مذہب اور سائنس(قسط نمبر 3)
(خطاب حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمودہ 3؍مارچ 1927ءبمقام حبیبیہ ہال، لاہور)
ہر چیز کا جوڑا ہے
قرآن نے فرمایا۔ ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے نر اورمادہ پیدا کیا ہے۔ یعنی ہر چیز کا جوڑا ہے۔فرمایا: وَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(الذاريات: 50)پھر آتا ہے: وَ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِيْهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ (الرعد: 4) گویا نر اور مادہ مل کر مکمل ہوتے ہیں۔ اگر یہ دونوں آپس میں نہ ملیں تو ان کی مادی قوتیں ظاہر نہیں ہو سکتیں۔ عرب کو کھجور کے جوڑے کا تو علم تھا مگران کو ہر درخت کا جوڑا ہونے کا علم نہ تھا اور نہ ہی غیر ذی روح اشیاء کے جوڑے کا علم تھا جب تک کہ قرآن کریم نے اس حقیقت کو ان پر منکشف نہ کیا۔ ایک یورپین مصنف لکھتاہے تم عرب کے لوگوں کو جاہل مت خیال کرو ان کو اس حقیقت کا علم تھا کہ درختوں میں نر و مادہ ہوتے ہیں۔ میں ایک دفعہ گورداسپور گیا اور وہاں کے ایگریکلچرل فارم کا ملاحظہ کیا۔ تو وہاں کے سپرنٹنڈنٹ صاحب نے مجھ کو بتایا۔ یہ گیہوں کے خوشے جو ہیں ان میں سے فلاں نر اور فلاں مادہ ہیں۔ جب سائنس میں اور ترقی ہو گی تو باقی درختوں کے بھی جوڑے معلوم ہو جائیں گے۔ غیر ذی روح اشیاء مثلاً بجلی وغیرہ کا بھی جوڑا ہے۔ منفی اور مثبت بجلی کا آپ کو علم ہے۔ غرض اس اصل کو بیان کر کے قرآن کریم نے علمی دنیا پر ایک عظیم الشان احسان کیا ہے اور اس کے لئے آئندہ تحقیقات کا ایک وسیع میدان کھول دیا ہے۔
قرآن نے اس سے ایک شرعی نتیجہ بھی نکالا ہے اور وہ یہ کہ خدا ایک ہے۔ جوڑا احتیاج پر دلالت کرتا ہے اس لئے ہر چیز ناقص ہے کیونکہ ہر چیز کو اپنی طاقت کے نشوونما اور قوتوں کے اظہار کے لئے دوسرے سے ملنا ضروری ہے۔ اپنی ذات میں کامل اور احتیاج سے منزہ صرف ایک ہی ہستی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے جسے جوڑے کی ضرورت نہیں۔
کتے کے چاٹے ہوئے برتن کو مٹی سے ملنا
حدیث شریف میں آتا ہے: طَهُورُ إِنَاءِ أَحَدِكُمْ إِذَا وَلَغَ فِيهِ الْكَلْبُ، أَنْ يَغْسِلَهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ أُولَاهُنَّ بِالتُّرَاب (مسلم کتاب الطھارة باب حکم ولوغ الکلب) یعنی جس برتن کو کتا چاٹ جائے اس کو سات دفعہ مٹی سے مل کر دھونا چاہئے۔ ڈاکٹر کاخ جو جرمنی کے مشہور پیتھالوجسٹ ہیں۔ انہوں نے Pasteur Institutes میں جب کام شروع کیا۔ تو انہیں چونکہ اسلامی لٹریچر کے مطالعہ کا شوق تھا۔ اس لئے خیال آیا حدیث میں جو آتا ہے کہ کتے کے چاٹے ہوئے برتن کو مٹی سے ملنا چاہئے۔ اس میں ضرور کوئی حکمت ہو گی۔محمدصلی اللہ علیہ وسلم دانا آدمی تھے انہوں نے ضرور اچھی بات کہی ہو گی۔ پس انہوں نے تحقیقات شروع کی تو معلوم کیا کہ مٹی کے اندر ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جو Rabies (کتے کازہر) کے لئے مفید ہیں اور اس کے مصلح ہیں۔ گویا ان کو اس حدیث نے اس طرف توجہ دلائی۔
یہ بھی پڑھیے:
چوہے کو مارنے کا حکم
