خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 10؍جون 2022ء
حضرت ابوبکرؓنے فرمایا اے ابوخیثمہ! کیا خبر ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ اے خلیفہ رسول! اچھی خبر ہے۔اللہ نے ہمیں یمامہ پر فتح عطا فرمائی ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓنے سجدہ کیا
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
جنگِ یمامہ کے حالات و واقعات کا تفصیلی بیان
مسیلمہ کذاب کے قتل کے واقعہ کا بیان
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 10؍جون 2022ء بمطابق 10؍احسان 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذکر میں
جنگِ یمامہ کے بارے میں ذکر
چل رہا تھا۔ اس بارے میں مزید یوں بیان ہوا ہے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے عَبَّاد بن بِشر کوکہتے ہوئے سنا کہ اے ابوسعید! جب ہم بُزَاخہسے فارغ ہوئے تو اس رات مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ گویا آسمان کھولا گیا ہے پھر مجھ پر بند کر دیا گیا ہے۔ اس سے مراد شہادت ہے۔ ابوسعید کہتے ہیں مَیں نے کہا ان شاء اللہ جو بھی ہو گا بہتر ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ یمامہ کے روز مَیں آپ کو دیکھ رہا تھا اور آپ انصار کو پکار رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہماری طرف آؤ۔ اس پر چار سو آدمی واپس آئے۔ براء بن مالک اور ابودُجانہ اورعَبَّادبن بِشر ان میں آگے آگے تھے یہاںتک کہ وہ سب باغ کے دروازے پر پہنچ گئے۔ مَیں نے عَبَّادبن بِشرکی شہادت کے بعد انہیں دیکھا کہ آپ کے چہرے پر بہت زیادہ تلوار کے نشان تھے مَیں نے آپ کو آپ کے جسم پر موجود ایک علامت سے پہچانا۔
پھر
حضرت ام عمارہؓ کا ذکر
آتا ہے۔ ام عمارہ جو تاریخِ اسلام کی بہت بہادر خواتین میں سے ایک صحابیہ تھیں ان کا نام نُسَیْبہبنت کعب تھا۔ یہ غزوۂ احد میں بھی شریک ہوئیں اور نہایت پامردی سے لڑیں۔ جب تک مسلمان فتح یاب تھے وہ مشک میں پانی بھر بھر کر لوگوں کو پلا رہی تھیں لیکن جب شکست ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اور سینہ سپر ہو گئیں۔ کفار جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھتے تو یہ تیر اور تلوار سے روکتی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں خود فرمایا کہ مَیں احد میں ان کو اپنے دائیں اور بائیں برابر لڑتے ہوئے دیکھتا تھا۔ ابن قمِئَہجب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا تو ام عمارہؓ نے اس کو بڑھ کر روکا۔ چنانچہ اس کے وار سے حضرت ام عمارہؓ کے کندھے پر گہرا زخم آیا۔ انہوں نے بھی تلوار ماری لیکن وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا اس لیے کارگر نہ ہوئی۔ بہرحال یہ ام عمارہ کا تاریخی مقام ہے یہ بیان کرتی ہیں کہ ان کے بیٹے عبداللہ نے مسیلمہ کذاب کو قتل کیا۔ حضرت ام عمارہؓ اس روز خود بھی جنگِ یمامہ میں شامل تھیں اور اس میں ان کا ایک بازو کٹ گیا تھا۔ حضرت ام عمارہؓ کے اس جنگ میں شامل ہونے کی وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ ان کے بیٹے حبیب بن زید جو حضرت عمرو بن عاصؓ کے ساتھ عُمان میں تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی یہ عُمان میں تھے اور یہ خبر عمرو تک پہنچی تو وہ عُمان سے لوٹے۔ راستے میں مسیلمہ سے ان کا سامنا ہوا۔ حضرت عمرو بن عاصؓ آگے نکل گئے۔ حبیب بن زید اور عبداللہ بن وہب پیچھے تھے ان دونوں کو مسیلمہ نے پکڑ لیا اور کہا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ مَیں اللہ کا رسول ہوں؟ عبداللہ بن وہب نے کہا ہاں۔ مسیلمہ نے ان کو لوہے کی زنجیروں میں قید کرنے کا حکم دیا۔ ان کو یقین نہیں آیا، خیال تھا کہ شایدجان بچانے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ بہرحال پھر حبیب بن زید سے کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ مَیں اللہ کا رسول ہوں؟ انہوں نے جواب دیا کہ مَیں سنتا نہیں۔ اس نے پھر کہا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ آپؓ نے کہا ہاں۔ مسیلمہ نے ان کے بارے میں حکم دیا تو ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے اور جب بھی ان سے وہ کہتا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ مَیں اللہ کا رسول ہوں تو وہ کہتے کہ مَیں سن نہیں سکتا۔ اور جب وہ یہ کہتا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں تو آپؓ کہتے ہاں۔ یہاںتک کہ
اس نے آپؓ کا ایک ایک عضو کاٹ ڈالا۔ آپؓ کے ہاتھ کندھے کے جوڑ سے کاٹے گئے۔ آپؓ کی ٹانگیں گھٹنوں سے اوپر تک کاٹ دیں پھر آپؓ کو آگ میں جلا دیا۔ اس سارے واقعہ کے دوران نہ تو آپؓ اپنی بات سے پیچھے ہٹے اور نہ مسیلمہ اپنی بات سے پیچھے ہٹا یہاں تک کہ آپؓ آگ میں شہید ہو گئے۔
ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت حبیبؓ مسیلمہ کے پاس جب خط لے کر گئے تو اس وقت اس نے حضرت حبیبؓ کو اس طرح ایک ایک عضو کاٹ کے شہید کیا اور پھر آگ میں جلا دیا۔ جب حضرت ام عمارہؓ کو اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر ملی تو انہوں نے قسم کھائی کہ وہ خود مسیلمہ کذاب کا سامنا کریں گی اور یا اس کو مار ڈالیں گی یا خود خدا کی راہ میں شہید ہو جائیں گی۔
