توکل علی اللہ
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 28؍ نومبر 2014ءمیں فرمایا:
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
’’استعانت کے متعلق یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ اصل استمداد کا حق اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد2 صفحہ53۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)
یعنی تمہیں اپنے کاموں کی تکمیل کے لئے اگر کسی کی مدد کی ضرورت ہے تو وہ صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے جو حقیقی رنگ میں تمہاری مدد کر سکتی ہے، مدد کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور مدد کرتی ہے۔ اور یہ بات اتنی اہم ہے کہ ایک حقیقی مومن کو ہر وقت اسے اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ چاہے وہ مدد اور استعانت کی کوشش ذاتی ضروریات کے لئے ہو یا جماعتی ضروریات کے لئے۔ لیکن عملاً ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی اہمیت کے باوجود اس طرف لوگوں کی عموماً نظر نہیں ہوتی۔ جتنی توجہ ہونی چاہئے وہ نہیں ہوتی۔ ہم میں سے اکثر ایسے ہیں جو بظاہر یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا، میری ضرورت پوری ہو گئی۔ لیکن اگر گہرائی سے جا کر وہ خود اپنے نفس کا جائزہ لیں تو اپنی ضرورتوں کو پوری کرنے کے مختلف ذرائع کو وہ اپنے کام مکمل ہونے یا ضرورت پوری ہونے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ مثالیں دے کر ایسے مختلف مواقع بیان فرمائے ہیں جہاں انسان سمجھتا ہے کہ استعانت اور مدد مختلف لوگوں نے کی ہے۔ یا خود اپنے زور بازو سے اس نے اپنے مقصد کو حاصل کر لیا اور سب سے پہلی عموماً یہی حالت ہوتی ہے جب انسان سمجھتا ہے کہ میں اپنی ساری ضرورتیں خود پوری کر لوں گا اور اپنی طاقت، اپنے علم، اپنی عقل سے وہ ضرورتیں پوری کر بھی لیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے دیکھو مَیں نے اپنی قابلیت اور طاقت اور قوت سے اپنے مسائل خود حل کر لئے۔ اس بات پر گھمنڈ اور فخر کرتا ہے کہ میں کسی سے مددنہیں لیتا یا مَیں نے کسی سے مددنہیں لی۔
لیکن بعض دفعہ ایسے حالات آ جاتے ہیں جب وہ اپنی ضرورتیں خود پوری نہیں کر سکتا اور اسے باہر کی مدد چاہئے ہوتی ہے۔ تب اس کی نظر اپنے عزیزوں اور اپنے رشتہ داروں کی طرف جاتی ہے۔ ان سے مدد لیتا ہے اور وہ اس کی مدد کر بھی دیتے ہیں۔ اس وقت اسے خیال آ تا ہے کہ رشتہ داری بھی اچھی چیز ہے۔ اگر آج میرے یہ رشتہ دار نہ ہوتے تو مَیں اپنی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتا۔
پھر بعض دفعہ یہ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے کہ انسان کے اہل و عیال، متعلقین، رشتہ دار اس کے کام نہیں کر سکتے یا اس کے کام نہیں آ سکتے یا نہیں کرتے تب وہ نظر دوڑاتا ہے تو اس کی نظر اپنے دوست احباب پر پڑتی ہے، ملنے والوں پر پڑتی ہے جو اس کے خیال میں اس کی مدد کر سکتے ہیں۔ ان سے مدد لیتا ہے۔ وہ مدد کر بھی دیتے ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ دوست احباب بھی اچھے ہوتے ہیں جو آڑے وقت میں کام آ جاتے ہیں۔ پھر ایک زمانہ ایسا بھی آتا ہے جب دوستوں کے پاس جائے تو وہ بھی اپنی مجبوریاں بتا دیتے ہیں۔ جائز مجبوریاں ہوں یا کسی سے جان چھڑانے کا بہانہ ہو۔ بہر حال وہ اس کے کام نہیں آ سکتے۔ بعض دفعہ ایسی صورتحال بھی ہوتی ہے کہ دوستوں کے بس میں وہ مدد ہوتی بھی نہیں کہ وہ کر نہیں سکتے۔ ان کی پہنچ سے وہ کام باہر ہوتا ہے۔ تو ایسے وقت میں وہ انسان بعض نظاموں کی طرف توجہ کرتا ہے۔ اور وہ سلسلہ یا جماعت جس سے وہ تعلق رکھتا ہے وہ اس کی مدد کرتے ہیں اور جب اس کا کام ہو جاتا ہے، اس کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے بلکہ ضرورتیں پوری ہوتی رہتی ہیں تو اس کو خیال آتا ہے کہ سلسلہ یا نظام یا جماعت سے جڑنا بھی اچھی چیز ہے اور اس وجہ سے سلسلہ یا جماعت سے اس کی وابستگی بڑھ جاتی ہے۔ بلکہ مَیں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگوں کو اس وجہ سے ٹھوکر بھی لگ جاتی ہے کہ مَیں نے فلاں وقت جماعت سے مدد مانگی تھی اور مددنہیں کی گئی۔ بہر حال یہ صحیح ہے کہ بعض لوگوں کی مرضی کے مطابق اگر کام ہوں تو تبھی یا ان کی مدد ہو تو وہی ان کی جماعت سے وابستگی بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ پھر بعض انسانوں کی زندگی میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ ان کے اہل و عیال، رشتہ دار، دوست احباب حتی کہ بعض مجبوریوں اور پابندیوں کی وجہ سے نظام اور جماعت بھی کوئی مددنہیں کر سکتی اور اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ اس وقت وہ حکومت جس سے وہ تعلق رکھتا ہے اس کے پاس جاتا ہے۔ حکومت اس کی مدد کرتی ہے۔ اس وقت ایسے انسان کے لئے حکومت ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ باقی سب چیزیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ لیکن یوں بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک وقت میں حکومت بھی انسان کا ساتھ نہیں دیتی۔ وہ سمجھتا ہے کہ میرے حقوق مجھے نہیں مل رہے۔ انصاف سے کام نہیں لیا جا رہا۔ تو پھر وہ ان لوگوں کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے جو انسانی ہمدردی کے تحت کام کرتے ہیں اور پھر یہ انسانی ہمدردی رکھنے والے اس کے کام آ بھی جاتے ہیں۔ انسانی ہمدردی کی ایک رَو پیدا ہوتی ہے جو کئی ممالک یا دنیا تک پھیل جاتی ہے اور اس انسانی ہمدردی کی وجہ سے وہ انسان یا وہ گروہ یا وہ چند لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اپنے مقصد کو پا لیتے ہیں۔ تب وہ سمجھتے ہیں یا اگر ایک انسان ہے تو سمجھتا ہے کہ تمام دنیا مل کر یا دنیا کی انسانی ہمدردی کی تنظیمیں مل کر اس کے کام آئی ہیں، اَور کوئی اس کے کام نہیں آ سکا۔ اور اگر یہ کام نہ آتیں تو وہ اپنے حقوق اور انصاف کو حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا۔
پس اس دنیاوی رشتے کو جو انسانی ہمدردی کے نام پر اس کے حق دلانے میں مددگار ہؤا وہ سب کچھ سمجھتا ہے۔
(ماخوذ از خطبات محمود جلد12 صفحہ119-120)