مذہب اور سائنس(قسط نمبر 1)
(خطاب حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمودہ 3؍مارچ 1927ءبمقام حبیبیہ ہال، لاہور)
3؍مارچ1927ءکو حضرت مصلح موعودؓ نے ڈاکٹر سرمحمد اقبال کی زیر صدارت ، اسلامیہ کالج کی سائنس یونین کی درخواست پر حبیبیہ ہال لاہور میں ’’مذہب اور سائنس‘‘ کے عنوان پر ایک بصیرت افروز لیکچر ارشاد فرمایا۔
یہ خیال عام ہے کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔تاہم اس لیکچر میں حضورؓ نے اس خیال کی تردید فرمائی ہے اور اس نکتہ کو بیان فرمایا کہ سچے مذہب اور درست سائنس میں کوئی تصادم نہیں کیونکہ مذہب خدا تعالیٰ کا قول ہے جبکہ سائنس خدا تعالیٰ کا فعل ہے۔ پس خدا کے قو ل او ر فعل میں ہرگز کوئی تضاد نہیں پایا جا سکتا۔ حضرت مصلح موعودؓ کا یہ معرکہ آراء لیکچر ہدیہ قارئین ہے۔(ادارہ)
تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
جیسا کہ اشتہار میں شائع کیا گیا ہے اس مجلس میں مَیں مذہب اور سائنس کے متعلق کچھ بیان کروں گا۔ بادی النظر میں اس مضمون پر بحث کے لئے ایک ایسے آدمی کا کھڑا ہونا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے جو ان دونوں علوم کے متعلق کامل واقفیت رکھتا ہو۔ میں عمر کے بیشتر حصہ کو اور اوقات میں سے اکثر وقت کو مذہب کی تحقیق میں صرف کرتا ہوں اور میرےلئے سائنس کے متعلق باریک مطالعہ کے لئے ایسی فرصت کا ملنا ناممکن ہے جو کسی فن کا ماہر ہونے کے لئے ضروری ہے۔ مگر اس امر کے باوجود جو بحث کرنی ہے وہ چونکہ اصول کے متعلق ہے اس لئے میں نے اس مضمون پر لیکچر دینا منظور کرلیا ہے۔
مذہب اور سائنس کا تصادم
مذہب اور سائنس کا مقابلہ بہت پرانا چلا آتا ہے۔ ترقیٔ انسانی کے مختلف دوروں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقابلہ ہمیشہ سے چلا آیا ہے۔ سائنس کے ماہروں کو جادوگر کہا گیا، ان پر سختی کی گئی، بعضوں کو جلایا گیا اور طرح طرح کے ظلم ان پر مذہب کے حامیوں کی طرف سے کئے گئے۔ اسی طرح مذاہب کے بانیوں کو سائنس دان اور فلسفی مجنون کہتے چلے آئے۔ ان کو ہمیشہ مرگی، ہسٹیریا اور مالیخولیا کے مریض تصور کرتے رہے۔ چنانچہ سائنس کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں پر مذہبی لوگوں کے مظالم بخوبی روشن ہیں اور مذہب کی تاریخ کو جاننے والوں کو فلسفیوں کے یہ ناموزوں القاب خوب معلوم ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ مقابلہ کیوں ہے اور یہ تصادم کس وجہ سے ہے؟ آیا کوئی معقول وجہ اس بات کی ہے کہ سائنس مذہب سے ٹکرائے۔ کیا مذہب واقعی سائنس کے خلاف تعلیم دیتاہے؟ اس بات کے فیصلہ کی آسان صورت کہ آیا ان دونوں میں حقیقی تصادم ہے یانہیں، یہ ہے کہ دونوں کی تعریف بتا دی جائے۔ یعنی مذہب کسے کہتے ہیں اور سائنس کس چیز کا نام ہے۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دو شخص جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔ ان دونوں کا نقطہ نگاہ ایک ہی ہوتا ہے۔ مگر الفاظ کی غلطی سے ٹھوکر لگ جاتی ہے۔ اور محض لفظی نزاع سے لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ مولانا روم اپنی مثنوی میں ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ چار شخص اکٹھے جا رہے تھے۔ انہوں نے مل کر مزدوری کی جس کے عوض میں انہیں کچھ پیسے ملے۔ اس پر انہوں نے مشورہ کیا کہ ان پیسوں سے کیا چیز خرید کر کھائی جائے۔ ایک نے کہا۔ ہم تو منقہ خریدیں گے۔ دوسرے نے کہا نہیں ہم تو عِنَبْ لیں گے۔ تیسرا بولا ہمیں تو انگور بہت پسند ہیں۔ اور چوتھا کہنے لگا میں تو داکھ کھاؤں گا۔ اس اختلاف پر ان میں جھگڑا ہوگیا۔ پاس سے ایک شخص گزرا۔ اس نے جھگڑے کا سبب دریافت کیا۔ معلوم ہوا کہ چیز ایک ہی ہے محض لفظی نزاع ہے اور زبانوں کے اختلاف سے مختلف نام لے رہے ہیں۔ اس نے بازار جاکر انگور خریدے اور ان کے آگے رکھ دیئے۔ سب نے مل کر کھائے اور اس راہ گزر کی عقلمندی کی داد دی۔ پس معلوم ہوا کہ بعض دفعہ دو چیزوں میں حقیقی تصادم نہیں ہوتا کیونکہ چیز ایک ہی ہوتی ہے اور محض الفاظ کے اختلاف کی وجہ سے ٹکراؤ معلوم ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
مذہب کی تعریف
مذہب کی تعریف یہ ہے۔ خدا تعالیٰ سے ملنے کا وہ راستہ جو خود اس نے الہام کے ذریعہ دنیا کو بتایا ہو۔ مذہب کے معنی ہی عربی زبان میں راستہ کے ہیں اور دین کے معنی ہیں طریقہ۔
سائنس کی تعریف
سائنس کی اصولی تعریف یہ ہے۔ وہ علوم جو منظم اصول کے ماتحت ظاہر ہوئے ہوں اور ظاہری صداقتوں سے جن پر استدلال کیا گیا ہو یا پھر اس سے مراد وہ مادی حقائق ہیں جن کی بنیاد مشاہدہ اور تجربہ پر ہو یعنی استدلال صحیحہ سے بعض حقائق معلوم کئے جائیں۔
مذہب اور سائنس کی اس تعریف کے ماتحت کیا تصادم ممکن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر مذہب اور سائنس کی یہی تعریف ہے جو ابھی بتائی گئی ہے تو پھر ان دونوں میں تصادم نہیں اور تصادم نہیں ہو سکتا۔ مذہب کی حقیقی تعریف یہی ہے ورنہ مذہب سائنس کے تصادم سے بچ نہ سکےگا۔ مثلاً اگر مذہب کی یہ تعریف کی جائے کہ انسان کے دماغ کی وہ ارتقائی حالت جس پر پہنچ کر وہ علمی ارتقاء سے بعض ایسی باتیں معلوم کر لیتا ہے جو دوسرے معلوم نہ کر سکتے تھے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں یہ کہاجائے کہ مذہب قلب غیر عامل (Sub Concinnous Mind) کی نشوونما (Development) کا نتیجہ ہے تو سائنس کا دائرہ بھی یہی ہو گا۔ یعنی وہ علوم جو غورو فکر کا نتیجہ ہوں اور اس تعریف کے ماتحت مذہب اور سائنس کا دائرہ الگ الگ نہیں ہوسکتا۔ اور اگر مذہب کے یہ معنی ہیں کہ وہ خیالات جو جذبات کا نتیجہ ہوں اور کسی اصول پر ان کی بنیاد نہ ہو تو وہ واہمہ اور قوت متخیلہ کا نتیجہ ہیں نہ کہ مذہب۔ ان کو تو زیادہ سے زیادہ لطائف کہہ سکتے ہیں جن پر بحث کی ضرورت نہیں۔ بس مذہب اگر قلب کے ان خیالات کا نام رکھا جائے جو سب کانشس مائینڈ (Sub Concinnous Mind) کے ارتقاء کا نتیجہ ہوں تو وہ سائنس ہی ہے اور مذہب سے جدا نہیں۔ ہاں اگر کوئی ایسی بات ہو جس کی بنیاد علم پر نہ ہو۔ محض دل کے خیالات ہوں تو وہ وہم ہے اور غیرحقیقی چیز ہے نہ کہ مذہب۔