جب حضرت خالد بن ولیدؓ نے یمامہ کے لیے لشکر تیار کیا تو ام عمارہؓ حضرت ابوبکر صدیق ؓکی خدمت میں حاضر ہوئیں اور جنگ میں شمولیت کے لیے آپؓ سے اجازت طلب کی۔ حضرت ابوبکرؓنے فرمایا کہ آپ جیسی خاتون کے جنگ کے لیے نکلنے میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی۔ اللہ کا نام لے کر نکلیں۔ اس جنگ میں ان کا ایک اَور بیٹا عبداللہ بھی شریک تھا۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ جب ہم یمامہ پہنچے تو شدید جنگ ہوئی۔ انصار نے مدد کے لیے پکارا اور مسلمان مدد کے لیے پہنچے۔ جب ہم باغ کے سامنے پہنچے تو باغ کے دروازے پر اژدہام ہو گیا اور ہمارے دشمن باغ میں ایک طرف تھے اور اس جانب تھے جس طرف مسیلمہ تھا۔ ہم اس میں زبردستی گھس گئے اور کچھ دیر تک ہم نے ان سے جنگ کی۔ اللہ کی قسم! مَیں نے ان سے زیادہ اپنی مدافعت کرنے والا نہیں دیکھا اور مَیں نے دشمن خدا مسیلمہ کا قصد کیا کہ اسے پاؤں اور دیکھوں۔ مَیں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر مَیں نے اسے دیکھ لیا تو مَیں اس کو چھوڑوں گی نہیں۔ اس کو ماروں گی یا خود مر جاؤں گی۔ لوگ آپس میں حملہ آور ہوئے ان کی تلواریں آپس میں ٹکرانے لگیں گویا کہ وہ بہرے ہو گئے اور سوائے تلوار کی ضرب کی آواز کے اَور کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ یہاں تک کہ مَیں نے اللہ کے دشمن کو دیکھا۔ مَیں نے اس پر حملہ کر دیا۔ ایک شخص میرے سامنے آیا اس نے میرے ہاتھ پر ضرب لگائی اور اسے کاٹ دیا۔ اللہ کی قسم! مَیں ڈگمگائی نہیں تاکہ مَیں اس خبیث تک پہنچ جاؤں اور وہ زمین پر پڑا تھا اور مَیں نے اپنے بیٹے عبداللہ کو وہاں پایا اس نے اسے مار دیا تھا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ
حضرت ام عمارہؓ بیان کرتی ہیں کہ میرا بیٹا اپنے کپڑے سےاپنی تلوار کو صاف کر رہا تھا مَیں نے پوچھا کیا تم نے مسیلمہ کو قتل کیا ہے؟اس نے کہا ہاں اے میری والدہ۔
مَیں نے اللہ کے سامنے سجدہ شکر کیا حضرت ام عمارہؓ کہتی ہیں کہ اللہ نے دشمنوں کی جڑ کاٹ دی۔ جب جنگ ختم ہو گئی اور مَیں اپنے گھر واپس لوٹی تو حضرت خالد بن ولیدؓ ایک عرب طبیب کو میرے پاس لے کر آئے۔ اس نے ابلتے ہوئے تیل کے ساتھ میرا علاج کیا۔ اللہ کی قسم! یہ علاج میرے لیے ہاتھ کٹنے سے زیادہ تکلیف دہ تھا۔ حضرت خالدؓ میرا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے اور ہم سے حسن سلوک کرتے تھے۔ ہمارا حق ہمیشہ یاد رکھتے تھے اور ہمارے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کا خیال رکھتے تھے۔ عَبَّادکہتے ہیں مَیں نے کہا اے میری دادی! جنگِ یمامہ میں مسلمانوں کے زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ان سے سوال پوچھا۔ انہوں نے کہا ہاں اے میرے بیٹے۔ اللہ کا دشمن مارا گیا اور مسلمان سب کے سب ہی زخمی تھے۔ مَیں نے اپنے دونوں بھائیوں کو اس حال میں زخمی دیکھا کہ ان میں زندگی کی کوئی رمق نہیں تھی۔ لوگ یمامہ میں پندرہ روز ٹھہرے۔ جنگ ختم ہو چکی تھی اور زخموں کی وجہ سے انصار اور مہاجرین میں سے بہت تھوڑی تعداد حضرت خالدؓ کے ساتھ نماز ادا کرتی تھی۔ وہ کہتی ہیں مَیں جانتی ہوں کہ بنوطَیْءاس روز اچھی طرح آزمائے گئے۔ مَیں نے اس روز عدی بن حاتم کو پکارتے ہوئے سنا، صبر کرو صبر کرو میرے ماں باپ تم پر قربان۔ اور میرے بیٹے زید نے اس روز بڑی بہادری سے جنگ کی۔
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت ام عمارہؓ یمامہ کے روز زخمی ہوئیں۔ تلوار اور نیزے کے گیارہ زخم انہیں لگے علاوہ ازیں ان کا ایک ہاتھ کٹ گیا۔ حضرت ابوبکرؓ ان کا حال دریافت کرنے تشریف لاتے رہے۔ کعب بن عُجْرہنے اس دن سخت جنگ کی۔ اس دن لوگوں کو سخت ہزیمت اٹھانی پڑی اور لوگ شکست کھا کر بھاگتے ہوئے لشکر کے آخری حصہ کو بھی پار کر گئے۔ کعب نے پکارا۔ اے انصار! اے انصار! اللہ اور رسول کی مدد کو آؤ اور یہ کہتے ہوئے وہ مُحِکَّم بن طُفیلتک پہنچ گئے۔ مُحِکَّمنے ان پر ضرب لگائی اور ان کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا۔ اللہ کی قسم !کعب اس کے باوجود لڑکھڑائے نہیں اور دائیں ہاتھ سے ضرب لگاتے جبکہ بائیں ہاتھ سے خون بہ رہا تھا یہاںتک کہ وہ باغ تک پہنچے اور اس میں داخل ہو گئے۔ حاجب بن زید نے اوس کو پکارتے ہوئے کہا کہ اےاَشْھَلْ!تو ثابت نے کہا کہو اے انصار! وہ ہمارا اور تمہارا لشکر ہیں تو انہوں نے پکارا اے انصار! اے انصار! یہاںتک کہ بنو حنیفہ ان پر ٹوٹ پڑے۔ لوگ منتشر ہو گئے۔ آپ نے دو دشمنوں کو قتل کیا اور خود بھی شہید ہو گئے۔ آپ کی جگہ عمیر بن اوس نے لی۔ ان پر بھی دشمنوں نے حملہ کر دیا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ پھر ابوعقیل کے بارے میں ہے کہ ابو عقیل انصار کے حلیف تھے۔ آپ یمامہ کے روز سب سے پہلے جنگ کے لیے نکلے۔ آپ کو ایک تیر لگا جو کندھے کو چیرتا ہوا دل تک پہنچ گیا آپ نے اس تیر کو کھینچ کر باہر نکالا۔ آپ اس زخم سے کمزور ہو گئے۔ آپ نے مَعْنبن عدی کو کہتے ہوئے سنا کہ اے انصار! دشمن پر حملے کے لیے لوٹو۔ابو عَمرو کہتے ہیں کہ ابوعقیل اپنے لوگوں کی طرف جانے کے لیے اٹھے مَیں نے پوچھا ابوعقیل آپ کا کیا ارادہ ہے؟ آپ میں جنگ کی اب ہمت نہیں ہے بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ پکارنے والے نے میرا نام پکار کر آواز لگائی ہے۔ مَیں نے کہا انہوں نے تو صرف انصار کا نام لیا ہے اور ان کی مراد زخمیوں سے نہیں تھی۔ ابوعقیل نے جواب دیا کہ مَیں انصار میں سے ہوں اور مَیں ضرور جواب دوں گا خواہ دوسرے کمزوری دکھائیں۔ ابن عمر کہتے ہیں کہ