اسی طرح حدیث میں آتا ہے: خَمْسٌ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ قَتَلَهُنَّ فِي الْحَرَمِ وَالْإِحْرَامِ: الْفَأْرَةُ، وَالْعَقْرَبُ، وَالْغُرَابُ، وَالْحِدَأَةُ وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ(بخاری ابواب العمرة باب مایقتل المحرم من الدواب میں حدیث کے الفاظ یہ ہیں ’’خمس من الدواب کلھن فاسق یقتلھن فی الحرم و الغراب و الحداة و العقوب و الفارة و الکلب العقور‘‘)کہ پانچ چیزیں بری ہیں ان کو احرام کی حالت میں اورخانہ کعبہ کے اندر بھی مار دینا چاہئے۔ ان میں سے ایک چوہا ہے۔ گویا اس طرح پلیگ کا راز منکشف کیا گیا۔ اور آج سے تیرہ سو سال قبل بتایا کہ پلیگ کا سبب چوہا ہے جس کی تصدیق حال کی تحقیقاتوں نے کر دی ہے۔ حالانکہ ان کو آج سے تیرہ سو سال قبل پلیگ کے جرم (Germ) کا پتہ نہ تھا۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوہے کو مارنے کا حکم دے کر لوگوں کو بتا دیا کہ یہ مضر جانور ہے اور اس کی اہمیت اس سے معلوم ہو سکتی ہے کہ جس جانور کو بیت اللہ کے اندر مارنے کا حکم ہے (جہاں جوں مارنے کی بھی اجازت نہیں) تو کیا دوسرے مقامات میں اسے یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا اوراس کے انسداد کی تدبیر نہ سوچی جائے گی۔
طاعون کے متعلق مزید انکشاف
حدیث شریف میں طاعون کے متعلق بعض اور لطیف اشارات بھی پائے جاتے ہیں۔ مثلاً صحابہ نے عرض کی کہ طاعون کیا ہے تو حضورؐ نے فرمایا جن کاٹتے ہیں۔(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 395 مطبوعہ بیروت 1978ء) جن سے مرض جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ اب اس کا عام جواب یہ کافی تھا کہ طاعون ایک مرض ہے۔ مگر آپؐ نے ایسا جواب دیا جس میں اس مرض کے مخفی جرمزکی طرف اشارہ تھا۔ حدیث شریف میں بعض اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں اور ان میں سے لفظ جن بھی ایک اصطلاح ہے۔ یہاں پر جن سے مراد مخفی اورپوشیدہ چیز ہے۔ چنانچہ ایک اورجگہ بھی جن کا لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی حضورؐ نے فرمایا۔ ہڈی جن کی غذا ہے۔(ترمذی ابواب الطہارة باب ماجاء فی کراھیة ما یستنجی بہ) جس سے مراد کیڑے اور جراثیم (Bacteria)تھی۔ پس اس جگہ جن کے کاٹنے سے مراد وہ جن نہیں جو لوگ خیال کرتے ہیں بلکہ جراثیم مراد ہیں۔ اس کا ایک اورحدیث سے بھی ثبوت ملتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا۔ طاعون متعدی مرض ہے دوسرے علاقوں میں نہ جانا۔(بخاری کتاب الطب باب ما یذکر فی الطاعون) اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جن نہیں کوئی اور وجود ہے۔ ورنہ اگر اس سے مراد جن ہی ہو تو سوال ہوتا ہے کہ کیا وہ ہمارا محتاج ہے جو ہمارے ذریعے دوسری جگہ جائے گا۔ خود بخود کیوں نہ چلا جائے گا۔ پھر صحابہ رضوان اللہ علیہم کا یہ عمل تھا کہ جب طاعون پڑتی تو پھیل جاتے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن مراد نہیں بلکہ پلیگ کے جراثیم مراد ہیں جو پھیل جانے، باہر کھلی ہوا، دھوپ اورروشنی میں ڈیرا لگانے سے مر جاتے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت نبی کریم ؐ کا یہ فرمان کہ جن کاٹتا ہے اس سے مراد پلیگ کے جراثیم تھے نہ کہ حاتم طائی والا جن۔
مسواک کرنے کا طریق
