حضرت مصلح موعود ؓ

جماعت احمدیہ کے عقائد (از حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) (تحریر فرمودہ مئی 1925ء) (قسط نمبر 2۔ آخری)

رؤیت الٰہی

ہمارا یہ یقین اور وثوق ہے کہ انسانی روح ترقی کرتے کرتے ایسے درجے کو حاصل کرے گی جب کہ اس کی طاقتیں موجودہ طاقتوں کی نسبت اتنی زیادہ ہوں گی کہ اسے ایک نیا وجود کہا جاسکتا ہے۔ لیکن چونکہ وہ اسی روح کی نشو ونما ہوگی اس لئے اس کا نام یہی ہوگا جو اس کو اب اس دنیا میں حاصل ہے۔ اس وقت روح اس قابل ہوجائے گی کہ اللہ کے ایسے جلوے کو دیکھے اور ایسی رؤیت اس کو حاصل ہو کہ باوجود اس کے کہ وہ حقیقی رؤیت نہ ہوگی مگر پھر بھی اس دنیا کے مقابلہ میں رؤیت اور یہ دنیا اس کے مقابلہ میں حجاب کہلانے کی مستحق ہوگی۔

نبوت اور کلام کا سلسلہ جاری ہے

ہمیں لوگوں سے یہ اختلاف ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے صرف یہودیوں میں نبوت کا سلسلہ مخصوص کیا ہوا ہے اور باوجود قرآن شریف کی متعدد آیات کی موجود گی کے وہ باقی تمام قوموں کو خدا اور اس کے نبیوں سے محروم رکھتے ہیں۔ پھر ہمیں ان لوگوں سے یہ اختلاف ہے کہ ان کا خیال ہے کہ خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر قسم کے کلام کو روک دیا ہے حالانکہ کلام شریعت کے سوا کسی قسم کا کلام رکنے کی کوئی وجہ نہیں۔ کلام شریعت کے کامل ہوجانے سے کلام ہدایت اور کلام تفسیر کی ضرورت معدوم نہیں ہوجاتی بلکہ اس کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ اگر کلام شریعت آسکتا ہے تو پھر کسی پچھلے کلام شریعت کے مخفی ہوجانے میں چنداں حرج نہیں لیکن اگر کلام شریعت آنا بند ہوجائے تو اس کی تفسیر کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے ورنہ ہدایت کی کوئی راہ نہیں رہتی۔ اگر کہا جائے کہ انسان تفسیر کرتے ہیں تو ان کی تفسیروں میں اتنا اختلاف ہوتا ہے کہ ایک ایک تفسیر میں بیس بیس متضاد خیالات بیان کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ کلام الٰہی تو یقین اور وثوق کے لئے آتا ہے امور مذہبی میں بھی اگر شک اور شبہ ہی باقی رہا تو نجات کہاں سے حاصل ہوگی۔

امت محمدیہ سے مامور

پھر ہمیں لوگوں سے یہ اختلاف ہے کہ وہ تو یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت اصلاح کے لئے موسوسی سلسلہ کے مسیح کو آسمان سے نازل کیا جائے گا اور ہم کہتے ہیں کہ باہر سے کسی آدمی کے منگوانے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہے جب کہ آپؐ ہی کے شاگرد اور آپ ہی سے فیض یافتہ انسان امت کی اصلاح کا کام کر سکتے ہیں تو باہر سے کسی آدمی کے لانے کی کیا ضرورت ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اب کسی ایسے آدمی کے آنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ دین اور مذہب کامل ہوچکا ہے اب اس قسم کے مامور کی ضرورت نہیں جو امت محمدیہ سے نہ ہو۔

ضرورت صلح

پھر ہمیں ان لوگوں سے یہ بھی اختلاف ہے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں مامور کے آنے کی غرض محض شریعت کا لانا نہیں ہوتا بلکہ جیسا کہ بتایا گیا ہے کلام الٰہی کی صحیح تفسیر اور یقین اور وثوق کا پیدا کرنا ہوتا ہے اور اپنے نمونہ سے لوگوں کی اصلاح کرنا اس کا کام ہوتا ہے۔ شریعت کے حاصل ہوجانے سے یہ ضرورت پوری نہیں ہوجاتی۔ صرف اس صورت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر قسم کے مامور کی ضرورت باطل ہوسکتی ہے جبکہ امت محمدیہؐ میں کسی قسم کا فساد پیدا ہی نہ ہوتا لیکن ذرا بھی کوئی شخص آنکھ کھول کر دیکھے تو چاروں طرف اس کو فساد ہی فساد نظر آئے گا۔ پھر کیسے تعجب بلکہ حماقت کی بات ہے کہ لوگ کہتے ہیں رسول کریم کے بعد بیماری تو ہوگی لیکن آپؐ کے بعد کوئی طبیب نہیں ہوگا۔ اگر بیماری ہوگی تو طبیب بھی ضرور ہوگا۔ اگر طبیب نہیں آتا تو بیماری بھی نہیں ہونی چاہئے۔ مگر مسلمانوں کی مذہبی، اخلاقی اور روحانی کمزوری تو اب اندھوں کو بھی نظر آرہی ہے۔

معارف قرآن کریم

پھر ہمارا ان لوگوں سے یہ اختلاف ہے کہ ہم یقین رکھتے ہیں قرآن شریف اپنے معارف اور مطالب ہمیشہ ظاہر کرتا رہتا ہے مگر ہمارے مخالف یہ کہتے ہیں کہ سب معارف پچھلے لوگوں پر ختم ہوگئے اب یہ کلام نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ایسی ہڈی کی طرح ہے جس سے سارا گوشت نوچ لیا گیا ہو۔ تعجب ہے دنیا کے پردے پر تو نئے علوم نکلیں مگر خدا کے کلام سے کوئی نیا نکتہ نہ نکلے۔