ابوعقیل ہمت کر کے اٹھے اپنے دائیں ہاتھ میں ننگی تلوار لی پھر پکارنے لگے اے انصار! یومِ حنین کی طرح پلٹ کر حملہ کرو۔
وہ سب اکٹھے ہو گئے اور دشمن کے سامنے مسلمانوں کی ڈھال بن گئے یہاں تک کہ انہوں نے دشمن کو باغ میں دھکیل دیا ۔ وہ آپس میں مل جل گئے یعنی اندر جا کے پھر گھمسان کی جنگ ہوئی اور تلواریں ایک دوسرے پر پڑنے لگیں۔ مَیں نے ابوعقیل کو دیکھا آپ کا زخمی ہاتھ کندھے سے کٹ گیا اور آپ کا وہ بازو زمین پر گر پڑا۔ آپ کو چودہ زخم آئے ان سب زخموں کی وجہ سے آپ شہید ہو گئے۔ ابن عمر کہتے ہیں کہ میں ابوعقیل کے پاس پہنچا تو وہ زمین پر گرے ہوئے آخری سانسیں لے رہے تھے۔ مَیں نے کہا اے ابوعقیل تو انہوں نے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہا لبّیک۔ پھر کہا کس کو شکست ہوئی؟ مَیں نے بلند آواز سے کہا خوشخبری ہو اللہ کا دشمن مسیلمہ مارا گیا۔ انہوں نے الحمدللہ کہتے ہوئے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور جان دے دی۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے اپنے والد حضرت عمرؓ کو ان کا یہ سارا واقعہ بتایا تو انہوں نے فرمایا اللہ ان پر رحم کرے وہ ہمیشہ شہادت کی آرزو رکھتے تھے اور میرے علم کے مطابق وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند چنیدہ صحابہ میں سے تھے اور ان میں سے قدیم الاسلام تھے۔
مُجَّاعَہ بن مُرارہ بنو حنیفہ کا سردار تھا، اس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ اس نے ایک روز مَعْنبن عدی کا ذکر کیا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں میرے پاس آیا کرتے تھے اس دوستی کی وجہ سے جو میرے اور اس کے درمیان قدیم سے تھی۔ مُجَّاعَہکہتے ہیں کہ جب وہ حضرت ابوبکرؓکے پاس جنگِ یمامہ کے ختم ہونے کے بعد وفد میں آئے تو حضرت ابوبکرؓ ایک روز شہداء کی قبروں کی زیارت کے لیے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جا رہے تھے۔ مَیں بھی ان کے ساتھ نکلا یہاںتک کہ حضرت ابوبکرؓ اور آپؓ کے ساتھی ستر صحابہ کی قبروں پر گئے۔ مَیں نے عرض کیا اے خلیفہ رسول! مَیں نے جنگِ یمامہ میں شامل ہونے والے اصحاب سے زیادہ کسی کو تلواروں کے واروں کے سامنے ثابت قدم رہنے والا نہیں دیکھا اور نہ ان سے زیادہ شدت سے حملہ کرنے والا دیکھا ہے۔ مَیں نے ان میں ایک شخص کو دیکھا۔ اللہ ان پر رحم کرے۔ میری اور ان کی دوستی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا( پہچان گئے آپ) کہ معن بن عدی؟ مَیں نے عرض کیا ہاں اور حضرت ابوبکرؓ میری اور ان کی دوستی کو جانتے تھے۔ آپؓ نے فرمایا اللہ ان پر رحم کرے تم نے ایک صالح شخص کا ذکر کیا ہے۔ مَیں نے کہا اے خلیفہ رسول! گویا مَیں اب بھی چشمِ تصور میں انہیں دیکھ رہا ہوں اور مَیں خالد بن ولید کے خیمے میں بندھا ہوا تھا۔ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور اس شدت سے قدم اکھڑے کہ مَیں نے سمجھا کہ اب ان کے قدم دوبارہ جم نہیں سکیں گے اور مجھے یہ ناگوار لگا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا بخدا! واقعی تمہیں ناگوار گزرا تھا؟ کیونکہ یہ مرتد ہو گیا تھا اور اسی لیے قید کیا گیا تھا۔ بہرحال کہتے ہیں مَیں نے کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے یہ ناگوار گزرا۔ حضرت ابوبکرؓنے فرمایا کہ اس پر مَیں اللہ کی حمد کرتا ہوں۔
مُجَّاعَہکہتے ہیں مَیں نے مَعْنبن عدی کو دیکھا وہ سر پر سرخ کپڑا پہنے ہوئے پلٹ کر حملہ کر رہے تھے۔ تلوار کندھے پر رکھی ہوئی تھی اور اس سے خون ٹپک رہا تھا۔ وہ پکار رہے تھے اے انصار! پوری قوت سے حملہ کرو۔
مُجَّاعَہ کہتے ہیں کہ انصار نے پلٹ کر حملہ کیا اور اتنا شدید حملہ تھا کہ انہوں نے دشمن کے قدم اکھاڑ دیے۔ مَیں خالد بن ولیدؓ کے ساتھ چکر لگا رہا تھا۔ مَیں بنو حنیفہ کے مقتولین کو پہچانتا تھا۔ مَیں انصار کو بھی دیکھ رہا تھا وہ شہید ہو کر گرے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ یہ سن کر رو پڑے یہاںتک کہ آپؓ کی ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی۔
ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ جب ظہر کا وقت آیا تو مَیں باغ میں داخل ہوا اور شدید جنگ ہو رہی تھی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے مؤذن کو حکم دیا اس نے باغ کی دیوار پر ظہر کی اذان دی۔ لوگ لڑائی کی وجہ سے مضطرب تھے یہاںتک کہ عصر کے بعد جنگ ختم ہو گئی تو حضرت خالدؓ نے ہمیں ظہر اور عصر کی نماز پڑھائی۔ پھر آپؓ نے پانی پلانے والوں کو مقتولین کی طرف روانہ کیا۔ مَیں ان کے ساتھ چکر لگانے لگا۔ مَیں ابوعقیل کے پاس سے گزرا انہیں پندرہ زخم آئے تھے انہوں نے مجھ سے پانی مانگا مَیں نے انہیں پانی پلایا تو ان کے تمام زخموں سے پانی بہ نکلا اور وہ شہید ہو گئے۔ مَیں بِشْربن عبداللہ کے پاس سے گزرا۔ وہ اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھ سے پانی مانگا۔ مَیں نے انہیں پانی پلایا۔ وہ بھی شہید ہو گئے۔
