الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت میاں فضل دین صاحبؓ
روزنامہ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍جولائی 2013ء میں مکرم نصیر احمد طارق صاحب اپنے والد محترم مولوی نواب الدین صاحب کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ اُن کے والد حضرت میاں فضل دین صاحبؓ آف دھرم کوٹ ضلع گورداسپور نے پندرہ سولہ سال کی عمر میں سنا کہ قادیان میں ایک ولی اللہ رہتے ہیں تو آپ کو اُن ولی اللہ سے ملنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ ایک دفعہ جب آپ موضع مسانیاں (جو قادیان سے قریب ہے) اپنی خالہ سے ملنے گئے تو قادیان بھی چلے گئے۔ حضورعلیہ السلام کا پتا پوچھتے ہوئے رہائش گاہ تک پہنچے جہاں ایک کمرے کے باہر ایک دوست بیٹھے ہوئے تھے اور حضورؑ اندر عبادت میں مشغول تھے۔ آپؓ نے اُس دوست سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے بتایا کہ حضورؑ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھولیں گے پھر ملاقات کرلینا۔ اسی دوران دو مزید افراد بھی آگئے۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور حضورؑ نے ان سب کو اندر بلالیا۔
حضرت میاں فضل دین صاحبؓ کی روایت ہے کہ سب سے پہلے حضورؑ نے مجھ سے پوچھا کہ کیسے آئے ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ مَیں نے سب کچھ بتاکر عرض کی کہ حضور سے ملنے کی خواہش تھی اس لیے حاضر خدمت ہوا ہوں۔ حضورؑ نے کھانے پینے کے لیے پوچھا تو مَیں نے عرض کی کہ خاکسار کو صرف حضورؑ کو دیکھنے کی تمنّا تھی۔ اس کے بعد حضورؑ دوسرے لوگوں سے باتیں کرتے رہے اور مَیں حضورؑ کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھتا رہا۔ خاکسار کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کہ حضورؑ کے سینہ سے نُور نکل رہا ہے اور سارے کمرے میں پھیل رہا ہے۔ اس کے بعد خاکسار واپس اپنے گاؤں آگیا۔ کچھ عرصے بعد حضورؑ ہمارے گاؤں کے ایک صوفی بزرگ حضرت مولوی فتح الدین صاحبؓ (جو پنجابی زبان کے شاعر بھی تھے) کی ازحد خواہش اور دعوت پر ہمارے گاؤں آئے۔ حضورؑ کو ایک دیوان خانہ میں بٹھایا گیا اور کھانا وغیرہ بھی وہیں کھلایا گیا۔ بےشمار احباب ملاقات کے لیے آئے اور احباب کی خواہش پر حضورؑ نے تقریر بھی فرمائی۔ کافی عرصے بعد جب حضورؑ نے دعویٰ فرمایا تو ہمارے گاؤں کے ایک سکھ سردار نے احمدیت قبول کرلی اور اُن کا نام سردار فضل حق رکھا گیا۔
جب حضورؑ گاؤں آئے تو گرمی کا موسم تھا اور سخت خشک سالی تھی کہ جوہڑوں سے پانی بھی خشک ہوچکا تھا۔ لوگوں نے حضورؑ کی خدمت میں بارش برسنے کے لیے دعا کی درخواست کی تو حضورؑ نے اسی وقت لوگوں کو ساتھ ملاکر دعا کی۔ تھوڑی دیر بعد ایک چھوٹا سا بدلی کا ٹکڑا نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے آسمان پر پھیل گیا۔ پھر اس قدر بارش ہوئی کہ گاؤں کے سارے جوہڑ بھرگئے اور ہرجگہ جل تھل ہوگیا۔
بارش تھم جانے کے بعد حضورؑ نے بٹالہ واپس جانے کے لیے یکّہ منگوایا۔ اُس وقت کچی سڑک پر پھسلن بہت تھی اور یکّہ بہت آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ چونکہ یکّہ میں صرف دو سواریوں کی جگہ تھی اس لیے مولوی صاحب ساتھ ساتھ پیدل چلتے رہے۔ بٹالہ پہنچ کر حضورؑ نے مولوی صاحب کو چار آنے دیے کہ آپ شہر سے کھانا کھالیں۔
