امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ واقفات نو (لجنہ اماء اللہ) امریکہ کی (آن لائن) ملاقات
اگر آپ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تو آپ ہمیشہ اعتدال پسند ہوں گے۔ اسلام میں کوئی ایسی تعلیم نہیں ہے جو آپ کو شدت پسندی کی طرف لے کر جائے
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 28؍مئی 2022ء کو واقفات نو (لجنہ اماء اللہ) امریکہ سے آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ واقفات نو نے مسجد بیت الرحمٰن میری لینڈ، امریکہ سے آن لائن شرکت کی۔
اس ملاقات کا آغاز حسب روایت تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ بعد ازاں ممبرات واقفات نو کو اپنے عقائد اور عصر حاضر کے مسائل کی بابت حضورِانورسے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔
ایک واقفۂ نَو نے سوال کیا کہ ہم اپنی زندگی میں اعتدال کیسے حاصل کرسکتے ہیں اور بغیر شدت پسند بنے کیسے ثابت قدم رہنا سیکھ سکتے ہیں؟
حضورِانورنے فرمایا کہ دیکھیں اسلام متوازن مذہب ہے۔ اگر آپ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تو آپ ہمیشہ اعتدال پسند ہوں گے۔ اسلام میں کوئی ایسی تعلیم نہیں ہے جو آپ کو شدت پسندی کی طرف لے کر جائے۔ اسلام کہتا ہے کہ آپ نے دو حقوق ادا کرنے ہیں۔ ایک اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور دوسرا آپ کے ساتھی لوگوں کا حق ہے۔ یہ دو ذمہ داریاں ہیں جو آپ نے ادا کرنی ہیں۔ اگر آپ حقوق اللہ ادا کر رہی ہیں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میرے سامنے جھکو، روزانہ پانچ نمازیں ادا کرو اور اگر ممکن ہو تو آپ نفل بھی پڑھ سکتے ہیں۔ صرف اور صرف ایک قادر مطلق اللہ تعالیٰ پر ایمان لائو۔ ایمان لائو کہ محمدﷺ ہمارے نبی ہیں اور رمضان کے مہینہ میں 29یا 30 دن تک روزے رکھو۔ یہ آپ کے فرائض ہیں اور یہ حقوق اللہ ہیں۔ اور پھر مختلف اوقات میں اگر آپ کے لیے حقوق اللہ ادا کرنا ممکن نہ ہو اور آپ حقوق اللہ مکمل طور پر ادا نہ کرسکیں یعنی عبادت کرنا، روزانہ پانچ فرض نمازیں ادا کرنا، پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر آپ بیمار ہیں تو آپ نماز بیٹھ کر بھی پڑھ سکتےہیں۔ اگر آپ بستر پر ہی ہوں مگر آپ کا دماغ صحیح ہوتو آپ بستر پر لیٹے لیٹے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اگر آپ رمضان کے مہینہ میں بیماری یا کسی اور وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتیں تو آپ یہ بعد میں جب حالات اجازت دیں رکھ سکتی ہیں۔ اور پھر آپ پر حقوق العباد یہ ہیں کہ ہمیشہ لوگوں کے لیے مہربان اور مددگار رہیں۔ ان کے لیے دعا کریں۔ بغیر رنگ و نسل کے کسی قسم کے امتیاز کے اگر انہیں آپ کی مدد کی ضرورت ہو تو ان کی مدد کریں ۔ اگر آپ یہ حقوق ادا کر رہی ہیں تو میرا خیال نہیں ہے کہ شدت پسندی کا شائبہ بھی آپ کے ذہن میں آئے۔
ایک واقفۂ نَو نے عرض کیا کہ امریکی سپریم کورٹ ایک پرانے فیصلے کو منسوخ کر سکتی ہے جس میں اسقاط حمل کو آئینی حق قرار دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے انہوں نے سوال کیا کہ کیا اسلام ریپ یا ماں اور بچے کی صحت کے مسائل کی صورت میں اسقاط حمل کی اجازت دیتا ہے؟
حضورِانورنے فرمایا کہ دیکھیں اسلام کہتا ہے کہ بچوں کو اس ڈر کی وجہ سے کہ ان کی نگہداشت کیسے ہوگی یا مالی تنگی کی وجہ سے انہیں قتل نہ کیا جائے۔ یہ واحد بات ہے جس میں اسلام اسقاطِ حمل سے منع کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام کہتا ہے کہ اگر عورت کی صحت اچھی نہیں ہے تو اسقاطِ حمل کیا جاسکتا ہے۔ اگر بچہ مناسب طور پر نہ بن رہا ہو تو حمل کے آگے کے مرحلے میں بھی اسقاطِ حمل کیا جاسکتا ہے۔ ریپ کی صورت میں بھی اگر خاتون یہ محسوس کرے کہ وہ ہونے والے بچے کی پرورش کا بوجھ، معاشرے کے رد عمل کی وجہ سے نہیں اٹھا سکتی یعنی اگر یہ خیال ہو کہ معاشرہ زندگی کے ہر موڑ پر خاتون پر انگلیاں اٹھاتا رہے گا اور بچے کی ولادت کے بعد بھی بچے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا تو ماں حمل ساقط کرانے کا فیصلہ خود لے سکتی ہے، اسلام میں اس کی اجازت ہے۔ لیکن اس خدشے سے کہ ماں بچے کی پرورش کیسے کرے گی، اس بنیاد پر حمل ساقط کرانا جائز نہیں۔ یہ بنیادی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہارا رازق ہوں میں ہی تمہیں کھانا مہیا کرتا ہوں اور میں ہی رزق دینے والا ہوں۔
ایک واقفۂ نَو نے پوچھا کہ معاشرے میں پھیلنے والے منفی اور غیر اخلاقی اثرات کے پیش نظر ایک اچھی اور اخلاقی حالت کو کیسے برقرار رکھا جائے۔