مذہب اور سائنس میں فرق
مذہب ان صداقتوں کا نام ہے جو لقائے الٰہی سے متعلق ہیں۔ اور ان کا علم کائنات عالم کے صانع نے الہام کے ذریعہ دیا ہے۔ اور سائنس ان نتائج کا نام ہے جو کائنات عالم پر انسان خود غور کر کے اور تدبر کرنے کے بعد اخذ کرتا ہے…مذہب کے بعض حقائق بھی عقل سے معلوم ہو سکتے ہیں مگر سائنس کی بنیاد محض غور و فکر اور تجربہ و مشاہدہ پر ہے۔
اب اس تعریف کے ماتحت مذہب اور سائنس میں مقابلہ ہی کوئی نہیں۔ کیونکہ مذہب خدا کا کلام ہے۔ اور سائنس خدا کافعل۔ اور کسی عقل مند کے قول اور فعل میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔ ہاں اگر کوئی جھوٹاہو یا پاگل ہو تو اختلاف ہوگا۔ خدا کے متعلق دونوں باتیں ممکن نہیں کیونکہ خدا ناقص العقل یا ناقص الاخلاق نہیں۔ پس خدا کے قول اور فعل میں فرق نہیں اسی لئے مذہب اور سائنس میں بھی تصادم نہیں۔
اس جگہ سوال ہو سکتا ہے کیا واقعی خدا موجود ہے جو کلام کرتا ہے؟ مگر اس وقت خدا کے وجود پر بحث نہیں۔ اس لئے فرض کر لو کہ خدا ہے اوراس کی طرف سے تعلیم بھی آئی ہوئی ہے۔ پس اگر واقع میں مذہب کوئی چیز ہے تو اس کا سائنس سے تصادم بھی نہیں ورنہ مذہب کا ہی انکار کرناہو گا۔ جب تک مذہب کا نام دنیا میں موجود ہے ماننا پڑے گا کہ خدا بھی ہے۔
تصادم کی وجہ
اگر مذہب اور سائنس میں تصادم ممکن نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان میں مقابلہ چلا آیا ہے۔ آخر ان میں جو جھگڑا ہے اس کی کوئی وجہ ہو نی چاہئے۔ کیا سائنسدانوں پر یونہی ظلم کئے گئے۔ ان کو بلا وجہ قتل کیا گیا اور جلایا گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تصادم حقیقی نہیں۔ سچا مذہب سائنس سے ہر گز نہیں ٹکراتا اور سچی سائنس مذہب کے خلاف نہیں ہو سکتی کیونکہ مذہب خدا کا قول ہے اور سائنس خدا کا فعل۔
پس خدا کے قول اور فعل میں حقیقی تصادم نہیں ہو سکتا۔ اگر تصادم ہو تو ماننا پڑے گا یا تو مذہب کی ترجمانی غلط ہوئی ہے۔ (کیونکہ مذہبی احکام دینے والا تو نہ جھوٹا ہے اور نہ پاگل) یعنی لوگوں نے مذہب کو غلط سمجھا۔ یا پھر خدا کے فعل (سائنس) کے سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ ورنہ مذہب اورسائنس دونوں مُنَزَّہْ عَنِ الْخَطَاءِ ہستی کی طرف سے ہیں۔ جس کے قول اور فعل میں تضاد ممکن نہیں۔ پس معلوم ہوا کہ ہمارے غلط Interpretation(ترجمانی) کی وجہ سے تصادم ہوا ہے۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ ظرف کے ساتھ مل کر چیز نئی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ مثلاً پانی ہے اسے اگر گول برتن میں ڈالا جائے تو گول شکل اختیار کر لے گا اور اگر چپٹے برتن میں ڈالو تو چپٹا نظر آئے گا۔ یہی تقریر جو اس وقت میں کر رہا ہوں۔ اسے ہر شخص الگ الگ طرز پر بیان کرے گا۔ اور اس طرح میرے بیان میں اختلاف نظر آئے گا۔ مگر یہ ہماری اپنی سمجھ کا فرق ہو گا۔ گویا Interpretation الگ الگ ہوں گے۔ پس مذہب اور سائنس میں تصادم ہو تو ماننا پڑے گا کہ یا تو خدا تعالیٰ کے قول کے سمجھنے میں غلطی لگی ہےیا پھر خدا تعالیٰ کے فعل کے سمجھنے میں ٹھوکر لگی ہے۔ مثلاً پانی کے متعلق پہلے سائنس دانوں کا خیال تھا کہ یہ مفرد چیز ہے مگر اب ثابت ہوا ہے کہ یہ مرکب ہے۔ اس وجہ سے کیا پہلوں کو پاگل کہہ دو گے۔ فرض کرو قرآن کہتا کہ پانی مرکب ہے تو کیا سائنس دان اس وقت نہ کہتے کہ سائنس سے ٹکرارہا ہے۔ حالانکہ اس وقت سائنس کی ترجمانی میں وہ خود غلطی کھا رہے تھے۔
اسی طرح دنیا کی عمر قرآن سے7ہزار سال ثابت نہیں۔ محض لوگوں نے ایسا سمجھ رکھا ہے۔ اب یہ بات سائنس کے خلاف ہے۔ مگر یہاں پر مذہب کے Interpretation میں غلطی کی گئی ہے نہ یہ کہ قرآن حقیقی سائنس کے خلاف کہہ رہا ہے۔ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی نے کتاب فتوحات مکیہ میں لکھا ہے کہ مجھے الہام کے ذریعہ بتایا گیا تھا کہ اہرام مصر لاکھ سال کے بنے ہوئے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ ہمارا دماغ بعض دفعہ خدا تعالیٰ کے فعل اور کبھی خدا تعالیٰ کے قول کے سمجھنے میں غلطی کر جاتا ہے جس سے سائنس اور مذہب میں اختلاف نظر آتا ہے ورنہ اگر واقعہ میں مذہب خدا کی طرف سے ہے اور سائنس اس کا فعل ہے تو پھر ٹکراؤ نہیں ہو گا۔ سائنس تو مذہب کی مؤید ہونی چاہئے نہ کہ خلاف۔ کیونکہ فعل ہمیشہ قول کا مؤید ہوا کرتا ہے نہ کہ مخالف۔ پس سائنس کی کوئی تحقیق مذہب کے خلاف نہیں ہو گی۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے۔ خدا کے کلام کی آپ کے عمل سے تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے صحابہ نے دریافت کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے۔ تو انہوں نے جواب دیا: كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآن( مسند احمد بن حنبل جلد6 صفحہ 91 مطبوعہ بیروت 1978ء)آپؐ کے اخلاق وہی تھے جو قرآن نے بیان کئے ہیں۔ پس سچائی میں قول اور فعل ٹکراتے نہیں۔ اگر مذہب خدا کی طرف سے ہے تو سائنس ضرور اس کی مؤید ہو گی۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کے کلام پر غور کرنے سے سائنس کی تائید ہو گی نہ کہ مخالفت۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ(الانعام: 35) یعنی خدا کے کلام میں جھوٹ نہیں ہو سکتا اس میں جتنا غور کرو گے سچائی ہی سچائی نکلے گی۔ پھر فرماتا ہے: وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا (الاحزاب: 63) یعنی خدا کے عمل میں بھی غلطی نہیں ہے۔ گویا خدا کے کلام (مذہب) اور اس کے فعل (سائنس)پر جتنا بھی غور کرو گے کبھی اس کی بات کو اس کے عمل کے خلاف نہ پاؤ گے۔
(جاری ہے)