محمود بن لبیدسے روایت ہے کہ جب حضرت خالدؓ نے اہل یمامہ کو قتل کیا تو مسلمان بھی اس جنگ میں بڑی تعداد میں شہید ہوئے یہاںتک کہ اکثر صحابہ رسولؓ شہید ہو گئے اور مسلمانوں میں سے جو زندہ بچ گئے تھے ان میں بہت زیادہ زخمی تھے۔
(الاکتفاء جلد2 جزء1 صفحہ 57 تا 66 عالم الکتب بیروت 1997ء)
(سیر الصحابیات از سعید انصاری صفحہ 122مشتاق بک کارنر لاہور)
(سیدنا ابوبکر صدیق ؓشخصیت اور کارنامے از صلابی صفحہ 349فرقان ٹرسٹ خان گڑھ پاکستان)
جب حضرت خالد ؓکو مسیلمہ کے قتل کی خبر دی گئی تو وہ مُجَّاعَہکو بیڑیوں میں جکڑ کر ساتھ لائے تاکہ مسیلمہ کی شناخت کروائیں۔ وہ لاشوں میں اسے دیکھتا رہا مگر وہاں مسیلمہ نہ ملا۔ پھر
وہ باغ میں داخل ہوا تو ایک پستہ قد، زرد رنگ، چپٹی ناک والے آدمی کی لاش نظر آئی تو مُجَّاعَہنے کہا یہ مسیلمہ ہے جس سے تم فراغت حاصل کر چکے ہو۔
اس پر حضرت خالدؓ نے کہا یہ ہے وہ آدمی جس نے تمہارے ساتھ یہ سب کچھ کیا ہے۔ مُجَّاعَہکیونکہ قید تھا، بنو حنیفہ کا نمائندہ تھا، سردار تھا۔ اس لیے ان کو بچانا بھی چاہتا تھا۔ مرد تو اکثر مر چکے تھے لیکن اس نے ایک چال چلی۔ باقی جو لوگ قلعہ میں بند تھے ان کو بچانے کے لیے اس نے فریب کیا اور حضرت خالد بن ولیدؓ سے ایک صلح کا معاہدہ کیا۔ اس نے حضرت خالد بن ولیدؓ سے کہا کہ یہ لوگ جو تمہارے مقابلے میں جنگ کے لیے نکلے تھے یہ تو صرف جلد باز لوگ تھے جبکہ قلعے تو ابھی بھی جنگجوؤں سے بھرے ہوئے ہیں۔ حضرت خالدؓ نے کہا تم پر ہلاکت ہو تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟ اس پر مُجَّاعَہنے کہا بخدا! جو کہہ رہا ہوں بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔ پس آؤ اور میرے پیچھے موجود میری قوم کی طرف سے مجھ سے صلح کر لو۔ دھوکے سے اس نے یہ باتیں کیں بہرحال آگے اس کا واضح بھی ہو جائے گا۔ حضرت خالدؓ اس ہولناک جنگ میں مسلمانوں کو جس قدر جانی نقصان دیکھ چکے تھے اس کے پیش نظر انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ اب جبکہ بنو حنیفہ کا سردار اور اصل باغی سرغنہ مع اپنے ساتھیوں کے مارا جا چکا ہے تو اب مسلمانوں کا مزید جانی نقصان نہ ہی کروایا جائے تو بہتر ہے چنانچہ حضرت خالدؓ نے صلح کے لیے رضا مندی ظاہر کر دی۔ حضرت خالدؓ کی طرف سے صلح کی ضمانت لے کر مُجَّاعَہنے کہا مَیں ان کے پاس جاکر ان سے مشورہ کرتا ہوں پھر وہ ان لوگوں کے پاس گیا جبکہ مُجَّاعَہاچھی طرح جانتا تھا کہ قلعوں میں سوائے عورتوں بچوں اور انتہائی عمر کو پہنچے ہوئے بوڑھوں اور کمزوروں کے کوئی بھی نہیں تھا۔ اس نے انہیں زرہیں پہنائیں اور عورتوں سے کہا کہ میری واپسی تک وہ قلعے کی دیواروں پر چڑھ جائیں۔ پھر وہ حضرت خالدؓ کے پاس آیا اور کہا کہ جس شرط پر مَیں نے صلح کی تھی وہ اس کو قبول نہیں کرتے۔ جب حضرت خالدؓ نے قلعوں کی طرف دیکھا تو وہ آدمیوں سے بھرے ہوئے نظر آئے۔ زرہیں پہنا کےعورتیں وغیرہ وہاں بٹھا آیا تھا ۔ اس جنگ نے مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچایا تھا اور لڑائی بہت طویل ہو گئی تھی اس لیے مسلمان یہ چاہتے تھے کہ وہ فتح حاصل کر کے واپس چلے جائیں کیونکہ ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ اس لیے حضرت خالدؓ نے نسبتاً نرم شرائط پر، سونے، چاندی، اسلحہ اور نصف قیدیوں پر صلح کر لی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک چوتھائی پر صلح کی تھی۔ جب قلعوں کے دروازے کھولے گئے تو ان میں سوائے عورتوں بچوں اور کمزوروں کے کوئی بھی نہیں تھا۔ اس پر حضرت خالدؓ نے مُجَّاعَہسے کہا تیرا بُرا ہو تُو نے مجھے دھوکا دیا ہے۔ مُجَّاعَہنے کہا یہ میری قوم کے لوگ ہیں ان کو بچانا میرے لیے ضروری تھا۔ اس کے علاوہ مَیں اَور کیا کر سکتا تھا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ کا خط حضرت خالدؓ کو پہنچا کہ ہر بالغ کو قتل کر دیا جائے لیکن یہ خط اس وقت پہنچا کہ جب حضرت خالدؓ ان لوگوں سے صلح کر چکے تھے اس لیے انہوں نے اپنے عہد کو پورا کیا اور بد عہدی نہیں کی۔
(الکامل فی التاریخ لابن اثیر جلد2 صفحہ 222-223دارالکتب العلمیۃ بیروت2006ء)
ان کی جان کی امان دے دی تھی چنانچہ
حضرت خالد بن ولیدؓ نے مسلمانوں کی حالت اور صلح کی وجہ بتانے کے لیے حضرت ابوبکرؓ کی طرف ایک خط بھیجا جس کو پڑھ کر حضرت ابوبکرؓ مطمئن اور خوش ہو گئے۔
جب حضرت خالدؓ صلح کے معاہدے سے فارغ ہوئے تو آپؓ نے قلعوں کے متعلق حکم دیا چنانچہ وہاں آدمی مقرر کر دیے گئے۔ مُجَّاعَہنے اللہ کی قسم کھائی کہ جن چیزوں پر صلح ہوئی ہے ان میں سے کوئی بھی چیز آپؓ سے پوشیدہ نہیں رہے گی اور جو بھی کسی پوشیدہ چیز کو جاننے والا ہو گا اس کی خبر خالدؓ تک پہنچائی جائے گی۔ پھر قلعے کھول دیے گئے، بہت زیادہ اسلحہ برآمد ہوا جسے خالدؓ نے علیحدہ اکٹھا کر لیا اور ان قلعوں میں سےجو دینار اور درہم ملے انہیں بھی الگ جمع کر لیا گیا اور ان کی زرہیں جمع کی گئیں۔ پھر قیدی باہر نکالے گئے اور ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پھر مالِ غنیمت کی قرعہ اندازی کی گئی اور زرہوں اور بیڑیوں اور سونے چاندی وغیرہ کا وزن کیا گیا اور خمس الگ کیا گیا۔ خمس کا چوتھا حصہ لوگوں میں تقسیم کیا گیا۔ گھڑ سواروں کے لیے دو حصے مقررکیے گئے اور گھوڑے کے مالک کے لیے ایک حصہ مقرر کیا گیا اور ان سب میں سے بھی خمس الگ کیا گیا اور یہ سارا خمس حضرت ابوبکر صدیق ؓکی خدمت میں بھجوا دیا گیا۔
