الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
چین کے ساتھ اسلام کے ابتدائی روابط
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 7؍ستمبر2013ء میں مکرم ڈاکٹر حافظ محمد اسحٰق صاحب کے ایک انگریزی مقالے کا اردو ترجمہ شامل اشاعت ہے جس میں چین کے ساتھ اسلام کے ابتدائی روابط سے متعلق تحقیق پیش کی گئی ہے۔ یہ مقالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ اپریل 1992ء کی زینت بن چکا ہے۔
چین میں اوّلین مسلمانوں کی آمد کا ذکر یوں ملتا ہے: T‘ang خاندان کے ابتدائی ایام میں Annam کی سلطنت اور کمبوڈیا اور مدینہ اور کئی دوسرے ممالک سے اجنبی لوگوں کی ایک بڑی تعداد Canton میں وارد ہوئی۔ یہ اجنبی لوگ عرش (یعنی خدا) کی عبادت کیا کرتے تھے اور ان کے عبادت خانوں میں بتوں، مجسموں یا عکسی تصاویر کی ممانعت تھی۔ مدینہ کی سلطنت ہندوستان کے قرب و جوار میں ہے۔ اسی سلطنت سے ان اجنبیوں کے مذہب کا آغاز ہوا تھا۔ جو بدھ مت سے جداگانہ ہے۔ وہ سؤر کا گوشت نہیں کھاتے۔ شراب نوشی نہیں کرتے۔ غیرذبیحہ جانور کے گوشت کو ناپاک متصوّر کرتے ہیں۔ (Annals of Kawangtung)
مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ (مسلمان) بڑے متموّل لوگ تھے اور اپنے درمیان انتخاب شدہ سربراہ کی تابعداری کرتے تھے۔
دراصل فارس کے ایک بادشاہ فیروز نے عربوں کے خلاف جنگ کے لیے چین سے اعانت کی درخواست کی تھی لیکن شہنشاہ چین کا جواب یہ تھا کہ فارس بہت دُوردراز ہے اس لیے مطلوبہ افواج نہیں بھجوائی جاسکتیں۔
روایت ہے کہ حضرت عثمانؓ نے 651ء میں چین کے ایک سفارت کار کے واپس چین جانے کے وقت اُس کی معیت میں ایک عرب جرنیل کو بھی روانہ فرمایا تھا۔
ولید کے عہد (703ءتا715ء) کے دوران مسلمان جرنیل ہندوستان اور سپین کو بھی روانہ ہورہے تھے۔ خراسان کے مسلمان گورنر نے Oxus کو عبور کرکے بخارا، سمرقند اور نواحی علاقوں کو زیرنگیں کرلیا۔ بعدازاں اُس نے چین کی سرحدوں تک اپنی فتوحات کو پہنچا دیا۔ اس کے بعد چین اور اموی خلفاء کے درمیان بین الحکومتی تعلقات کا آغاز ہوا۔
عربوں اور چین کے مابین تعلقات زیادہ تر تجارتی اور سیاسی نوعیت کے تھے جو تیرھویں صدی میں منگول فتوحات تک جاری رہے۔ منگولوں نے بغداد کی عباسی خلافت پر بڑی بےرحمی سے حملے کیے لیکن بعد میں منگول مسلمان بھی ہوئے۔ چین نے ان منگولی حکمرانوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کر رکھا تھا۔ ان کو چین میں اشاعت اسلام میں نمایاں کامیابی بھی نصیب ہوئی۔ اس سے قبل چین کے شہری وسط ایشیا میں اور عرب اور ایشیا کے مسلمان چین میں آباد ہورہے تھے۔ ابن بطوطہ نے چودھویں صدی عیسوی میں چین کے کئی ساحلی شہروں کا بھی دورہ کیا۔ وہ کہتا ہے کہ مسلمانوں نے وہاں اُس کا دلی خیرمقدم کیا۔ مسلمانوں نے اپنی مساجد بنارکھی ہیں اور اہل چین اُن کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
Sir Thomas Walker Arnold اپنی کتاب Preaching of Islam (مطبوعہ 1896ء) میں لکھتا ہے کہ 1412ء میں وسط ایشیا کے بادشاہ شاہ رُخ بہادر کے سمرقند میں دربار میں اہل چین کے سفارت خانے کا قیام عمل میں آیا۔ تو بادشاہ نے اپنے جواب میں اہل چین کے نام قبولِ اسلام کی دعوت کو بھی شامل کیا اور چینی سفراء کی واپسی پر اُن کے ہمراہ اپنے ایلچی کے ہاتھ دو خطوط روانہ کیے۔ ایک خط عربی میں تھا جس میں توحید اور رسول کریمﷺ کے حوالے سے مذہب اسلام کی تعلیم بیان کی گئی تھی اور شریعت کے اہم اصول جن میں انصاف، خدمت خلق اور دیگر امور پر روشنی ڈالتے ہوئے اسلام کی خوبیوں کو بیان کیا گیا تھا۔