یہ ایک موٹی سی بات ہے مگر اس کا ثبوت بھی حدیث شریف سے ہی ملتا ہے۔ اور وہ مسواک کی ضرورت اور اس کے کرنے کا پر حکمت طریق ہے۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اگر مجھے اپنی امت کے لئے یہ حکم دو بھر معلوم نہ ہوتا تو مسواک کو فرض کرتا۔(ترمذی ابواب الطھارة باب ماجاء فی السواک) آج مسواک کے ساتھ ہنسی اورتمسخر کیا جاتا ہے۔ مگر آپ کے نزدیک مسواک کی اتنی اہمیت تھی کہ نزع کے وقت بھی حضورؐ نے مسواک مانگی اور مسواک کی۔ آج کی تحقیقات نے دانت کا جسم انسانی پر عظیم الشان اثر واضح کر دیا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ کئی مزمن امراض (Chronic) کا باعث دانت اور مسوڑھوں کی خرابی ہے۔ جسے (pyorrhea) کہتے ہیں۔ امریکہ میں جنون کے اسباب کے متعلق ایک تحقیقاتی کمیشن بٹھایا گیا۔ اس نے کئی ہزار مجانین کے جسم کا معائنہ کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ 80فیصدی مجانین میں جنون کا سبب دانت اورمسوڑھوں کی پیپ تھی۔ مسوڑھوں کی خرابی کا زہریلا اثر گلے کی غدود کو پہنچتا ہے اور وہاں سے عروق جاذبہ کے رستے دماغ میں جا کر جنون پیدا کر دیتا ہے۔
مَیں جب کانفرنس مذاہب کے موقع پر لنڈن گیا تو ایک ماہر فن دانت کے ڈاکٹر سے دانتوں کا معائنہ کرایا۔ اس نے کہا دانتوں کو باقاعدہ برش کیا کرو۔ پھر برش کرنے کا طریق بھی بتایا اور اس بات پر زور دیا کہ برش کی حرکت اوپر نیچے ہو۔ یعنی صرف دانتوں کی سطح کو صاف نہ کیا جائے بلکہ دانتوں اور مسوڑھوں کے درمیان جو بھی جگہ ہے اس کو اچھی طرح صاف کیا جائے۔ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی ارشاد ہے کہ اوپر سے نیچے کی طرف حرکت کی جائے۔(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 417 مطبوعہ بیروت 1978ء)کیونکہ مسوڑھوں کا آخری حصہ نرم ہوتا ہے اوراس کے پیچھے جرمز چھپے رہتے ہیں۔
چونکہ یہ اصولی مضمون ہے اس لئے یہ چار پانچ مثالیں کافی ہیں ورنہ قرآن کی ساری کی ساری تعلیم سائنس پر مبنی ہے جس کا آج سے تیرہ سو سال قبل کسی کو وہم بھی نہ تھا۔ سائنس کی ترقی صرف دوسو سال سے ہے اور نئی تحقیقاتیں اسلامی تعلیم کی حکمت ظاہر کر رہی ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ مذہب سائنس کا مؤید ہے۔
کیا مذہب سے وہم پیدا ہوتا ہے
اعتراض کیا جاتا ہے کہ مذہب کے بعض نظریات کی بناء چونکہ مادیات پر نہیں ہوتی اس لئے انسان ہر لغو بات خواہ وہ عقل کے خلاف ہی ہو مان لیتا ہے جس سے اس کی قوت استدلال کمزور ہو جاتی ہے اور وہم بڑھ جاتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مذہب سے وہم نہیں پیدا ہوتا کیونکہ مذہب کی بناء یقین پر ہے۔ اگر وہم ہو تو پھر اتنا وہم سائنس سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً ملائکہ کا وجود، بعث بعدالموت، اللہ تعالیٰ کا وجود ان سب کا ثبوت مادیا ت سے نہیں ملتا مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مذہب لغو باتیں منواتا ہے کیونکہ اگرچہ وہ نظریات جو عقل سے بالا ہوں، ان کو منواتا ہے مگر دلیل سے۔ مذہب کی سچائی کے لئے ضروری ہے کہ جو امور مادیات سے بالا ہوں ان کے لئے دلیل دے۔ پس اسلام نے اللہ تعالیٰ کی ہستی، ملائکہ کا وجود وغیرہ کے لئے دلائل دیئے ہیں لہٰذا وہم پیدا نہیں ہوتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اس بات پر شاہد ہے کہ آپ نے وہم کا ازالہ کیا۔ حدیث میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم جب فوت ہوئے تو اس دن اتفاقاً سورج گرہن ہو گیا۔ صحابہؓ نے کہا حضورؐ کے صاحبزادہ کی وفات پر سورج نے بھی افسوس کیا ہے اور اس کو صدمہ ہوا ہے اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو قانون طبعی کے ماتحت ہے اس کا میرے بیٹے کی وفات سے کیا تعلق؟ گویا اس طرح آپؐ نے اپنے عمل سے وہم کا ازالہ کیا نہ کہ اسے پیدا کیا۔