خدا تعالیٰ دعائیں سنتا ہے

پھر ہمارا یہ اختلاف ہے کہ ہم لوگ اس بات پر یقین اور وثوق رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کی دعائیں سنتا ہے مگر یہ لوگ ان باتوں کی ہنسی اڑاتے ہیں۔

نشانات

پھر ہم لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان شرائط کے ساتھ اپنی قدرت کے نشانات اب بھی ظاہر کرتا ہے جو قرآن شریف میں اس نے بتائی ہیں۔ لیکن ہمارے مخالفین کے دو گروہ ہیں۔ ایک تو وہ ہے جو کہتا ہے کہ اس تعلیم کے زمانہ میں ایسی باتیں مت کرو۔ اور دوسرا گروہ وہ ہے جو کہتا ہے خداتعالیٰ کی قدرت نمائی تبھی ہوسکتی ہے جب کہ وہ اپنے مقرر کردہ قوانین کو بھی توڑ دے اور اپنی سنت کے خلاف کرے۔ اس وجہ سے وہ ایسی باتیں دنیا میں دیکھنی چاہتے ہیں جن کی نسبت خود خدا فرماتا ہے کہ میں ایسا نہیں کرتا۔ وہ لوگ عالم کہلاتے ہوئے اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ چونکہ خدا قادر ہے اس لئے وہ جھوٹ بول سکتا ہے۔ (نعوذ باللّٰہ)حالانکہ وہ نہیں سمجھتے کہ جھوٹ بولنا تو کمزوری کی علامت ہے۔ یہ ان کے نزدیک قدرت کی عجیب دلیل ہے کہ چونکہ وہ کمزور ہے اس لئے وہ قادرنہیں۔

اسلام کی ترقی

اسی طرح ہمارا ان لوگوں سے یہ اختلاف ہے کہ یہ لوگ اپنی نادانی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوچھوڑ دیا ہے اور اسلام کو بھلادیا ہے اور اس لئے ان کو ترقی کرنے کے لئے ایسی کوشش کی ضرورت ہے جس میں شریعت اور اس کی ہدایت کی کوئی پراہ نہیں ہونی چاہیئے۔ لیکن ہم لوگ اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہی پہلے اسلام کو قائم کیا اور اب بھی وہی قائم کرے گا اور ہم اس کے وعدوں کی وجہ سے مایوس نہیں۔

بعث مابعد الموت

ہمارا ان لوگوں سےیہ اختلاف ہے کہ ہم بعث ما بعد الموت کے متعلق یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس زندگی میں انسان نئی طاقتوں کے ساتھ مبعوث کیا جاتا ہے۔ وہ اسی روح میں سے اور اسی انسان کے بعض ذرات میں سےنشوونما پاکر اس حالت کو حاصل کرتا ہے لیکن یہی ذرات اور یہی جسم وہاں نہیں جاتا۔ لیکن ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ ہم اس عقیدہ کی وجہ سے حشر اجساد کے قائل نہیں۔

جنت کی نعمتیں

ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ جنت کی نعمتیں بعینہٖ اسی رنگ میں ظاہر ہوں گی جس رنگ میں قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں۔ لیکن ہم ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہاں کا عالم ہی اور ہے اس لئے جس مادے کی چیزیں یہاں ہیں اس مادے کی چیزیں وہاں نہیں ہوں گی مگر ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ اس عقیدہ کی وجہ سے ہم جنت کے منکر ہوگئے۔

دوزخ

ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ دوزخ ایک آگ ہے لیکن ہم ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہ اس دنیا کی آگ کی قسم سے نہیں بلکہ وہ اس آگ سے کئی باتوں میں ممتاز ہے۔ وہ اپنی سختی میں اس سے بہت زیادہ ہے اور وہ انسان کے قلب کو صاف کر سکتی ہے مگر یہ آگ قلب کوصاف نہیں کرتی۔ ہمارے مخالف کہتے ہیں ہم اس عقیدہ کی وجہ سے دوزخ کے منکر ہوگئے ہیں۔

ابدی عذاب

ہمارا یہ یقین ہے کہ آخر اپنی سزاؤں کو بھگت کر خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو پانے کی قابلیت حاصل کر کے انسان دوزخ میں سے نکالے جاکر جنت میں داخل کئے جائیں گے اور سب کے سب آخر خدا تعالیٰ کی نعمت کے وارث ہوجائیں گے ہمارے مخالف کہتے ہیں اس کی وجہ سے ہم ابدی عذاب کے منکر ہوگئے ہیں۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ خدا کی رحمت کو چھوڑ کر ان کے ابدی عذاب کو کیا کریں۔

قرآن کریم کی تفسیر

یہ تو اصولی باتیں ہیں جن میں ہمیں دوسرے لوگوں سے اختلاف ہے۔ قرآن کریم کی آیات کی تفسیر میں انہیں اصول کے ماتحت پھر ایک وسیع خلیج ہمارے اور ان کے درمیان واقع ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی تنگ حوصلگی کے ماتحت قرآن کریم کے معنی کرتے ہیں لیکن ہم قرآن کریم کو الہام کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔

(الفضل مورخہ 14 مئی 1925ء)

(جماعت احمدیہ کے عقائد، انوار العلوم جلد9 صفحہ49 تا56)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button