اس سوال کے جواب میں حضورِانورنے فرمایا کہ اگر آپ سچے مسلمان ہیں، اگر آپ ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں، اگر آپ قرآن کریم کو پڑھتے ہیں اور آپ قرآن کریم میں موجود تعلیمات کو جانتے ہیں، اگر آپ بیعت کی روح کو جانتے ہیں اور اگر آپ خلیفہ وقت کی دی گئی ہدایات کی پیروی کر رہے ہیں تو آپ کو ایسی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ آپ کو صرف یہ دعویٰ ہی نہیں کرنا چاہیے کہ آپ مسلمان ہیں، بلکہ آپ کو یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا احکام دیے گئے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات کیا ہیں؟ اگر ہم واقعی اس پر عمل کرتے ہیں اور ہم اپنے ماحول، اپنے اردگرد کی اصلاح کریں گےتو یہ عوامل (منفی طور پر) ہم پر اثر انداز نہیں ہوںگے۔ اور اللہ تعالیٰ سے بھی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ سیدھے راستے پر چلائے۔
حضورِانورنےمزید فرمایا کہ آپ کو ہمیشہ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے، آپ کو اچھے آداب کا خیال رکھنا چاہیے اور ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔ تو یہ تعلیمات ہیں۔ اگر ہم اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور حقوق العباد ادا کر رہے ہیں جو ہم سب پر ایک دوسرے کے تناظر میں فرض ہیں، تو آپ دوسروں کے اعمال سے متاثر ہونے کی بجائے ان پر اثر انداز ہوں گے۔
ایک واقفۂ نَو نے عرض کیا کہ کچھ عیسائی دوستوں نے کہا کہ جب انہوں نے یسوع مسیح کے نام پر دعا کی تو ان کی دعاؤں کا جواب دیا گیا تو بطور مسلمان جو اللہ تعالیٰ کو ایک اور قادرِ مطلق خدا مانتے ہیں ہمیں انہیں اس کا جواب کیسے دینا چاہیے۔
حضورِانورنے فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ کیا یسوع مسیح کی پیدائش سے پہلے لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتی تھیں؟ اس وقت لوگ کیا کیا کرتے تھے؟ یسوع مسیح صرف 2000 سال پہلے آئے تھے۔ اس سے پہلے لوگوں کی دعائیں کون سنتا تھا؟ یا انہیں قبول نہیں کیا گیا؟ اور اب، اگر یسوع مسیح خدا ہے تو پھر خداتعالیٰ کا کیا فائدہ اور ضرورت ہے؟
حضورِانورنے مزید فرمایا کہ عیسائیوں کے نزدیک یسوع مسیح بیٹا ہے اور کون زیادہ طاقتور ہے، بیٹا یا باپ؟ …جب باپ ہماری دعائیں قبول کرنے کے لیے موجود ہے، تو ہم کیوں بیٹے کے پاس شفاعت کے لیے جائیں؟ ہم براہ راست باپ سے کیوں نہیں پوچھتے، جس نے خود کو پیش کیا ہے کہ ہاں، میں یہاں کھڑا ہوں، مجھ سے دعا کرو اور میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا؟ تو، آپ دیکھیں، ان کے عقیدے کے پیچھے کوئی منطق نہیں ہے۔
حضورِانورنے مزید فرمایا کہ آپ کو جماعت کا مزید لٹریچر پڑھنا چاہیے۔ پھر آپ کو معلوم ہو گا کہ بعض اوقات جب کسی کی مشکلیں دور ہو جاتی ہیں اور انہیں مشکلات سے نجات مل جاتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ہندو بھی بت پرست ہیں۔ وہ مختلف دیوتاؤں کے سامنے اپنی نمازیں ادا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض مسلمانوں میں، ایشیائی ممالک میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ کچھ مقدس لوگ ان کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔ اسی لیے وہ ان کی قبروں پر سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کا تو یہ بھی عقیدہ ہے کہ جب وہ ان لوگوں سے کوئی چیز مانگتے ہیں اور ان کی قبروں پر سجدہ کرتے ہیں تو ان کی دعا اللہ تعالیٰ سے مانگنے سے بہتر ہوتی ہے۔ اس میں کوئی منطق نہیں ہے۔
ایک واقفۂ نَو نے حضورِانورسے یہ بھی پوچھا کہ حضورِانوراپنی صحت کا خیال رکھنے کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں؟
حضورِانورنے فرمایا کہ میں ماضی میں کچھ ورزش کرتا تھا، لیکن اب نہیں کرتا۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں اپنی صحت کا خیال رکھنے کے لیے اپنی صحت کی بہتری کے لیے کوئی بھی احتیاطی تدابیر لیتا ہوں۔ صبح سے شام تک کام ہوتا ہے، اس لیے مجھے ورزش یا کوئی اور کام کرنے کا وقت نہیں ملتا۔ لیکن آپ تو جوان ہیں اس لیے آپ کو اپنی صحت کا ضرور خیال رکھنا چاہیے۔ یہ آپ کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور آپ کو پوری دنیا کی اصلاح کا کام سونپا گیا ہے۔ اگر آپ صحت مند ہوں گی، پھر ہی آپ اپنا کام احسن رنگ میں کرسکیں گی۔
ملاقات کے آخر میں حضورِانورنے فرمایا اللہ حافظ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