(الاکتفاء جلد2 جزء1 صفحہ70-71 عالم الکتب بیروت 1997ء)
اس کے بعد بنو حنیفہ بیعت کرنے اورمسیلمہ کی نبوت سے لاتعلقی کا اظہار کرنے کے لیے جمع ہوئے۔
یہ تمام لوگ حضرت خالد بن ولیدؓ کے پاس لائے گئے جہاں انہوں نے بیعت کی اور اپنے دوبارہ اسلام لانے کا اعلان کیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے ان کا ایک وفد حضرت ابوبکر صدیق ؓکی خدمت میں مدینہ منورہ روانہ فرمایا۔ جب وہ لوگ حضرت ابوبکرؓ کے پاس پہنچے تو حضرت ابوبکرؓنے بڑا تعجب کا اظہار کیا کہ آخر تم لوگ مسیلمہ کے پھندے میں پھنس کس طرح گئے اور گمراہ ہو گئے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اے خلیفہ رسول! ہمارے تمام حال سے آپؓ اچھی طرح آگاہ ہیں۔ مسیلمہ نہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچا سکا اور نہ اس کے رشتے داروں اور قوم کو اس سے کوئی فائدہ حاصل ہو سکا۔
(حضرت ابوبکرؓ صدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 206)
حضرت ابوبکر صدیق ؓکی ایک خواب کا ذکر
ہے۔ حضرت ابوبکرؓنے جب حضرت خالدؓ کو یمامہ کی طرف روانہ فرمایا تو آپؓ نے خواب میں دیکھا تھا کہ آپؓ کے پاس ھَجَرْ بستی ہے اس کی کھجوروں میں سے کھجوریں لائی گئیں۔ آپ نے ان میں سے ایک کھجور کھائی اس کو آپ نے گٹھلی پایا جو کھجور کی شکل میں تھی۔ بڑی سخت تھی کھجور نہیں تھی بلکہ گٹھلی تھی۔ کچھ دیر آپؓ نے اس کو چبایا پھر اس کو پھینک دیا۔ آپؓ نے اس خواب کی تعبیر یہ فرمائی، فرمایا کہ
خالد کو اہلِ یمامہ کی طرف سے شدید مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا
اور اللہ ضرور اس کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائے گا۔
(الاکتفاء جلد2 جزء1 صفحہ72عالم الکتب بیروت 1997ء)
حضرت ابوبکرؓ یمامہ کی طرف سے آنے والی خبروں کا بشدت انتظار فرماتے تھے اور جیسے ہی خالدؓ کی طرف سے کوئی ایلچی آتا تو آپؓ ان سے خبریں حاصل کرتے۔ ایک روز حضرت ابوبکرؓ دوپہر کے وقت گرمی میں نکلے۔ آپؓ صرار نامی مقام کی طرف جانا چاہتے تھے جو مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر تھا۔ آپ کے ساتھ حضرت عمرؓ، حضرت سعید بن زیدؓ، طلحہ بن عبیدا للہ ؓ اور مہاجرین و انصار کا ایک گروہ تھا۔ آپؓ ابو خیثمہ نجاری سے ملے جنہیں خالدؓ نے بھیجا تھا۔ جب انہیں حضرت ابوبکرؓنے دیکھا تو فرمایا اے ابوخیثمہ! کیا خبر ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ
اے خلیفہ رسول! اچھی خبر ہے۔ اللہ نے ہمیں یمامہ پر فتح عطا فرمائی ہے۔
راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓنے سجدہ کیا۔ ابوخیثمہ نے کہا کہ خالد کا آپؓ کے نام خط ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اور آپؓ کے اصحاب نے اللہ کی حمد کی پھر آپؓ نے فرمایا مجھے جنگ کے بارے میں بتاؤ کہ کیسا رہا؟ ابو خیثمہ آپؓ کو بتانے لگے کہ خالدؓ نے کیا کیا کیا تھا اور کیسے اپنے ساتھیوں کی صف آرائی کی تھی اور کس طرح مسلمانوں کو ہزیمت پہنچی اور کون ان میں سے شہید ہوئے۔ حضرت ابوبکر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے لگے اور ان کے لیے رحم کی دعا کرنے لگے۔ ابوخیثمہ نے مزید کہا اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم بدوی ہیں۔ انہوں نے ہمیں شکست دی اور ہمارے ساتھ وہ کیا جو ہم اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے ہمیں ان پر فتح عطا فرمائی۔ حضرت ابوبکرؓنے فرمایا جو خواب مَیں نے دیکھی تھی مَیں اس کو سخت ناپسند کرتا تھا اور میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ خالد کو ضرور شدید جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا اور کاش خالدؓ نے ان لوگوں سے صلح نہ کی ہوتی اور ان کو تلوار کی دھار پر رکھا ہوتا۔ ان شہداء کے بعد اہلِ یمامہ میں سے کسی کے زندہ رہنے کا کیا حق ہے۔ فرمایا کہ یہ لوگ جو اس کے ساتھی تھے اپنے اس مسیلمہ کذاب کی وجہ سے قیامت تک آزمائش میں رہیں گے سوائے اس کے کہ اللہ انہیں بچا لے۔ اس کے بعد اہلِ یمامہ کا وفد حضرت خالدؓ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
(الاکتفاء جلد2 جزء1 صفحہ72-73 عالم الکتب بیروت 1997ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ 172زوار اکیڈیمی کراچی 2004ء)
مقتولین کی تعداد
کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں قتل ہونے والے مرتدین کی تعداد تقریباً دس ہزار تھی اور ایک روایت میں اکیس ہزار بھی بیان ہوئی ہے جبکہ پانچ سو یا چھ سو کے قریب مسلمان شہید ہوئے۔ بعض روایات میں جنگ یمامہ میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی تعداد سات سو، بارہ سو اور سترہ سو بھی بیان ہوئی ہے۔
(البدایہ والنھایہ جلد 3جزء 6 صفحہ321دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
(فتوح البلدان لامام ابی الحسن احمد بن یحییٰ البلاذری صفحہ 63 دارالکتب العلمیۃ بیروت2000ء)
ایک روایت کے مطابق اس جنگ میں شہید ہونے والوں میں سات سو سے زائد حفاظ قرآن تھے۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب جمع القرآن۔ جلد 20 صفحہ23 دارالکتب العلمیۃ 2001ء)