حضرت میاں فضل دین صاحبؓ اگرچہ اَن پڑھ تھے لیکن ایک پُرجوش داعی الی اللہ تھے۔ آپؓ کے والد صاحب نے بھی آپؓ کے سمجھانے پر بیعت کرنے کی سعادت پائی۔ قریبی علاقے میں جہاں بھی احمدیوں کے ساتھ کسی مناظرے کا اعلان ہوتا تو وہاں پہنچ جاتے۔ کئی بار فسادیوں کے حملے کی صورت میں آپؓ نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور فسادیوں کو مار بھگایا۔ آپ پنجوقتہ نمازی اور تہجدگزار تھے۔ ابتدائی موصیان میں بھی شامل تھے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے۔ آپ کی نسلیں دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہیں۔
………٭………٭………٭………
انبیائے کرام کی سرزمین۔ فلسطین
روزنامہ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍جولائی 2013ء میں انبیائے کرام کی سرزمین ’’فلسطین‘‘ کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔
فلسطین بحیرہ روم کے انتہائی مشرقی حصے کے آخر میں واقع ہے۔ اس کے اطراف میں لبنان، اردن اور صحرائے سینا واقع ہیں۔ فلسطین کا کُل رقبہ چودہ ہزار مربع کلومیٹر ہے۔
فلسطین یونانی لفظ Palaistina سے ماخوذ ہے۔ ماہرینِ آثارقدیمہ کے مطابق اس مقدّس زمین پر قریباً نو ہزار قبل مسیح میں قوموں نے بسنا شروع کیا لیکن اس کی تاریخ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دَور سے مرتب ہوئی۔ عہدقدیم میں یہاں یہودیہ اور سامریہ کی حکومتیں قائم تھیں۔
مسلمانوں کے لیے فلسطین ایک مقدّس مقام ہے۔ ہجرت کے سترہ ماہ بعد تک مسلمان اسی جگہ یعنی بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے عہدمبارک کے دوران 636ء میں بیت المقدس فتح ہوا اور حضرت امیر معاویہؓ کے دَور میں فتح عسقلان کے ساتھ فلسطین کی فتح بھی مکمل ہوگئی۔ 1009ء میں فاطمی خلیفہ ابومنصورالعزیز اور عیسائیوں کے درمیان طویل صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا۔ 1099ء میں یورپی عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا اور ایک بار پھر یروشلم میں لاطینی حکومت تشکیل دے دی گئی۔ صلیبی جنگیں جاری رہیں اور بالآخر 4؍جولائی 1187ء کو حطین کے فیصلہ کُن معرکے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو آزاد کراکے عیسائی بادشاہت کا خاتمہ کردیا۔ 1516ء میں عثمانی خلیفہ سلطان سلیم اوّل نے فلسطین کو سلطنتِ عثمانیہ میں شامل کرلیا۔ 1882ء سے 1903ء تک عثمانی حکومت نے یہودیوں کو دوبارہ یہاں آباد ہونے کی اجازت دی تو روس سے کثیر تعداد میں یہودی یہاں آکر آباد ہوگئے۔ جنگ عظیم اوّل میں ترکی کی شکست کے ساتھ ہی مسلمان ریاستوں کو بکھیر دیا گیا اور فلسطین برطانیہ کے زیرانتظام آگیا۔ برطانیہ نے 2؍نومبر 1917ء کو اعلانِ بالفور کے ذریعے یہودیوں کو اُن کے لیے ایک علیحدہ ریاست کے قیام کا یقین دلایا۔ چنانچہ ایک ماہ بعد برطانوی فوجوں نے جنرل ایلن لی (Elen Lee) کی قیادت میں بیت المقدس کا گشت کرنے کے بعد اعلان کیا کہ آج صلیبی جنگوں کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ حکومت برطانیہ نے 1922ء میں مجلس اقوام (League of Nations) سے فلسطین کو اپنے زیرنگرانی رکھنے کی قانونی آڑ حاصل کرلی اور پھر یہودیوں کو فلسطین میں بِلاروک ٹوک داخلے کی اجازت مل گئی۔ چنانچہ فلسطین میں یہودیوں کی تعداد جو 1919ء میں 58ہزار تھی، 1941ء میں بڑھ کر چھ لاکھ آٹھ ہزار ہوگئی۔ جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر 1945ء میں اقوام متحدہ کے قیام کے بعد یہودیوں کو غیرمعمولی مراعات دی گئیں اور 29؍نومبر 1947ء کو اقوام متحدّہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے فلسطین کو تقسیم کرکے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا۔ چند ماہ بعد برطانیہ نے فلسطین سے اپنی فوج واپس بلالی اور 14؍مئی 1948ء کو ’’یہودی کونسل‘‘ نے ڈیوڈ بن گوریان کی قیادت میں اسرائیل کی ریاست قائم کرلی۔
