زبان کی حفاظت

(آصفہ عطاء الحلیم۔ جرمنی)

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے: وَقُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا (البقرہ:84)اور لوگوں سے نرمی کے ساتھ بات کیا کرو۔

انسانی اعضاء میں زبان کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے زبان شخصیت کی آئینہ دارہوتی ہے۔ نرم اور شائستہ زبا ن جہاں سب کو اپنا گرویدہ بنالیتی ہے وہاں سخت اور ترش زبانی آپ کو لوگوں سے دور کر دیتی ہیں ۔ اور لوگ آہستہ آہستہ بات کرنےسےکترانے لگتے ہیں۔ مثل مشہور ہے ’’ پہلے تولو پھر بولو‘‘یعنی بات کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لو ۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ کبھی رضا ء الٰہی کی بات منہ سے نکالتا ہے اس کا کچھ خیال نہیں رکھتا تو اللہ اس کے ذریعہ سے کئی درجہ اس کو بلند کردیتا ہے اور بندہ کبھی اللہ کی ناراضگی کی بات منہ سے نکال بیٹھتا ہے اس کا کچھ خیال نہیں کرتا اس کے ذریعہ جہنم میں جا گرتا ہے۔(حدیقۃالصالحین حدیث877صفحہ691)

پس کس قدر خوف کا مقام ہے اور اپنی بول چال میں احتیاط کی ضرورت ہے ۔انسان سار دن کی مصروفیت میں اکثر ناشکری کے کلمات ادا کر دیتا ہے یا ایسی بات کردیتا ہے جو کسی کی دل آزاری کا باعث بن جاتی ہے ۔جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنتی ہے ۔ پس ہر وقت استغفار بھی کرتے رہنا چاہیے کہ جانے انجانے میں بھی ہماری زبان نہ صرف کسی کی تکلیف کا باعث نہ بنے بلکہ اپنے رب کریم کی شکر گزاری میں تر رہے۔ یعنی زبان کی پاکیزگی کا حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی دونوں سے گہرا تعلق ہے ۔ حقوق اللہ کی ادائیگی کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ایک اور بات بھی ضروری ہے جو ہماری جماعت کو اختیار کرنی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ زبان کو فضول گوئیوں سے پاک رکھا جاوے۔ زبان وجود کی ڈیوڑھی ہے اور زبان کو پاک کرنے سے گویا خداتعالیٰ وجود کی ڈیوڑھی میں آجاتا ہے۔ جب خداتعالیٰ ڈیوڑھی میں آ گیا تو پھر اندر آنا کیا تعجب ہے؟‘‘(ملفوظات جلد2 صفحہ182 ایڈیشن1988ء)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’یعنی ہمارے جسم کا اندرداخل ہونے کا جو دروازہ ہے، جو مین گیٹ(Main Gate)ہے، راستہ ہے، وہ زبان ہے، اگر یہ لغو اور فضول باتوں سے پاک ہے تو سمجھو کہ تمہارے وجود میں داخل ہونے کا راستہ صاف اور پاک ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کیونکہ خوبصورت، پاک اور صاف چیزوں کو پسند کرتا ہے تو اس طرح تمہاری پاک زبان کی وجہ سے خداتعالیٰ بھی تمہارے قریب آ جائے گا۔ تو جب تمہاری پاک زبان سے خداتعالیٰ تمہارے اتنے قریب آ گیا تو پھر عین ممکن ہے کہ تمہارے دوسرے اعمال بھی ایسے ہو جائیں جو اللہ تعالیٰ کی پسند کے اعمال ہوں اور پھر تمہارا سارا وجود خداتعالیٰ کا پسندیدہ وجود بن جائے۔‘‘(خطبہ جمعہ 20؍ اگست 2004ء)

جب ہم حقوق العباد کی بات کرتے ہیں تو گھروں کے سکون ،معاشرے کے سکون اور رشتوں میں مضبوطی کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ دوسروں کے جذبات کا خیال رکھا جائے۔زبان سے کبھی کوئی ایسی بات نہ نکالی جائے جو سننے والے کے لیے باعثِ تکلیف ہو ۔ مثل مشہور ہےتلوار کا زخم تو بھر جاتا ہے لیکن زبان سے دیا گیا زخم کبھی نہیں بھرتا ۔ روزمرہ میں اکثر و بیشتر ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں جیسے، مجھے تو سچی بات منہ پر کرنے کی عادت ہے چاہے کسی کو بری لگے، یا مجھے ایسے بولنے کی عادت ہے دل میں کچھ نہیں وغیرہ وغیرہ ۔ تو یہ باتیں کہنے سے پہلے ہمیں اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے ۔ جس نے اپنے دشمنوں کی دی گئی بے شمار تکلیفوں کے باوجود کبھی زبان سے ناشکری یا کسی کی دل آزاری پرایک لفظ نہیں کہا۔ اس نبی ﷺکے عاشق صادق کی بھی ایسی صدہا مثالیں موجود ہیں جس نے ساری زندگی دشمنوں کی ایذا رسانی اور گالیوں کا کمال صبر و ہمت سے مقابلہ کیا اور جواب میں کہا تو صرف یہ …’’گالیاں سن کر دعا دو پاکے دکھ آرام دو‘‘۔