ان شہداء میں اکابرین صحابہ اور حفاظِ قرآن بھی شامل تھے جن کا مقام اور درجہ مسلمانوں میں بےحد بلند تھا۔ ان کی شہادت ایک بہت بڑا سانحہ تھا۔ لیکن ان حفاظ قرآن کی شہادت ہی بعد میں جمع قرآن کا باعث بنی۔
ان شہداء میں بعض مشہور صحابہ کے نام یہ تھے۔ حضرت زید بن خطابؓ، حضرت ابو حُذیفہ بن عتبہ بن ربیعہؓ، حضرت سالم مولیٰ ابوحُذیفہؓ ، حضرت خالد بن اُسَیدؓ، حضرت حَکَمبن سعیدؓ ، حضرت طفیل بن عَمرودَوسیؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ کے بھائی حضرت سائب بن عوامؓ، حضرت عبداللہ بن حارث بن قَیسؓ، حضرت عَبَّادبن حارثؓ، حضرت عَبَّادبن بشؓر، حضرت مالک بن اوسؓ ، حضرت سُراقہ بن کعبؓ ، حضرت مَعْنبن عدیؓ، خطیب رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ثابت بن قَیس بن شَمَّاسؓ، حضرت ابودجانہؓ، رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبَیّبن سلول کے مومن صادق فرزند حضرت عبداللہ بن عبداللہؓ اور حضرت یزید بن ثابت خزرجیؓ۔
(فتوح البلدان صفحہ 124 تا 126 مطبوعہ مؤسسۃ المعارف بیروت 1987ء)
بعض مؤرخین کے نزدیک جنگ یمامہ ربیع الاول بارہ ہجری کو ہوئی جبکہ بعض کا قول ہے کہ یہ گیارہ ہجری کے آخر میں ہوئی۔ ان دونوں اقوال کی تطبیق اس طرح ہو سکتی ہے کہ اس جنگ کا آغاز گیارہ ہجری میں ہوا ہو اور اس کا اختتام بارہ ہجری میں ہوا ہو۔
(البدایۃ والنھایۃ جلد 3 جزء 6 صفحہ 322 سنہ 11 ہجری دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ
’’جن لوگوں نے دعویٰ نبوت کیا اور جن سے صحابہؓ نے جنگ کی وہ سب کے سب ایسے تھے جنہوں نے اسلامی حکومت سے بغاوت کی تھی اور اسلامی حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا …
مسیلمہ نے تو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپؐ کو لکھا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ آدھا ملک عرب کا ہمارے لئے ہے اور آدھا ملک قریش کے لئے ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس نے ھَجَراور یمامہ میں سے ان کے مقرر کردہ والی ثُمامہ بن اُثالکو نکال دیا اور خود اس علاقہ کا والی بن گیا اور اس نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ اسی طرح مدینہ کے دو صحابہ حَبِیب بن زیدؓ اور عبداللہ بن وہب کو اس نے قید کر لیا اور ان سے زور کے ساتھ اپنی نبوت منوانی چاہی۔ عبداللہ بن وہب نے تو ڈر کر اس کی بات مان لی مگر حَبِیب بن زیدؓ نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اس پر مسیلمہ نے اس کا عضو عضو کاٹ کر آگ میں جلا دیا۔
اسی طرح یمن میں بھی جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے افسر مقرر تھے ان میں سے بعض کو قید کر لیا اور بعض کو سخت سزائیں دی گئیں۔ اسی طرح طبری نے لکھا ہے کہ اَسْوَد عَنْسی نے بھی علم بغاوت بلند کیا تھا اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو حکام مقرر تھے ان کو اس نے تنگ کیا تھا اور ان سے زکوٰة چھین لینے کا حکم دیا تھا۔ پھر اس نے صنعا میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ حاکم شَھْربن باذان پر حملہ کر دیا تھا۔ بہت سے مسلمانوں کو قتل کیا، لوٹ مار کی، گورنر کو قتل کر دیا اور اس کو قتل کر دینے کے بعد اس کی مسلمان بیوی سے جبراً نکاح کر لیا۔ بنو نجران نے بھی بغاوت کی اور وہ بھی اسود عَنْسیکے ساتھ مل گئے اور انہوں نے دو صحابہ عمرو بن حزمؓ اور خالد بن سعیدؓ کو علاقہ سے نکال دیا۔
ان واقعات سے ظاہر ہے کہ مدعیانِ نبوت کا مقابلہ اس وجہ سے نہیں کیا گیا تھا کہ وہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے نبی ہونے کے دعوےدار تھے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت کے مدعی تھے بلکہ صحابہ نے ان سے اس لئے جنگ کی تھی کہ وہ شریعت اسلامیہ کو منسوخ کر کے اپنے قانون جاری کرتے تھے اور اپنے اپنے علاقہ کی حکومت کے دعوےدار تھے اور صرف علاقہ کی حکومت کے دعوےدار ہی نہیں تھے بلکہ انہوں نے صحابہ کو قتل کیا۔‘‘
(مولانا مودودی صاحب کے رسا لہ ’’قادیانی مسئلہ‘‘ کا جواب، انوار العلوم جلد 24صفحہ 12تا 14 )
اسلامی ملکوں پر چڑھائیاں کیں، قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کی اور اپنی آزادی کا اعلان کیا۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بیان فرماتے ہیں کہ ’’جب آنحضرتؐ نے رحلت فرمائی…اس کے بعد بادیہ نشین اعراب مرتد ہو گئے۔ ایسے نازک وقت کی حالت کو حضرت عائشہ صدیقہؓ نے یوں ظاہر فرمایا ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوچکا ہے اور بعض جھوٹے مدعی نبوت کے پیدا ہوگئے ہیں اور بعضوں نے نمازیں چھوڑدیں اوررنگ بدل گیا ہے۔ ایسی حالت میں اور اس مصیبت میں میرا باپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاخلیفہ اور جانشین ہوا۔
میرے باپ پر ایسے ایسے غم آئے کہ اگرپہاڑوں پر آتے تو وہ بھی نابود ہوجاتے۔