………٭………٭………٭………
مکرم ماسٹر رشید احمد ارشد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22؍جولائی2013ء میں مکرمہ ش۔ ناصر ملک صاحبہ کے قلم سے مکرم ماسٹر رشید احمد ارشد صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میری شادی مکرم حافظ غلام محی الدین صاحب مرحوم معلّم وقف جدید کے بیٹے مکرم ملک ناصر احمد قمر صاحب کے ساتھ ہوئی ہے جس کے نتیجے میں مکرم ماسٹر رشید احمد ارشد صاحب سے تعارف ہوا جو میرے سسر کے بھانجے ہونے کے علاوہ مقامی جماعت بوچھال کے صدر بھی تھے۔ آپ نہایت اصول پسند شخص تھے اور جماعتی تعلق کو ہر رشتے پر فوقیت دیتے تھے۔ کسی کی غلط تصدیق یا سفارش کے سخت خلاف تھے۔ تین کلومیٹر کا فاصلہ سائیکل پر طے کرکے میرے ہاں تشریف لاتے اور میرے بچوں کی تعلیمی اور تربیتی راہنمائی فرماتے۔ رشتہ داری میں مَیں اُن کی بھانجی تھی لیکن جب ایک دفعہ میری اپنے خاوند سے ناراضگی ہوئی تو آپ نے اپنی رشتہ داری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بحیثیت صدر میرے خاوند کو سمجھایا اور معاملہ طے کیا۔
آپ بہترین انداز میں خدمت دین میں مصروف رہتے۔ سیکرٹری مال کا کام بھی خود کرتے۔ ہر فردِ جماعت کو تحریری طور پر اُس کے بجٹ کا واضح حساب دیتے۔ آخری بیماری میں بھی تکلیف اٹھاکر جمعہ پڑھانے آتے اور کہتے کہ میری زندگی کا کوئی بھروسا نہیں، شاید یہ میرا آخری جمعہ ہو۔ آخری جمعہ 9؍مارچ 2012ء کو پڑھایا۔ 14؍مارچ کو تمام جماعتی ریکارڈ مکمل کرکے اپنے بیٹے کو سپرد کیا اور مرکز کو بھجوانے والے کاغذات ایک لفافے میں ڈال کر لفافہ خود بند کیا۔ فجر کی نماز بڑی مشکل کے ساتھ پڑھی اور پھر جماعتی امور پر بیٹوں سے گفتگو کرتے رہے۔ اچانک چادر اوڑھ کر لیٹ گئے اور چند لمحوں میں آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ آپ کی عمر 65 سال تھی۔ پسماندگان میں مرحوم نے بیوہ کے علاوہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑے۔
مرحوم کی ساری اولاد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ آپ علاقے بھر میں ماہرتعلیم کے طور پر جانے جاتے تھے۔ آپ کی وفات پر کثیر تعداد میں غیرازجماعت نے بھی تعزیت کی اور تعریفی کلمات کہے۔ مقامی اخبارات میں بھی آپ کی وفات کے حوالے سے آپ کی خدمات کا تذکرہ کیا گیا۔ بےشک آپ نے سچے احمدی کے طور پر ایک بےداغ زندگی گزاری۔
………٭………٭………٭………
کھجور
طب نبویﷺ میں شہد، زیتون اور کھجور کو اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ عموماً انہیں گرم خیال کیا جاتا ہے لیکن جدید طبّ کے مطابق یہ تینوں غذائیں ہر موسم میں اعتدال کے ساتھ استعمال کرنی چاہئیں۔ موسمِ گرما میں ان کا استعمال ترک نہیں کرنا چاہیے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍جولائی 2013ء میں کھجور کے بارے میں ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے۔
طب نبویﷺ کی رُو سے کھجور دل کے عوارض میں بہت مفید ہے۔ رات کو چند کھجوریں پانی میں بھگودیں اور صبح اسی پانی میں کھجوروں کو مسل کر ہفتے میں دو بار نہارمنہ استعمال کریں۔ یہ مؤثر ٹانِک قبض کے مرض میں بھی مفید ہے۔
کھجور کا بکثرت استعمال انتڑیوں اور پیٹ کے کیڑوں کو ختم کرتا ہے۔ شہد اور کھجور کا معجون قوّت کا سرچشمہ ہے اور یہ معجون دانت نکالنے والے بچوں کو روزانہ تین بار دینے سے وہ پیچش اور اسہال سے محفوظ رہتے ہیں۔ زچگی کے دوران خواتین کو اضافی غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے کھجور کا دودھ کے ساتھ استعمال بہت مفید ہے۔
………٭………٭………٭………