دوسرا خط فارسی میں تھا جس میں اسلام کے بنیادی عقائد بیان کرنے کے بعد بتایا کہ خداتعالیٰ کی عنایت سے رسول اللہ محمدﷺ حامل امور نبوت ہوئے تو تمام دوسری شریعتیں منسوخ کردی گئیں۔ وہ رسول اللہ اور نبی آخرالزماں تھے۔ تمام دنیا کے لیے مناسب ہے کہ اب اُن کی شریعت کی پیروی کریں۔ پھر بتایا گیا کہ کچھ عرصہ گزرا چنگیزخان نے مسلح افواج تیار کرکے مختلف اطراف میں روانہ کیں جس کے نتیجے میں بعض حکمران مسلمان ہوگئے جن میں ازبیک خان، چانی خان اور عرس خان شامل تھے۔ جن دنوں ہلاکو خان خراسان، فرات اور ان کے نواح میں لمن الملک کی کوس بجارہا تھا تو اُس کے بعض جانشین بننے والے بیٹوں نے نُورِ اسلام قبول کرلیا۔ …
مذکورہ خطوط کے حوالے سے سر ٹامس واکر آرنلڈ لکھتا ہے کہ چین کے ایک بادشاہ نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام اختیار کرلیا تھا۔ اس بات کا حوالہ ہمیں مسلمان تاجروں کے علاوہ سیّد علی اکبر سے بھی ملتا ہے جس نے پیکنگ میں پندرھویں صدی کے آخری اور سولہویں صدی کے ابتدائی کئی سال گزارے تھے۔ شہر ’کان جان خو‘ میں تیس ہزار سے زیادہ مسلمان آباد تھے۔ وہ ٹیکسوں سے مستثنیٰ تھے۔ وہ بادشاہ کی عنایات سے مسرور تھے جس نے انہیں عطیۃً زمینیں دے رکھی تھیں۔ وہ اپنے مذہب کی اتّباع میں مکمل رواداری سے شاداں و فرحاں تھے۔ اہل چین اُن کے مذہب کو بہ نظر استحسان دیکھتے تھے۔ مذہب تبدیل کرنے کی کھلی اجازت تھی۔ دارالحکومت میں ہی چار جامع مساجد تھیں اور سلطنت کے صوبوں میں مزید نوّے مساجد موجود تھیں۔ ان تمام مساجد کی تعمیر کے اخراجات کا متحمّل بادشاہ ہوا تھا۔
………٭………٭………٭………
تعارف کتاب: ’’حرفِ عاجزانہ‘‘
مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ نومبرودسمبر 2013ء میں مکرم رانا مبارک احمد صاحب کی ایک کتاب ’’حرف عاجزانہ‘‘ کا مختصر تعارف خاکسار محمود احمد ملک کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم رانا مبارک احمد صاحب اگرچہ پیشہ کے اعتبار سے ایک انجینئر ہیں لیکن اخبارات و رسائل میں آپ کے افکار تسلسل سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ قبل ازیں آپ کی پہلی کتاب ’’یادیں اور قربتیں ‘‘کے عنوان سے منظر عام پر آئی تو سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کے نام اپنے خط میں تحریر فرمایا: ’’…مَیں تقریباً ساری کتاب میں سے گزر گیا ہوں۔ مضمون تو آپ ویسے بھی اچھے لکھتے ہیں۔ اچھا ہوگیا کہ اب تک کے سب مضامین جمع ہوگئے۔ ان یادوں میں پڑھنے والوں کے لیے سبق اور اللہ پر یقین اور اس کے فضل کے واقعات بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم و فضل میں مزید جلا بخشے …۔ ‘‘
