میں نے حضور سے ملنا ہے!
ایک دس سالہ بوسنین بچےّ کی تمناوآرزو
اے میرے پیارے خدا!بے شک تُو ہی ہےجس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفائےکرام کی محبت دنیا کے کونوں میں بسنے والے لاکھوں احمدیوں کے دلوں میں ڈالی ہے
اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سےپچھلے ہفتہ خاکسارکوبوسنیا جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں کے مبلغ سلسلہ مکرم مفیض الر حمان صاحب نے بوسنیا کے دارالحکومت سرائیو سے130 کلومیٹردور جانے کا پروگرام بنا یا۔ ہمارا یہ سفردعا کے ساتھ بذریعہ موٹر شروع ہوا۔ راستہ کافی مشکل و دشوار گزار، اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر جاتی بل کھاتی ہوئی سڑک اپنی خوبصورتی کو دوبالا کررہی تھی۔ نماز ظہر و عصر کے لیےایک جگہ گاڑی روکی تو وہاں پہلے سے موجود ایک وین پر نظر پڑی۔ ہم نے سوچا کہ شاید کوئی بھائی پانی پینے کے لیے یا کچھ دیر سستانےاور تازہ دم ہونے کے لیے یہاں پر ٹھہرا ہے۔ لیکن دیکھا تو خوب دیکھا! ایک بوسنین نوجوان سجدے میں ہے اور اللہ تعالیٰ سے رازو نیاز کررہاہے۔ نیچے اس نے گتے سے تیار کردہ جائے نماز بچھائی ہوئی ہےاور سجدےکی حد مقرر کر کے آگے بھی ایک نشان رکھاہوا ہے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھا گویا ہم ایک دوسرے کو کچھ کہناچاہتے ہیں۔ اثنائے گفتگو میرے منہ سے نکل ہی گیا کہ وہ تو ہم سے اچھاہے جو پورے اہتمام کے ساتھ نماز ادا کررہاہے۔ نماز ختم کرکے ہماری طرف آیا۔ ہم نے سلام کرنے میں پہل کی۔ اس نے خوش دلی کے ساتھ سلام کا جواب دیا۔ نام معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ اس کا نام Aldin ہے۔ ’’الدین‘‘ نام سن کر ہمیں بہت خوشی ہوئی۔ یقیناً وہ اسم بامسمیٰ لگتے تھے۔ واللہ اعلم بے ساختہ میں نے اپنے ساتھی کی مدد سے ان سے ایک سوال کیا؟ کہ آپ کب سے نماز کے عادی ہیں؟ انتہائی خاکساری اور دھیمی آواز سے اس کا جواب آیا جب سے ہوش سنبھالا ہے۔ اس کے جواب سے ہمیں اور بھی مسرت ہوئی۔ میرے محترم ساتھی نے ان کا نام پتہ معلوم کیا اور اپنا تعارف اسے کرواتے ہوئے دوبارہ ملنے کا عندیہ دیا اور یوں وہ ہم سےعلیحدہ ہوا۔
جہاں ہماری منزل تھی وہاں پہنچ کر ہم ایک گھر میں گئے۔ بوڑھے میاں بیوی سے ملاقات ہوئی۔ بوسنیا کےمبلغ سلسلہ نے ان سے بوسنین زبان میںگفت و شنیدکی۔ خاکسار بھی اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیےکہیں لقمہ دے دیتا۔ کس زبان میں؟ اردو میں، اور اس کا ترجمہ کرنے کی درخواست بھی انہیں سےکرتا۔ اسی دوران کیا دیکھتا ہے کہ گھر کی مالکن اپنے کمرے میں جاتی ہے اور ایک کرنسی نوٹ لاکر مبلغ سلسلہ بوسنیا کے ہاتھوں میں رکھتی ہوئی کہتی ہے کہ یہ چندہ ہے۔ میں نے باتوں باتوں میں اس بزرگ خاتون سے دریافت کیاکہ آپ نے یہ کیوں دیا ہے؟ اور اس کا آپ کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ اس عمر رسیدہ کا ایمان سے بھر پُور جواب سنیے! کہنے لگی یہی تو سب کچھ ہے! اسی سے تو ہمارا گھر چلتا ہے۔ اس کے جواب نے بہت دیر تک مجھے سوچنے پر مجبور کردیا اور یہ خیال آتا رہا کہ واقعی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیںجن کے ماننے والے دور دراز علاقے میں ہونے کے باوجود بھی چندے کی برکات و ثمرات سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔ الحمدللہ
وہاں سےاٹھ کرہم ایک اَور گھر میں گئے۔ گھر والوں نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا ۔ گھر کے ہر فردکے چہرے سے خوشی عیاں تھی۔ مہمان نواز تو اس علاقے کے لوگ ہوتے ہی ہیں لیکن ہمارے ساتھ تو ایک خاص مہربانی کا سلوک نظر آیا۔ آگےپڑی میز پر دسترخوان خوب سجا دیا گیا۔ وہاں جا کر اس بات کا مشاہدہ کیا کہ بلقان کے علاقے میں یہ دستور ہے کہ اگر مہمان نے اپنا شربت پینے والا گلاس خالی کردیا ہے تو مہمان پرور یعنی میزبان اس میں اس وقت تک اَور شربت ڈالتا رہے گا جب تک وہ خالی ہوتا رہے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ مہمان گرامی گلاس کو آخر تک خالی نہ کرے۔ یہی قانون وطریقہ چائے یا کافی پینے والے مہمان کے کپ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ کھانا کھانے کے بعدجماعت کی ترقیات کی باتیں ہوئیں۔ جلسہ سالانہ جرمنی کا ذکر آیا تو سب میری طرف متوجہ ہوئے۔ شاید وہ یہ سوچ رہے تھے کہ میں ان کو یہ خوشخبری دینے والا ہوں کہ اس دفعہ جرمنی کے جلسے پر جرمنی سے باہر سے مہمانوں کی آ مد جلسہ سالانہ پر ہو سکے گی جو کہ Covidکی وجہ سے نا ممکن ہو گئی تھی۔ لیکن جب انہوں نےمیری زبان سے ایسی کوئی اچھی خبر نہ سنی تو ہمیں جلسہ سالانہ جرمنی کی پرانی یادیں سنانے لگے۔ خاص طور پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے کی گئی ملاقاتیں۔ ایک دس سالہ بچّہ جو کہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کا فریفتہ و چاہنے والا تھا اسی گھر میں ملا۔ اس کانام Serif Neretljak تھا۔ خاکسار نےاُس سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے بھی جلسہ جرمنی میں شامل ہونا ہے؟ اس کا جواب تھا ہاں !میں نے بھی ضرور شامل ہونا ہے۔ میں نے پھراستفسارکیاآپ نے وہاں پر کیا کرنا ہے؟ وہ دس سال کا بوسنین بچہ کہنے لگا ! میں نےحضور سے ملناہے! میں نے ایک اور سوال بے ساختہ کردیا۔ کیا آپ پہلے کبھی حضور سے ملے ہیں؟ وہ بچہ برق رفتاری سے کمرے میں گیا اور تصاویر کو لاکر میرے آگے رکھ دیا۔ اس کےوالد محترم اور دادی جان اپنی تصاویر دکھانے لگے جو کہ جلسہ سالانہ جرمنی کے بعد حضور انور سے ملاقات کی تھیں۔ وہ بچہ ایک تصویر کو دیکھ کر خوشی سےاُچھلنے لگا۔ کیوں؟ کیونکہ! حضور انور کے ساتھ ایک تصویر اس کی بھی تھی جس میں حضور نےتین بچوں کو اپنے آگے کھڑاکرکے ان کے اُوپر اپنا دست شفقت رکھاہواتھا۔ مجھےاپنی شہادت کی انگلی کے اشارے سے کہنے لگا یہ حضورِ انور ہیں اور اپنی تصویر کے اُوپر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا یہ میں ہوں۔ اسی طرح اس نے باقی دو بچوں کا بھی تعارف کروایا۔ اس سے اجازت لے کرمیں نے اس تصویر کا فوٹو بنایا اوربے ساختہ میری زبان سے یہ الفاظ جاری ہوئے۔ اے میرے پیارے خدا! بے شک تُو ہی ہےجس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفائےکرام کی محبت دنیا کے کونوں میں بسنے والے لاکھوں احمدیوں کے دلوں میں ڈالی ہے۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ عَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبرَاهِیْمَ وَعَلیٰ آلِ اِبرَاهِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
٭…٭…٭