حضرت خلیفة المسیح الرابع ر حمہ اللہ نے جماعت میں اعلیٰ اخلاق کے قیام کے لیے پانچ بنیادی اخلاق کو اپنانے کی تلقین کی جس میں سے دوسرا خلق نرم اور پاک زبان کا استعمال ہے ۔ اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضورؒ فرماتے ہیں:’’تربیت کا دوسرا پہلو نرم اور پاک زبان کا استعمال کرنا اور ایک دوسرے کا ادب کرنا۔ یہ بھی بظاہر چھوٹی سی بات ہے۔ ابتدائی چیز ہے لیکن جہاں تک مَیں نے جائزہ لیا ہے وہ سارے جھگڑے جو جماعت کے اندر نجی طور پر پیدا ہوتے ہیں یا ایک دوسرے سے تعلقات میں پیدا ہوتے ہیں ان میں جھوٹ کے بعد سب سے بڑا دخل اس بات کا ہے کہ بعض لوگوں کو نرم خوئی کے ساتھ کلام کرنا نہیں آتا ۔ان کی زبان میں درشتگیپائی جاتی ہے۔ان کی باتوں اور طرز میں تکلیف دینے کا ایک رجحان پایا جاتا ہے، جس سے بسا اوقات وہ با خبر ہی نہیں ہوتے۔ جس طرح کانٹے دکھ دیتے ہیں اور ان کو پتا نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ روحانی طور پر سوکھ کے کانٹے بن جاتے ہیں اور ان کی روز مرہ کی باتیں چاروں طرف دکھ بکھیر رہی ہوتی ہیں ، تکلیف دے رہی ہوتی ہیں اور ان کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ایسے اگر مرد ہوں تو ان کی عورتیں بیچاری ہمیشہ ظلموں کا نشانہ بنی رہتی ہیں اور اگر عورتیں ہوں تو مردوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔یہ بات بھی ایسی ہے جس کو بچپن سے ہی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ گھر میں بچے جب ایک دوسرے سے کلام کرتے ہیں اگر وہ آپس میں ادب اور محبت سے کلام نہ کریں۔ اگر چھوٹی چھوٹی بات پر تُوتُو مَیں مَیں اور جھگڑے شروع ہو جائیں تو آپ یقین جانیں کہ آپ ایک گندی نسل پیچھے چھوڑ کر جانے والے ہیں۔ایک ایسی نسل پیداکر رہے ہیں جو آئندہ زمانوںمیں قوم کو تکلیفوں اور دکھوں سے بھر دے گی …‘‘(مشعل راہ جلدسوم صفحہ 462-463)

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :’’دنیا میں بہت سی باتیں بہت سے لوگ لغو اور بلا وجہ کرتے ہیں۔ بعض لوگ مذاق میں کسی کو کوئی لغو بات کہہ دیتے ہیں جس سے جھگڑے اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسی باتیں مجلسوں میں کی جاتی ہیں جو بے فائدہ ہوتی ہیں۔ بات برائے بات صرف کی جاتی ہے اور بعض دفعہ ایسی طنزیہ باتیں بھی ہو جاتی ہیں جس سے دوسرے کو تکلیف بھی پہنچتی ہے یا ایسی بے فائدہ باتیں ہوتی ہیں جو کسی کو بھی فائدہ نہیں پہنچا رہی ہوتیں۔ صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔…پس مومن کے لئے یہ شرط ہے کہ اس کی گفتگو ہمیشہ بامقصد ہو اور ہر قسم کی لغویات سے پرہیز ہو۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ26؍فروری2016ء)

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا مومن بننے کی توفیق عطا فرمائے جس کی زبان اور ہاتھ سے ہمیشہ دوسرے مومن محفوظ رہیں اور ہمارا وجود دوسروں کے لیے ہمیشہ سکون و راحت کا موجب بنے ۔آمین ثم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button