مگر اس کے مقابلہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس سے وہم پیدا ہوتا ہے جیسا کہ علم الجراثیم (Bacteriology) کی ترقی سے ہوا ہے۔ طب کہتی ہے ہر جگہ جراثیم ہیں۔ ڈاکٹر ذرا ذرا سی بات پر خوف کھاتے اورباربار ہاتھ دھوتے رہتے ہیں۔ طب کا مطالعہ کیا جائے تو جس مرض کا حال پڑھو ایسا معلوم ہونے لگتا ہے کہ شاید یہ مرض ہم کو ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ انسان ان عام علامات (General Symptoms) کی وجہ سے جو ہر مرض میں مشترک ہوتی ہیں اور ہر انسان میں کم و بیش پائی جاتی ہیں خیال کر لیتا ہے کہ مجھ میں یہ مرض ہے حالانکہ اس مرض کی خاص علامات (Special Symptoms) اس میں موجود نہیں ہوتیں۔
اسلام نے اس قسم کے وہم کو جو کمزوری دماغ کا نتیجہ ہوتا ہے دور کیا ہے۔ وہم ہمیشہ غلو سے ہوتا ہے مگر اسلام نے ہر بات میں میانہ روی سکھلا کر وہم کا ازالہ کیا ہے۔ فرمایا نماز میں میانہ روی اختیار کرو ہر وقت نماز نہ پڑھتے رہو۔ اور تین وقت نماز پڑھنے سے منع کر دیا۔(ترمذی ابواب الصلوٰة باب ماجاء فی کراھیة الصلوٰة بعد العصر و بعد الفجر)پھر فرمایا:جو روزانہ روزہ رکھے اس کو دوزخ ملتی ہے۔(مسلم کتاب الصیام باب النھی عن الصوم الدھر میں حدیث کے الفاظ یہ ہیں ’’لا صیام من صیام الابد‘‘)مگر روزہ تو خدا کے لئے رکھا جاتا ہے اس کے بدلہ میں دوزخ کیسی۔ اس کی غرض بھی صرف وہم کو دور کرنا تھی۔ کیونکہ غلو کرنے سے دماغ کمزور ہو کر وہم پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی واسطے فرمایا: وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقٌّ(بخاری کتاب الصوم باب حق الاھل فی الصوم) تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے۔ اس لئے نفس کشی نہ کرو۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ دو صحابی آپس میں بھائی بھائی بنے ہوئے تھے۔ ایک دن ایک دوسرے کی ملاقات کے لئے گیا تو دیکھا۔ اس کی بیوی متبذل حالت میں ہے۔ وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا تمہارے بھائی کو میری کچھ حاجت نہیں۔ وہ تو ہر روز دن کو روزہ رکھتا اوررات کو نماز پڑھتا رہتا ہے۔ صحابی نے اپنے دوست سے کہا ۔دیکھو تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ ہر ایک کو اس کا حق دینا چاہئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے قائم اللیل اورصائم الدھر رہنے کو ناپسند فرمایا۔ اور فرمایا۔ زیادہ سے زیادہ کوئی شخص ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھ سکتا ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ عبادت یہ ہے کہ آدھی رات سوئے اور آدھی رات نماز پڑھے۔(بخاری کتاب الصوم باب حق الاھل فی الصوم) گویا ہر بات میں میانہ روی سکھائی تا کہ وہم پیدا نہ ہو۔
٭…٭…٭