زیرنظر کتاب ’’حرفِ عاجزانہ‘‘بھی شائع شدہ مضامین کا دوسرا مجموعہ ہے جس میں بہت سی تصاویر بھی شامل ہیں۔ A5 سائز کے 236 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا انتساب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے نام ہے۔ یہ کتاب خلفائے سلسلہ کی قبولیت دعا اور شفقتوں کے واقعات، بہت سے بزرگوں اور خدامِ سلسلہ کی سیرت کے حالات، چند سفرناموں کا تذکرہ اور متعدد متفرق مگر دلچسپ اور معلوماتی مضامین پر مشتمل ہے۔ مکرم رانا صاحب موصوف کی تحریر سادگی اور سلاست کا بے باک اظہار ہے، ہر قسم کے تصنع اور بناوٹ سے پاک ہے۔ نیز دین کی محبت اور مخلوق کی خدمت کے جذبے سے سرشار نظر آتی ہے۔ نہ صرف تربیت کے مختلف پہلوؤں پر آپ کی گہری نظر ہے بلکہ یہ بھی آپ کا حسن نظر ہے کہ آپ ہر چیز میں مثبت پہلو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا آپ کی تحریر بھی آپ کی شخصیت کا ہی پرتَو ہے۔
زیرنظر کتاب میں ایک باب بعنوان ’’خلافت احمدیہ کی دعاؤں کی قبولیت‘‘ میں مکرم رانا صاحب رقمطراز ہیں:
’’16مئی 2009ء کو خاکسارکا بیٹا عطاء النور سیڑھیوں سے گرا اور دیوار کے ساتھ ٹکرا گیا جس سے بے تحاشا خون بہ نکلا۔ فوری طور پر جنرل ہسپتال ایمرجنسی آپریشن روم میں پہنچا دیا اور اُسی رات تین گھنٹے کا آپریشن کیا گیا۔ شدید خطرہ کی حالت تھی اور صرف 10فیصد بچنے کے چانسز تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کوبذریعہ فیکس دعا کی درخواست کی تو حضور کی طرف سے جواب آیا: اللہ فضل فرمائے۔ اپنے بیٹے کو حسب ذیل ہومیو پیتھی کا نسخہ بھی استعمال کروائیں اللہ آپ کے بیٹے کو کامل و عاجل شفا عطا فرمائے …۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کا تجویز فرمودہ نسخہ یہ تھا: آرنیکا اور نیٹرم سلف۔ (روزانہ ایک خوراک چار دن۔ اس کے بعد ہفتہ کے وقفہ سے دوخوراکیں )
پھر سب ڈاکٹر حیران تھے اور اس آپریشن کی کامیابی پر مبارکباد دے رہے تھے۔ بعد میں خون کا پریشر دماغ کے دوسری طرف چلا گیا اور 21مئی کو دوبارہ آپریشن کرنا پڑا۔ اس میں کامیابی کا چانس اَور بھی کم تھا۔ چنانچہ حضور کو پھر درخواستِ دعا کی۔ جس کا جواب ملا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسرا آپریشن بھی کامیاب رہا۔ پھر 29مئی کو تیسرے آپریشن کی ضرورت پڑی کیونکہ دماغ کے اوپر والے حصے میں پیپ پڑگئی تھی۔ یہ آپریشن بہت خطرناک تھا اور ڈاکٹر کامیابی پر پوری طرح مطمئن نہیں تھے۔ حضور انور کی خدمت میں درخواست دعا کی تو حضور نے دعا دی کہ اللہ تعالیٰ معجزانہ طورپر شفا اورصحت دے اورعزیز کو عمردراز بخشے۔ آخر ڈاکٹروں نے آپریشن کرکے پیپ صاف کردی اور ڈیڑھ انچ مربع ہڈی بھی نکال دی۔ ڈاکٹر خود بھی اس تیسرے آپریشن کی کامیابی پر بڑے حیران تھے اور کہتے تھے کہ یہ تو صرف دعا کا ہی اعجاز ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیٹا ہسپتال سے ڈسچارج ہوکر 16جون کو گھر آگیا۔ ‘‘
کتاب میں شامل چند مفید ابواب کے عناوین یوں ہیں: ٭… دہشت گردی سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر۔ ٭… ایمبولینس اور ریسکیو ٹیم۔ ٭… تجارت کے اصول اور ایک احمدی تاجر۔ ٭… مچھلی اور دل کا علاج۔ ٭… غصہ حرام ہے۔ ٭…شہد اور دارچینی۔ ٭… دانتوں کی خرابی۔ ٭… زیتون اور اس کا تیل۔ ٭…نیند۔ ٭…کیلا اور بلڈپریشر۔ ٭… بچے کی شخصیت۔ ٭…موٹاپے سے نجات۔ ٭… شہد کی مکھی۔ ٭… فکروغم کا انسانی صحت پر اثر۔ ٭… سیب کے چھلکے کا استعمال۔ ٭… ورزش اور دفاعی نظام۔ … وغیرہ
………٭………٭………٭………