اب غور کرو کہ مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑنے پر بھی ہمت اور حوصلہ کو نہ چھوڑنا یہ کسی معمولی انسان کاکام نہیں۔ یہ استقامت صدق ہی کو چاہتی تھی اور صدیقؓ نے ہی دکھائی۔ ممکن نہ تھا کہ کوئی دوسرا اس خطرہ کو سنبھال سکتا۔ تمام صحابہؓ اس وقت موجود تھے۔ کسی نے نہ کہا کہ میرا حق ہے۔ وہ دیکھتے تھے کہ آگ لگ چکی ہے۔ اس آگ میں کون پڑے۔ حضرت عمرؓنے اس حالت میں ہاتھ بڑھا کر آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر سب نے یکے بعد دیگرے بیعت کرلی۔ یہ ان کا صدق ہی تھا کہ اس فتنہ کو فرو کیا اور ان موذیوں کو ہلاک کیا۔ مسیلمہ کے ساتھ ایک لاکھ آدمی تھا اور اس کے مسائل اباحت کے مسائل تھے۔‘‘
اباحت جو ہے کسی چیز کا شریعت میں مباح یعنی جائز یا حلال ہونا ہے(اردو لغت تاریخی اصول پر زیر لفظ اباحت)۔ لوگ اس کی اباحتی باتوں کو دیکھ دیکھ کر اس میں شامل ہو جاتے تھے۔ بہت ساری غلط چیزوں کو بھی وہ جائز قرار دیا کرتا تھا۔پہلے اس کا بیان بھی ہو چکا ہے۔ بہرحال فرمایا کہ
’’لوگ اباحتی باتوں کو دیکھ دیکھ کراس کے مذہب میں شامل ہوتے جاتے تھے لیکن خداتعالیٰ نے اپنی معیت کا ثبوت دیا اورساری مشکلات کو آسان کردیا۔‘‘
(ملفوظات جلد1صفحہ378-379)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام مزید فرماتے ہیں ’’اہلِ تحقیق سے یہ امر مخفی نہیں ہے کہ آپؓ کی خلافت کا وقت خوف اور مصائب کا وقت تھا چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو اسلام اور مسلمانوں پر مصائب ٹوٹ پڑے۔ بہت سے منافق مرتد ہو گئے اور مرتدوں کی زبانیں دراز ہو گئیں اور افترا پردازوں کے ایک گروہ نے دعویٔ نبوت کر دیا اور اکثر بادیہ نشین ان کے گرد جمع ہو گئے یہاںتک کہ مسیلمہ کذاب کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب جاہل اور بدکردار آدمی مل گئے اور فتنے بھڑک اٹھے اور مصائب بڑھ گئے اور آفات نے دور و نزدیک کا احاطہ کر لیا اور مومنوں پر ایک شدید زلزلہ طاری ہو گیا۔ اس وقت تمام لوگ آزمائے گئے اور خوفناک اور حواس باختہ کرنے والے حالات نمودار ہو گئے اور مومن ایسے لاچار تھے کہ گویا ان کے دلوں میں آگ کے انگارے دہکائے گئے ہوں یا وہ چھری سے ذبح کر دئیے گئے ہوں۔ کبھی تو وہ خیر البریہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جدائی کی وجہ سے اور گاہے ان فتنوں کے باعث جو جلا کر بھسم کر دینے والی آگ کی صور ت میں ظاہر ہوئے تھے روتے۔ امن کا شائبہ تک نہ تھا۔ فتنہ پرداز گند کے ڈھیر پر اگے ہوئے سبزے کی طرح چھا گئے تھے۔ مومنوں کا خوف اور ان کی گھبراہٹ بہت بڑھ گئی تھی اور دل دہشت اور بے چینی سے لبریز تھے۔
ایسے (نازک) وقت میں (حضرت) ابوبکر رضی اللہ عنہ حاکم وقت اور (حضرت) خاتم النبیینؐ کے خلیفہ بنائے گئے۔ منافقوں، کافروں اور مرتدوں کے جن رویوں اور طور طریقوں کا آپ نے مشاہدہ کیا ان سے آپ ہم و غم میں ڈوب گئے۔ آپ اس طرح روتے جیسے ساون کی جھڑی لگی ہو اور آپ کے آنسو چشمہ رواں کی طرح بہنے لگتے اور آپ (رضی اللہ عنہ) (اپنے) اللہ سے اسلام اور مسلمانوں کی خیر کی دعا مانگتے۔
(حضرت) عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ آپ فرماتی ہیں کہ جب میرے والد خلیفہ بنائے گئے اور اللہ نے انہیں امارت تفویض فرمائی تو خلافت کے آغاز ہی میں آپ نے ہر طرف سے فتنوں کو موجزن اور جھوٹے مدعیان نبوت کی سرگرمیوں اور منافق مرتدوں کی بغاوت کو دیکھا اور آپ پر اتنے مصائب ٹوٹے کہ اگر وہ پہاڑوں پر ٹوٹتے تو وہ پیوست زمین ہو جاتے اور فوراً گر کر ریزہ ریزہ ہو جاتے لیکن آپ کو رسولوں جیسا صبر عطا کیا گیا۔ یہاں تک کہ اللہ کی نصرت آن پہنچی اور جھوٹے نبی قتل اور مرتد ہلاک کر دئیے گئے۔ فتنے دور کر دئیے گئے اور مصائب چھٹ گئے اور معاملے کا فیصلہ ہو گیا اور خلافت کا معاملہ مستحکم ہوا اور اللہ نے مؤمنوں کو آفت سے بچا لیا اور ان کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا اور ان کیلئے ان کے دین کو تمکنت بخشی اور ایک جہان کو حق پر قائم کر دیا اور مفسدوں کے چہرے کالے کر دئیے اور اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے (حضرت ابوبکر) صدیقؓ کی نصرت فرمائی اور سرکش سرداروں ا ور بتوں کو تباہ و برباد کر دیا اور کفار کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ پسپا ہو گئے اور (آخر) انہوں نے رجوع کر کے توبہ کی اور یہی خدائے قہار کا وعدہ تھا اور وہ سب صادقوں سے بڑھ کر صادق ہے۔ پس غور کر کہ کس طرح خلافت کا وعدہ اپنے پورے لوازمات اور علامات کے ساتھ (حضرت ابوبکر) صدیقؓ کی ذات میں پورا ہوا۔‘‘
(سرالخلافۃ اردو ترجمہ صفحہ 47تا 50 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
پھر حضرت خالدؓ کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ حضرت خالدؓ یمامہ کی مہم سے فارغ ہو کر ابھی وہیں ٹھہرے ہوئے تھے کہ حضرت ابوبکرؓنے ان کو لکھا کہ عراق کی طرف روانہ ہو جائیں۔
(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ307مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت علاء بن حضرمیؓ نے حضرت ابوبکرؓسے کمک مانگی۔ آپؓ نے خالد بن ولید کو لکھا اور یہ حکم دیا کہ یمامہ سے علاء کے پاس بعجلت روانہ ہو جاؤ اور ان کی مدد کرو اور وہ ان کی مدد کے پاس پہنچے۔ حُطَمکو قتل کیا پھر ان کے ساتھ مل کر خُط کا محاصرہ کیا۔ خُط بھی بحرین میں قبیلہ عبدالقیس کا محلہ ہے جہاں کثرت سے کھجوریں ہوتی تھیں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓنے انہیں عراق کی طرف کوچ کا حکم دیا اور انہوں نے بحرین سے ادھر کوچ کیا۔
