اپنے قلمی معاونین کی فہرست میں بکمال امتیاز و اختصاص و افتخار مرزا سلطان احمد مرحوم کا نام سرِ لوح درج نہ کر لیتا ہو۔‘‘ (نیرنگ خیال جوبلی نمبر۔ مئی، جون 1934ء صفحہ 279)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: ’’خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب جو قادیان کے مشہور مغل خاندان سے تعلق رکھتے تھے جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بانی جماعت احمدیہ کے زوجہ اول سے فرزند اکبر تھے۔ مرزا سلطان احمد صاحب غالباً 1859ء میں یا اس کے قریب پیدا ہوئے اور اسی (80) سال کی عمر پا کر 1931ء میں فوت ہوئے… مرزا سلطان احمد صاحب نائب تحصیلدار کے عہدے سے اپنی ملازمت کا آغا زکر کے افسر مال کے عہدے تک پہنچے اور چند دن تک گوجرانوالہ میں قائم مقام ڈپٹی کمشنر بھی رہے تھے پنشن کے بعد ریاست بہاولپور میں وزیر مال کے جلیل القدر عہدہ پر بھی کچھ عرصہ کام کیا۔ ملازمت کے دوران مرزا صاحب موصوف کا دامن ہر جہت سے بے داغ رہا۔ آپ کے دل میں مسلمانوں کی ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ مگر دوسری قوموں کے ساتھ بھی انصاف کا اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ تصنیف میں بھی مرزا سلطان احمد صاحب کو خاص شغف تھا اور کبھی کبھی شعر کا شغل بھی کر لیتے تھے۔ ان کی تصنیفات میں ایک اعلیٰ ہستی، علوم القرآن، اساس القرآن، فنون لطیفہ، ضرب الامثال، زمیندارہ بنک، اور چند نثر نما نظمیں زیادہ معروف ہیں۔ ‘‘(روزنامہ الفضل 5؍اکتوبر 1993ء صفحہ 3 جلد 78/43نمبر222)
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی دیگر مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتب کی فہرست درج ذیل ہے: 1۔ سسی و پنوں (پنجابی)۔ 2۔ تبیین الحق۔ 3۔ مراة الخیال۔ 4۔ صدائے الم۔ 5۔ معیار۔ 6۔ اصول۔ 7۔ اخلاق احمدی۔ 8۔ ریاض الاخلاق۔ 9۔ سراج الاخلاق۔ 10۔ دل نواز۔ 11۔ نظم خیال۔ 12۔ بزم خیال۔ 13۔ راز الفت۔ 14۔ الفت۔ 15۔ دل سوز۔ 16۔ فن شاعری۔ 17۔ امثال۔ 18۔ مشیر باطل۔ 19۔ اساس الاخلاق۔ 20۔ زمیندارہ بنک۔ 21۔ حیات صادقہ۔ 22۔ نساء المومنین۔ 23۔ الصلوٰة۔ 24۔ نبوت۔ 25۔ خیالات۔ 26۔ یادگار حسین۔ 27۔ ایثار حسین۔ 28۔ یادِ رسول۔ 29۔ زبان۔ 30۔ اعتصام۔ 31۔ علوم القران۔ 32۔ ملت۔ 33۔ النظر۔ 34۔ جبر و قدر۔ 35۔ فنون لطیفہ۔ 36۔ چند نظمیں (زندگی) وغیرہ وغیرہ۔ 37۔ درس بیخودی۔ 38۔ مکتوبات اکبر۔ 39۔ طلاق و کثرت ازدواج۔ 40۔ قوت و محبت۔ 41۔ تنقید بر مثنوی مولانا قدوائی۔ 42۔ الوجد۔ 43۔ ذبح گائے۔ 44۔ ہستی مطلق۔ 45۔ فلسفہ۔ 46۔ صفات باری۔ 47۔ سفر نامہ وغیرہ۔ 48۔ مجموعہ مضامین کی 12 جلدیں۔
٭…٭…٭