نیکی اور تقویٰ جماعت کے غلبے کے ضامن
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
آپؑ نے یہی فرمایا ہے کہ تمام برائیوں سے اس لئے بچنا اور تمام نیکیوں کو اس لئے اختیار کرنا ہے کہ اللہ کاپیار حاصل ہو۔ اور اسی کا نام تقویٰ ہے۔ اور جب تم یہ معیار حاصل کر لو گے تو سمجھو کہ تم نے خداتعالیٰ کا پیار حاصل کر لیا ہے۔ اور جب خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہو جائے گا تو یاد رکھو کہ وہ انسانوں کی طرح پیار نہیں کرتا کہ کبھی دوستی نبھائی اور کبھی نہ نبھائی او رکبھی پرواہ نہ کی۔ بلکہ جوشخص تقویٰ پر قائم ہو جائے تو ایسے شخص کا اللہ تعالیٰ اس قدرفکر کرتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش سے پتہ لگ رہا ہو گا کہ یہ شخص وہ ہے جو تقویٰ پر قائم ہے اور ایک دنیا دار میں اور اُس میں ایک واضح فرق ہے۔ تقویٰ پر قائم شخص کو اللہ تعالیٰ سرتاپا نورانی بنا دیتا ہے۔ اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہو ہی نہیں سکتی جس سے اللہ تعالیٰ کے نور کا اظہار نہ ہو رہا ہو۔ اس کا ہر عمل، اس کا ہر فعل اور اس کی ہر حرکت اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہو رہا ہو گا۔ اور ایسا شخص جب کسی مجلس میں جائے گا، جہاں بھی جائے گا اس کا ایک رعب ہو گا۔ خداتعالیٰ کی تائید اس کے ساتھ ہوگی۔ پس آپؑ فرماتے ہیں کہ یہی تقویٰ ہے جو ہر احمدی میں ہونا چاہئے۔ اگر ہر احمدی یہ حاصل کر لے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق تم میں اور غیر میں ایک واضح فرق ظاہر فرما دے گا۔ پس ہم میں سے ہر ایک کی کوشش ہونی چاہئے کہ ان معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ جماعت احمدیہ کی فتح اور اس کا غلبہ دنیاوی ہتھیاروں کے ذریعہ سے نہیں ہونا بلکہ یہ نیکیاں اور تقویٰ ہے جو ہماری کامیابی کے ضامن ہیں۔ … اگر ہم میں تقویٰ پیدا ہو جائے گا، اگر ہم اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کر لیں گے، اگر ہم اپنے دل میں خداتعالیٰ کی محبت پیدا کر لیں گے، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں تمہیں وہ طاقتیں عطا کروں گا جن کا کوئی غیراور کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی مقابلہ نہیں کر سکتی۔ پس ہر احمدی کو چاہئے کہ اپنے اندر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق خاص تبدیلی پیدا کرے۔ اپنے تقویٰ کے معیاروں کو اونچا کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہو کر ہم نے جو یہ عہد کیا ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کریں گے، اس کی عبادت بجا لائیں گے، اس کے حکموں پر عمل کریں گے، دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے، مخلوق کے حقوق ادا کریں گے، اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھائیں گے، کسی کا حق نہیں ماریں گے، تکبر نہیں کریں گے، بیوی خاوند اور خاوند بیوی کے حقوق ادا کرے گا اور صرف اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ یہ حقوق ادا کر وتو تبھی ہم متقی کہلا سکتے ہیں۔ جب یہ سارے حقوق ادا کر یں گے تو ہی متقی کہلا سکیں گے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍ مئی 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل27؍ مئی 2005ء صفحہ 5)