( فتوح البلدان از بلاذری مترجم صفحہ135 مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی)
(معجم البلدان جلد2 صفحہ433)
مُجَّاعَہبن مُرارہ کی بیٹی سے حضرت خالدؓ کی شادی کے بارے میں
جو سوال اٹھتے ہیں اس بارے میں کتب تاریخ اور سیرت میں لکھا ہے کہ جنگِ یمامہ کے ختم ہونے اور بنو حنیفہ کے باقی ماندہ بچ جانے والوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ ہو جانے کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ کی ایک شادی ہوئی تھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ مؤرخین کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کو جب اس شادی کی خبر ملی تو حضرت ابوبکرؓ حضرت خالدؓ سے ناراض ہوئے لیکن جب حضرت خالدؓ نے تفصیلی وضاحت بذریعہ خط پیش خدمت کی تو حضرت ابوبکرؓ کی ساری ناراضگی جاتی رہی۔ اس کی تفصیلات کے مطابق صلح ہو جانے کے بعد خالد رضی اللہ عنہ نے مُجَّاعَہسے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی آپؓ سے کر دے۔ مُجَّاعَہکو مالک بن نُوَیْرہکی بیوی لیلیٰ ام تمیم کا واقعہ اور حضرت ابوبکرؓ کا حضرت خالدؓ سے شادی کی ناراضگی کا علم تھا چنانچہ اس نے کہا کہ رک جائیے۔ آپ میری کمر توڑ دینے کا باعث بنیں گے اور خود بھی حضرت ابوبکرؓکے عتاب سے بچ نہ سکیں گے لیکن حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تُو اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دے چنانچہ اس نے اپنی بیٹی کی شادی آپ سے کر دی۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمامہ کی خبروں کے برابر منتظر رہتے تھے اور آپ کو خالدؓ کے خبر رساں کا انتظار رہتا تھا۔ ایک روز آپ شام کے وقت مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت کے ساتھ ایک مقام پر تھے کہ وہاں خالد رضی اللہ عنہ کے فرستادہ ابوخَیْثَمہرضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو گئی جبکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو ان سے دریافت کیا: پیچھے کیا خبریں ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ خیر ہے اے خلیفہ رسول! اللہ تعالیٰ نے ہمیں یمامہ پر فتح نصیب فرمائی ہے اور لیجیے یہ خالد رضی اللہ عنہ کا خط ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فوراً سجدہ شکر بجا لایا اور فرمایا مجھ سے معرکے کی کیفیت بیان کرو کیسے ہوا۔ اس حوالے سے ایک پہلے بھی روایت گزر چکی ہے۔ بہرحال ابوخیثمہ نے معرکہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا کیا ،کس طرح فوج کی صف بندی کی ،کون کون سے صحابہ شہید ہوئے اور کس طرح ہمیں دشمن کی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے ہمیں ایسی چیزوں کا عادی بنا دیا جسے ہم اچھی طرح نہیں جانتے تھے۔
پھر حضرت خالدؓکی شادی کا بھی ذکر ہوا۔ حضرت ابوبکرؓنے انہیں خط لکھا کہ اے ام خالد کے بیٹے! تمہیں عورتوں سے شادی کی سوجھی ہے اور ابھی تمہارے صحن میں ایک ہزار دو سو مسلمانوں کا خون خشک نہیں ہوا اور پھر مُجَّاعَہ نے تمہیں فریب دے کر مصالحت کر لی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان پر مکمل قدرت عطا کر دی تھی۔ مُجَّاعَہسے مصالحت اور اس کی بیٹی سے شادی کی وجہ سے خلیفہ رسول ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے یہ عتاب خالد رضی اللہ عنہ کو پہنچا تو آپ نے جوابی خط حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں روانہ کیا جس میں اپنے موقف کی وضاحت اور اس کے دفاع میں لکھا۔ حضرت خالدؓ نے لکھاکہ امّا بعد! دین کی قسم، مَیں نے اس وقت تک شادی نہیں کی جب تک خوشی مکمل نہ ہو گئی اور استقرار حاصل نہ ہو گیا۔ مَیں نے ایسے شخص کی بیٹی سے شادی کی ہے کہ اگر میں مدینہ سے پیغام بھیجتا تو وہ انکار نہ کرتا۔ معاف کیجیے، مَیں نے اپنے مقام سے پیغام دینے کو ترجیح دی۔ اگر آپ کو یہ رشتہ دینی یا دنیاوی اعتبار سے ناپسند ہو تو مَیں آپ کی مرضی پوری کرنے کے لیے تیار ہوں۔ رہا مسئلہ مسلم مقتولین کی تعزیت کا تو اگر کسی کا حزن و غم کسی زندہ کو باقی رکھ سکتا یا مردہ کو لوٹا سکتا تو میرا حزن و غم زندہ کو باقی رکھتا اور مردہ کو لوٹا دیتا۔ مَیں نے اس طرح حملہ کیا کہ زندگی سے مایوس ہو گیا اور موت کا یقین ہو گیا اور رہا مسئلہ مُجَّاعَہکی فریب دہی کا تو مَیں نے اپنی رائے میں غلطی نہیں کی لیکن مجھے علم غیب نہیں ہے۔ جو کچھ کیا اللہ نے مسلمانوں کے حق میں خیر کیا ہے۔ انہیں زمین کا وارث بنایا اور انجام کار متقیوں کے لیے ہے۔ جب یہ خط حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو موصول ہوا تو آپؓ کا غصہ جاتا رہا اور قریش کی ایک جماعت نے اور جو حضرت خالدؓ کا خط لے کر آیا تھا اس نے بھی حضرت خالد کی طرف سے عذرخواہی کی تو حضرت ابوبکرؓنے فرمایا تم سچ کہہ رہے ہو اور حضرت خالد کی وضاحت اور معذرت قبول فرمائی۔
(الاکتفاء جلد2 جزء1 صفحہ69-70 عالم الکتب بیروت 1997ء)
(سیدنا ابوبکرصدیقؓ ۔ازڈاکٹرعلی محمدصلابی ،اردوترجمہ صفحہ 367، 368)
باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گا۔مرتدین کا ایک قصہ تو ختم ہو گیا ۔
٭٭٭خطبہ ثانیہ٭٭٭